Topics
’’ماہ رمضان جس میں نازل ہوا قرآن جس میں
ہدایت ہے لوگوں کے واسطے اور راہ پانے کی کھلی نشانیاں ہیں۔‘‘
(سورۂ بقرہ۔ آیت نمبر۱۸۵)
سوال یہ ہے کہ نزول قرآن
کے سلسلے میں رمضان کا تذکرہ کیوں کیا گیا ہے؟ جبکہ وحی رمضان کے علاوہ بھی آتی
رہی ہے۔ یہ تلاش کرنا بھی ضروری ہے کہ رمضان المبارک اور عام دنوں میں کیا فرق ہے
اور ماہ رمضان میں انسانی تصورات اور احساسات میں کیا تبدیلی رونما ہو جاتی
ہے؟رمضان المبارک سے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور جب تجھ سے پوچھیں
بندے میرے مجھ کو تو میں نزدیک ہوں، پہنچتا ہوں پکارتے کی پکار کو جس وقت مجھ کو
پکارتا ہے۔‘‘
(سورۂ بقرہ۔ آیت نمبر۱۸۶)
آیت کریمہ بتاتی ہے کہ
بندہ اور اللہ کے درمیان کسی قسم کا کوئی فاصلہ حائل نہیں ہے۔
زندگی تقاضوں کا نام ہے۔
یہ تقاضے ہی ہمارے اندر حواس بناتے ہیں۔ بھوک، پیاس، جنس، ایک دوسرے سے بات کرنے
کی خواہش، آپس کا میل جول اور ہزاروں قسم کی دلچسپیاں یہ سب تقاضے ہیں اور ان
تقاضوں کا دارومدار حواس پر ہے۔ حواس اگر تقاضے قبول کر لیتے ہیں تو یہ تقاضے حواس
کے اندر جذب ہو کر ہمیں مظاہراتی خدوخال کا علم بخشتے ہیں۔
رمضان کے علاوہ عام دنوں
میں ہماری دلچسپیاں مظاہر کے ساتھ زیادہ رہتی ہیں۔ حصول معاش میں جدوجہد کرنا اور
دنیاوی دوسرے مشاغل میں ہم گھر ےرہتے ہیں۔
اس کے برعکس روزہ ہمیں
ایسے نقطے پر لے آتا ہے جہاں سے مظاہر کی نفی شروع ہوتی ہے۔ مثلاً وقت معینہ تک
ظاہری حواس سے توجہ ہٹا کر ذہن کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ ظاہری حواس کے علاوہ
اور بھی حواس ہمارے اندر موجود ہیں جو ہمیں آزاد دنیا (غیب کی دنیا) سے روشناس
کرتے ہیں۔ روزہ زندگی میں کام کرنے والے ظاہری حواس پر ضرب لگا کر ان کو معطل کر
دیتا ہے۔ بھوک پیاس پر کنٹرول، گفتگو میں احتیاط، نیند میں کمی اور چوبیس گھنٹے
کسی نہ کسی طرح یہ کوشش کی جاتی ہے کہ مظاہر کی گرفت سے نکل کر غیب میں سفر کیا
جائے۔ یہ تصور غالب رہتا ہے کہ ہم اللہ کے لئے بھوکے پیاسے ہیں۔
حدیث قدسی میں اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’روزے کی جزا میں خو د
ہوں۔‘‘
یعنی روزے دار کے اندر وہ
حواس کام کرنے لگتے ہیں جن حواس سے انسان اللہ تعالیٰ کی تجلی کا دیدار کر لیتا
ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دور کرنے
والے حواس سب کے سب مظاہر ہیں اور اللہ تعالیٰ سے قریب کرنے والے حواس سب کے سب
غیب ہیں۔ مظاہر میں انسان زمان و مکان میں قید ہے اور غیب میں زمانیت اور مکانیت
انسان کی پابند ہے۔ جو حواس ہمیں غیب سے روشناس اور متعارف کراتے ہیں قرآن پاک کی
زبان میں ان کا نام ’’لیل‘‘ یعنی رات ہے۔
ارشاد ہے کہ:
’’ہم داخل کرتے ہیں رات
کو دن میں اور داخل کرتے ہیں دن کو رات میں۔‘‘
(سورۂ آل عمران۔ آیت
نمبر۶۷)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
’’ہم ادھیڑ لیتے ہیں رات
پر سے دن کو۔‘‘
یعنی حواس ایک ہی ہیں۔ ان
میں صرف درجہ بندی ہوتی ہے۔ دن کے حواس میں نہ زمان اور مکان کی پابندی ہے لیکن
رات کے حواس میں مکانیت اور زمانیت کی پابندی نہیں ہے۔ رات کے یہی حواس غیب میں
سفر کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور انہی حواس سے انسان برزخ، اعراف، ملائکہ اور ملاء
اعلیٰ کا عرفان حاصل کرتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام
کے تذکرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور وعدہ کیا ہم نے
موسیٰ سے تیس(۳۰) رات کا اور پورا کیا ان کو دس سے تب پوری ہوئی مدت تیرے رب کی
چالیس(۴۰) رات۔‘‘
(سورۂ اعراف۔ آیت
نمبر۱۴۲)
اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں
کہ ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چالیس رات میں تورات (غیبی انکشافات) عطا
فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے چالیس (۴۰) دن میں وعدہ پورا کیا،
صرف رات کا تذکرہ فرمایا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام
نے چالیس (۴۰) دن اور چالیس (۴۰) رات کوہ طور پر قیام فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہوا
کہ چالیس دن اور چالیس رات حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رات کے حواس غالب رہے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کی معراج کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
‘‘پاک ذات ہے جو لے گیا
اپنے بندے کو رات ہی رات ادب والی مسجد (مسجد الحرام) سے پرلی مسجد (مسجد الاقصیٰ)
تک جس میں ہم نے خوبیاں رکھی ہیں کہ دکھائیں اس کو اپنی قدرت کے نمونے وہی ہے سنتا
دیکھتا۔‘‘
(سورۂ بنی اسرائیل۔ آیت
نمبر۱)
رات کے حواس (سونے کی
حالت) میں ہم نہ کھاتے ہیں، نہ بات کرتے ہیں، اور نہ ہی ارادتاً ذہن کو دنیاوی
معاملات میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم مظاہراتی پابندی سے بھی آزاد ہو
جاتے ہیں۔
روزے کا پروگرام ہمیں یہی
عمل اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ روزے میں تقریباً وہ تمام حواس ہمارے اوپر غالب
ہو جاتے ہیں جن کا نام رات ہے۔
’’روزہ میرے لئے ہے اور
روزہ کی جزا میں ہوں۔‘‘ (حدیث قدسی)
دراصل روزہ وہ نظام ہے جو
’’ترک‘‘ سے تعلق استوار کرتا ہے۔
روزہ دار اپنا زیادہ سے
زیادہ وقت عبادت میں گزارتا ہے۔ روزہ دار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے
لئے صاف ستھری زندگی، صحیح نظام الاوقات میں گزارتا ہے تو اللہ خود رہنمائی کرتا
ہے۔ اللہ خود ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ قریب ہوتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کے پروگرام جس سے غیب کی دنیا کا انکشاف ہو خاص
حضرات کے لئے مخصوص ہے۔ اگر اس قسم کے پروگرام مخصوص لوگوں کے لئے ہوتے تو کتابوں
میں اتنے زیادہ کامیاب خواتین و حضرات کے نام نہ لکھے جاتے۔ صوفیاء کرام کے بیوی،
بچے ہوتے ہیں۔ صوفیاء خواتین کے شوہر ہوتے ہیں وہ دنیا کے سارے کام کرتے ہیں۔ اور
اسی طرح زندگی گزارتے ہیں جس طرح عام آدمی زندگی گزارتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ
حضرات اللہ کے لئے ’’ترک‘‘ کی لذت سے واقف ہوتے ہیں اور ہم ترک کی لذت سے ناآشنا
ہیں۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کے ہر اُمی کے لئے ترک ممکن ہے۔ جو بندہ صبح سے شام تک محض اللہ کے لئے
بھوکا پیاسا رہتا ہے وہ ترک کی لذت سے آشنا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر روزہ
چھوٹ جائے تو سارے دن یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی قیمتی چیز ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔
سخت گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں اللہ کے لئے پانی نہ پینا اور تمام حلال چیزوں کو
اپنے اوپر حرام کر لینا، بلاشبہ اللہ کیلئے ترک ہے۔ اور اس کی لذت سے ہر روزہ دار
واقف ہے۔
رمضان المبارک کے بیس
(۲۰) روزوں میں ظاہری عمل اور ظاہری حواس کے ترک سے سالک اس قوت رفتار کے قریب ہو
جاتا ہے جس سے غیب کا مشاہدہ ہوتا ہے۔
’’ہم نے اس کو اتارا
لیلتہ القدر میں اور تو نے کیا سمجھا کہ کیا ہے لیلتہ القدر۔ لیلتہ القدر بہتر ہے
ہزار مہینے سے۔ اترتے ہیں فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر۔ امان
ہے وہ رات صبح کے طلوع ہونے تک۔‘‘
(سورۂ القدر)
قرآن ایک دستور العمل ہے
جو نوع انسانی کی رہنمائی کرتا ہے۔ لیلتہ القدر ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے اور
لیلتہ القدر رمضان میں آتی ہے۔ ایک ہزار مہینوں میں تیس 30 ہزار دن اور تیس ہزار
راتیں ہوتی ہیں۔ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد لیلتہ القدر کی رات آنے تک روزہ دار
کے ذہن کی رفتار ساٹھ ہزار گنا ہو جاتی ہے۔ ساٹھ ہزار گنا رفتار سے انسان حضرت
جبرائیل علیہ السلام اور فرشتوں کو اللہ کے حکم سے دیکھ لیتا ہے۔ حدیث شریف میں
ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام ایسے شخص سے مصافحہ کرتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
تصوف
کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار
کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا
ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ
محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی
صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس
اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان
ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے
ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند
بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ
صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا
نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے
اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل
کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں
بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت
اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا
علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔