Topics

نسبت

نسبت علمیہ:

صحابہ کرام کے دور میں اور قرون اولٰی میں لوگوں کو مرتبہ احسان حاصل تھا۔ ان کے لطائف حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت سے رنگین تھے۔ ان کی توجہ زیادہ تر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق غور و فکر میں صرف ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے روحانی قدروں کے جائزے زیادہ نہیں لئے چونکہ ان کی روحانی تشنگی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال پر توجہ صرف کرنے میں پوری ہو جاتی تھی۔ ان کو احادیث میں بہت زیادہ شغف تھا۔ اس انہماک کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ لوگوں کے ذہن میں احادیث کی صحیح ادبیت، ٹھیک ٹھیک مفہوم اور پوری گہرائیاں موجود تھیں۔ صحابہ کرام اور صحابیات احادیث پڑھنے کے بعد اور احادیث سننے کے بعد حدیثوں کے انوار سے پورا استفادہ کرتے تھے۔ اس طرح انہیں الفاظ کے نوری تمثلات کی تلاش کی ضرورت نہیں پڑتی تھی وہ الفاظ کے نوری تمثلات سے روشناس تھے۔

صحابیات اور صحابہ کرام کی روحیں قرآن پاک کے انوار۔ نور قدس اور نور نبوت سے لبریز تھیں۔ اس دور میں روحانی قدروں کا ذکر نہ ہونا غالباً اس ہی وجہ سے تھا کیونکہ صحابہ کرام کو لطائف کے رنگین کرنے میں الگ سے جدوجہد نہیں کرنا پڑتی تھی۔
البتہ تبع تابعین کے بعد لوگوں کے دلوں سے قرآن پاک اور احادیث کے انوار جب معدوم ہونے لگے تو اس دور کے لوگوں نے تشنگی محسوس کر کے وصول الی اللہ کے ذرائع دریافت کئے چنانچہ شیخ نجم الدین کبریٰ اور ان کے شاگرد مثلاً شیخ شہاب الدین سہروردیؒ ، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ، خواجہ معین الدین چشتیؒ اور ان کے رفقاء ایسے لوگ تھے جنہوں نے قرب نوافل کے ذریعے وصول الی اللہ کی طرزوں میں لاشمار اختراعات کیں اور طرح طرح کے اذکار اشغال کی ابتداء کی۔ یہ طرزیں شیخ حسن بصری کے دور میں نہیں ملتیں۔

باذوق و بامراد ان قدسی نفس لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات جاننے میں انہماک حاصل کیا اور پھر ذات کو سمجھنے کی قدریں قائم کیں اسی ربط کا نام صوفی حضرات نسبت علمیہ رکھتے ہیں کیونکہ اس ربط یا ضبط کے اجزاء زیادہ تر جاننے پر مشتمل ہیں۔

جب اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھنے کے لئے کوئی صوفی فکر کا اہتمام کرتا ہے اس وقت وہ معرفت کی ان راہوں پر ہوتا ہے جو ذکر کے ساتھ فکر کے اہتمام سے لبریز ہوتی ہے۔ اس راستے کو قرب نوافل کہتے ہیں۔

نسبت سکینہ:

یہ نسبت اول جذب پھر عشق اور پھر سکینہ کے نسبتوں کے مجموعے پر مشتمل ہے۔ سکینہ وہ نسبت ہے جو اکثر صحابیات اور صحابہ کرام کو حاصل تھی۔ یہ نسبت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کے ذریعے نور نبوت کے حصول سے پیدا ہوتی ہے۔

نسبت عشق:

جب قلب انسانی میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور احسان کا ہجوم ہوتا ہے اور انسان قدرت کے عطیات میں فکر کرتا ہے تو اس وقت اللہ کے نور کے تمثلات بار بار انسانی طبیعت میں موجزن ہوتے ہیں۔ یہاں سے اس ربط یا نسبت عشق کی داغ بیل پڑ جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ اس نسبت کے باطنی انہماک کی کیفیتیں رونما ہونے لگتی ہیں پھر ان لطیفوں پر رنگ چڑھنے لگتا ہے یعنی لطیفوں میں انوار الٰہیہ پے در پے پیوست ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح نسبت عشق کی جڑیں مستحکم ہو جاتی ہیں۔

نسبت جذب:

یہ وہ نسبت ہے جس کو تبع تابئین کے بعد سب سے پہلے حضرت بہاؤ الدین نقشبندؒ نے نشان بے نشانی کا نام دیا ہے اس ہی کو نقشبندی جماعت یادداشت کا نام دیتی ہے۔ جب عارف کا ذہن اس سمت میں رجوع کرتا ہے جس سمت ازل کے انوار چھائے ہوئے ہیں اور ازل سے پہلے کے نقوش موجود ہیں۔ یہی نقوش عارف کے قلب پر بار بار دور کرتے ہیں اور صرف ’’وحدت‘‘ عارف کی فکر اور سوچ کا احاطہ کر لیتی ہے اور ہر طرح ہوئیت کا تسلط ہو جاتا ہے۔ اس نسبت کی شعاعیں روح پر نزول کرتی ہیں اور جب عارف ان میں گھر جاتا ہے اور کسی طرف نکلنے کی راہ نہیں پاتا تو عقل و شعور سے دستبردار ہو کر خود کو اس نسبت کی روشنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔

نسبت کی بہت سی قسمیں ہیں ہم نے نسبت سے آگاہی اور نسبت کے مفہوم سے باخبر ہونے کے لئے چند نسبتوں کا ذکر کیا ہے۔

نسبت سے مراد یہ ہے کہ جس بزرگ سے آپ کا روحانی تعلق قائم ہو جائے۔ آپ کی طرز فکر اس کی طرز فکر کے مطابق ہو جائے۔

اللہ والوں کی تعریف یہ ہے کہ ان کا ہر عمل اور ہر کام اللہ کے لئے ہوتا ہے یعنی وہ اللہ کی معرفت سوچتے ہیں۔ اللہ کے لئے سوتے ہیں۔ اللہ کے لئے جاگتے ہیں۔ ایسے الوالعزم بندوں کی زندگی اللہ کے لئے وقف ہوتی ہے وہ کہتے ہیں کہ:

’’ہمارا یقین ہے ہر امر اللہ کی طرف سے ہے‘‘

قربِ نوافل، قربِ فرائض:

روحانی علوم سیکھنے اور روحانیت میں داخل ہونے کے لئے دو طریقے ہیں ایک طریقے کا نام قربِ نوافل ہے اور دوسرے طریقے کا نام قربِ فرائض ہے۔ قربِ نوافل ہو یا قربِ فرائض دونوں علوم مرشد کریم یا کسی ولی اللہ سے منتقل ہوتے ہیں۔ براہ راست اولیاء اللہ کی ارواح سے منتقل ہونے والے روحانی علوم نسبت اویسیہ کے تحت منتقل ہوتے ہیں۔


بچوں کے محمدﷺ (جلد دوئم)

خواجہ شمس الدین عظیمی

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔