Topics
جب بیت اللہ شریف کی
تعمیر ہو گئی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا:
اے ابراہیم! لوگوں میں حج
کا اعلان کر دو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا ’’یا اللہ میری آواز کس طرح
پہنچے گی یہاں ہم تین آدمیوں کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے
فرمایا۔ ’’اے ابراہیم! آواز پہنچانا ہمارے ذمہ ہے۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
حج کا اعلان کر دیا۔ اس آواز کو آسمانوں اور زمین میں اور اس کے درمیان جتنی بھی
مخلوق ہے سب نے سنا۔ حج کا یہی وہ اعلان ہے جس کے جواب میں حاجی حضرات حج کے دوران
لیبک اللھم لبیک کہتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
و سلم کا ارشاد ہے:
’’جس شخص نے خواہ وہ پیدا
ہو چکا تھا یا ابھی عالم ارواح میں تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آواز سن کر
لبیک کہا وہ حض ضرور کرتا ہے۔‘‘
سورۃ بقر ہ میں ارشا د ہے
:
’’حج کے چند مہینے ہیں جو
معلوم ہیں پس جو شخص ان ایام میں اپنے اوپر حج مقرر کرے تو پھر نہ کوئی فحش بات
جائز ہے اورنہ حکم عدولی درست ہے اور نہ کسی قسم کا جھگڑا زیبا ہے اور جو نیک کام
کرو گے اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہیں۔‘‘
(سورۂ بقرہ۔ آیت نمبر۱۹۷)
حضور صلی اللہ علیہ و سلم
کا ارشاد ہے:
’’جو شخص اللہ کے لئے حج
کرے اس طرح کہ اس میں فحش بات اور حکم عدولی نہ ہو تو وہ ایسا ہے جیسا ماں کے پیٹ
سے پیدا ہوا تھا۔‘‘
(مشکوٰۃ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
’’جب کسی حاجی سے ملاقات
ہو تو اس کو سلام کرو، اس سے مصافحہ کرو اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر میں داخل
ہو اس سے اپنی مغفرت کے لئے دعا کراؤ۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام
نے خواب میں دیکھا کہ انہیں چہیتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم
دیا گیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام
تجسس، تحقیق اور مشاہداتی عمل سے اس نتیجہ پر پہنچ گئے تھے کہ ’’اللہ طلوع اور
غروب ہونے والی ہستی نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ یقین ان کے بیٹے
حضرت اسماعیل علیہ السلام کو منتقل ہوا اور جب آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو
خواب سنایا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا ’’آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اسے
پورا کریں انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ
السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے کر منیٰ کے مقام پر آئے اور ایک جگہ انہیں
لٹا دیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا۔
آنکھیں بند کر لو اور خود
بھی اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام
نے اللہ کا نام لے کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری پھیر دی۔ جب وہ
اپنی دانست میں پیارے بیٹے کو ذبح کر چکے تو آواز آئی۔ ابراہیم! آنکھیں کھول دے۔
دیکھا کہ ایک تندرست دنبہ ذبح کیا ہوا سامنے پڑا ہے۔
’’اے ابراہیم! بے شک سچ
کر دیا تو نے اپنے خواب کو تحقیق اسی طرح ہم جزا دیتے ہیں احسان کرنے والوں کو۔‘‘
(سورۂ الصٰفٰت: آیت
نمبر۱۰۴۔ ۱۰۵)
حج کے ارکان میں قربانی
اور ہر سال بقرہ عید میں قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال قربانی اور
ایثار کا مسلسل تواتر ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے اہل استطاعت پر واجب کر دیا ہے۔
اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد
حضرت جبرائیل علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا:
’’اللہ تعالیٰ نے آپ پر
سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ اس سرزمین پر اللہ کا گھر تعمیر کرو تا کہ لوگ
آئیں اور اپنے رب کے گھر کا طواف کریں۔‘‘
آپ نے اپنے بیٹے حضرت
اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ جس مقام پر شیطان نے آپ
دونوں کو بہکانا چاہا تھا اور آپ دونوں نے اس پر کنکریاں ماری تھیں۔ حج کے رکن کی
صورت میں آج بھی جاری ہے۔ اللہ کے ہر حکم میں بہت ساری حکمتیں چھپی ہوئی ہیں۔
حج کا ایک رکن شیطان کو
کنکریاں مارنا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت ابراہیم
علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کے لئے لے کر چلے تو
منیٰ کے مقام پر شیطان نے انہیں اپنے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی۔
آپ نے شیطان کو کنکریاں
مار کر بھگا دیا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں حج کے دوران شیطان کو کنکریاں ماری جاتی
ہیں۔ کنکریاں مارنے کی حکمت یہ ہے کہ اگر اللہ کے حکم کی تعمیل میں کوئی رکاوٹ آئے
تو اس کی مزاحمت کی جائے۔ ذہنی مزاحمت کے ساتھ جسمانی طاقت بھی استعمال کی جائے۔ یہاں
تک کہ اللہ کا حکم پورا ہو جائے اور شیطان اپنے وسوسوں میں مایوس اور نامراد ہو
جائے۔
عمل کی تکمیل اس وقت ہوتی
ہے جب عمل کرنے کا وقت اور جگہ کا تعین کر لیا جائے۔ کسی کام کا خیال دماغ میں آتا
ہے تو اس خیال کی کوئی نہ کوئی صورت ہوتی ہے۔ مثلاً شک کی صورت ایک الجھے ہوئے جال
جیسی ہوتی ہے۔ آدمی اگر جال میں پھنس جائے تو نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ملتا۔ آدمی
جتنا جال سے نکلنا چاہتا ہے جال مزید الجھ جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا حکم لطیف
انوار کا ذخیرہ ہے۔ جبکہ ناسوتی کثیف روشنیاں عملی راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ شیطان
کھلا دشمن ہونے کی وجہ سے آدمی کے نفس کو کثافت سے بھر دیتا ہے۔ ’’نفس‘‘ (مٹی کے
عناصر کا مرکب) میں شک، وسوسہ، غرور و تکبر، حسد، نافرمانی اور غیر اخلاقی باتیں
آتی رہتی ہیں۔
’’نفس‘‘ دو راستوں پر سفر
کرتا ہے۔ ایک ناسوتی۔ دوسرا غیبی دنیا کا راستہ۔ ناسوتی دنیا میں شیطان وسوسے
ڈالتا ہے اور شیطان کی انسپائریشن حکم الٰہی اور انسانی عقل کے درمیان شک بن جاتا
ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شیطان کو کنکریاں مارنا شیطانی انسپائریشن کو رد
کرنا ہے۔
صفا اور مروہ کے درمیان
سات پھیرے لگانے کو سعی کہتے ہیں۔ یہ پھیرے حضرت بی بی ہاجرہ نے اپنے بیٹے حضرت
اسماعیل علیہ السلام کے لئے پانی کی تلاش میں لگائے تھے۔ بی بی ہاجرہ کی اس سعی کے
نتیجے میں آب زم زم کا چشمہ ابل آیا۔ حضرت بی بی ہاجرہ کا یہ عمل ممتا کی لازوال
مثال ہے۔ مامتا اللہ کی صفت ہے۔ اللہ اپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا
ہے۔ مخلوق کو محبت کے ساتھ پالتا ہے اور ان کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے وسائل مہیا
کرتا ہے۔ ہر ماں ذیلی تخلیق کی ذمہ دار ہے جو دراصل اللہ کی صفات کا مظاہرہ ہے۔
ماں اپنے بچے سے بے پناہ محبت کرتی ہے اور اپنے بچے کی پرورش اور کفالت کے لئے
انتہا تک کوشش کرتی ہے۔
حضرت بی بی ہاجرہ نے اپنے
لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زندگی کے لئے بنیادی وسیلہ پانی کی فراہمی کے
لئے تلاش کا فریضہ ادا کیا۔ اور اس فرض میں اتنی مرکزیت قائم ہو گئی کہ قدرت نے آب
زم زم کا چشمہ جاری کر دیا۔ بی بی ہاجرہ کی سعی کے نتیجے میں نمودار ہونے والا آب
زم زم حضرت اسماعیل علیہ السلام اور توحید پرست لوگوں کے لئے حیات بن گیا۔ اللہ
پاک کی نعمتیں لامحدود و لازوال ہیں۔ حضرت بی بی ہاجرہ کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہونے
والا زم زم بھی لامحدود و لازوال ہے۔ ہر سال حج میں ۲۵ لاکھ افراد اور پورے سال
مزید لاکھوں عازمین عمرہ یہ پانی استعمال کرتے ہیں۔
طواف ایک ایسی عبادت ہے
جو بیت اللہ شریف میں کی جاتی ہے۔ خانہ کعبہ اللہ تعالیٰ کی مرکزیت کا Symbolہے۔
ہر شئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے آ رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب لوٹ جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی جانب سے آنے والی ہر شئے کی صفت کائنات کا شعور ہے اور کائنات کا
علم لاشعور ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات علیم ہے اور علم کا سورس اللہ ہے۔ علم الٰہیہ
کے انوار و تجلیات کا مظاہراتی سطح پر نزول کرنا کائنات کی نزولی حرکت ہے۔ نزولی
حرکت میں علم کی تجلی اپنے علوم کا مظاہرہ کرتی ہے۔
بیت اللہ شریف کے طواف
میں یہ نیت ہوتی ہے کہ ہم اللہ کے گھر کا طواف کر رہے ہیں۔ طواف صعودی اور نزولی
دونوں کیفیات پر مشتمل ہے۔ صعودی حرکت یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی جانب متوجہ ہوتا
ہے اور نزولی حرکت یہ ہے کہ بندہ مقدس زمین پر جسمانی طور پر اللہ کے گھر کے ارد
گرد گھومتا ہے۔ حجر اسود کے سامنے تھوڑی دیر قیام کرنا، حجرہ اسود کو بوسہ دینا یا
ہاتھ اٹھا کر اشارہ کرنا اور خانہ کعبہ کے گرد چکر لگانا طواف ہے۔
طواف کعبہ میں شعور و
لاشعور میں روشنیوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ روشنیوں اور نور کا ذخیرہ ہو جانے کی وجہ سے
روح حق کے مشاہدہ میں مصروف ہو جاتی ہے۔ طواف کرنے والے پر بے خودی طاری ہو جاتی
ہے۔ بیت اللہ شریف پر ہر لمحہ اور ہر آن انوار و تجلیات کا نزول ہوتا رہتا ہے۔
فرشتے ہمہ وقت طواف کرتے رہتے ہیں۔ انبیاء اور اولیاء اللہ کی ارواح طیبہ طواف میں
مشغول رہتی ہیں۔ فرشتوں اور انبیاء علیہم السلام کے انوار اور اولیاء کرام کی
فراست کی روشنیاں ایسا ماحول بنا دیتی ہیں کہ طواف میں حاجی کے اوپر انوار کی بارش
برستی ہے۔ نور کی بارش اور تجلی کی لطافت کثیر تعداد میں لوگ محسوس کرتے ہیں اور
اس سے پوری طرح فیضیاب اور متاثر ہوتے ہیں۔
حلق کرانے کا مطلب ہے بال
کٹوانا۔ آدمی کے تمام اعمال و افعال کی بنیاد خیالات کے تانے بانے پر قائم ہے۔
دماغ خیالات کو قبول کرتا ہے خیالات عالم غیب سے آتے ہیں۔ عالم غیب لطیف روشنیوں
کا عالم ہے۔ عالم غیب سے آنے والی ہر انفارمیشن روشنی کی معین مقدار ہے۔
سر کے بال انٹینا کا کام
کرتے ہیں۔ بال نہایت باریک نلکیوں کی طرح ہیں۔ برقی قوت ان نلکیوں کے اندر دور
کرتی ہے۔ کنگھی کرتے وقت بالوں کی برقی قوت (کرنٹ) کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
بالوں میں کنگھی یا کنگھا پھیر کر چھوٹے چھوٹے کاغذ کے ٹکڑوں کے قریب کیا جائے تو
کاغذ کنگھے پر اڑ کر چپک جاتے ہیں۔
غیب سے آنے والی اطلاعات
برقی رو کے دوش پر بالوں کو گزر گاہ بناتی ہوئی جڑوں میں اتر جاتی ہے اور برقی رو
انرجی بن جاتی ہے اور یہ برقی توانائی حلق کرانے سے جسم مثالی میں جذب ہو جاتی ہے۔
مثبت خیالات کا سورس عالم
بالا ہے جبکہ منفی خیالات کا سورس عالم اسفل ہے۔ ناسوتی روشنیاں کثیف ہونے کی وجہ
سے برقی رو میں رکاوٹ بنتی ہیں اور یہی رکاوٹ منفی خیالات بن جاتے ہیں۔
سعی کے بعد حلق کرایا
جاتا ہے یا تھوڑے سے بال کاٹے جاتے ہیں۔ تو اس سے کثافت دور ہوتی ہے اور روشنی کا
بہاؤ تیز ہو جاتا ہے-خیالات پاکیزہ اور
لطیف ہو جاتے ہیں۔ جب بندہ اللہ پاک کے حکم پر اپنے بال کٹواتا ہے تو ظاہر سے ملنے
والی اطلاعات سے تعلق منقطع ہو جاتا ہے اور عالم بالا سے آنے والی اطلاعات سے
رابطہ قائم ہو جاتا ہے۔
جس تنظیم میں یونیفارم
ہوتی ہے اس تنظیم میں نظم و ضبط کا معیار اعلیٰ ہوتا ہے جیسے فوج، پولیس۔ اس کے
علاوہ عوامی سطح پر نرسیں، ڈاکٹر وغیرہ اس کی مثال ہیں۔ وردی پہن کر آدمی چست ہو
جاتا ہے احرام بھی ایک یونیفارم کی طرح ہے۔
حج ایک ایسا پروگرام ہے
جس میں بندہ کا دھیان تمام وقت اللہ تعالیٰ کی جانب لگائے رکھنے کا اہتمام کیا
جاتا ہے۔ لباس سب سے زیادہ ذہن کو متوجہ رکھتا ہے اگر الگ الگ رنگ کے لباس ہوں تو
ہر شخص کا ذہن دوسرے کے لباس کی تراش خراش دیکھنے میں مصروف ہو سکتا ہے۔ سفید رنگ
پاکیزگی کی علامت ہے پاکیزگی اللہ تعالیٰ کی صفت سبحان ہے۔
خانہ کعبہ کے غلاف کا رنگ
سیاہ ہے اور زائرین سفید کپڑے کا احرام باندھتے ہیں۔ رنگوں سے مرکب روشنی ایک برقی
مقناطیسی توانائی ہے۔ روشنی ہر شئے میں سے گزر جاتی ہے کسی شئے میں سے گزرنے کے
لئے اسے کسی وسیلے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔
رنگ دراصل روشنی کی وہ خاصیت ہے جو اندھیرے (سیاہ) سے مل کر بنتی ہے۔
کالا رنگ ہمیں اس لئے نظر
آتا ہے کہ وہ روشنی کی تمام لہروں کو جذب کر لیتا ہے۔ سفید رنگ ہمیں اس لئے نظر
آتا ہے۔ یہ رنگ روشنی کی تمام لہروں کو منعکس کرتا ہے۔
خانہ کعبہ کے اوپر ہر وقت
انوار و تجلیات کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ خانہ کعبہ کا سیاہ رنگ پردہ ان کو اپنے اندر
ذخیرہ کرتا رہتا ہے اور احرام کا سفید رنگ حجاج کے اوپر انوار کی لہروں کو منعکس
کرتا ہے جس کی وجہ سے زائرین کا جسم مثالی روشنی اور نور سے مزین ہو جاتا ہے۔ سفید
رنگ لباس پاکیزگی کا احساس پیدا کرتا ہے۔
ارکان حج اور طواف کعبہ تقرب الی اللہ کا ذریعہ
ہیں۔ ظاہر و باطن، روح اور روح کے لباس، جسم کے لئے جب اللہ تعالیٰ مرکز بن جاتے
ہیں تو اندر کی آنکھ چشم بینا بن جاتی ہے اور حاجی اور زائرین دیکھ لیتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ ہماری رگِ جاں سے زیادہ قریب ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
تصوف
کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار
کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا
ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ
محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی
صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس
اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان
ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے
ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند
بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ
صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا
نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے
اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل
کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں
بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت
اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا
علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔