Topics

وسوسوں سے آزاد دنیا

روحانی اسکول اور روحانی کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ غیب کی دنیا میں داخل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے اندر اس دنیا کی موجودگی کا یقین ہو۔ یقین ہونا اس لئے ضروری ہے کہ بغیر یقین کے ہم کسی چیز سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ پانی پینے سے پیاس اس لئے بجھ جاتی ہے کہ ہمارا یقین ہے کہ پانی پینے سے پیاس بجھ جاتی ہے۔ ہم زندہ اس لئے ہیں کہ ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ ہم زندہ ہیں۔ جس وقت، جس لمحے اور جس آن زندگی سے متعلق یقین ٹوٹ جاتا ہے، آدمی مر جاتا ہے، کسی آدمی کے ذہن میں یہ بات آ جائے اور یقین کا درجہ حاصل کر لے کہ اگر میں گھر سے جاؤں گا تو میرا ایکسیڈنٹ ہو جائے گا تو وہ گھر سے باہر نہیں جاتا۔

جنت کا دماغ۔ دوزخ کا دماغ:

انسان کے اوپر دو دماغ کام کرتے ہیں۔ ایک دماغ، فرمانبرداری کا دماغ جو جنت کا دماغ ہے جس کے ذریعہ آدم جنت میں رہتے تھے۔

دوسرا دماغ جو نافرمانی کے بعد وجود میں آیا۔

جنت کا دماغ = یقین اور فرمانبرداری کا دماغ

نافرمانی کا دماغ = شیطان کے وسوسوں کی آماجگاہ، اس دماغ میں انسان وسوسوں اور شک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

’’پھر شیطان نے دونوں کو پھسلا دیا اور جس (عیش و نشاط) میں سے ان کو نکلوا دیا۔ تو شیطان دونوں کو بھٹکانے لگا تا کہ ان کی ستر کی چیزیں جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں، بے پردہ ہو جائیں۔ اور کہنے لگا کہ تم کو تمہارے پروردگار نے اس درخت کے قریب جانے سے اس لئے منع کیا ہے کہ تم فرشتے نہ بن جاؤ، تم زندہ رہنے والوں میں سے نہ ہو جاؤ، اور ان سے (شیطان نے) قسم کھاکر کہا کہ میں تو تمہارا خیر خواہ ہوں۔ غرض مردود نے دھوکا دے کر ان کو (معصیت کی طرف) کھینچ ہی لیا۔ جب وہ اس درخت کے قریب چلے گئے تو ان کی ستر کی چیزیں ان سے بے پردہ ہو گئیں۔

’’اور ہم نے آدم سے پہلے عہد لیا تھا مگر وہ بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر و ثبات نہ دیکھا تو شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈال دیا اور کہا آدم کیا میں تم کو ایسا درخت بتاؤں جو ہمیشہ کی زندگی کا ثمرہ دے اور ایسی بادشاہت دے جو کبھی ختم نہ ہو۔‘‘

(سورۂ اعراف۔ آیت نمبر۲۰)

آدم نے شجر ممنوعہ کے قریب جا کر یہ محسوس کیا کہ میرے جسم پر لباس نہیں ہے اور اسے ستر پوشی کرنا پڑی۔

ان محسوسات کے نتیجے میں جنت نے آدم علیہ السلام کو رد کر دیا اور آدم علیہ السلام کو زمین پر پھینک دیا گیا۔

تصوف کے اسباق:

تصوف میں جتنے اسباق اوراد، وظائف، اعمال و اشغال اور مشقیں کرائی جاتی ہیں، ان سب کا منشاء یہ ہے کہ آدم کے لئے جنت کا حصول ممکن ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ نے آدم کو تین علوم سکھائے ہیں۔

۱)خالق اور کائنات کا تعارف

۲) مخلوقات

۳) خود آگاہی

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ہر چیز جوڑے جوڑے بنائی ہے۔ اس طرح ہر علم میں دو رخ ہیں اور تین علوم میں چھ رخ ہیں۔ ان چھ رخوں یا چھ دائروں کو تصوف میں لطائف ستہ (Six Generators) کہتے ہیں۔

۱) نفس۔۔۔۔۔۔جنریٹر

۲) قلب۔۔۔۔۔۔ جنریٹر

۳) روح۔۔۔۔۔۔جنریٹر

۴) سر۔۔۔۔۔۔جنریٹر

۵) خفی۔۔۔۔۔۔جنریٹر

۶) اخفیٰ ۔۔۔۔۔۔جنریٹر

نفس اور قلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔روح حیوانی ہے۔

روح اور سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روح انسانی ہے۔

خفی اور اخفیٰ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روح اعظم ہے۔

روح حیوانی:

روح حیوانی ان خیالات و احساسات کا مجموعہ ہے جس کو بیداری کہا جاتا ہے۔ آب و گل کی اس دنیا میں آدمی خود کو ہر قدم پر (Force of Gravity) میں پابند محسوس کرتا ہے۔ کھانا، پینا، سونا، جاگنا، شادی بیاہ اور دنیاوی سارے کام روح حیوانی کرتی ہے۔ روح انسانی زندگی گزارنے کے تقاضے فراہم کرتی ہے اور ہمیں اطلاع فراہم کرتی ہے کہ اس وقت غذا کی ضرورت ہے اور اب پانی کی ضرورت ہے۔ ہم ان تقاضوں کا نام بھوک، پیاس وغیرہ رکھتے ہیں۔

روح انسانی:

بچوں کی پیدائش کا تعلق روح حیوانی سے ہے لیکن ماں کے دل میں بچوں کی محبت، بچوں کی پرورش، اچھی تربیت کا رجحان روح انسانی سے منتقل ہوتا ہے۔ جب انسان سوتا ہے تو دراصل روح حیوانی سوتی ہے۔ جیسے ہی روح حیوانی سوتی ہے۔ روح انسانی بیدار ہو جاتی ہے۔

روح انسانی کے لئے ٹائم اور اسپیس رکاوٹ نہیں بنتے یعنی جب ہم روح انسانی میں زندگی گزارتے ہیں تو ہزاروں میل کا سفر کرنا اور ہزاروں میل کے فاصلے پر کوئی چیز دیکھ لینا اور مرے ہوئے لوگوں کی روحوں سے ملاقات کرنا ہمارے لئے ممکن ہے۔

روح حیوانی کے ساتھ ہم ہر قدم پر مجبور اور پابند ہیں جب کہ روح انسانی ہمارے اوپر آزادی کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ روح حیوانی کے حواس میں ہم دیوار کے پیچھے نہیں دیکھ سکتے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے باریک سے باریک کاغذ بھی رکھ دیا جائے تو ہمیں نظر نہیں آتا۔ اس کے برعکس روح انسانی میں ہمارے حواس اتنے طاقت ور ہوتے ہیں کہ ہم زمین کی حدود سے باہر دیکھ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ رحمٰن میں فرمایا ہے:

’’اے گروہ جنات اور انسان! تم زمین اور آسمان کے کناروں سے نکل کر دکھاؤ تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے۔‘‘

(سورۂ رحمٰن۔ آیت نمبر۳۳)

تصوف میں سلطان کا ترجمہ ’’روح انسانی‘‘ ہے۔ یعنی انسان کے اندر جب روح انسانی کے حواس کام کرنے لگتے ہیں تو وہ زمین و آسمان کے کناروں سے نکل جاتا ہے۔

روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ہم جب پوری توجہ کے ساتھ کسی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو باقی باتیں عالم بے خیالی میں چلی جاتی ہیں۔ کسی ایک بات پر ہماری توجہ مستقل مرکوز رہے تو وہ بات پوری ہو جاتی ہے مثلاً ہم کسی دوست یا رشتہ دار کے بارے میں سوچتے ہیں اور اس طرح سوچتے ہیں کہ ہمارا ذہن ہر طرف سے ہٹ کر اس کی شخصیت میں جذب ہو جائے تو دوست سے ملاقات ہو جاتی ہے۔

روحِ اعظم:

روح اعظم میں وہ علوم مخفی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تجلی، مشیئت اور حکمت سے متعلق ہیں۔ روح اعظم سے واقف بندہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا عارف ہوتا ہے۔ یہی برگزیدہ بندے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’میرا بندہ اپنی اطاعتوں سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ یہاں تک کہ میں وہ آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، وہ کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ سے قربت غیب کی دنیا میں داخل ہوئے بغیر ممکن نہیں، غیب کے عالم میں داخل ہونا یا زمان و مکان سے ماوراء کسی چیز کو دیکھنا اس وقت ممکن ہے جب آدمی زمان و مکان سے آزاد ہونے کے طریقے سے واقف ہو۔

مثال:

ہم کسی ایسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں جو اتنی دلچسپ ہے کہ ہم ماحول سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔ کتاب ختم کرنے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ کئی گھنٹے گزر گئے ہیں اور ہمیں وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوا تو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ اتنا طویل وقت کیسے گزر گیا اسی طرح جب ہم سو جاتے ہیں تو وقت کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے:

’’ہم داخل کرتے ہیں رات کو دن میں اور داخل کرتے ہیں دن کو رات میں۔‘‘(سورہ الحدید-آیت ۲)

دوسری جگہ ارشاد ہے:

’’ہم نکالتے ہیں رات کو دن میں سے اور دن کو رات میں سے۔‘‘

(سورۃ آل عمران۔ آیت نمبر۲۷)

تیسری جگہ ارشاد ہے:

’’ہم ادھیڑ لیتے ہیں رات پر سے دن کو اور دن پر سے رات کو۔‘‘

(سورۃ حج۔ آیت نمبر۶۱)

دیکھنے کی طرزیں:

ہم جب قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو ہمیں اس آئینہ میں اپنی صورت نظر آتی ہے۔ اور ہم کہتے ہیں کہ آئینہ دیکھ رہے ہیں۔ حالانکہ ہم آئینہ نہیں دیکھ رہے آئینہ کے اندر جو عکس ہے اسے دیکھ رہے ہیں۔ پہلے آئینہ نے ہمیں دیکھ کر ہمارا عکس اپنے اندر جذب کیا اور اپنے اندر جذب کر کے منعکس کرنے کے بعد ہماری تصویر کو منعکس کر دیا۔ اگر آئینہ ہماری تصویر کو اپنے اندر جذب کر کے منعکس نہ کرے تو ہم آئینہ نہیں دیکھ سکتے۔

پہلے آئینہ نے ہماری تصویر دیکھ کر اپنے اندر جذب کی پھر ہم نے اپنی تصویر دیکھی۔ یعنی ہم آئینہ نہیں بلکہ آئینہ کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔ یہی صورت زندگی کے تمام اعمال و حرکات کی ہے۔

ہر انسان اپنے ذہن کو آئینہ تصور کرے تو دیکھنے کی براہ راست طرز یہ ہو گی کہ کوئی بھی صورت یا شئے پہلے ہمارے ذہن نے دیکھی۔ پھر ہم نے دیکھا یعنی ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں اپنے ذہن کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔

پانی سے بھرا ہوا گلاس:

ہمارے سامنے ایک گلاس ہے۔ اس میں پانی بھرا ہوا ہے اور ہم گلاس دیکھ رہے ہیں۔ تصوف میں اس دیکھنے کو فکشن کہتے ہیں۔ صحیح طرز کلام یہ ہے کہ ذہن کی اسکرین پر نگاہ کے ذریعے گلاس کا عکس اور پانی کی ماہیئت ہمارے لاشعور نے قبول کی۔ یعنی پانی اور گلاس کا پورا پورا عکس اپنے علم اور اپنی ماہیئت کے ساتھ ہمارے اندر کی آنکھ نے محسوس کیا اور دیکھا۔

انسان کی نگاہ پہلے کسی چیز کے عکس کو ذہن کی اسکرین پر منتقل کرتی ہے اس کے بعد ہی ہم اس چیز کو دیکھتے ہیں۔

دیکھنے کی ایک طرز یہ ہے کہ ہمارے سامنے کوئی چیز رکھی ہوئی ہے اور ہم اسے دیکھ رہے ہیں۔ ایک دیکھنا یہ ہے کہ سامنے رکھی ہوئی چیز کا عکس ہمارے لاشعور پر نقش ہو رہا ہے اور ہم اسے دیکھ رہے ہیں۔ یعنی ہم اپنی روح کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔

اندھی آنکھ:

انسان جب مر جاتا ہے اس کے وجود میں آنکھ اور آنکھ کی پتلی موجود رہتی ہے لیکن اسے کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ صورت موت کے علاوہ عام زندگی میں بھی پیش آتی ہے۔ مثلاً ایک آدمی اندھا ہو گیا اس کے سامنے ساری چیزیں رکھی ہوئی ہیں لیکن اسے کچھ نظر نہیں آ رہا ۔اس لئے نظر نہیں آ رہا کہ جو چیز دیکھنے کا میڈیم بنی ہوئی تھی وہ موجود نہیں رہی یعنی آنکھ نے کسی چیز کا عکس ذہن پر منتقل نہیں کیا۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آنکھیں ٹھیک ہوتی ہیں لیکن دماغ کے سیل (Cell) جو انسان کے اندر حسیات (Senses) پیدا کرتے ہیں یا وہ سیلز (Cells) جو نگاہ کا ذریعہ بن کر تصویری خدوخال کو ظاہر کرتے ہیں معطل ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں انسان دیکھ سکتا ہے نہ محسوس کر سکتا ہے۔

آدمی کو چیونٹی کاٹتی ہے۔ اس نے چیونٹی کو دیکھا نہیں ہے۔ لیکن وہ چیونٹی کے کاٹنے کی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ آدمی کے اندر وہ حس جو کسی بھی طریقے سے علم بنتی ہے اس نے دماغ کو بتا دیا کہ کسی چیز نے کاٹا ہے۔

انسان کو سب سے پہلے جس چیز کا علم حاصل ہوتا ہے خواہ لمس کے ذریعے ہو، خواہ شامہ کے ذریعے ہو، خواہ سماعت کے ذریعے ہو، خواہ بصارت کے ذریعے ہو۔ احساس کا پہلا درجہ ہے۔ کسی چیز کو سننا سننے کے بعد مفہوم اخذ کرنا۔ یہ احساس کا دوسرا درجہ ہے۔ پہلی مرتبہ علم حاصل ہونا احساس کا پہلا درجہ ہے۔ دیکھنا احساس کا دوسرا درجہ ہے۔ سننا احساس کا تیسرا درجہ ہے۔ کسی چیز کو سونگھ کر اس کی خوشبو یا بدبو محسوس کرنا احساس کا چوتھا درجہ ہے۔ اور چھونا احساس کا پانچواں درجہ ہے۔

بھوک پیاس کیا ہے ایک آدمی کو پیاس لگی۔ پیاس ایک تقاضہ ہے۔ پیاس کے تقاضے کو پورا کرنے کے لئے حواس ہماری راہنمائی کرتے ہیں کہ پانی گرم ہے۔ پانی ٹھنڈا ہے۔ پانی کڑوا ہے یا پانی میٹھا ہے۔

پیاس کے تقاضے میں جو مقداریں کام کر رہی ہیں وہ بھوک کے تقاضے میں نہیں ہیں اس لئے صرف پانی پی کر بھوک کا تقاضہ رفع نہیں ہوتا۔ بھوک کے اندر جو مقداریں کام کر رہی ہیں اس کی اپنی الگ ایک حیثیت ہے یہی وجہ ہے کہ صرف کچھ کھا کر پیاس کا تقاضہ پورا نہیں ہوتا۔

حواس میں اشتراک:

جب تک آدمی انسان اور حیوانات کے اجتماعی جذبات کے دائرے میں رہتا ہے اس وقت تک اس کی حیثیت دوسرے حیوانات سے الگ نہیں ہے اور جب ان جذبات کو وہ انسانی جذبات کے ذریعے سمجھتا ہے اور جذبات کی تکمیل میں انسانی حواس کا سہارا لیتا ہے تو وہ حیوانات سے ممتاز ہو جاتا ہے۔

جذبات اور حواس کا اشتراک انسانوں کی طرح حیوانات مین بھی ہے مگر فرق یہ ہے کہ ایک بکری یا ایک گائے حواس میں معنی نہیں پہنا سکتی۔ اس کا علم زندگی کو قائم رکھنے کی ضروریات پوری کرنے تک محدود ہے۔ وہ صرف اتنا جانتی ہے کہ پانی پینے سے پیاس بجھتی ہے۔ پتے کھانے سے بھوک رفع ہوتی ہے۔ اس بات سے اسے کوئی غرض نہیں کہ پانی کس کا ہے۔ اس کے برعکس انسان کے اندر جب تقاضہ ابھرتا ہے تو وہ حواس کے ذریعہ اس بات کو سمجھتا ہے کہ تقاضا کس طرح پورا کیا جاتا ہے۔

چونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے حواس کا علم عطا کر دیا ہے اس لئے انسان دوسری مخلوق کے مقابلے میں ممتاز ہو گیا اور یہ ممتاز ہونا ہی مکلف ہونا ہے۔ زندگی قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق میں تقاضے یکساں ہیں۔ آدمی کو بھوک لگتی ہے اور بکری اور طوطے کو بھی بھوک لگتی ہے۔ پیاس آدمی کو بھی لگتی ہے پیاس دوسرے حیوانات کو بھی لگتی ہے۔ دونوں بھوک اور پیاس کا تقاضہ پورا کرتے ہیں لیکن انسان تقاضوں اور حواس کی تعریف سے واقف ہے یہ وقوف ہی انسان کو شرف کے درجہ پر فائز کرتا ہے۔

جذبات کس طرح پیدا ہوتے ہیں:

تصوف میں پڑھایا جاتا ہے کہ حواس اور جذبات کس طرح بنتے ہیں؟ یہ علم حاصل کر کے صوفی حواس کے قانون سے واقف ہو جاتا ہے۔

انسان تقریباً ۱۲ کھرب کل پُرزوں سے بنی ہوئی مشین ہے۔ کچھ پرزے حواس بناتے ہیں۔ کچھ پرزے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ کچھ پرزے جذبات کی تکمیل کراتے ہیں۔ انسان کو یہ علم عطا کیا گیا ہے کہ وہ ان کل پرزوں سے واقف ہو اور جان لے کہ اس کے اندر نصب شدہ مشین میں کل پرزے کس طرح فٹ ہیں اور ان کی کارکردگی کیا ہے۔

بکری کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ حواس بنانے کی مشین یا حواس بنانے کے کل پرزوں کو سمجھ سکے۔ اگر انسان اپنے اندر نصب شدہ مشین کو نہیں سمجھتا اور یہ نہیں جانتا کہ اس کے اندر نصب شدہ مشین کائنات سے ہم رشتہ ہے۔

تو اس کی حیثیت بکری سے زیادہ نہیں ہے اس لئے کہ بھوک بکری اور بلی دونوں کو لگتی ہے۔ کتیا بھی اولاد کی پرورش کرتی ہے، اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے۔ پیاس چوہے اور بھیڑ دونوں کو لگتی ہے۔ جبلی طور پر ایک آدمی اپنی اولاد کی پرورش کرتا ہے، اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے بالکل اس ہی طرح بکری بھی اپنے بچوں سے محبت کرتی ہے، دودھ پلاتی ہے اور زندگی گزارنے کے لئے تمام ضروری باتوں سے بچوں کی تربیت کرتی ہے۔ اگر کوئی آدمی سب کچھ وہی کام کرتا ہے جو بکری کرتی ہے تو اس کی حیثیت بکری کے برابر ہے۔ اسے بکری سے افضل قرار نہیں دیا جا سکتا۔


بچوں کے محمدﷺ (جلد دوئم)

خواجہ شمس الدین عظیمی

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔