Topics
تجلی تنزل کر کے نور بنتی
ہے اور نور تنزل کر کے روشنی یا مظہر بن جاتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر تجلی تنزل کر کے
نور بنی اور نور تنزل کر کے شئے یا مظہر بنا۔ ہر مظہر تجلی اور نور سے تخلیق ہوا،
پھر نور اور تجلی ہی میں فنا ہو گیا اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اس ناموجود کو
پھر موجود کر دے گا۔ صوفی علم شئے میں ہی تصرف کرتا ہے جس کا اثر شئے پر براہ راست
پڑتا ہے۔
تصرف کی تین قسمیں ہیں:
۱) معجزہ
۲) کرامت
۳) استدراج
یہاں تینوں کا فرق سمجھنا
ضروری ہے۔ استدراج وہ علم ہے جو اعراف کی بری روحوں یا شیطان پرست جنات کے زیر
سایہ کسی آدمی میں خاص وجوہ کی بناء پر پرورش پا جاتا ہے۔ صاحب استدراج کو اللہ کی
معرفت حاصل نہیں ہو سکتی، علم استدراج اور علم نبوت میں یہی فرق ہے کہ استدراج کا
علم غیب بینی تک محدود رہتا ہے اور علم نبوت انسان کو غیب بینی کی حدودوں سے گزار
کر اللہ کی معرفت تک پہنچا دیتا ہے۔ علم نبوت کے زیر اثر کوئی خارق عادت بنی سے
صادر ہوتی ہے تو اس کو معجزہ کہتے ہیں، ختم نبوت و رسالت کے بعد یہ وراثت اولیاء
اللہ کو منتقل ہوئی اور اولیاء اللہ سے صادر ہونیوالی خارق عادات کرامت کہلائی۔
لیکن یہ بھی علم نبوت کے زیر اثر ہوتی ہے، معجزہ اور کرامت کا تصرف مستقل ہوتا ہے،
مستقل سے مراد یہ ہے کہ جب تک صاحب تصرف اس چیز کو خود نہ ہٹائے وہ نہیں ہٹے گی۔
استدراج کے زیر اثر جو کچھ ہوتا ہے وہ مستقل نہیں ہوتا اور اس کا اثر فضا کے
تاثرات بدلنے سے خود بخود ضائع ہو جاتا ہے، استدراج کے زیر اثر جو کچھ ہوتا ہے اس
کو جادو کہتے هيں۔ اس کی ایک مثال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور میں بھی پیش
آئی ہے۔
اس دور میں صاف ابن صیاد
نام کا ایک لڑکا مدینے کے قریب کسی باغ میں رہتا تھا۔ موقع پا کر شیطان کے شاگردوں
نے اسے اچک لیا اور اس کی چھٹی حس کو بیدار کر دیا۔ وہ چادر اوڑھ کر آنکھیں بند کر
لیتا اور ملائکہ کی سرگرمیوں کو دیکھتا اور سنتا رہتا۔ وہ سرگرمیاں عوام میں بیان
کر دیتا۔
جب
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی شہرت سنی تو ایک روز حضرت عمر فاروق رضی اللہ
تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
’’آؤ! ذرا ابن صیاد کو دیکھیں۔‘‘
اس
وقت وہ مدینے کے قریب ایک سرخ ٹیلے پر کھیل رہا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے
اس سے سوال کیا۔
’بتا! میں کون ہوں؟‘‘
وہ
رکا اور سوچنے لگا۔ پھر بولا۔
’’آپ امیوں کے رسول ہیں لیکن آپ کہتے ہیں کہ میں خدا کا رسول
ہوں۔‘‘
حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔
’’تیرا علم ناقص ہے، تو شک میں پڑ گیا۔ اچھا بتا!۔۔۔میرے دل میں
کیا ہے؟
اس
نے کہا۔
’’دخ ہے۔‘‘ (ایمان نہ لانے والا) یعنی آپﷺ میرے متعلق یہ سمجھتے
ہیں کہ میں ایمان نہ لاؤں گا۔
حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔
’’پھر تیرا علم محدود ہے۔ تو ترقی نہیں کر سکتا۔ تو اس بات کو بھی
نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہے۔‘‘
حضرت
عمرؓ نے فرمایا۔
’’یا
رسول اللہﷺ! اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کی گردن مار دوں۔‘‘
حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا۔
’’اے عمر! اگر یہ دجال ہے تو اس پر تم قابو نہیں پا سکو گے اور اگر
دجال نہیں ہے تو اس کا قتل زائد ہے۔ اس کو چھوڑ دو۔‘‘
ابن
صیاد کی طرح کسی بھی صاحب استدراج کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی۔ علم
استدراج اور علم نبوت میں یہی فرق ہے کہ استدراج کا علم غیب بینی تک محدود رہتا ہے
اور علم نبوت انسان کو غیب بینی کی حدوں سے گزار کر اللہ تعالیٰ کی معرفت تک پہنچا
دیتا ہے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک میں کنکریوں نے تسبیح پڑھی۔
اور ان کنکریوں کی آواز حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان غنیؓ نے بھی
سنی۔ آج کے سائنسی دور میں اس معجزہ کی سائنسی تشریح پیش کرنا ہمارے پیش نظر ہے۔
ایک
دوپہر حضرت عثمان غنیؓ، سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت
حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ بھی وہاں موجود تھے۔
حضور
صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے دریافت فرمایا، تجھے کیا چیز یہاں لائی؟ انہوں نے
عرض کیا’’اللہ اور رسول کی محبت‘‘۔ اس سے قبل حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عمرفاروقؓ
بھی سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے استفسار پر یہی جواب دے چکے تھے۔ اس کے
بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سات یا نو کنکریاں ہاتھ میں لیں تو ان کنکریوں
نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے دستِ مبارک میں تسبیح پڑھی جس کی آواز شہد کی
مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح تھی۔
حضور
صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کنکریاں علیحدہ علیحدہ حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت عمرؓ اور
حضرت عثمانؓ کے ہاتھوں میں دیں تو کنکریوں نے سب کے ہاتھوں میں تسبیح پڑھی۔
آوازیں ہماری زندگی کا
حصہ ہیں۔ آواز آپس میں رابطہ کا ذریعہ اور معلومات کے تبادلے کا ایک طریقہ ہے۔
آواز کی بدولت ہم بہت سی چیزوں کو جانتے ہیں اور بہت سی باتوں سے لطف اندوز ہوتے
ہیں لیکن بہت سی آوازیں ایسی ہیں جو ہمیں سنائی نہیں دیتی۔ یہ آوازیں ہماری سماعت
سے ماوراء ہیں۔ پیچیدہ امراض کی تشخیص و علاج، صنعت و حرفت، تحقیق و تلاش کیلئے
الٹرا ساؤنڈ ویوز کا استعمال اب عام ہو گیا ہے۔ صدائے بازگشت کے اصول اور آواز کے
ارتعاش کی بنیاد پر یہ لہریں کام کرتی ہیں۔ یہ لہریں مادے کی مختلف حالتوں کے
درمیان امتیاز کر سکتی ہیں۔
انسان کی سماعت کا دائرہ
بیس ہرٹز (20 Hertz) سے بیس ہزار ہرٹز فریکوئنسی تک محدود ہے۔ جبکہ ورائے صوت موجوں
کی فریکوئنسی بیس ہزار ہرٹز(Hertz) سے دو کروڑ ہرٹز(Hertz) تک ہو سکتی ہے۔ اس لئے ہمارے کان ان آوازوں کو نہیں سن سکتے۔
موجوں کی دو بڑی اقسام
ہیں۔ ایک وہ جن میں ذرات سکڑتے ہیں اور پھیلتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور دوسرے وہ جو
آگے بڑھتے ہوئے اوپر نیچے حرکت کرتے ہیں، موجوں کی اقسام کی تقسیم فریکوئنسی اور
طول موج کی بنیاد پر کی گئی ہے۔
موج
مخصوص فاصلہ کو اوپر نیچے حرکت کرتے ہوئے طے کرتی ہے۔ یہ اس کا طول موج کہلاتا ہے۔
طول موج میں ایک حرکت اوپر کی طرف ہوتی ہے اور ایک حرکت نیچے کی جانب ہوتی ہے۔ ایک
مرتبہ اوپر اور ایک مرتبہ نیچے دونوں حرکتیں مل کر ایک چکر (Cycle) پورا کرتی ہیں اور ایک سیکنڈ میں کسی موج
کے جتنے سائیکل گزر جاتے ہیں وہ موج کی فریکوئنسی کہلاتی ہے۔
طول
موج زیادہ ہو تو فریکوئنسی کم ہوتی ہے۔ جبکہ طول موج کم ہونے کی صورت میں
فریکوئنسی زیادہ ہوتی ہے۔
ریڈیائی
لہریں کم فریکوئنسی کی برق مقناطیسی لہریں ہوتی ہیں اور ٹی وی نشریات زیادہ
فریکوئنسی کی برق مقناطیسی لہریں ہوتی ہیں۔ برق مقناطیسی لہروں کو آواز کی موجوں
کی طرح سفر کرنے کے لئے کسی واسطے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ پانی اور ہوا کے بغیر
بھی آگے بڑھتی رہتی ہیں اور خلاء میں آگے بڑھنے میں انہیں دقت پیش نہیں آتی۔
فریکوئنسی
اگر بہت بڑھ جائے تو موجیں شعاعیں بن جاتی ہیں جو سیدھی چلتی ہیں۔ کم طول موج اور
زیادہ فریکوئنسی ہونے کی وجہ سے ان لہروں کی کسی چیز میں سے گزر جانے کی صلاحیت
بڑھ جاتی ہے۔
قرآن
کریم میں کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر چیز ہماری حمد و ثناء بیان کرتی
ہے۔ یعنی کائنات میں موجود ہر شئے بولتی، سنتی اور ایک دوسرے کو پہچانتی ہے۔
’’ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں اللہ کی عظمت بیان کر
رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں۔ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد کے ساتھ اس
کی تسبیح نہ کرتی ہو۔ مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔‘‘
(سورۃ
بنی اسرائیل۔ آیت نمبر۴۴)
کائنات
میں ہر فرد قدرت کا بنا ہوا کمپیوٹر ہے اور اس کمپیوٹر میں کہکشانی نظاموں سے
متعلق تمام اطلاعات فیڈ ہیں اور کمپیوٹر ڈسک کی طرح یہ اطلاعات ہر کمپیوٹر میں
ذخیرہ ہیں۔ کہکشانی نظاموں میں جاری و ساری یہ اطلاعات، لہروں کے دوش پر ہر لمحہ
سفر کرتی رہتی ہیں۔ ہر موجود شئے کا دوسری موجود شئے سے لہروں کے ذریعہ اطلاعات کا
تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ سائنس دان روشنی کی رفتار کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتار قرار
دیتے ہیں لیکن وہ اتنی تیز رفتار نہیں ہے کہ زمانی مکانی فاصلوں کو منقطع کر دے۔
زمانی اور مکانی فاصلے لہروں کی گرفت میں رہتے ہیں۔ اگر کسی فرد کے ذہن میں جنات،
فرشتوں، آسمانوں اور زمین سے متعلق اطلاعات کا تبادلہ نہ ہو تو انسان فرشتوں،
جنات، درخت، پہاڑ، سورج اور چاند کا تذکرہ نہیں کر سکتا۔ کہکشانی نظام اور کائنات
میں جتنی بھی نوعیں اور نوعوں کے افراد کے خیالات کی لہریں ہمیں منتقل ہوتی رہتی
ہیں۔ اسی طرح ہماری زندگی سے متعلق تمام خیالات لہروں کے ذریعہ ہر مخلوق کو منتقل
ہوتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انسان کے علاوہ دوسری مخلوقات اس قانون سے واقف
نہ ہوں۔
خیالات
کی منتقلی ہی دراصل کسی مخلوق کی پہچان کا ذریعہ بنتی ہے۔ ہم کسی آدمی یا کسی
مخلوق کے فرد سے اس لئے متاثر ہوتے ہیں کہ مخلوق کے فرد کی لہریں ہمارے اندر دور
کرنے والی لہروں میں جذب ہو رہی ہیں۔ انسان کا لاشعور کائنات کے دور دراز گوشوں سے
مسلسل رابطہ رکھتا ہے۔ اس رابطہ کے ذریعہ انسان اپنا پیغام کائنات کے ہر ذرہ تک
پہنچا سکتا ہے اور دوسروں کے خیالات سے آگاہ ہو سکتا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ انسان
اس قانون سے واقف ہو جائے کہ کائنات کی تمام مخلوق کا خیالات کی لہروں کے ذریعہ
ایک دوسرے سے رابطہ اور تعلق ہے۔ خیال اس اطلاع کا نام ہے جو ہر آن اور ہر لمحہ
زندگی سے قریب کرتی ہے یا دنیاوی زندگی سے دور کر دیتی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
تصوف
کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار
کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا
ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ
محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی
صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس
اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان
ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے
ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند
بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ
صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا
نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے
اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل
کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں
بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت
اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا
علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔