Topics
کائنات
اور کائنات میں کروڑوں دنیاؤں میں دو علوم رائج ہیں۔
ایک علم حصولی اور دوسرا
علم حضوری۔
علم حضوری وہ علم ہے جو
ہمیں غیب کی دنیا میں داخل کر کے غیب سے متعارف کراتا ہے۔ علم حضوری سیکھنے والے
بندے کے اندر لاشعوری تحریکات عمل میں آ جاتی ہیں۔ لاشعوری تحریکات عمل میں آ جانے
سے مراد یہ ہے کہ حافظہ کے اوپر ان باتوں کو جو بیان کی جا رہی ہیں ایک نقش ابھرتا
ہے۔ مثلاً اگر علم حضوری سکھانے والا استاد کبوتر کہتا ہے تو ذہن کی اسکرین پر
کبوتر کا ایک خاکہ بنتا ہے اور جب الفاظ کے اندر گہرائی پیدا ہوتی ہے تو دماغ کے
اندر فی الواقع کبوتر اپنے پورے خدوخال کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اسی طرح روحانی استاد
جب ایٹم کا تذکرہ کرتا ہے تو ایٹم کی ساخت ایٹم میں توانائی اور عناصر اور عناصر
کی باہمی پیوستگی سے بننے والے سالمات کا ادراک ہوتا ہے۔ علم حضوری میں تین ابواب
اور ۱۷ کلاسیں ہوتی ہیں۔
باب اول: اجمال
باب دوئم: تفصیل
باب سوئم: اسرار
علم حصولی یہ ہے کہ جب
کوئی استاد شاگرد کو تصویر بنانا سکھاتا ہے تو گراف کے اوپر تصویری خدوخال بنا کر
دکھا دیتا ہے۔ شاگرد جتنے ذوق و شوق سے استاد کی رہنمائی میں مشق کرتا ہے اسی
مناسبت سے وہ اچھا یا بہت اچھا مصور بن جاتا ہے۔اس کے برعکس علم حضوری ہمیں بتاتا
ہے کہ ہر انسان کے اندر تصویر بنانے کی صلاحیت موجود ہے، استاد کا کام صرف اتنا ہے
کہ شاگرد کے اندر مصور بننے کی صلاحیت کو متحرک کر دیتا ہے۔ ہم اس بات کو اور
زیادہ وضاحت سے بیان کرتے ہیں:
دنیا میں جو کچھ موجود ہے
یا ہونے والا ہے یا گزر چکا ہے وہ سب خیالات کے اوپر رواں دواں ہے۔ اگر ہمیں کسی
چیز کے بارے میں کوئی اطلاع ملتی ہے تو وہ چیز ہمارے لئے موجود ہے اور اگر ہمیں
اپنے اندر سے کسی چیز کے بارے میں اطلاع نہیں ملتی یا کسی چیز کے بارے میں خیال
نہیں آتا تو وہ چیز ہمارے لئے موجود نہیں ہے۔ جب کوئی آدمی مصور بننا چاہتا ہے تو
پہلے اس کے ذہن میں خیال آتا ہے کہ مجھے تصویر بنانی ہے۔ کوئی آدمی مشین اس وقت
بناتا ہے جب اسے مشین بنانے کا خیال آئے۔ اگر خیال نہ آئے تو کوئی آدمی انجینئر،
ڈاکٹر، ٹیچر وغیرہ نہیں بن سکتا۔
علیٰ ہذالقیاس دنیا کے ہر
علم کی یہی نوعیت ہے۔ پہلے علم کے بارے میں ہمارے اندر خیال پیدا ہوتا ہے اور ہم
اس خیال کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور علم ہمارے ذوق و شوق کے مطابق ہمارے اندر
کام کرنے والی مخصوص صلاحیت کو متحرک کر دیتا ہے۔ استاد کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ
شاگرد کے اندر موجود صلاحیت کو بیدار کرنے میں معاون بن جاتا ہے۔ جس طرح تمام علوم
و فنون کی صلاحیتیں انسان کے اندر موجود ہیں اسی طرح تصوف یا ’’روحانی علوم‘‘
سیکھنے کی صلاحیت بھی انسان کے اندر موجود ہے۔ جب آدمی تصویر بنانا سیکھ لیتا ہے
تو اس کا نام مصور ہو جاتا ہے اور جب آدمی فرنیچر بنانے میں ماہر ہو جاتا ہے تو اس
کا نام بڑھئی رکھ دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی آدمی سائنسی اعتبار سے کوئی چیز ایجاد کر
لیتا ہے تو وہ سائنسدان کہلاتا ہے۔ روحانی استاد کی مدد سے شاگرد اپنے اندر روحانی
صلاحیتیں بیدار کر لیتا ہے تو اس کا نام روحانی انسان ہو جاتا ہے۔
۱۹۱۲ء میں انگلینڈ کے
برٹش میوزیم میں ایک انسانی کھوپڑی کی نمائش کی گئی۔ جس کے نیچے لکھا تھا PITT DOWN MAN۔
اس تختی پر یہ بھی لکھا گیا تھا کہ یہ انسان سے ملتی جلتی مخلوق کی کھوپڑی ہے جو
پانچ لاکھ قبل زندہ تھا اور یہ مخلوق موجودہ انسان کی جدامجد تھی۔ پورے چالیس سال
اس کھوپڑی پر بحث ہوتی رہی۔ کانفرنسز منعقد کی گئیں اور اس پر کتابیں بھی لکھی
گئیں۔ لیکن جب ریڈیو کاربن طریقہ ایجاد ہوا تو یہ انکشاف ہوا کہ یہ کھوپڑی دراصل
ایک انسان کی تھی جبکہ جبڑا ایک بندر کا تھا اور انسان کی کھوپڑی ڈیڑھ سو سال
پرانی تھی جبکہ بندر کے جبڑے کی عمر صرف چالیس سال تھی۔ دراصل یہ ایک اعلیٰ درجہ
کا سائنسی اسکینڈل تھا چنانچہ کھوپڑی کو فوراً شوونڈو میں سے اٹھا لیا گیا۔
لیکن عجیب بات یہ ہے کہ
اس بنیاد پر جو ڈپلومے دیئے گئے یا کتابیں لکھی گئیں ان کو جھوٹا نہیں کہا گیا۔
ریسرچ کرنے والے قیاس پر قائم شدہ سائنسی نتیجہ کی بنیاد پر ماضی کو اربوں سال پر
پھیلا دیتے ہیں۔ جب کہ ان کے پاس تاریخ ثابت کرنے کا کوئی یقینی ذریعہ نہیں ہے۔
دنیا کی پیدائش کے متعلق
تخمینہ بھی قیاس پر مبنی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ زمین پانچ ارب سال پرانی ہے۔ کچھ
سائنسدان زمین کی عمر کو چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
پہلا دور تقریباً نصف ارب
سالوں پر مشتمل ہے، دوسرا دور سترہ کروڑ سالوں پر محیط ہے، تیسرا دور ساڑھے چھ
کروڑ سالوں پر مشتمل ہے، چوتھا دور پچیس لاکھ سالوں پر مشتمل ہے۔
کچھ سائنسدان دلیل یا سند
کے بغیر زمین پر انسان کے ظہور کو دس لاکھ سال پہلے بتاتے ہیں جبکہ کچھ سائنسدان
انسان کا زمین پر ظہور دس ہزار سال سے پچاس ہزار سال بتاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ
زمین کی تخلیق اور انسان کی تخلیق کے بارے میں سائنسدان کسی ایک نقطے پر خود کو
مجتمع نہیں کر سکے۔ چند سائنسدان تخمینوں اور اندازوں سے بات کرتے ہیں اور نئے
سائنسدان ان کی نفی کر دیتے ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ
حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے قریباً دس ارب انسان دنیا میں رہ چکے ہیں۔ ہمارے
اس دور میں بتایا جاتا ہے کہ زمین پر چھ ارب انسان آباد ہیں، یہ بڑی عجیب بات ہے
کہ پانچ ارب سال میں صرف پانچ ارب کی آبادی زمین پر شمار کی جاتی ہے۔ ہمیں اس سے
غرض نہیں کہ سائنسدان جو کچھ کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے کونسے عوامل ہیں، سائنسدان
جو کچھ کہتے ہیں دوسرے سائنسدان اس کی تردید کر دیتے ہیں لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ
زمین بہت طویل عرصے سے قائم ہے اور زمین پر بستیاں بستی ہیں اور برباد ہو جاتی
ہیں۔ ہم حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر اترنے کے بعد کی زندگی کا مطالعہ کرتے
ہیں تو زمین کے مختلف ادوار ہمارے سامنے آتے ہیں اور یہ سارے ادوار ارتقا ئی مراحل
طے کر کے پھر اس نقطہ پر آ جاتے ہیں جہاں سے ارتقاء شروع ہوا تھا۔
زمین پر تین حصے پانی ہے
اور ایک حصہ خشکی ہے۔ زمین طبقات یا پرت در پرت بنی ہوئی ہے، جس طرح پیاز میں بے
شمار پرت ہیں اسی طرح زمین بھی طبقات یا پرت در پرت تخلیق کی گئی ہے۔ زمین کو
ادھیڑا جائے تو نظر آتا ہے کہ زمین کا ہر پرت ایک نئی تخلیق ہے۔ ہم کسی پرت کا نام
لوہا، کسی پرت کا نام کوئلہ، کسی پرت کا نام تانبہ یا پیتل رکھتے ہیں۔ کسی پرت کو
یورینیم یا دوسری دھاتوں کے نام سے جانتے ہیں۔
جیالوجسٹ یہ بات جانتا ہے
کہ زمین کے ذرات دراصل نئی نئی تخلیقات کے فارمولے ہیں۔ یہی صورتحال مٹی کی بھی
ہے۔ زمین پر مٹی کہیں سرخ ہے، کہیں سیاہ ہے، کہیں بھُربھُری ہے، کہیں چکنی ہے،
کہیں پہاڑ کی طرح سخت ہے اور کہیں دلدل ہے۔ زمین کی ایک خاصیت جوہر جگہ خود اپنا
مظاہرہ کرتی ہے یہ ہے کہ زمین ماں کی طرح اپنے بطن میں کسی بیج کو نشوونما دیتی
ہے۔ جس طرح ایک ماں پہلے دن سے بچے کو اپنے بطن میں تخلیقی پروسیس کے مطابق
نشوونما دے کر پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح زمین بھی بے شمار بیجوں کو الگ الگ تخلیق کر
رہی ہے۔ ہم جب زمین کی تخلیقات کے اوپر غور کرتے ہیں تو یہ بات یقین کا درجہ حاصل
کر لیتی ہے کہ زمین دراصل کسی تخلیق کو مظہر بنانے کے لئے بنیادی مصالحہ فراہم
کرتی ہے۔ جس طرح کسی کھلونے کی ڈائی میں پلاسٹک ڈال کر کھلونا بنا لیا جاتا ہے۔
زمین کو اللہ تعالیٰ نے
یہ وصف بخشا ہے کہ وہ ہر ڈائی کے مطابق پیدائش عمل میں لے آتی ہے۔ جب ہم بیج کے
اوپر غور کرتے ہیں تو ہمارا شعور یہ جان لیتا ہے کہ ہر بیج ایک ڈائی ہے۔ زمین کا
وصف ہے کہ وہ جب کسی ڈائی کو استعمال کرتی ہے تو اس ڈائی کو جتنا چاہے پھیلا دیتی
ہے، جتنا چاہے سکیڑ لیتی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا بیج جو رائی کے دانے سے بھی چھوٹا
ہوتا ہے اس طرح وسعت دے دیتی ہے کہ وہ بہت بڑا درخت بن جاتا ہے۔ زمین کا ایک وصف
یہ بھی ہے کہ تین حصے پانی کی ترسیل اس طرح کرتی ہے کہ وہ پانی ڈائی کے مطابق خود
کو ڈائی میں تحلیل کر دیتا ہے۔ پانی کا وصف ہے بہنا۔ اگر پانی کا بہاؤ ختم ہو جائے
تو پانی سڑ جاتا ہے۔ اس میں بدبو اور تعفن پیدا ہو جاتا ہے۔
ہر انسان کے اندر تین حصے
پانی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کی فطرت پانی کی فطرت کے مطابق ہے۔ جب تک
انسان اپنی فطرت یعنی مسلسل حرکت میں وقت گزارتا ہے وہ فطرت سے قریب رہتا ہے اور
جب کوئی فرد اپنی فطرت یعنی حرکت سے انحراف کرتا ہے تو اس کے اوپر جمود طاری ہو
جاتا ہے اور جمود تعفن بن جاتا ہے۔ زمین کے اندر زمین کے اوپر جتنے بھی طبقات ہیں،
مثلاً اشجار، نباتات، معدنیات کی فطرت حرکت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
تصوف کے بارے میں عام طور
پر کہا جاتا ہے کہ یہ علم دنیا بیزار لوگوں کا علم ہے۔ جو زمانہ کے سرد و گرم سے
بچنے کے لئے خود کو معاشرے سے دور کر دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اہل تصوف اچھی طرح
جانتے ہیں کہ کائنات مسلسل حرکت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الٰہی مشن پھیلانے کی ذمہ داری
اہل تصوف حضرات و خواتین کے سپرد کی گئی ہے جو جمود سے انحراف کرتے ہیں۔
دنیا بیزاری اور جمود کے
بارے میں شد و مد سے تذکرہ ایک سازش ہے جس کے ذریعہ تصوف کو بدنام کیا گیا ہے۔
صوفی تو اتنا فعال ہوتا ہے کہ ہر شخص اس کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتا۔ صوفی شب
بیدار ہوتا ہے، محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے، کاروبار کرتا ہے
لیکن کاروبار میں قوانین کی پیروی کرتا ہے، معاشرہ میں رائج قوانین کا احترام کرتا
ہے، پاک صاف رہتا ہے، اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتا ہے، مخلوق سے محبت کرتا ہے، جبکہ
چالاک اور عیار لوگوں نے اللہ کی مخلوق کو اپنے لئے ذریعہ معاش بنایا ہوا ہے۔ پانچ
وقت اللہ کے حضور حاضر ہونا، حاضر ہونے سے پہلے اہتمام کرنا، رکوع، سجود میں ادب
کا خیال رکھنا، صبح سے دوپہر تک بچوں کے لئے معاش کے کام کرنا، بچوں کی تربیت
کرنا، ان کو علوم سکھانا، قرابت داروں کے حقوق پورے کرنا، موت و زیست میں شریک
ہونا، تزکیہ نفس کے ساتھ تقویٰ اختیار کرنا، کس طرح دنیا بیزاری ہو سکتی ہے۔ اسلام
میں جب رہبانیت نہیں ہے تو مسلمان دنیا بیزار نہیں ہو سکتا، صوفی بھی سب وہ کام
کرتا ہے جو عوام الناس کرتے ہیں۔ مگر فرق یہ ہے کہ صوفی ہر عمل اور ہر کام اللہ کی
معرفت کرتا ہے۔ صوفی سورۃ بقرہ کے پہلے رکوع کی پیروی کرتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے
تو اس کا شمار صوفیاء کے گروہ میں نہیں ہوتا۔
اس وقت زمین پر چھ ارب
آبادی ہے۔ یہ اس آبادی کا ذکر ہے جو زمین کا تیسرا حصہ ہے۔ زمین پر آباد بستیوں
اور شہروں کو دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ آبادیاں اور شہر دراصل Valleysہیں
کہیں گھاٹیاں ہیں اور Valleysچھوٹی
ہیں اور کہیں بڑی ہیں، شمال میں پہاڑ ہیں۔ جنوب میں گھاٹیاں کھلے میدان ہیں، ان
گھاٹیوں اور کھلے میدانوں کو پہاڑوں سے دبایا گیا ہے اور اطراف میں سمندر ہیں،
سمندر کے اندر جزیرے ہیں اور یہ چھوٹے بڑے جزیرے ہی شہروں میں تبدیل ہوتے رہتے
ہیں۔ جب کہ جو آبادی معلوم دنیا کہلاتی ہے آبادیاں اس کے علاوہ بھی ہیں۔
سائنس نے بہت ترقی کی ہے
اور موجودہ ترقی پانچ سے دس فیصد تک انسانی صلاحیتوں کا مظاہرہ ہے۔ جب ہم یہ کہتے
ہیں کہ انسان اپنی صلاحیتوں کا صرف دس فیصد استعمال کرتا ہے تو ہمارے لئے یہ لمحہ
فکریہ ہے کہ نوے فیصد صلاحیتیں کیا ہیں؟
اربوں سال میں انسان اس
قابل ہوا ہے کہ وہ دس فیصد صلاحیتوں کا استعمال کر سکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نوے فیصد
چھپی ہوئی صلاحیتیں اگر استعمال کی جائیں تو اس کے لئے کتنا وقت درکار ہو گا؟
سائنس کے بقول انسان پانچ
ارب سالوں میں انسانی صلاحیتوں کا پانچ سے دس فیصد تک استعمال جان سکا ہے۔ اس ترقی
کو کیسے ترقی کے عروج کا زمانہ کہا جا سکتا ہے؟
سائنس دان یہ بھی کہتے
ہیں کہ پہلے زمانے میں ایسی ایجادات ہو چکی ہیں۔ جن ایجادات کے فارمولوں سے آج کی
سائنس ابھی تک واقف نہیں ہوئی ہے۔ آسمانی کتابوں انجیل، توریت ، زبور اور قرآن
حکیم کا مطالعہ کیا جائے تو سب کتابیں یہ درس دیتی ہیں کہ انسان دو رخوں سے مرکب
ہے۔ ایک رخ مادی جسم ہے اور دوسرا رخ روحانی جسم ہے۔ مادی جسم ماں کے بطن میں آنے
کے بعد بنتا ہے۔ اسی کو شعور کہتے ہیں۔ اور روحانی جسم، ماں کے پیٹ میں آنے سے
پہلے سے موجود ہے۔ اس کا لاشعور سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔
اگر انسان شعور میں رہتے
ہوئے، ریسرچ اور تلاش کرتا ہے تو وہ اربوں سال میں پانچ سے دس فیصد صلاحیتوں سے
واقف ہوتا ہے اور اگر انسان اپنی روح سے واقف ہو کر لاشعور میں ریسرچ اور تلاش
کرتا ہے تو اس کے اوپر قلیل عرصے میں باقی نوے فیصد صلاحیتیں بھی منکشف ہو سکتی
ہیں۔ زمان اور مکان کے فارمولوں کا انکشاف اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے۔
قرآن حکیم کا ارشاد ہے:
’’ہر چھوٹی سے چھوٹی اور
بڑی سے بڑی بات کو قرآن میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔‘‘
(سورۃ سبا۔ آیت نمبر۳)
خواجہ شمس الدین عظیمی
تصوف
کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار
کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا
ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ
محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی
صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس
اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان
ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے
ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند
بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ
صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا
نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے
اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل
کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں
بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت
اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا
علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔