Topics

انسانی دماغ

آدم کی اولاد میں زندگی گزارنے کے لئے دو دماغ استعمال ہوتے ہیں۔ ایک دماغ کا تجربہ ہمیں دن کے وقت بیداری میں اور دوسرے دماغ کا تجربہ رات کے وقت نیند میں ہوتا ہے۔ ایک دماغ دائیں طرف ہوتا ہے اور دوسرا دماغ بائیں طرف ہوتا ہے۔
دائیں دماغ کا تعلق لاشعوری حواس سے ہے اور بائیں دماغ کا تعلق شعوری حواس سے ہے، دایاں دماغ وجدانی دماغ ہے اور بایاں دماغ منطقی اور تنقیدی دماغ ہے۔ دائیں دماغ میں لامحدود علوم ہیں اور بائیں دماغ میں محدود علوم کا ذخیرہ ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ہم آٹھ ہزار یادداشتیں فی سیکنڈ کے حساب سے اپنے دماغ میں ریکارڈ کرتے جائیں تو اس میں اتنی گنجائش ہے کہ ہم لگاتار بغیر کسی وقفہ کے ۷۵ سال تک یادداشتیں ریکارڈ کر سکتے ہیں۔

مشہور سائنسدان آئن سٹائن کا دماغ امریکہ کی لیبارٹری میں محفوظ ہے، بڑے بڑے محققین نے اس پر محض اس غرض سے ریسرچ کی ہے کہ وہ کسی طرح یہ جان لیں کہ آئن اسٹائن کی دماغی ساخت میں ایسی کون سی صلاحیت تھی جس نے اسے جینئس بنا دیا لیکن ابھی تک انہیں ایسی کوئی چیز نہیں مل سکی جو عام آدمی کے دماغ اور جینئس آدمی کے دماغ میں امتیاز پیدا کر سکے۔
آئن اسٹائن کو اس صدی کا عظیم اور جینئس سائنسدان کہا جاتا ہے، اپنے بارے میں اس نے خود کہا تھا کہ تھیوریز میں نے خود نہیں سوچیں بلکہ وہ اس پر الہام ہوئی تھیں، یاد رہے یہ وہی آئن سٹائن تھا جو اسکول کے زمانے میں نالائق ترین طالب علم شمار کیا جاتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایک نالائق طالب علم جینئس کیسے بن گیا؟

Sleep Laboratories:

دنیا بھر میں Sleep Laboratoriesمیں ہونے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بلاتخصیص جینئس اور عام آدمی جب سوتا ہے تو اس کا دماغ Data Processingکا کام شروع کر دیتا ہے، بیداری کے وقت انسانی دماغ میں چلنے والی برقی رو ایک مخصوص حد تک کام کرتی ہے تو شعور ٹھیک کام کرتا ہے۔ اگر ان لہروں میں اضافہ ہو جائے تو انسان پریشان اور بے سکون ہوجاتا ہے۔ ان لہروں میں مزید زیادتی ہو جائے تو بے ہوشی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔

فی زمانہ زیادہ تر لوگ بائیں دماغ کے زیر اثر رہتے ہیں۔ بائیں دماغ میں نسیان کا عمل دخل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائناتی علوم سے بےخبری سے انسان مصائب اور مشکلات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

وجدانی دماغ:

دن کے وقت دماغ بے دریغ استعمال ہوتا ہے اور وجدانی دماغ استعمال نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کائنات کے حقیقی علم سے بے خبر رہتا ہے۔ اس بے خبری کا علاج یہ ہے کہ انسان اپنے وجدانی دماغ سے رابطہ میں رہے۔ وجدانی دماغ سے رابطہ قائم رہنے سے۔۔۔شعوری دماغ میں اتنی سکت پیدا ہو جاتی ہے کہ انسان وجدانی دماغ کی کارگزاریوں سے واقف ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں دماغ آدھے یونٹ کے طور پر نہیں بلکہ پورے یونٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ نتیجہ میں غلطیوں، تکلیفوں، بے سکونی اور پیچیدہ بیماریوں کے امکانات حیرت انگیز طور پر کم ہو جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس وقت انسانی صلاحیتوں سے بہتر سے بہتر کام لینے پر جتنی بھی ریسرچ ہو رہی ہے ان سب کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح دائیں دماغ اور بائیں دماغ کا رابطہ قائم ہو جائے۔ اہل تصوف بتاتے ہیں۔۔۔اگر انسان اپنی زندگی کا نصف حصہ۔۔۔نیند کی صلاحیت سے واقفیت حاصل کر لے تو ۔۔۔دائیں دماغ اور بائیں دماغ سے رابطہ قائم ہو جائے گا۔۔۔دائیں دماغ اور بائیں دماغ میں رابطہ قائم ہونے سے انسان مخفی علوم اور غیب کی دنیا کے شب و روز سے واقف ہو جاتا ہے۔

سانس زندگی ہے:

زندگی اور زندگی سے متعلق جذبات و احساسات، واردات و کیفیات، تصورات و خیالات اور زندگی سے متعلق تمام دلچسپیاں اس وقت تک ہیں جب تک سانس کا سلسلہ قائم ہے، سانس اندر جاتا ہے، سانس باہر آتا ہے، اندر کے سانس سے باطن کا رشتہ جڑ جاتا ہے، سانس باہر نکلنے سے حواس میں درجہ بندی ہوتی ہے۔

آنکھیں بند کر کے پوری یکسوئی کے ساتھ جب ہم اندر سانس لیتے ہیں تو شعور باطن کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور جب سانس باہر آتا ہے تو ہماری توجہ ظاہر دنیا کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ نتیجہ میں ہم شک، خوف، لالچ و طمع، جھوٹ اور منافقت کی دنیا میں منتقل ہو کر اس دنیا سے دور ہو جاتے ہیں جس دنیا میں سکون و آرام کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

غیب کی دنیا:

مخفی دنیا کی مثال تالاب کی طرح ہے۔ ٹھہرے ہوئے پانی میں جھانکنے سے ہمیں پانی کے اندر اپنی تصویر نظر آتی ہے۔ اسی طرح باطن میں کائنات کے سارے افراد باہم و دیگر ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔

کائنات قدرت کا ایک کارخانہ ہے۔ آسمان، زمین، اجرام سماوی، درخت، پہاڑ، چرند و پرند، حشرات الارض، جنات، فرشتے اور انسان سب اس کارخانے کے کل پرزے اور گراریاں ہیں، ہر پرزہ دوسرے پرزے سے جڑا ہوا ہے ، کسی ایک پرزے کی کارگزاری بھی اعتدال سے ہٹ جائے تو مشین رک جاتی ہے یا جھٹکے کھانے لگتی ہے۔ ہر پرزہ اپنی کارکردگی کی حد سے واقف ہے لیکن مشین جس میکانزم پر چل رہی ہے پرزہ اس سے واقف نہیں ہے۔

حرکت مخفی اسکیم ہے جو مظاہر کے پس پردہ کام کر رہی ہے۔ مخفی اسکیم تاریکی اور روشنی کی گہرائی میں ایسے نقوش تخلیق کرتی ہے جن کو ہمارے حواس دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ مثلاً اپنے ہاتھ پر بندھی ہوئی گھڑی دیکھئے، گھنٹے، منٹ اور سیکنڈ کی سوئی ڈائل میں موجود ہے، سیکنڈ کی سوئی تیزی سے حرکت کر رہی ہے آنکھ اس حرکت کو محسوس کر لیتی ہے، منٹ اور گھنٹے کی سوئیاں بھی حرکت میں ہیں لیکن ہماری آنکھ اس حرکت کو محسوس نہیں کرتی اور جب ہم تھوڑے سے وقفہ کے بعد ان سوئیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں سوئیوں کا حرکت کرنا نظر آتا ہے۔

ایک حرکت یہ ہے کہ سوئیاں کم یا زیادہ رفتار سے چل رہی ہیں اور دوسری حرکت یہ ہے، جو ساری مشین چل رہی ہے لیکن نگاہ سے چھپی ہوئی ہے۔

گھڑی کے اندر اسپرنگ، لیور اور گراریاں ہیں، ان کے باہمی عمل اور اشتراک سے حرکت کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے، کوئی آگے حرکت کر رہا ہے، کوئی دائرے میں گھوم رہا ہے۔ کوئی لحظہ بہ لحظہ اپنے حجم کو زیادہ کر رہا ہے اور کوئی سمٹ رہا ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ حرکت الٹی سیدھی کیوں ہے؟ لیکن تفکر کرنے سے ذہن کھل جاتا ہے، ماہ و سال کے تجزیہ سے منکشف ہوتا ہے کہ زندگی اربوں کھربوں کل پرزوں سے بنی ہوئی ایک مشین ہے۔

جس طرح انسان کی بنائی ہوئی کوئی بھی چھوٹی بڑی مشین توانائی (موبل آئل) کی محتاج ہے اسی طرح انسانی پنجرہ میں بند مشین بھی توانائی (چکنائی) کی محتاج ہے۔

بارہ کھرب خلئے:

دل، دماغ، گردے، پھیپھڑے، معدہ، آنتیں سب نظر نہ آنے والی توانائی سے حرکت کر رہے ہیں، ان بنیادی پرزوں کے ساتھ تقریباً بارہ کھرب پرزے (خلئے) خود بخود متحرک ہیں، آدم زاد کی کوتاہ نظری ہے کہ وہ اپنے اندر آواز کے ساتھ جھٹکے کے ساتھ، تیز اور مدھم رفتار کے ساتھ چلنے والی مشین کو دیکھ نہیں سکتا اس کی آواز سن نہیں سکتا، مشین کو چلانے والی توانائی کا غیر مرئی سلسلہ منقطع ہو جائے تو اسے بحال نہیں کر سکتا۔

چراغ میں توانائی:

توانائی کا کام خود جل کر مشین کو حرکت میں رکھنا ہے۔ توانائی اگر اعتدال میں رہے تو زندگی بڑھ جاتی ہے، توانائی ضائع     ہو جائے تو زندگی کا چراغ بھڑک کر بجھ جاتا ہے۔

سانس کی مشقوں اور مراقبہ کرنے سے انسان کے اندر توانائی کا ذخیرہ بڑھ جاتا ہے۔۔۔اور کیلوریز (Calories) کم خرچ ہوتی ہیں جس کی وجہ سے توانائی کا گراف اوپر چلا جاتا ہے۔

مراقبہ کرنے والا بندہ پُرسکون رہتا ہے۔ نیند فوراً آ جاتی ہے۔ چہرہ پر سے جھریاں ختم ہو جاتی ہیں۔ پرکشش چہرہ کی وجہ سے اپنے پرائے سب پسند کرتے ہیں۔ وسوسوں، شکوک و شبہات سے نجات مل جاتی ہے۔

جس شخص کے اندر جتنا شک ہوتا ہے اسی مناسبت سے پریشان ہوتا ہے اور پریشانی سے طرح طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ وسوسوں اور ذہنی دباؤ سے محفوظ رہنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت طیبہ کو بار بار پڑھا جائے۔ اللہ کی مخلوق کی خدمت کی جائے، دل کی تصدیق کے ساتھ اللہ کو اپنی ضروریات کا کفیل سمجھا جائے۔۔۔اور وقت کی پابندی کے ساتھ مراقبہ کیا جائے۔


بچوں کے محمدﷺ (جلد دوئم)

خواجہ شمس الدین عظیمی

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔