Topics
دنیاوی علوم کی طرح سلاسل
طریقت اور خانقاہی نظام میں بیعت (شاگردی اختیار کرنا) بنیادی عمل ہے۔ بیعت فرض
نہیں ہے لیکن دنیا میں بہت سارے کام ایسے ہیں جو فرض نہیں ہیں۔ مثلاً کہیں نہیں
لکھا ہے انجینئر بننا فرض ہے، بڑھئی کا کام سیکھنا فرض ہے، ڈاکٹر بننا لازم ہے۔
لیکن بہرحال تعلیم حاصل کرنا معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ
تعالیٰ نے بیعت کے فوائد بیان کئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اے پیغمبر! جو لوگ آپ
کے ساتھ بیعت کرتے ہیں، اللہ کے ساتھ بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ
ہوتا ہے‘‘
(سورۃ فتح۔ آیت ۱۰)
’’تحقیق خرید لی اللہ نے
مسلمانوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اور اس کے بدلے میں ان کیلئے جنت ہے:
(سورۃ توبہ۔ آیت ۱۱۱)
’’اے ایمان والو! اللہ سے
ڈرو اور اس تک پہنچنے کے لئے وسیلہ تلاش کرو‘‘
(سورۃ مآئدہ۔ آیت ۳۵)
مفسرین، مقتدمین اور
اکابرین امت کے نزدیک وسیلہ سے مراد ’’مرشد‘‘ کا وسیلہ ہے۔ یعنی استاد شاگرد کا
رشتہ ہے۔ شاہ عبدالرحیمؒ ، شاہ ولی اللہؒ ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے وسیلہ سے
یہی معنی مراد لئے ہیں۔ اولیاء کرام کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ وسیلہ سے مراد شیخ
طریقت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا، لیکن منکرین طریقت کہتے ہیں کہ وسیلہ سے
مراد ’’نیک اعمال‘‘ ہیں۔
شاہ عبدالعزیز محدث
دہلویؒ فرماتے ہیں:
اگر نیک عمل وسیلہ ہے تو
شیخ طریقت بھی مرید کے لئے نیک اعمال کرانے کا یا صراط مستقیم پر چلانے کا اور
عرفان ذات کے بعد عرفان الٰہی حاصل کرنے کا وسیلہ ہے۔
علامہ ذمحشریؒ ، شاہ ولی
اللہؒ ، شاہ عبدالرحیمؒ ، بایزید بسطامیؒ ، جنید بغدادیؒ ، معین الدین چشتیؒ ،
نظام الدین اولیاءؒ اور تمام اولیاء کرام، قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ اور نقشبندیہ
سلاسل اور حضرت مجدد الف ثانیؒ ، مولانا رومؒ ، فرید الدین عطارؒ ، علامہ اقبالؒ اور
قلندر بابا اولیاءؒ لفظ ’’وسیلہ‘‘ سے مراد ’’شیخ‘‘ ہی لیتے ہیں۔
جب ہم انسانی جبلت اور
فطرت پر غور کرتے ہیں تو ایک بات کے علاوہ دوسری کسی بات پر ذہن نہیں رکتا کہ کوئی
بھی علم سیکھنے کیلئے استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔
لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ
کتاب اللہ کی موجودگی میں شیخ کی کیا ضرورت ہے؟
اس اعتراض کے جواب میں
کچھ حضرات یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ کی کتاب موجود ہے تو معلم کتاب کی ضرورت سوالیہ
نشان بن جائے گی۔ یہ بات امر مسلمہ ہے کہ دنیا میں کوئی فن ایسا نہیں ہے جس میں
ماہرین فن معلم اور استاد کی ضرورت نہ ہو۔
دین ایک مکمل علم ہے اور
دین میں شریعت بھی ایک علم ہے۔ اور شریعت مطہرہ کے ساتھ طریقت بھی ایک علم ہے۔ دین
توحید پرست لوگوں کیلئے ایک مرکز ہے۔
شریعت اس مرکز کے ساتھ
وابستہ رہنے کے قواعد و ضوابط اور رہنما اصول ہیں۔ طریقت اس مرکز پر محیط انوار و
تجلیات کے حصول کا ذریعہ ہے۔
جب کوئی بندہ شرک و بت
پرستی سے نکل کر اللہ پرست ہوتا ہے تو وہاں بھی اسے استاد کی ضرورت پیش آتی ہے۔
مسلمان ہونے کے بعد شریعت سیکھنے کے لئے بھی استاد کی ضرورت ہے۔ شریعت میں ارکان
نماز، اوقات نماز، روزہ کے آداب، حج کے آداب، معاشرتی قوانین، پڑوسیوں کے حقوق، اللہ
کے حقوق اور من حیث القوم مسلمانوں کے اسلامی عقائد کے مطابق فرض کی آگاہی کا علم
حاصل کرنے کے لئے بھی استاد کی ضرورت ہے۔
قرآن کریم اللہ کی آخری
کتاب ہے جو آخری نبی سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوئی۔ اس کو سمجھنے
کے لئے بھی استاد کی ضرورت ہے۔ اسی طرح تصوف یا روحانیت سیکھنے کے لئے بھی استاد
کی ضرورت ہے۔
ہم جب کوئی علم سیکھنا
چاہتے ہیں تو اس بات کا اطمینان کر لیتے ہیں کہ علم سکھانے والا صاحب علم ہے۔ اگر
ہمیں یہ بات معلوم ہو جائے کہ علم سکھانے والا وہ علم نہیں جانتا جو ہم سیکھنا
چاہتے ہیں تو ہم اس کی شاگردی اختیار نہیں کرتے۔
روحانی علوم سیکھنے کے
لئے ضروری ہے کہ انسان جس شخص کو مرشد بنائے اس کے بارے میں تصدیق کر لی جائے کہ
استاد روحانی علوم جانتا ہے یا نہیں؟
تعلیم و تربیت کے بغیر
شعور کی داغ بیل نہیں پڑتی اور نہ لاشعور کی درجہ بندی ہوتی ہے۔ شعور اور لاشعور
دونوں سے مراد تعلیم و تربیت کا حصول ہے۔
دنیا میں جب کوئی چیز
پیدا ہوتی ہے تو اسے اپنی ذات کے احساس کے علاوہ دوسری باتوں کا علم نہیں ہوتا۔
انسان کی پیدائش کے بعد
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اور انسان کو وہ علم
سیکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے یہ
بھی فرمایا ہے کہ:
’’اور ہم نے آدم کو علم
الاسماء سکھایا ہے‘‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ
انسان کے اندر پہلا شعور اس کا علم ہے۔
مثال: ایک شخص کا نام زید
ہے لیکن زید کا نام زید کی پیدائش کے بعد رکھا گیا ہے۔ پیدائش سے پہلے اس کا کوئی
نام معاشرے میں متعارف نہیں تھا۔ پیدا ہونے کے بعد زید میں جو پہلا شعور بنا وہ
ماں کی قربت ہے یعنی ماں کی قربت بھی علم ہے۔
بچہ ماں کی قربت کے علم
کے بعد ماں کا دودھ پیتا رہتا ہے اور ماہ و سال گزرنے کی مناسبت سے شعور میں اضافہ
ہوتا رہتا ہے اور شعوری سکت کے مطابق ماں باپ اور خاندان کے افراد زندگی کی
ضروریات سے متعلق بچے کے اندر علوم منتقل کرتے رہتے ہیں۔
بالآخر بچہ والدین، خاندان
اور برادری کے شعوری نقوش کو قبول کر کے اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس کے شعور میں
وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور پھر شعوری وسعت کے لحاظ سے قوم اور اقوام عالم کا شعور
بچہ کے شعور کے ساتھ ضرب در ضرب ہو کر ایک شعور لاکھوں شعور کے برابر ہو جاتا ہے۔
قانون یہ ہے کہ: جس شخص
میں جتنی زیادہ شعوری استعداد ذخیرہ ہو جاتی ہے اسی مناسبت سے وہ عالم فاضل اورGeniousہوتا
ہے۔
لیکن یہ بات اپنی جگہ اٹل
حقیقت ہے کہ اگر پہلے دن پیدا ہونے والے بچے میں شعور نہ ہو اور شعوری استعداد
قبول کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو بچہ عالم فاضل نہیں ہو گا اس کی مثال Handicappedبچے
ہیں۔
یہ بات بھی دھوپ کی طرح
روشن ہے کہ اگر ماحول میں اساتذہ کا کردار نہ ہو تب بھی بچہ عالم فاضل اور دانشور
نہیں ہو سکتا۔
ماحول میں اساتذہ کے
کردار کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کیلئے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں موجود ہوں۔
جس طرح دنیاوی علوم سیکھنے کے لئے اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کا ہونا ضروری ہے،
اسی طرح علم طریقت، تصوف یا روحانی علوم سیکھنے کے لئے درسگاہیں (خانقاہی نظام)
ضروری ہے۔
جب سے خانقاہی نظام پر
قدغن لگائی گئی ہے۔ اسی وقت سے انسان بے سکون، بے چین، پریشان، ایڈز اور کینسر
جیسے موذی مرض کا شکار بن گیا ہے۔ اس لئے کہ انسان کا مادی وجود سڑاند اور تعفن کے
علاوہ کچھ نہیں ہے۔ سڑاند اور تعفن میں امراض ہی پیدا ہو سکتے ہیں۔
دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ
قرآن پاک اور احادیث کی تعلیم کے مطابق جسمانی وجود کو زندہ رکھنے والی، سہارا
دینے والی، روح کا ادراک ضروری ہے اور روح کے ادراک کیلئے بیعت یعنی روحانی استاد
کی شاگردی ضروری ہے۔ تصوف کا اصل اصول یہ ہے کہ روح (انسان کی اصل) نور اور
روشنیوں سے بنی ہوئی ہے۔ جب تک روشنیوں کا انسان مادی جسم کو اپنا معمول بنائے
رکھتا ہے انسان زندہ رہتا ہے اور جب روشنیوں کا انسان مادی عناصر سے بنے ہوئے جسم
کو چھوڑ دیتا ہے تو آدمی مر جاتا ہے۔
روحانی استاد، عرف عام
میں جسے مرشد کہا جاتا ہے اس قانون سے واقف ہوتا ہے اور یہ علم اسے اپنے مرشد اور
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے منتقل ہوتا ہے۔
روحانی شاگرد یا مرید جب
مرشد کے حلقہ میں آ جاتا ہے تو مرید کے اندر Positiveاور Negativeروشنیوں
کا نظام بحال ہو جاتا ہے۔ مرید کی روشنیوں میں مراد کی روشنیاں شامل ہو جاتی ہیں۔
اس عمل سے بتدریج تعفن کم ہوتا رہتا ہے۔ جس مناسبت سے تعفن کم ہوتا ہے اسی مناسبت
سے لطیف روشنیوں کا ذخیرہ ہوتا رہتا ہے۔
مرید ہونے سے پہلے ضروری
ہے کہ شیخ کی زندگی کے احوال و اعمال سے مرید مطمئن ہو اگر مرید اور مراد میں ذہنی
ہم آہنگی نہ ہو تو مرید کرنا یا مرید ہونا دونوں باتیں عقل و شعور کے خلاف ہیں۔
مختصراً اس کا مطلب یہ ہے
کہ جب تک مراد اور مرید دونوں کے مزاج میں، عادات و خصائل میں، نشست و برخاست میں،
وضع داری میں، طریقت و شریعت میں پوری طرح مطابقت نہیں ہو گی بیعت کا فائدہ نہیں
ہو گا۔
ایک جگہ بیعت ہونے کے بعد
مرشد کی اجازت کے بغیر مرید کسی دوسری جگہ بیعت نہیں ہو سکتا۔ مرشد کے وصال کے بعد
بھی بیعت ختم نہیں کی جا سکتی۔ البتہ کسی صاحب روحانیت کی شاگردی اختیار کی جا
سکتی ہے۔ وصال کے بعد بیعت کو اس لئے ختم نہیں کیا جا سکتا کہ وصال کے بعد بھی
روحانی فیض جاری رہتا ہے۔
روحانی علم دراصل ورثہ
ہوتا ہے۔ جس طرح صُلبی باپ اولاد کی بہترین تربیت کرنا اپنا مقصد زندگی سمجھتا ہے
اسی طرح مرشد بھی شب و روز روحانی اولاد کی تربیت میں مشغول رہتا ہے۔ بڑی اذیتیں
تکلیفیں اور پریشانیاں برداشت کر کے اپنے شاگرد کے اندر روحانی طرز فکر منتقل کرتا
رہتا ہے۔ شاگرد کی کوتاہیوں پر صبر کرتا ہے۔ اس کی غلطیوں کو معاف کرتا ہے۔ مرشد
اپنے شاگرد کے لئے مکمل ایثار ہوتا ہے۔
تربیت کے دو طریقے ہیں:
ایک طریقہ یہ ہے کہ ڈانٹ
ڈپٹ کر تربیت کی جائے، غصہ کر کے کسی کام سے روکا جائے۔ اس طرز عمل سے تربیت تو ہو
جاتی ہے لیکن بندے کو جب بھی موقع ملتا ہے اور خوف دامن گیر نہیں ہوتا وہ اس کام
کو ضرور کرتا ہے جس سے منع کیا گیا تھا۔
تربیت کا دوسرا طریقہ یہ
ہے کہ کوتاہیوں پر صبر کیا جائے اور غلطیوں کو معاف کیا جائے۔ اس قدر معاف کیا
جائے کہ بندہ شرمندہ ہو کر ان کوتاہیوں اور غلطیوں کو چھوڑ دے۔ ایسا شخص غلطیوں کو
نہیں دہراتا بلکہ تربیت کرنے والے استاد سے محبت کرتا ہے۔
جاں نثاری کی آخری حد تک
اس کا ساتھ دیتا ہے۔
اولیاء اللہ نے روحانی
استاد کی جو خصوصیات بیان کی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
۱)
حقوق العباد پورے کرتا ہو۔
۲) آخرت کی زندگی پر یقین
رکھتا ہو۔
۳)
اللہ تعالیٰ کے دیدار کا مشتاق ہو۔
۴)
کمال کا دعویٰ نہ کرتا ہو۔
۵)
کرامت دکھانے کا شوقین نہ ہو۔
۶)
اسے اولیاء اللہ کی قربت حاصل ہو۔
۷)
سیرت طیبہ پر اس کا عمل ہو اور سیرت طیبہ کے مطابق اپنے شاگردوں کی تربیت کرے۔
۸)
ہر حال و قال میں اس کا منتہائے نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اخلاق حسنہ
ہو۔
۹)
راسخون فی العلم ہو۔
۱۰)
ہر بات کو منجانب اللہ سمجھتا ہو۔
۱۱)
اس کی مجلس میں بیٹھنے سے دنیا کی محبت میں کمی اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں
یکسوئی محسوس ہوتی ہو۔
۱۲)
جو کچھ مریدین سے چاہتا ہو خود بھی اس پر عمل کرے کیونکہ عمل کے بغیر تعلیم کا اثر
نہیں ہوتا۔
۱۳)
صالح اور معلم ہو۔
۱۴)
ضرورت مندوں کی درخواست کو غور سے سن کر اس کا تدارک کرے۔
۱۵)
اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنے سے خوش ہو۔
۱۶)
مرشد جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس پر دل کی گہرائیوں سے شکر کرے اور جو کچھ حاصل نہیں
ہے اس کا شکوہ نہ کرتا ہو۔
علم طریقت حاصل کرنے کے
لئے عشق بے حد ضروری ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کے بغیر
کوئی مسلمان مومن نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’مومنین شدت کے ساتھ
اللہ سے محبت کرتے ہیں‘‘
’’اے نبی(صلی اللہ علیہ و
سلم) کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو اللہ تم سے محبت
کرے گا‘‘
(سورۃ آل عمران۔ آیت ۳۱)
جس سے اللہ محبت کرتا ہے
وہ اللہ کا محبوب ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت
سے بندے کو مقام محبوبیت عطا ہو جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
و سلم کا ارشاد ہے کہ:
’’جس میں محبت نہیں اس
میں ایمان نہیں‘‘
حدیث قدسی ہے:
میں چھپا ہوا خزانہ تھا،
میں نے محبت کے ساتھ مخلوق کو پیدا کیا تا کہ مخلوق مجھے پہچانے۔
بیعت کرنے سے پہلے مرشد
کے انتخاب میں اگر دقت پیش آئے تو تصور کرنا چاہئے کہ اس کی قربت سے دل میں اثر
پیدا ہوتا
ہے یا نہیں یعنی دل میں
اللہ کی محبت محسوس ہوتی ہو اور گناہوں سے بیزاری ہو۔
حدیث شریف میں اولیاء
اللہ کی یہ علامت بیان کی گئی ہے:
’’جب انہیں دیکھو اللہ
یاد آئے‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
تصوف
کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار
کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا
ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ
محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی
صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس
اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان
ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے
ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند
بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ
صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا
نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے
اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل
کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں
بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت
اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا
علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔