Topics
صوفی ریاضت و مجاہدہ کے
بعد محبوب کا دیدار کرنا چاہتا ہے۔ دھیان اور مراقبوں کے ذریعہ اس کے اندر یہ یقین
راسخ ہو جاتا ہے کہ زندگی کا مقصد صرف اور صرف اللہ کا عرفان ہے۔
تصوف ایک ایسا علم ہے جو
روح میں بالیدگی پیدا کرتا ہے اور مخلوق کو خالق کائنات سے قریب کرتا ہے۔ روحانیت
یا تصوف کے راستے کا مسافر باطنی کیفیات اور مشاہدات سے اللہ کو دیکھ لیتا ہے اور
اسے اللہ سے ہمکلامی کا شرف نصیب ہو جاتا ہے۔
ابدال حق حضور قلندر بابا
اولیاءؒ نے جسمانی وظائف کے ساتھ روح کے عرفان کے اعمال و اشغال کو تصوف کہا ہے۔
اسلام میں شریعت اور طریقت کا تصور بھی یہی ہے کہ انسان عبادت میں جسمانی پاکیزگی
اور اعمال کے ساتھ ذہنی تفکر کے ذریعے اپنی ذات سے واقفیت حاصل کرے تا کہ اس کے
مشاہدے میں یہ بات آ جائے کہ انسانی ذات (روح) دراصل کسی انسان کے اندر ماورائی
دنیاؤں میں داخل ہونے کا نام ہے، چونکہ روح اللہ کا ایک حصہ ہے۔ یعنی کل کا جز ہے۔
جب جز کا مشاہدہ ہوتا ہے تو (حقیقت مطلقہ) سامنے آ جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’پس جو شخص اپنے رب سے
ملاقات کا آرزومند ہو، اسے لازم ہے کہ اعمال صالحہ کرے اور اپنے رب کی اطاعت و
فرماں برداری میں کسی کو شریک نہ کرے۔‘‘
(سورۂ کہف۔ آیت نمبر۱۱۰)
محبت(اللہ کی تجلی)،
توحید، تقویٰ اور عرفان نفس تصوف کی بنیاد ہے۔ قرآن پاک کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے
کہ اللہ وحدہٗ لا شریک ہے اور اللہ اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔ قرآن پاک کا نزول
اس وقت ہوا جب دنیا شرک، کفر اور بت پرستی کے اندھیروں میں گم ہو چکی تھی۔
ا نسان
خود پرستی، کبر و نخوت اور زرپرستی میں مبتلا ہو گیا تھا۔ فطری اقدار کے منافی
خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ۳۶۰ بتوں کو معبود بنا لیا گیا تھا۔
اس پُرآشوب۔۔۔بے
یقین۔۔۔فساد سے بھرپور اور وسوسوں کے دور میں قرآن نے اعلان کیا:
’’بس وہی ہر شئے کا اول
ہے۔ اور وہی ہر شئے کا آخر ہے۔ اور وہی ہر شئے کا ظاہر ہے۔ اور وہی ہر شئے کی کنہ
کوجاننے والا ہے۔‘‘
تصوف، تقویٰ پر عمل کرنے
کی تاکید کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ کتاب متقی لوگوں کے لئے ہدایت ہے۔
’’بے شک اللہ ان لوگوں کے
ساتھ ہے جو متقی ہیں اور محسن ہیں‘‘۔
(سورۂ نحل۔ آیت نمبر۱۲۸)
تصوف، عشق و محبت کا
سمندر ہے اور محبت حصولِ مقصود کا ذریعہ ہے۔ مومن کو ایقان حاصل ہوتا ہے۔ یقین
مشاہدہ سے مشروط ہے۔ یہ کتاب اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور یہ کتاب ہدایت دیتی ہے
ان لوگوں کو جو متقی ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں اور صلوٰۃ
قائم کرتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں ان کے یقین میں یہ بات ہوتی ہے کہ یہ سب
اللہ کا دیا ہوا ہے۔
’’اور وہ لوگ جو ایمان
لائے اس پر جو کچھ نازل ہوا تیری طرف اور اس پر جو کچھ نازل ہوا تجھ سے پہلے۔ اور
آخرت پر یقین رکھتے ہیں وہی لوگ ہیں ہدایت پر اپنے رب کی طرف سے اور وہی ہیں مراد
کو پہنچنے والے۔‘‘
سورۂ بقرہ۔ آیت نمبر۴،۵)
اس کتاب میں کسی قسم کا
شک اور شبہ نہیں۔ اور یہ کتاب ہدایت دیتی ہے۔ متقی لوگوں کو۔ اور متقی لوگ وہ
خواتین و حضرات ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ ایمان، یقین سے مشروط ہے۔ یقین کا
مطلب ہے کسی چیز کو اس طرح دیکھ لیا جائے کہ اس میں ابہام باقی نہ رہے۔ اور قائم
کرتے ہیں صلوٰۃ یعنی متقی لوگوں کا اللہ کے ساتھ رابطہ رہتا ہے۔ سیدنا حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق مومن دیکھتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے یا
وہ دیکھتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ مومن یقینی طور پر اس بات کا ادراک رکھتا
ہے کہ بندہ جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اللہ پیدا کرتا ہے تو وہ اس
دنیا میں آتا ہے۔ اللہ وسائل فراہم کرتا ہے تو وہ وسائل استعمال کرتا ہے۔ مومن
اپنی مرضی سے نہ جیتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے مرتا ہے۔
مشاہدہ کرنے والے لوگ ہی
اللہ سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔
’’اور جو لوگ مومن ہیں وہ
سب سے زیادہ محبت اللہ ہی سے کرتے ہیں۔‘‘
(سورۂ بقرہ۔ آیت نمبر ۱۶۵)
’(اے رسول صلی اللہ علیہ
و آ لہ و سلم) مسلمانوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں اپنے باپ دادا اور بیٹے اور
بھائی اور بیویاں اور رشتے دار اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس
کے نقصان سے تم بہت ڈرتے ہو اور وہ مکانات جن کو تم بہت عزیز رکھتے ہو۔ اگر ان میں
سے کوئی چیز بھی تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اور
اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ پیاری یا زیادہ محبوب ہے تو پھر انتظار کرو یہاں تک
کہ اللہ کا فیصلہ صادر ہو جائے اور یاد رکھو کہ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
(سوؤ توبہ۔ آیت نمبر۲۴)
صوفی قرب الٰہی کا شیدائی
ہوتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت سے مشرف ہونے کے لئے بے قرار
رہتا ہے۔ روحانی آدمی اللہ کی طرف راغب رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اے رسول! سجدہ کرتے رہو
اور قُرب حق حاصل کرتے رہو۔‘‘.
شریعت ہمیں بتاتی ہے کہ
دنیا کی ہر تخلیق اللہ کے حکم سے وجود میں آئی ہے۔ اللہ قادر مطلق ہے اللہ جو چاہے
جب چاہے جس طرح چاہے اس کے اَمر سے ہو جاتا ہے۔ شریعت پر عمل کرنے سے انسان کے
شعور میں غیب کو سمجھنے کی صلاحیت بیدار ہوتی ہے۔ اس کے دماغ میں غیب بینی کے
خلیئے (CELLS) چارج ہو جاتے ہیں۔ صاحب شریعت بندے میں اللہ کی نشانیوں پر تفکر
کرنے اور تزکیۂ نفس کا رجحان بڑھ جاتا ہے
تصوف یا روحانی علوم
سیکھنے کے بعد انسانی شعور غیب کی دنیا کو دیکھ لیتا ہے۔ انسان کو ایمان یعنی یقین
حاصل ہو جاتا ہے کہ دنیا کی ابتداء انتہا، اول و آخر، ظاہر و باطن سب اللہ کے
احاطے میں ہے۔ شریعت پر کاربند بندہ نماز پڑھتا ہے اور صاحب شریعت صوفی نماز میں
اللہ کا دیدار کرتا ہے۔ایک آدمی بادشاہ کے احکامات پر اور اس کے بنائے ہوئے قوانین
پر عمل کرتا ہے دوسرا آدمی بھی اچھا شہری ہے قوانین کا احترام کرتا ہے لیکن اسے
بادشاہ کی قربت بھی حاصل ہے۔ دونوں اچھے شہری ہیں۔ لیکن جسے قربت حاصل ہے، اس کا
درجہ بڑا ہے۔
صاحب شریعت بندہ اللہ کی
بادشاہی میں اللہ کے فرمانبردار بندے کی طرح احکامات کی تعمیل کرتا ہے برائیوں سے
بچتا ہے، غلطیوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگتا ہے۔ نیک عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہی سب کام صوفی بھی کرتا ہے لیکن وہ اللہ کے قرب کا متمنی ہوتا ہے۔ اللہ کو جانتا
ہے۔ اللہ کو دیکھتا ہے۔ ہر شئے پر اللہ کے محیط ہونے کا مشاہدہ کرتا ہے اور اللہ
رگِ جان سے زیادہ قریب ہے اس آیت کے مصداق خود کو اللہ سے قریب محسوس کرتا ہے۔
سورۂ بقرہ کی آیت ۱ سے ۴ تک میں تقربِ الی اللہ
اور حق الیقین کا پورا نصاب بیان ہوا ہے۔ شریعت مطہرہ ہمیں رہنمائی عطا کرتی ہے کہ
ایمان بالغیب (حق الیقین) حاصل کرنے کے لئے اس طرح عمل کیا جائے کہ ہم جو کچھ کرتے
ہیں اس میں ہمارا ذہن کامل یکسوئی کے ساتھ اللہ سے وابستہ ہو جائے۔علم شریعت اور
علم حضوری سیکھنے کے بعد انسان کے شعور میں غیب پر یقین کرنے اور غیب کی دنیا کے
مکینوں کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔
تصوف کے علوم یا علم
حضوری حاصل ہونے کے بعد انسان عالم دنیا سے نکل کر عالم ارواح میں عالم ملکوت و
جبروت میں پہنچ جاتا ہے۔
صدقِ مقال، اکلِ حلال
کمانے والا بندہ اور سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ و سلم پر عمل کرنے والا امتی اپنے
نفس اور اپنی روح سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آ لہ و
سلم کے اخلاق حسنہ اور ارشادات پر دل و جاں سے عمل کر کے اللہ کو پہچان لیتا ہے۔
’’پس اے رسول جب آپ فرائض
منصبی سے فارغ ہوں تو عبادت میں محنت کریں اور اپنے رب کی طرف راغب رہیں۔‘‘
(سورۂ الم نشرح۔ آیت نمبر ۷۔۸)
’’اور وہ تمہارے ساتھ ہے
جہاں بھی تم ہو‘‘۔
(سورۂ الحدید آیت نمبر۴)
’’بے شک اللہ ساتھ ہے ان
لوگوں کے جو متقی ہیں اور محسن بھی ہیں‘‘۔
(سورۂ نحل۔ آیت نمبر۱۲۸)
روحانیت یا تصوف کے دستور
العمل ’’تزکیۂ نفس‘‘ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اللہ ہی وہ ذات پاک ہے
جس نے اُمیوں میں ایک عظیم المرتبت رسول مبعوث فرمایا، جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر
سناتا ہے، اور ان کے نفوس کا تزکیۂ کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔‘‘
(سورۂ جمعہ۔ آیت نمبر۲)
سورۂ مزمل کی ابتدائی
آیات ’’تزکیۂ نفس‘‘ کے رہنما اصول بتاتی ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ صوفیاء رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہر پسندیدہ عمل کی اطباع کرتے ہیں اور تمام غیر
پسندیدہ اعمال سے اجتناب کرتے ہیں۔
اہل اللہ خواتین و حضرات
نے تصوف یا روحانیت کے اصول انہی آیات کی روشنی میں مرتب کئے ہیں۔
’’اے کپڑوں میں لپٹنے
والے، رات کو کھڑے رہا کرو۔ مگر تھوڑی سی رات یعنی نصف رات یا نصف سے کسی قدر کم
کر دو۔ یا نصف سے کچھ بڑھا دو۔ اور قرآن کو خوب صاف صاف پڑھو۔ ہم تم پر ایک بھاری
کلام ڈالنے کو ہیں۔ بے شک رات کو اٹھنے میں دل اور زبان کا خوب میل ہوتا ہے۔ اور
بات خوب ٹھیک نکلتی ہے۔ بے شک تم کو دن میں بہت کام رہتا ہے اور اپنے رب کا نام
یاد کرتے رہو۔ اور سب سے قطع تعلق کر کے اسی کی طرف متوجہ رہو۔ وہ مشرق و مغرب کا
مالک ہے۔ اس کے سوا کوئی قابل عبادت نہیں۔ تو اپنے سارے کام اس ہی کے سپرد کر دو۔
اور یہ لوگ جو باتیں کہتے
ہیں ان پر صبر کرو اور خوبصورتی کے ساتھ ان سے الگ ہو جاؤ۔ اور ان جھٹلانے والوں
ناز و نعمت میں رہنے والوں کو چھوڑ دو۔ اور ان لوگوں کو تھوڑے دنوں کی اور مہلت دے
دو۔
(سورۂ مزمل۔ آیت ۱ تا ۱۱)
تصوف میں جتنے اعمال و
اشغال، سالک کو تلقین کئے جاتے ہیں وہ سب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم کے احکامات کے مطابق ہوتے ہیں۔
۱)
ذکر اذکار حمد و
تسبیح کرنا۔
۲)Concentration ،
تلاش، جدوجہد، تفکر
۳) صلوٰۃ میں اللہ سے تعلق
قائم کرنا۔
۴) اللہ سے قریب ہونے کے لئے
روزے رکھنا۔
۵) تزکیۂ نفس کے بعد تقویٰ
اختیار کرنا۔
۶) مسلمان ہونے کے بعد۔ غیب
کی دنیا کا مشاہدہ کرنا۔
۷) ہر طرف سے ذہن ہٹا کر
یکسوئی کے ساتھ اپنے اندر کا کھوج لگانا یعنی مراقبہ کرنا۔
۸) غصہ پر کنٹرول حاصل کر کے
اپنے اندر عفو و درگزر کی صفات پیدا کرنا۔
۹)
اللہ تعالیٰ بغیر
غرض کے اپنی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں، صوفی بھی اس صفت کے حصول کے لئے خالصتاً اللہ
کی مخلوق کی خدمت کرتا ہے۔
۱۰) صوفی سمٰوات پر بروج کی
زینت کو آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے۔
۱۱)
صوفی کے اندر خوف
اور غم نہیں ہوتا۔ جو اللہ کے دوستوں کی پہچان ہے۔
۱۲)
صوفی نفس کی ظلمت
کو دور کر کے اپنے رب کو پہچانتا ہے۔
۱۳)
صوفی آسمانوں،
زمین اور تسخیر کائنات کے فارمولوں سے واقف ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اسے ناسوتی
دنیا میں ہی جنت دکھا دیتے ہیں اور دوزخ کے عذاب سے وہ خود کو بچانے کی ہر لمحہ
کوشش کرتا ہے۔
۱۴) صوفی
اللہ کی ہر نعمت پر شکر ادا کرتا ہے اور جو حاصل نہیں اس کا شکوہ نہیں کرتا۔
۱۵) صوفی معاملہ فہم ہوتا ہے۔
وہ کسی کی حق تلفی نہیں کرتا۔
۱۶) صوفی بلا خوف مذہب و ملت،
ہر شخص کا احترام کرتا ہے اور ان کے کام آنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔
۱۷) صوفی جھوٹ کو پسند نہیں
کرتا اور خود جھوٹ نہیں بولتا۔
۱۸) صوفی سلام میں پہل کرتا
ہے۔
۱۹)
صوفی سخی ہوتا ہے۔
مہمان نوازی صوفیاء کی روایت ہے۔
۲۰)
صفی کو علم
الیقین، عین الیقین اور حق الیقین حاصل ہوتا ہے۔
۲۱)
مرشد کے فیض، رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت اور اللہ کے فضل و کرم سے صوفی راسخون فی العلم
کے گروہ میں شامل ہو جاتا ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
تصوف
کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار
کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا
ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ
محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی
صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس
اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان
ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے
ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند
بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ
صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا
نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے
اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل
کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں
بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت
اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا
علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔