Topics

مسلمان سائنسدان

۱۴۲۴ سال پہلے زمین پر جہالت کی سیاہ چادر پھیلی ہوئی تھی، ہر طرف فساد برپا تھا۔ جہالت اور بربریت کی اس سے زیادہ بری مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ والدین اولاد کو قتل کر دیا کرتے تھے۔ بے حیائی اور فحاشی عام تھی۔ زمین جب فساد اور خون خرابے سے بھر گئی اور اشرف المخلوقات نے انسانی حدود کوپھلانگ کر حیوانیت کو اپنا لیا اور اللہ کے عطاء کردہ انعام ’’فی الارض خلیفہ‘‘ کے منصب کو یکسر بھول گیا تو اللہ نے زمین کو دوبارہ پر سکون بنانے کے لئے اپنے محبوب بندے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرمایا۔ اس برگزیدہ مقدس اور مطہر بندے نے عجیب و غریب، حیرت انگیز، محدود و لامحدود رنگ رنگ اللہ کی نشانیوں کو اس طرح کھول کھول کر بیان کیا کہ ابتدائی دور میں زمین و آسمان کی حقیقت عربوں پر عیاں ہو گئی۔

قرآن نے بتایا:

’’بیشک زمین و آسمان کی پیدائش رات اور دن کے بار بار ظاہر ہونے اور چھپنے میں ان عقلمندوں کے لے نشانیاں ہیں جو لوگ اٹھتے، بیٹھتے، لیٹتے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ تو نے یہ سب فضول اور بے مقصد نہیں بنایا اور ہمیں دوزخ کی آگ سے محفوظ کر دے۔‘‘

(سورۃ آل عمران۔ آیت نمبر ۱۹۰۔۱۹۱)

’’کیا ان لوگوں نے آسمان کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو آراستہ کیا اور اس میں کسی قسم کا سقم نہیں ہے اور زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں پہاڑ بنائے اور اس میں سے ہر قسم کی خوشنما چیزیں اگائیں، یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو دانا اور بینا ہیں اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔‘‘

(سورۃ ق۔ آیت نمبر۶تا۸)

جب مسلمان علم کی تلاش میں صف بستہ ہو گئے تو انہوں نے علم کا کوئی شعبہ نہیں چھوڑا جو ان کی تحقیقات سے تشنہ رہا ہو۔ ان کی تحقیقات پوری امت مسلمہ کے لئے سبق آموز ہیں اور عبرت انگیز بھی۔ مغربی ممالک کی لائبریریاں آج بھی مسلمان اسلاف کی کتابوں سے بھری پڑی ہیں۔ یہ وہ دانشور مسلمان ہیں جنہوں نے تحقیقات کر کے علوم کی شمعیں روشن کیں۔ مسلمانوں نے دنیا میں اس وقت روشنی پھیلائی جب چہار سو تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ ان مفکرین، محققین میں علوم باطن کے ماہرین متصوفین بھی تھے اور سائنسدان بھی تھے۔ آج مسلمان تہی دست ہے۔ اس لئے کہ من حیث القوم ہمارے اندر سے تفکر، ریسرچ اور اللہ کی نشانیوں میں سوچ و بچار کا ذوق ختم ہو گیا ہے۔

عبدالمالک اصمعی:

عبدالمالک اصمعی نے علم ریاضی، علم حیوانات، علم نباتات اور انسان کی پیدائش اور ارتقاء پر تحقیق کی۔ عبدالمالک اصمعی سائنس کا پہلا بانی ہے اس سے پہلے سائنس کے علم کا وجود تاریخ کے صفحات پر موجود نہیں ہے۔

جابر بن حیان:

جابر بن حیان کی کتابوں کے تراجم پندرھویں صدی عیسوی تک یورپ کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ اس سائنس دان نے کپڑے کو واٹر پروف، لوہے کو زنگ سے محفوظ رکھنے اور شیشے کو رنگین کرنے کا طریقہ ایجاد کیا۔

محمد بن موسیٰ الخوارزمی:

محمد بن موسیٰ الخوارزمی نے صفر کا اضافہ کر کے ہندسوں کی قدر کو بڑھایا۔ اس نے کرہّ ارض کے نقشے بنائے اور جغرافیہ میں تحقیقات کیں۔

علی ابن سہیل ربان الطبری:

علی ابن سہیل ربان الطبری نے فردوس الحکمت کے نام سے ایک مکمل کتاب لکھی۔

یعقوب بن اسحاق الکندی:

یعقوب بن اسحاق الکندی علم فلکیات، کیمسٹری، موسیقی اور طبیعات میں ماہر تھا۔

ابوالقاسم عباس بن فرناس:

ابوالقاسم عباس بن فرناس ہوا میں اڑنے کے تجربے کرتا رہا اس کی کوششیں ہوائی جہاز بننے کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ دھوپ گھڑی بھی اس کی ایجاد ہے۔

ثابت ابن قرۃ:

ثابت ابن قرۃ نے لیور اور گیئر ایجاد کئے۔ لیور اور گیئر نہ ہوتے تو آج ہم بڑی بڑی مشینوں کے ذریعہ نئی نئی ایجاد نہیں کر سکتے تھے۔

ابوبکر محمد بن زکریا الرازی:

ابو بکر محمد بن زکریا الرازی کو سرجری میں مہارت حاصل تھی۔ آپریشن کے بعد جلد کو سینے کا طریقہ بھی اس کی ایجاد ہے۔

ابوالنصر الفارابی:

ابوالنصر الفارابی نے موسیقی کا ایک آلہ ایجاد کیا تھا جس کی آواز سننے والا کبھی سو جاتا تھا، کبھی روتا تھا اور کبھی ہنستا تھا۔

ابوالحسن المسعودی:

ابو الحسن المسعودی سب سے پہلا شخص ہے جس نے بتایا کہ زمین کی جگہ سمندر تھا اور سمندر کی جگہ زمین۔ یہ بات اس نے اس وقت بتائی تھی جب پیمائش کے لئے کوئی آلہ موجود نہیں تھا۔

ابن سینا:

ابن سینا میڈیکل سائنس کا ماہر تھا اس نے علم الابدان کا نقشہ بنایا اور اس کے الگ الگ حصے کر کے اس کی تصویریں بنائیں۔
موجودہ میڈیکل سائنس میں
ANATOMY اسی کی تحریر کردہ کتاب کا ترجمہ ہے۔ ابن سینا نے جسمانی حرارت ناپنے کا آلہ ایجاد کیا جو تھرمامیٹر کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔ علیٰ ہذا القیاس بیان کردہ سائنس دانوں کے علاوہ انیس یا بیس سائنسدان اور ہیں جنہوں نے تحقیق و تلاش کے بعد سائنسی علوم کی بنیاد رکھی۔

شاہ ولی اللہ:

شاہ عبدالعزیز کے والد بزرگوار نے پہلی مرتبہ قرآن کا فارسی ترجمہ کیا۔ انہوں نے غیب کے اوپر سے پردہ اٹھایا۔ کائناتی نظام کی نقاب کشائی کی اور بتایا کہ ہر انسان کے اوپر نور کا بنا ہوا ایک جسم ہے جو انسان کے جسم کے ساتھ چپکا رہتا ہے۔ محروم اور زوال پذیر قوم نے یہ قدر کی کہ ان کے خلاف قتل کی سازش کی۔

سائنس کا غلغلہ بلند ہوا اور سائنس نے AURAتعارف کرایا تو قوم نے اسے نعوذ باللہ صحیفہ سمجھ کر قبول کر لیا۔

بابا تاج الدین ناگپوری:

بابا تاج الدین نے بتایا کہ انسان کی نگاہ میں بہت زیادہ وسعت ہے۔ سورج 9کروڑ میل کے فاصلہ پر ہے۔ جب ہماری نگاہ سورج کو دیکھ سکتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نظر کے قانون سے واقف ہو کر دور دراز اشیاء کو کسی DEVICEکے بغیر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کائنات میں ہر مخلوق دوسری مخلوق سے ہم رشتہ ہے۔ ہر ذرہ دوسرے ذرہ کے ساتھ پیوست ہے۔ جان جب جان سے گلے ملتی ہے تو زندگی بن جاتی ہے۔

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی:

شاہ عبدالعزیز دہلوی کے حالات و واقعات ہماری راہنمائی کرتے ہیں کہ نادیدہ مخلوق جنات کو ہم دیکھ سکتے ہیں۔ ان سے دوستی کر سکتے ہیں۔ اور ان کی خدمات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

محی الدین ابن عربی:

شیخ اکبر ابن عربی نے بتایا کہ روح کو دیکھنا، روح سے مکالمہ کرنا اور روح کے ذریعہ عالم بالا کی سیر کرنا، انفس و آفاق کے رموز سے آگاہ ہونا، انسانوں کے لئے ممکن ہے۔

قلندر بابا اولیاء:

عظیم روحانی سائنسدان قلندر بابا اولیاء نے خواب کے اوپر سے پردہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ انسان کی زندگی آدھی بیداری میں اور آدھی خواب میں گزرتی ہے۔

بیداری کی زندگی ہو یا خواب کی زندگی دونوں کو روح فیڈ (Feed) کرتی ہے۔ قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں کہ:

’’روح‘‘، تجلی، نور اور روشنی سے مرکب ہے۔

اللہ تعالیٰ نے روح کے اندر یہ وصف رکھا ہے کہ روح نسمہ کی تشکیل کرتی ہے۔ نسمہ میں تجلی کے غلبہ سے ملاء اعلیٰ تخلیق ہوتے ہیں۔

نسمہ میں جب نور غالب ہوتا ہے تو ملائکہ کی تخلیق عمل میں آتی ہے اور نسمہ میں جب روشنی کا غلبہ ہوتا ہے تو جنات اور انسان کی تخلیق عمل میں آتی ہے۔

انسان اور جنات کی تخلیق میں یہ فارمولا کام کر رہا ہے کہ یہ دونوں مخلوق ظاہر اور غیب میں رد و بدل ہوتی رہتی ہیں۔ غیب میں رد و بدل ہونا خواب کی زندگی ہے اور غیب سے ظاہر میں منتقل ہونا بیداری کی زندگی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خواب کی دنیا ہو یا بیداری کی دنیا، دونوں حواس پر قائم ہیں۔ حواس کی تشکیل میں مسلسل اور متواتر فعال انفارمیشن کا عمل دخل ہے۔ انفارمیشن کا بہاؤ جب نزول کرتا ہے تو ایسے ایٹم بنتے ہیں جن سے اسپیس (Space) کی تشکیل ہوتی ہے۔ اور جب انفارمیشن کا بہاؤ صعود میں ہوتا ہے تو ایسے ایٹم بنتے ہیں جن سے عالم بالا کی مخلوق وجود میں آتی ہے۔

قرآنی نظریہ:

عربوں سے پہلے یورپ، امریکہ، مصر اور ایشیائی ممالک چین، ہندوستان اور جاپان وغیرہ میں سائنس کا عمل دخل نہیں تھا۔ البتہ یونان میں کسی قدر علم موجود تھا۔ علمی تحقیقات اور نئی نئی ایجادات کی طرف رغبت پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ قرآن پاک کے نازل ہونے کے بعد سرزمین عرب جب علم کی روشنی سے منور ہوئی اس وقت مغربی ممالک میں تہذیب و تمدن کا کوئی نشان نہ تھا۔ روس کے لوگ انسانی کھوپڑیوں میں پانی پیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمان صحرا نشینوں کی زندگی بدل دی۔

قرآن کے علم اور قرآن کے بتائے ہوئے روشن راستے پر چل کر پچاس سال کی مختصر مدت میں مسلمانوں نے آدھے سے زیادہ دنیا فتح کر لی۔ قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں مسلمانوں کے قدموں پر جھک گئیں۔ قرآنی آیات کے انوار سے روشن دل مسلمانوں نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا اور دنیا کو ایک نئی تہذیب و تمدن سے آراستہ کر دیا۔

یونیورسٹیاں:
قرآنی نظریہ کے مطابق مسلم اسلاف کی لکھی ہوئی کتابوں کے تراجم ہوئے تو ان تحریروں کو یورپ میں اتنی زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی کہ وہاں یونیورسٹیاں قائم ہو گئیں۔ مختلف علوم سائنس و فلکیات اور ریاضی پر لکھی ہوئی کتابیں چار سو سال تک وہاں کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل رہیں۔ یورپ کے مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمان نہ ہوتے تو یورپ علم کی روشنی سے محروم رہ جاتا۔
 پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے بعد مسلمانوں کا علمی زوال شروع ہوا۔ امت مسلمہ قرآنی تحقیق و تفکر (تصوف) سے دور ہو گئی جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے قرآن کے انوار و حکمت سے خود ساختہ دوری قبول کر لی۔ مسلمانوں نے تفکر کرنا چھوڑ دیا پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ قرآنی علوم کے ذریعہ معاشی، معاشرتی اور روحانی زندگی کی جو شمع روشن ہوئی تھی قوم نے اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں۔
تسخیر کائنات جو قرآن کا پورا اور مکمل تیسرا علم ہے اس کی طرف سے توجہ ہٹ گئی اور عالم اسلام اس شعور سے محروم ہو گیا جو چودہ سو سال پہلے قرآن نے عطا کیا تھا اور جب کوئی قوم تفکر، تحقیق و تلاش، بصیرت و حکمت اور نور علیٰ نور فہم و فراست سے محروم ہو جاتی ہے تو گروہوں اور فرقوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اجتماعیت ختم ہو جاتی ہے اور قوم کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔

روحانیت کے خلاف سازش:

دنیا کے دوسرے معاملات کی طرح منافق اور سازشی لوگوں نے روحانی سلسلوں میں بھی اپنا عمل دخل جاری رکھا اور لوگوں کی توجہ کشف و کرامات کی طرف مبذول کر دی۔ اس طرز فکر کو کچھ اس طرح آگے بڑھایا گیا کہ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ روحانیت کا مطلب کشف و کرامات کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ دوسری بات جو حقیقت کے برخلاف بیان کی گئی وہ یہ تھی کہ تسخیر کائنات یا روحانی علوم حاصل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان دنیا بیزار ہو کر جنگل میں جا بیٹھے۔ اس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ مسلمان قوم ریسرچ سے محروم ہو گئی اور غیر مسلم اقوام نے علم کائنات میں ترقی کر لی۔ آج کے دور میں ہر آدمی یہ بات جانتا ہے کہ سو سال پہلے جو باتیں کرامات کے زمرے میں بیان کی جاتی تھیں وہ سائنسی نظام کے تحت عام ہو گئی ہیں۔ اب یہ کہنا کہ فلاں بزرگ کو پانچ جگہ یا سات جگہ دیکھا گیا تھا ایک بہت کم وزن بات معلوم ہوتی ہے۔

قرآن کی تعلیمات کو اگر مادی شعور کے دائرے میں رہ کر سمجھا جائے تو قرآن کے معنی اور مفہوم میں شدید غلطیاں واقع ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علماء کرام قرآنی جیسی عظیم الشان اور لاریب کتاب کے بارے میں اپنے قائم کردہ مفہوم پر متفق نہیں ہیں۔ ہر تفسیر نئے اسلوب اور نئی شرح کی دستاویز ہے۔ قرآن کے الفاظ اس لئے محفوظ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے۔

ابدی زندگی کا راز:

صوفیاء کرام کی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ انسان ہر لمحہ مرتا ہے اور لمحہ کی موت انسان کے اگلے لمحے کی زندگی کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔

تھوڑے سے تفکر سے پتہ چلتا ہے کہ زندگی کی جتنی بھی کاوشیں ہیں چاہے وہ اعمال ہوں، علم و فہم ہو، اخلاقیات ہوں، یہ سب قبر تک کے معمولات ہیں۔ اگر زندگی اور حیات کی ہم آہنگی کا ادراک انسان کر لے تو حیات ابدی کا راز اسی زندگی کے لیل و نہار میں کھل جاتا ہے۔

ہم واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ آج کا انسان مادی ماحول میں اس قدر کھو چکا ہے کہ اس نے مذہب کو مادی لذتوں کا وسیلہ بنا لیا ہے۔ مذہب کا نام استعمال کرنے والے تو بہت ہیں مگر ایمان یقین اور مشاہدے کی طلب اس دور میں ناپید ہو چکی ہے۔ جب صاحب ایمان ہی ناپید ہو جائیں تو ایمان کی طلب کون کرے گا؟

آج کا انسان:

آج کا انسان موجودہ سائنسی ترقی کو نوع انسان کا انہتائی شعور سمجھتا ہے۔ یہ ایک گمراہ کن سوچ ہے اس لئے کہ قرآن بتاتا ہے کہ انسان کی ترقی حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں اتنی تھی کہ ایک شخص نے جو پیغمبر نہیں تھا پلک جھپکنے کے وقفے میں ڈیڑھ ہزار میل کے طویل فاصلے سے مادی FORMمیں دربار سلیمان میں تخت منتقل کر دیا تھا۔ دانشوروں کا کردار گزشتہ صدیوں سے آج تک انہتائی مایوس کن رہا ہے۔ انہوں نے کبھی انسانی تفکر کو اس طرف مائل نہیں کیا اور انہوں نے کبھی نہیں بتایا کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم بغیر کسی وسیلے کے جسمانی طور پر کون سی سائنس کے ذریعے معراج کے شرف سے مشرف ہوئے۔

الیکٹران:
انسان روشنی سے بنا ہوا ہے اس کے سارے محسوسات الیکٹران کے اوپر قائم ہیں۔ اگر انسان اپنے اندر دور کرنے والی الیکٹرک سٹی سے واقفیت حاصل کر لے تو وہ مادی وسائل کے بغیر کسی بھی مادی شئے کو جہاں چاہے منتقل کر سکتا ہے۔ سائنس کا نظریہ قیاس پر مبنی ہے۔

قیاس جہاں تک کام کرتا ہے نتیجہ مرتب ہوتا رہتا ہے یا نہیں ہوتا۔ قیاس کا پیش کردہ کوئی نظریہ کسی دوسرے نظریہ کا چند قدم ساتھ ضرور دیتا ہے مگر پھر ناکام ہو جاتا ہے۔ لوگوں نے بذات خود جتنے طریقے وضع کئے ہیں سب کے سب کسی نہ کسی مرحلہ میں غلط ثابت ہوئے ہیں۔ توحید کے علاوہ اب تک جتنے نظام ہائے حکمت بنائے گئے ہیں وہ تمام اپنے ماننے والوں کے ساتھ مٹ گئے یا آہستہ آہستہ مٹتے جا رہے ہیں۔ آج کی نسلیں گذشتہ نسلوں سے زیادہ مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور بھی زیادہ مایوس ہوں گی۔

مفکرین اور اقوام عالم:

مختلف ممالک اور مختلف قوموں کے وظیفے جداگانہ ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام نوع انسان کا جسمانی وظیفہ ایک ہو سکے صرف روحانی وظائف ہیں جن میں پوری نوع انسانی اشتراک رکھتی ہے۔ اگر دنیا کے مفکرین جدوجہد کر کے روحانی وظائف کی غلط تعبیروں کو درست کر سکے تو وہ اقوام عالم کو ایک دائرہ میں اکٹھا کر سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:

’’انسان ہماری بہترین صناعی ہے۔‘‘ (سورۂ والتین۔ آیت نمبر۴)

انسان کو مخلوقات میں فضیلت اس بنیاد پر قائم ہے کہ اس کے اندر مخفی علوم جاننے سمجھنے اور ان علوم سے استفادہ کرنے کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ اب سے صدیوں پہلے کی سائنسی ایجادات ہوں یا موجودہ دور میں سائنسی ایجادات ہوں یہ سب مخفی صلاحیتوں کے استعمال کا مظاہرہ ہے۔

تخلیقی فارمولے:

علم تصوف۔۔۔۔۔۔انکشاف کرتا ہے کہ زمین پر موجود ہر شئے روشنی کے غلاف میں بند ہے اور روشنی کے غلاف میں مقداریں کام کر رہی ہیں۔ انسان جب مخفی صلاحیتوں کو بیدار کر کے کسی شئے میں تفکر کرتا ہے تو اس کے اوپر شئے کے اندر چھپی ہوئی قوتیں منکشف ہو جاتی ہیں۔ موجودہ سائنسی ترقی اسی ضابطہ اور قاعدہ پر قائم ہے۔ سائنس دانوں نے جیسے جیسے تفکر سے کام لیا ان کے اوپر شئے کے اندر کام کرنے والی تخریبی اور تعمیری قوتیں آشکار ہو گئیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کائنات میں جتنی بھی اشیاء ہیں خواہ وہ مائع ہوں یا ٹھوس ہوں یا گیس کی صورت میں ہوں سب کی سب ایٹموں سے بنی ہوئی ہیں اور خود ایٹم زیادہ تر ’’خلا‘‘ پر مشتمل ہے۔ بعض اشیاء میں تمام کے تمام ایٹم ایک جیسے ہوتے ہیں ایسی اشیاء کو عناصر کہا جاتا ہے جن میں ہائیڈروجن، کاربن، لوہا، سونا، سیسہ، پلاٹینم اور یورنیئم جیسے قدرتی عناصر ہیں۔ عناصر کے علاوہ مرکبات میں مختلف عناصر کے ایٹم ایک دوسرے میں جذب اور گندھے ہوئے ہیں۔ عناصر کی باہمی پیوستگی سے سالمات بنتے ہیں۔

TOM:
ایٹم یونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’
TOM‘‘ ناقابل تقسیم شئے، کے ہیں۔ یونانی زبان میں ’’ٹوم (TOM)‘‘ تقسیم کرنے کو کہتے ہیں۔ آریانی زبانوں میں ’’آ‘‘ نفی کا کلمہ ہے۔ ایٹم کا نام دمقراط نامی ایک سائنس دان کا وضع کردہ ہے۔

دمقراط نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ دنیا کی ہر شئے نہایت چھوٹے چھوٹے ناقابل تقسیم ذروں یعنی ایٹموں سے بنی ہے۔ ایٹم کا سائز ایک انچ کا ڈھائی کروڑ حصہ ہوتا ہے یعنی سوئی کی نوک پر لاکھوں ایٹم رکھے جا سکتے ہیں۔ ہلکی اشیاء کے ایٹم ہلکے اور بھاری اشیاء کے ایٹم بھاری ہوتے ہیں بشمول انسان تمام جانداروں کی روح بھی ایٹموں سے مرکب ہے۔ روح کے ایٹم باقی تمام اشیاء کے ایٹموں سے چھوٹے اور لطیف ہوتے ہیں۔ موت کے بارے میں دمقراط کا خیال تھا کہ جب روح کے تمام ایٹم جسم سے نکل جاتے ہیں تو موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس حالت میں جسم میں روح کا ایک ایٹم بھی باقی نہیں رہتا جو خارج شدہ ایٹموں کو واپس لا سکے۔ اس لئے روح نکل جانے کے بعد آدمی زندہ نہیں رہ سکتا۔

مادہ اور توانائی:

تحقیق اور تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مادہ اور توانائی ایک ہی شئے کے دو روپ ہیں کیونکہ یہ تمام ذرات جو کہ اب تک معلوم کیے گئے ہیں توانائی کی صورت میں سامنے آئے ہیں یعنی ان بنیادی ذرات پر تجربات سے ہی ان کی تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ سے آخر کار توانائی ہی حاصل ہوتی ہے۔

مالیکیول ایٹم یا بنیادی ذرات جو اب تک دیکھے نہیں جا سکے ان کے بارے میں اتنی مفصل معلومات کن بنیادوں پر جمع کی گئی ہیں؟

سائنس دان اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ تجربات کے نتائج سے حاصل ہونے والے تاثر یا خصوصی مظاہرہ کی صورت میں یہ اخذ کیا گیا ہے کہ ایٹم اور اس کے ذرات کیا ہیں۔ مثلاً ٹی وی اسکرین پر جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ الیکٹران دھار Electron Beamکے بہاؤ کی وجہ سے ہوتا ہے جب کہ الیکٹران یا الیکٹران بیم دکھائی نہیں دیتی۔ اس طرح کے تجربات میں ایٹم کو جب کسی بیرونی قوت یا شعاع کے زیر اثر لایا جاتا ہے تو ایٹمی ذرات پر اس کی اثر پذیری کے نتائج ایک اسکرین پر دیکھے جاتے ہیں۔ اسکرین پر نظر آنے والا یہ Responseروشنی کے دھبہ (Dot) یا ٹمٹماہٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس طرح ذرات کی خصوصیات معلوم کر لی جاتی ہیں۔

نور کے غلاف:

احسن الخالقین اللہ کے تفویض کردہ اختیارات کے حامل لوگ۔۔۔کائنات کی تخلیق میں نور کا تعین کرتے ہیں۔ نور اور روشنی کے Flowکو کائنات کی حرکت قرار دیتے ہیں۔ کائنات میں بڑے سے بڑا کرہ۔۔۔یا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ۔۔۔(ایٹم)۔۔۔نور کے غلاف میں بند ہے۔ اور ہر ذرہ اور عناصر کی پوری دنیا۔۔۔مقداروں پر قائم ہے۔ مقداریں الگ الگ ہیں۔ لیکن ہر مقدار دوسری مقدار کے ساتھ آپس میں گندھی ہوئی ہے۔ ایک طرف مقداریں ہم رشتہ ہیں اور دوسری طرف الگ الگ بھی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:

’’یہ جو بہت سی رنگ برنگی چیزیں اس نے تمہارے لئے زمین میں پیدا کر رکھی ہیں ان میں نشانی ہے ا ن کے لئے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں یعنی ریسرچ کرتے ہیں۔‘‘

(سورۂ نحل۔ آیت نمبر۱۳)

’’اللہ روشنی ہے آسمانوں اور زمین کی۔‘‘

(سورۂ نور۔ آیت نمبر۳۵)

چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی کوئی چیز ایسی نہیں ہے قرآن میں جس کی وضاحت نہ ہو۔‘‘

(سورۂ سبا۔ آیت نمبر۳)

اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے:

’’اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کہہ دیجئے اس کتاب کو اس نے اتارا ہے جو زمین اور آسمانوں کا جاننے والا ہے۔‘‘

(سورۂ فرقان۔ آیت نمبر۶)

یعنی کائنات کا ایک ایک ذرہ حتیٰ کہ اس کا ایک ایک ایٹم اور ایک ایک سالمہ (Molecule) اس کے علم میں ہے۔

معین مقداریں:

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’پاک اور بلند مرتبہ ہے وہ ذات جس نے مقداروں کے ساتھ تخلیق کیا اور پھر ان تخلیقی فارمولوں سے آگاہ کیا۔‘‘

(سورۂ اعلیٰ۔ آیت نمبر۱ تا ۳)

اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شئے کو معین مقداروں (ایٹم) سے بنایا ہے اور معین مقداریں دراصل اس شئے کے ظاہر اور باطن میں کام کرنے والی صلاحیتیں ہیں جو ایک قانون اور Disciplineکے تحت ایک واحد ہستی کی نگرانی میں برقرار ہیں۔ بڑے بڑے اجرام سماوی معمولی اور ننھے سے ایٹم، ایٹم کے اندرونی خول یا اجزاء الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران اس ذات واحد کی نظروں کے سامنے ہیں۔ کوئی بھی ذرہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کے احاطہ قدرت سے باہر نہیں۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے:

’’وہ ہر پوشیدہ چیز سے واقف ہے۔ اس کے علم سے کوئی رتی برابر چیز باہر نہیں۔ وہ چیز آسمانوں میں ہو یا زمین میں اور ان تمام چھوٹی بڑی چیزوں کا اور ان چیزوں کی تمام اقسام کے فارمولے کھلی کتاب میں موجود ہیں۔‘‘

(سورۂ سبا۔ آیت نمبر۱ تا۷)

ذرات کی تین قسمیں:

سورۂ سبا کی اس آیت میں تین قسم کے ذرات کا بیان ہوا ہے:

۱)رتی برابر ذرہ

۲) اس سے چھوٹا

۳) نسبتاً اس سے چھوٹا

تخلیق میں تین قسم کے ذرات پائے جاتے ہیں۔ ایک ایٹم دوسرے ایٹم کے اندرونی اجزاء اور سوئم ایٹم کے مرکبات۔
۱) ’’مشقال ذرہ‘‘ یعنی وہ رتی برابر چیز ہے جس میں وزن پایا جاتا ہو۔ سب جانتے ہیں کہ رتی چھوٹے سے وزن کا تشخص ہے۔ ذرہ برابر چیز کا مطلب یہ ہوا جس میں کوئی وزن ہو اور معین مقدار یا مقداریں ہوں۔ ایٹم چونکہ ایک ایسی اکائی ہے جس کے اندر الیکٹران، پروٹان، نیوٹران موجود ہیں۔ اس لئے اس میں مقدار اور وزن دونوں ہیں۔

۲) اس سے چھوٹا یعنی ایٹم سے نسبتاً چھوٹا الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران وغیرہ اور ایٹموں کے مرکزوں سے خارج ہونے والی الفاء، بیٹا اور گاما شعاعیں۔

۳) اور اس سے بڑا (ایٹم سے بڑا) یعنی قیامت تک دریافت ہونے والے ہر ایٹم کے ذرات اور اجزاء خواہ وہ کتنے ہی چھوٹے ہوں اور کتنے ہی بڑے ہوں۔

روشنی کا جال:

قرآن میں تفکر کرنے سے انسان کی نظر میں اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ ایٹم کی اکائی میں روشنی کے جال کو دیکھ لیتی ہے۔ ایک صوفی یہ جان لیتا ہے کہ ایٹم کا، ایٹم کے اندرونی اجزاء اور ارض و سماء کا خالق ایک ہے اور پوری کائنات اس کی ملکیت ہے۔ اس نے اس کائناتی سسٹم کو ایک ضابطہ کے ساتھ تخلیق کیا ہے اور ہر چیز کو معین مقداروں کے ساتھ وجود بخشا ہے۔

مقداروں کا یہ علم وہ لوگ سیکھ لیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق:

’’اور وہ جن لوگوں نے میرے لئے یعنی میری تخلیق کو جاننے کے لئے جدوجہد اور کوشش کی میں انہیں اپنے راستے دکھاتا ہوں۔‘‘

(سورۂ عنکبوت۔ آیت نمبر۶۹)

قرآن میں لوہے (دھات) کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

’’اور ہم نے نازل کیا لوہا (اس میں دوسری دھاتیں بھی شامل ہیں جیسے یورینیم وغیرہ) اور اس میں ہم نے انسانوں کے لئے بیشمار طاقت اور فائدے رکھ دیئے ہیں۔‘‘

(سورۂ حدید۔ آیت نمبر۲۵)

مغیبات اکوان:

مرشد کی نگرانی میں تصوف کے اسباق کی تکمیل کرنے والا فرد جب ان مقداروں سے واقف ہو جاتا ہے جو اشیاء کی تخلیق میں کام کر رہی ہیں تو وہ مقداروں کو کم و بیش کر کے شئے میں ماہیت قلب کر سکتا ہے۔ مقداروں کا علم اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ دھات سیسہ (Lead) میں ایسی مقداریں موجود ہیں جو ایٹم کی قوت پر غالب آ سکتی ہیں۔

لہروں کا جال:

کائنات چار نہروں یا چار توانائیوں سے فیڈ ہو رہی ہے۔

۱۔ نہر تسوید

۲۔ نہر تجرید

۳۔ نہر تشہید

۴۔ نہر تظہیر

یورینیم اور لیڈ دونوں دھاتیں تسویدی لہروں سے فیڈ ہوتی ہیں۔ لیڈ کے اوپر ایسی لہروں کا غلاف بنا ہوا ہے کہ اگر اسے تلاش کر لیا جائے تو دنیا ایٹم کی ہلاکت خیزی سے محفوظ رہ سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’زمین اور آسمان اور اس کے اندر جو کچھ بھی ہے۔ سب کا سب انسانوں کے لئے مسخر کر دیا گیا ہے۔‘‘

(سورۂ جاشیہ۔ آیت نمبر۱۳)

اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان زمین و آسمان میں موجود کسی بھی شئے کے اندر جب تفکر کرے گا تو اس شئے کے اندر کام کرنے والی مقداروں کا علم اسے حاصل ہو جائے گا۔ مختصر یہ کہ ایٹم مقداروں کا ایک مرکب ہے اور یہ مقداریں مادیت کی اکائی ہیں۔ مادیت کی ہر اکائی نور کے غلاف میں بند ہے۔ نور کے اوپر روشنی کا غلاف ہے۔ روشنی کی رفتار ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل بتائی جاتی ہے۔ روشنی کی رفتار سے ہزاروں گنا نورانی لہروں کی رفتار ہے۔ نور اور روشنی مرکب اور مفرد دو لہروں کا ایک جال ہے جس کے اوپر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ذرہ بنا ہوا ہے۔ صوفی جب روشنی کی سطح سے نکل کر نور میں داخل ہو جاتا ہے تو چھوٹے سے چھوٹے ذرہ میں ناقابل بیان طاقت (Energy) اس کے اوپر منکشف ہو جاتی ہے۔

موجودہ سائنسی ترقی میں جو عوامل کام کر رہے ہیں ان میں انفرادی سوچ اور مادی مفاد کا عمل دخل ہے۔ اس لئے یہ ساری ترقی نوع انسانی کے لئے پریشان اور بے سکونی کا پیش خیمہ بن گئی ہے۔ اگر یہی ترقی اور ایجاد پیغمبرانہ طرز فکر کے مطابق ہو جائے تو سائنس نوع انسانی کے لئے سکون و آشتی کا گہوارہ بن جائے گی۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ ترقی کا فسوں انسانی نسل کو آتش فشاں کے کنارے لے آیا ہے۔ اگر اس کا مثبت تدارک نہ کیا گیا تو یہ دنیا کسی بھی وقت بھک سے اڑ جائے گی۔ جو چیز وجود میں آ جاتی ہے اس کا استعمال ضرور ہوتا ہے۔

صوفی اور سائنٹسٹ:

موجودہ سائنسدان اور صوفی سائنسدان میں یہ فرق ہے کہ سائنٹسٹ کے پیش نظر پہلے اپنا مفاد ہوتا ہے اور صوفی کا علم مخلوق کے لئے وقف ہوتا ہے۔

کائناتی نظام کو سمجھنے کی صلاحیت کو تصوف میں مغیبات اکوان کہتے ہیں۔ مغیبات اکوان کے حامل صوفی خواتین و حضرات کے اندر اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ہزاروں سال پہلے کے گزرے ہوئے حالات و واقعات اور ہزاروں سال بعد آنے والے حالات و واقعات کو دیکھ لیتے ہیں اور اس کی تفصیلات سے باخبر ہو جاتے ہیں۔


بچوں کے محمدﷺ (جلد دوئم)

خواجہ شمس الدین عظیمی

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔