Topics

تصوف کی تاریخ

آدم و حوا جب زمین پر آئے تو ان میں شعور بہت کم تھا، وہ نہیں جانتے تھے کہ وسائل کو کس طرح استعمال کیا جائے۔ قانون قدرت کے تحت آدم کی نسل دو سے چار، چار سے آٹھ اور اسی طرح جب ہزاروں سے تجاوز کر گئی تو شعور بھی لاکھوں گنا ہو گیا۔ آدم و حوا کے بچوں نے جڑیں، ناپختہ پھل اور کچا گوشت کھانے میں کراہیت محسوس کی ان کے شعور نے رہنمائی کی کہ کچا گوشت نہ کھایا جائے۔ گیہوں کے دانے چبانے کے بجائے گندم پیس کر آٹے کی روٹی پکانی چاہئے۔ (تاریخ تصوف)

زمین پر انسان کا پہلا دن:

قانون یہ ہے کہ شعور ایک ہو یا ہزار ہوں جب کسی نقطے پر مرکوز ہو جاتے ہیں تو اس کا مظاہرہ ہو جاتا ہے۔ لاکھوں آدمیوں میں سے کسی ایک آدمی نے غیر اختیاری طور پر دو پتھر اٹھائے ان کو آپس میں ٹکرایا، ٹکرانے سے حرارت پیدا ہوئی تو پتھروں میں سے چنگاری نکلی۔

چنگاری کی چمک نے ابن آدم کو اس طرف متوجہ کیا کہ چنگاری سوکھی گھاس کو جلا ڈالے گی اور دیکھتے دیکھتے آگ بھڑک اٹھی۔

زمین پر انسان کا یہ پہلا دن تھا جب انسان حیوانات سے ممتاز ہوا اور اس نے اس ایجاد سے اپنے لئے کھانا پکانا شروع کر دیا۔ حیوانات سے ممتاز ہونے کے بعد انسان کے ذہن میں نئے نئے خیالات آتے رہے اور پھر ایجاد کا سلسلہ جاری ہو گیا۔

آدم اور حوا کے آنے سے پہلے زمین موجود تھی اور زمین پر جنات آباد تھے۔ زمین کے وارث جنات اور آدم ہیں۔

جنات نے جب زمین پر خون خرابہ کیا اور زمین کی کوکھ اجاڑنے کی ہر تدبیر پر عمل کیا تو قدرت نے زمین کو فساد زدہ قرار دے دیا اور جنات سے زمین کی سرداری چھین کر آدم کو دے دی۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ابن آدم نے بھی وہی کیا جو جنات کرتے چلے آ رہے تھے۔ بھائی نے بھائی کو قتل کر دیا اور یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔

معاشرتی قوانین:

حضرت آدم علیہ السلام نے انسانی معاشرہ کے لئے جو قوانین وضع کئے ان کی اولاد نے ان پر پوری طرح عمل نہیں کیا۔ طویل عرصے کے بعد حضرت نوح علیہ السلام پیدا ہوئے۔ حضرت نوح علیہ السلام ۹۵۰ برس تک توحید کی تبلیغ کرتے رہے۔ حضرت نوح علیہ السلام پانی کے ہر گھونٹ اور ہر لقمے پر الحمداللہ کہتے تھے۔ نو سو پچاس برسوں تک تبلیغ کرنے پر اسّی (۸۰) مرد اور عورتیں ایمان لائے باقی قوم نے ان کی نصیحت پر عمل نہیں کیا۔ اس پاداش میں قوم پر عذاب نازل ہوا۔ زمین کو فساد سے پاک کرنے کے لئے آسمان سے اتنا پانی برسا کہ زمین سمندر بن گئی۔ گاؤں، گوٹھ، قصبے، شہر ڈوب گئے۔ پوری قوم غرقِ آب ہو گئی۔ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی ہلاک ہو گیا۔ اسّی (۸۰) مرد اور عورتیں جو ایمان لائے تھے عذاب الٰہی سے بچ گئے۔ زمین چھ مہینے تک پانی میں ڈوبی رہی طوفان ختم ہونے پر کشتی ’’جودی‘‘ پہاڑی پر ٹھہری۔ (محمد رسول اللہﷺ۔ جلد سوم)

ایمان لانے والے سلامتی کے ساتھ کشتی سے اترے لیکن ان کی نسل نہ چل سکی۔ نوح علیہ السلام کے تین بیٹے ’’حام، سام، یافث‘‘ جو کشتی میں سوار تھے ان سے آدم کی نسل کا دوبارہ آغاز ہوا۔ حام چھوٹے بیٹے تھے، سام منجھلے اور یافث بڑے بیٹے تھے۔ آج کی دنیا میں جہاں بھی جس رنگ کی بھی نسل آباد ہے وہ ان ہی تین بھائیوں کی اولاد ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لئے زمین کے چپے چپے پر ہادی اور پیغمبر بھیجے جن کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار بتائی جاتی ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی حیات طیبہ پر غور کیا جائے تو تمام پیغمبروں نے آدم زاد کو اپنی روح سے واقف ہونے کی ہدایت دی ہے۔ یعنی مادی وجود کو سہارا دینے اور مادی وجود کو قائم رکھنے والی روح کو پہچانو۔ پیغمبروں نے بتایا ہے کہ روح اللہ کا امر ہے۔ انسان کو اللہ کے امر کا علم دیا گیا ہے مگر تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ لیکن یہ تھوڑا علم لامحدود علم کا قلیل علم ہے۔

سمندر کے پانی کا ایک قطرہ یعنی سمندر کے قلیل کا تجزیہ کیا جائے تو اس قطرہ میں پورے سمندر کی صفات نظر آتی ہیں۔ پیپل کے درخت کا بیج خشخاش کے دانے سے چھوٹا ہے۔ اگر پیپل کے اتنے چھوٹے بیج کو مائیکروسکوپ فلم میں دیکھا جائے تو اس ننھے سے بیج میں پیپل کا پورا درخت نظر آتا ہے۔

جسمانی رُخ ۔۔۔روحانی رُخ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور انبیائے کرام علیہم السلام کی تعلیمات ہمیں اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ ہر انسان دو رخوں سے مرکب ہے۔

انسان کا ایک رخ جسمانی رخ ہے اور دوسرا رخ روحانی جسم ہے۔ مادی جسم کی تعریف یہ ہے کہ اس میں ہر لمحہ ٹوٹ پھوٹ ہوتی رہتی ہے۔ مٹی کا جسم فنا ہو کر مٹی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ روحانی جسم اللہ کا امر ہے۔ ہر مادی وجود کی حرکت روحانی وجود کے تابع ہے۔ مادی وجود روحانی وجود کے تابع ہو کر حرکت کرتا ہے۔ روح اگر جسمانی وجود سے رشتہ منقطع کر لے تو مادی وجود میں کسی بھی طرح کی حرکت نہیں ہوتی۔ کھانا پینا، چلنا پھرنا، غم اور خوشی سے متاثر ہونا، شادی بیاہ اس ہی وقت ممکن ہے جب روح جسم کو سہارا دے۔ دنیا ہزاروں سال سے موجود ہے۔ ہزاروں سال کی تاریخ میں ایک بھی مثال نہیں ہے کہ کسی مردہ جسم نے کوئی ایجاد کی ہو۔ یا مردہ اجسام سے کوئی اور انسانی عمل سرزد ہوا ہو۔

 

ایک اور دنیا:

آسمانی کتابوں اور قرآن حکیم میں اس بات کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ دنیا عارضی دنیا ہے۔ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہے جس میں جا کر ہمیں اپنے اعمال کی سزا یا جزا کے مطابق زندگی گزارنی ہے۔ جس طرح اس دنیا کے بعد دوسری دنیا عالم آخرت ہے۔ اسی طرح اس دنیا میں آنے سے پہلے بھی ایک دنیا ہے۔ جہاں سے ہم آئے ہیں۔ اس دنیا کا نام عالم ارواح ہے۔
اللہ کے فرستادہ ہر نبی مکرم علیہ السلام نے اس امر کی تبلیغ کی ہے کہ انسان کا صحیح ورثہ وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کو خود پڑھایا اور سکھایا ہے۔

ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کا سبب بھی یہی علم ہے۔ جو جنات کو اور فرشتوں کو عطا نہیں کیا گیا۔

نوعِ انسانی کا پہلا صوفی:

ایک علم ظاہری ہے۔ دوسرا علم باطنی علم ہے۔ ظاہری علم معیشت و معاشرت کا علم ہے اور باطنی علم تصوف ہے۔ تصوف کا آغاز اس وقت ہوا جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا ’’میں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں۔‘‘ آدم علیہ السلام کو علم الاسماء سکھانا۔

باطنی علوم کے زمرہ میں آتا ہے۔ باطنی اور آسمانی علوم بنی نوع آدم کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کا ورثہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تصوف کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور اس طرح نوع انسانی میں حضرت آدم علیہ السلام پہلے صوفی ہیں۔

پیغمبروں کی تعلیمات رہنمائی کرتی ہیں کہ ہر پیغمبر نے نوع انسانی کو اچھائی اور برائی کے تصور سے آگاہ کیا ہے اور خود اس پر عمل کر کے بامقصد زندگی گزارنے کا درس دیا ہے۔

پیغمبروں کی تعلیمات کے مطابق واحد ذات اللہ کی پرستش نہ ہو تو وہ ہرگز تصوف نہیں ہے۔

’’انبیاء علیہم السلام بتاتے ہیں کہ ایک اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرو۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں بھائی چارہ چاہتے ہیں۔ اپنی مخلوق کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ مخلوق کا بے سکون رہنا اللہ کو پسند نہیں ہے۔

اللہ مخلوق کو خوش دیکھنے کے لئے مخلوق کی ضروریات کی کفالت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے راستے پر چلنے کو اپنا راستہ قرار دیتے ہیں۔ پیغمبروں کی زندگی پر تفکر کیا جائے تو ان میں صراط مستقیم پر قائم رہنے اور صراط مستقیم پر دعوت دینے کا بھرپور عزم ہوتا ہے۔ پیغمبر عفو و درگذر سے کام لیتے ہیں، حق تلفی نہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔

ہر پیغمبر کی تعلیمات کا مقصد توحید پرستی ہے۔ یہی سب باتیں پیغمبران علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے والا صوفی بتاتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے۔

قرآن فرماتا ہے:

’’اور ہم نے آسمان کو بروج سے زینت بخشی دیکھنے والوں کے لئے اور چھپا لیا ہم نے اس خوبصورت آرائش اور زینت کو شیطان مردود سے‘‘۔

(سورۃ الحجر: ۱۶۔۱۷)

تصوف کا شیدائی صوفی اس کی تفسیر اس طرح بیان کرتا ہے جو لوگ آسمان پر بروج کی زینت کو نہیں دیکھتے یا دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے وہ انسان کہلانے کے مستحق نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو روحانی صلاحیتوں سے بہرہ ور کیا ہے۔ ہر انسان اس صلاحیت کو بیدار کر کے آسمان پر بروج کو دیکھ سکتا ہے۔

نماز میں حضوری:

قرآن پاک میں ہے:

’’پس خرابی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے بے خبر ہیں۔‘‘ (سورۂ ماعون۔ آیت نمبر۶)

یعنی نماز تو وہ پڑھتے ہیں لیکن انہیں نماز میں مرتبۂ احسان حاصل نہیں ہوتا۔ صوفی کہتا ہے جس کو نماز میں مرتبۂ احسان یعنی حضورِ قلب نہ ہو اس کی نماز، نماز نہیں ہے بلکہ اس کے لئے خرابی ہے۔ صوفی کا عقیدہ ہے کہ اگر انسان خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ کو صدقِ دل کے ساتھ حاضر و ناظر جان کر صلوٰۃ قائم کرے تو اسے حضورئ قلب نصیب ہو جاتی ہے۔

دعوتِ حق:

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کیا ان لوگوں نے آسمان اور زمین کے نظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا۔ (آنکھیں کھول کر دیکھنے سے مراد باطنی نظر سے دیکھنا ہے جو روح کی آنکھ ہے) اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید زندہ رہنے کی جو مہلت دی گئی ہے اس کے پورے ہونے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ ہمیں ہدایت دیتا ہے کہ اللہ قادر مطلق ہے وہ جسے چاہے عزت اور شرف سے نواز دے اور جسے چاہے ذلیل و خوار کر دے۔ اللہ عجز و انکساری کو پسند فرماتا ہے۔

تکبر اور غرور اللہ کے لئے ناپسندیدہ اعمال ہیں۔ ناپسندیدہ اعمال جب حد سے تجاوز کر جاتے ہیں تو قدرت نافرمانوں کو نیست و نابود کر دیتی ہے۔ ہر انسان اپنے عمل کا خود جوابدہ ہے اس لئے باپ کی بزرگی بیٹے کی نافرمانی کا مداوا نہیں بن سکتی اور نہ بیٹے کی سعادت باپ کی سرکشی کا بدل ہو سکتی ہے۔

حضرت عاد علیہ السلام کے قصے میں بیان ہوا ہے:

’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے اونچی عمارتوں والے عادِارم سے کیا سلوک کیا؟‘‘

(سورۂ حجر: آیت ۶۔۷)

اور عادعلیہ السلام کی طرف بھیجا ان کا بھائی ہود علیہ السلام بولا:

’’اے قوم بندگی کرو اللہ کی، کوئی نہیں تمہارا سہارا اس کے سوا، کیا تم کو ڈر نہیں؟‘‘

(سورۂ اعراف: آیت نمبر۶۵)

گمراہ قوم نے تعجب سے پوچھا تم ہمارے پاس صرف اس لئے آئے ہو کہ ہم صرف ایک ہی اللہ کی عبادت کریں اور انہیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے تھے۔ حضرت ہود علیہ السلام نے کہا! کیوں جھگڑتے ہو مجھ سے ناموں پر رکھ لئے ہیں تم نے اور تمہارے باپ دادا نے نہیں اتاری اللہ نے ان کی کوئی سند۔ قوم ہودؑ نے عادؑ کی تعلیمات سے بیزاری کا اظہار کیا، بولے:

’’ہم کو برابر ہے تو نصیحت کرے یا نہ کرے۔‘‘ (سورۃ الشعراء: آیت نمبر۱۳۶)

حضرت ہود علیہ السلام نے ان سے کہا:

’’یاد کرو اس ذات کو جس نے تمہیں وہ کچھ دیا ہے جو تم چاہتے ہو۔ تمہیں جانور دیئے، اولادیں دیں، باغ و شجر دیئے اور تمہارا یہ حال ہے کہ تم اللہ کے ساتھ انہیں شریک کرتے ہو جو تمہیں نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ عظمت و خوشحالی کا مظاہرہ کرنے کے لئے تم نے کئی کئی منزلہ عالیشان عمارتیں بنائی ہیں، دولت اور ثروت ہونے کے باوجود تمہیں اطمینانِ قلب نہیں ہے۔ اس لئے کہ تم نے مادی دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے‘‘۔

(سورۃ الشعراء: آیت نمبر۱۳۲۔۱۳۵)

یوم ازل کا وعدہ:

حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب کر کے فرمایا:

 

’’تم لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے ہو (جو وعدہ تمہاری روحوں نے یومِ ازل میں اللہ سے کیا تھا اور تم نے قالو بلیٰ کہہ کر اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا تھا) غصہ اور انتقام کے جذبے نے تمہیں اندھا کر دیا ہے تم لوگوں نے اللہ کے حکم کی صریح خلاف ورزی کی ہے‘‘۔ (سورۂ اعراف: آیت نمبر۷۶۔۷۷)

حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنے باپ بت تراش اور بت پرست قوم سے بیزار ہوئے انہیں خدا کو جاننے پہچاننے اور عرفان حاصل کرنے کی آرزو ہوئی۔ ایک روز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اماں سے پوچھا "اے ماں! تیرا خدا کون ہے؟ بیٹا میرا خدا تیرا باپ ہے جو میری ضروریات کا کفیل ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا۔ ’’اماں جی! میرے باپ کا خدا کون ہے؟‘‘ ماں نے بتایا کہ آسمان پر چمکنے والے ستارے تیرے باپ کے خدا ہیں‘‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس جواب سے مطمئن نہیں ہوئے۔ ان کے ا ندر کے نور نے خدا کی تلاش کے لئے انہیں بیقرار کر دیا۔

رات اندھیری ہو گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا اور کہا یہ میرا رب ہے، سو جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے کہا میں غروب ہو جانے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔ پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا تو فرمایا! یہ میرا رب ہے۔ تو جب وہ غروب ہو گیا تو فرمایا! اگر مجھ کو میرا رب ہدایت نہ کرتا رہے تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاتا اور پھر آفتاب کو چمکتا ہوا دیکھا تو فرمایا یہ میرا رب ہے! یہ سب سے بڑا ہے تو جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا۔ اے قوم! بے شک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا- اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے مظاہر فطرت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عمل کو اپنی جانب منسوب کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’پھر ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی سلطنت میں عجائبات دکھائے تا کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے۔‘‘

(سورۂ انعام: آیت نمبر۷۵)

قرآن پاک میں مذکور ہے:

’’اور یاد کرو کتاب میں اسماعیل کا ذکر تھا۔ وہ وعدہ کا سچا، اور تھا رسول اور نبی اور حکم کرتا تھا اپنے اہل کو صلوٰۃ کا اور تھا وہ اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ‘‘۔(سورۂ مریم: آیت نمبر۸۴۔۸۵)

اللہ کے نمائندے:

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات میں سے ایک اہم واقعہ اس ملاقات کا ہے جو ان کے اور ایک صاحب باطن مرد خدا (صوفی) کے درمیان ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ علیہ السلام! جہاں دو سمندر ملتے ہیں وہاں ہمارا ایک بندہ ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا! پروردگار اس بندے تک پہنچنے کا کیا طریقہ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ مچھلی اپنے توشہ دان میں رکھ لو۔ جس مقام پر مچھلی گم ہو جائے اسی جگہ وہ شخص ملے گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اس مقام پر پہنچ گئے جہاں وہ شخص تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سلام کیا اور بتایا کہ میرا نام موسیٰ ہے۔ اس شخص نے پوچھا موسیٰ بنی اسرائیل؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا، ہاں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا۔ میں آپ سے وہ علم حاصل کرنے آیا ہوں جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے۔ اس شخص نے کہا۔ اے موسیٰ! تم میرے ساتھ رہ کر ان معاملات میں صبر نہیں کر سکو گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا! انشاء اللہ مجھ کو آپ صابر پائیں گے۔ اس شخص نے کہا تو پھر شرط ہے کہ جب تک آپ میرے ساتھ رہیں کسی معاملے میں مجھ سے سوال نہ کریں۔

دونوں کشتی میں بیٹھ گئے۔

اس شخص نے (جسے اہل باطن صوفیاء خضر علیہ السلام کہتے ہیں) کشتی میں سوراخ کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا۔

یہ آپ نے کیسی عجیب بات کی ہے کہ کشتی والوں نے ہم سے کرایہ بھی نہیں لیا اور آپ نے کشتی میں سوراخ کر دیا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا کہ میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ صبر نہیں کر سکیں گے۔

کشتی کنارے لگی تو دونوں اتر کر ایک میدان میں پہنچے۔ میدان میں بچے کھیل رہے تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے ایک بچے کو قتل کر دیا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہ تو بہت برا ہوا کہ آپ نے ناحق ایک معصوم کو قتل کر دیا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا میں نے آپ سے شروع میں کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر و ضبط سے کام نہیں لیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اس مرتبہ اور نظر انداز کر دیجئے اس کے بعد کوئی عذر نہیں رہے گا۔ اور آپ مجھ سے علیحدہ ہو جائیں گے۔

چلتے چلتے ایک بستی میں پہنچ گئے۔ ایک مکان کی دیوار گرنے لگی تھی۔ حضرت خضر علیہ السلام نے اسے درست کر دیا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا۔ بستی والوں نے نہ ہماری مہمان داری کی نہ ہمیں ٹھہرنے کی جگہ دی۔ آپ نے بغیر اجرت کے دیوار بنا دی۔ (فصوص الحکم)

سورۂ کہف میں یہ واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے:

’’پس اب مجھ میں اور تم میں جدائی کا وقت آ گیا ہے ہاں جن باتوں میں تم سے صبر نہ ہو سکا۔ ان کی حقیقت تم کو بتلا دوں۔‘‘

(سورۂ کہف: آیت نمبر۷۸)

اللہ کی بادشاہی کا رکن:

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے واقعہ میں یہ انکشاف ہے کہ اللہ کے نظام میں ایسے لوگ بھی کام کرتے ہیں جو نبی نہیں ہیں لیکن یہ سب لوگ توحید پرست ہوتے ہیں۔ اللہ وحدہ لا شریک کی پرستش کرتے ہیں اور ان کی روحوں کو اللہ کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ یہی صاحب عرفان لوگ اللہ کی بادشاہی میں اللہ کے نمائندے یا خلیفہ ہوتے ہیں۔

حضرت مریم علیہ السلام انہی جلیل القدر بندوں میں سے ہیں۔ جب فرشتوں نے کہا ’’اے مریم علیہ السلام! بلاشبہ اللہ نے تجھ کو بزرگی دی اور پاک کیا اور دنیا کی عورتوں پر تجھ کو برگزیدہ کیا۔ اے مریم علیہ السلام اپنے پروردگار کے سامنے جھک جا اور سجدہ ریز ہو جا اور نماز قائم کرنے والوں کے ساتھ نماز ادا کر۔‘‘

بشارت:

قرآن حکیم میں ہے جب فرشتوں نے مریم علیہ السلام سے کہا:

’’اے مریم! اللہ تعالیٰ تجھ کو اپنے حکم کی بشارت دیتا ہے اور اس کا نام مسیح ابن مریم علیہ السلام ہو گا۔ وہ دنیا و آخرت میں صاحب وجاہت اور ہمارے مقربین میں ہو گا۔‘‘

(سورۂ آل عمران: آیت نمبر۴۵)

’’وہ ماں کی گود میں لوگوں سے کلام کرے گا اور وہ نیکو کاروں میں سے ہو گا‘‘۔

(سورۂ آل عمران: آیت نمبر۴۶)

مریم علیہ السلام نے کہا کہ:

’’میرے لڑکا کیسے ہو سکتا ہے؟ جب کہ کسی مرد نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگایا۔‘‘

فرشتے نے کہا:

’’اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اسی طرح پیدا کر دیتا ہے۔ جب وہ کسی شئے کے لئے حکم کرتا ہے تو بس کہہ دیتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے‘‘۔

(سورۂ آل عمران: آیت نمبر۴۷)

حضرت مریم علیہ السلام بچے کو گود میں لے کر جب شہر میں پہنچیں تو لوگوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور کہنے لگے:

’’مریم علیہ السلام یہ تو نے کیسی تہمت کا کام کر لیا ہے۔ اے ہارون کی بہن نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدچلن تھی پھر یہ کیا کر بیٹھی ہے؟‘‘

(سورۂ مریم: آیت نمبر۲۷۔۲۸)

مریم علیہ السلام نے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے لڑکے کی طرف اشارہ کیا جو کچھ پوچھنا ہے اس سے پوچھ لو میں تو آج روزے سے ہوں۔

حضرت مریم علیہ السلام کے اس واقعے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ خواتین کو بھی اللہ تعالیٰ نے مردوں کی طرح روحانی صلاحیتیں عطا کی ہیں۔

قرآن اور تصوف:

سورۂ رحمٰن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے!

’’اے گروہ جنات اور گروہ انسان! تم آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل کر دکھاؤ، تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے‘‘۔

(سورۂ رحمٰن: آیت نمبر۳۳)

تصوف میں سلطان کا مطلب چھ شعوروں پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔ کوئی انسان زمینی شعور میں رہتے ہوئے چھ شعوروں پر غلبہ حاصل کر لے تو وہ زمینی شعور سے باہر نکل سکتا ہے۔

ہر آسمان ایک شعور ہے آسمانی دنیا کو پہچاننے کے لئے ان شعوروں پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے آسمانی دنیا سے واقفیت ہونا ضروری ہے۔ جب انسان سات شعوروں کا ادراک حاصل کر لیتا ہے تو اس میں عرش معلیٰ کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔

گھڑی کی سوئیاں:

بورڈ کے اوپر گھڑی بنی ہوئی ہے۔ گھڑی میں سوئی کے ایک ساتھ ایک سے بارہ تک ہندسے لکھے ہوئے ہیں۔ ہندسے جس جگہ لکھے ہوئے ہیں وہ اسپیس ہے اور سوئی کا گھومنا ٹائم ہے، اگر سوئی کو اتنی رفتار سے گھمایا جائے کہ وہ پلک جھپکنے سے پہلے 12سے 6کے ہندسے پر پہنچ جائے تو شعور پردے میں چلا جائے گا اور جو شعور ایک، دو، تین کے وقفوں میں سے گزر کر چھ تک پہنچتا ہے وہ حذف ہو جائے گا۔ یعنی ذہن کی رفتار اتنی تیز ہو جائے گی کہ اسپیس کے وقفے نظر انداز ہو جائیں گے اور جب سوئی کو اس طرح گھما دیا جائے کہ وہ پلک جھپکنے سے پہلے بارہ پر پہنچ جائے تو ذہن کی رفتار اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ ایک سے بارہ تک وقفوں کو نظر پھلانگ جائے گی۔ (روحانی ڈائجسٹ)

انسان کے اندر بیک وقت دو نظریں کام کر رہی ہیں۔ ایک نظر وقفہ وقفہ سے کام کرتی ہے اور دوسری نظر وقفوں کی نفی کر کے آگے اور بہت آگے دیکھتی ہے۔

پیدائشی شعور:

ریورس میں بارہ سے گیارہ، گیارہ سے دس اور اسی طرح گزر کر ایک پر آ جائے تو اسے وہ شعور حاصل ہو جائے گا جو پیدائش کے وقت تھا۔

اگر سوئی بارہ کے ہندسے سے ریورس ہو کر بیک وقت دس پر آ جائے تو انسان کو وہ شعور حاصل ہو جاتا ہے جو اسے خواب دکھاتا ہے۔ اگر سوئی بارہ سے اچھل کر نو پر آ جائے تو اسے مراقبہ کا شعور حاصل ہو جاتا ہے۔ اگر سوئی آٹھ پر آ جائے تو اسے وہ شعور حاصل ہو جاتا ہے جس کو وحی کہتے ہیں۔ اور یہ وہی وحی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے شہد کی مکھی پر وحی کی۔

اگر بارہ کے ہندسے پر قائم سوئی تیزی کے ساتھ حرکت کر کے ایک دم سات پر آ جائے تو انسان کے اوپر کشف کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور اگر سوئی چھ پر آ جائے تو انسان کے اندر وہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے جس کو قرآن نے سلطان کہا ہے۔ یعنی اب انسان زمین کے کناروں سے باہر نکل سکتا ہے۔

پہلے آسمان کا شعور:

زمین کے کناروں سے باہر دیکھنے کی صلاحیت کے حامل سالک کے اندر پہلے آسمان کا شعور پیدا ہو جاتا ہے۔ علیٰ ہذالقیاس اس طرح سات آسمانوں کو وہ دیکھ لیتا ہے اور سات آسمانوں میں وہ داخل بھی ہو جاتا ہے۔

اللہ کریم نے فرمایا!

’’ہم نے آسمان اور زمین کو تہہ در تہہ بنایا ہے‘‘۔

’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم بھی انہی کی مانند ہے‘‘۔

’’اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے تخلیق کے کام سے ہم اچھی طرح واقف ہیں‘‘۔

(سورۃ المومنون: آیت نمبر۱۷)

تہہ در تہہ سے مراد دراصل وہ شعوری صلاحیتیں ہیں جو اللہ نے انسان کو ودیعت کی ہیں۔ سات تہوں والے آسمانوں یا زمین سے مراد یہ ہے کہ ہر تہہ ایک مکمل نظام ہے اور ہر نظام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ایسا ضابطہ حیات جس کا ایک دوسرے سے تصادم نہیں ہوتا۔ ان سب کا رشتہ خالق کائنات کے ساتھ قائم ہے۔

تمام چیزیں اور مخلوقات اس بات کا علم رکھتی ہیں کہ ہمارا خالق اللہ ہے اور اس علم پر یقین رکھتے ہوئے اللہ کی حمد و ثناء بیان کرتی ہیں اور شکر ادا کرتی ہیں۔

اربوں کھربوں سے زیادہ ان چیزوں یا مخلوقات میں سے کوئی ایک مخلوق بھی اللہ کی خالقیت سے انحراف کرے تو نظام زندگی میں خلل واقع ہو جاتا ہے۔

یہی بات اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے کہ تمام چیزیں جو آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اللہ کی حمد بیان کرتی ہیں یعنی اللہ کی خالقیت سے انحراف نہیں کرتیں۔ 


بچوں کے محمدﷺ (جلد دوئم)

خواجہ شمس الدین عظیمی

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔