Topics
ہر مذہب میں تہوار ثقافتی و اخلاقی اقدار اور مخصوص
روایات کے تحت منائے جاتے ہیں۔ روایات۔۔۔ طور طریقے اور آداب ہیں جن سے معاشرہ
تعمیر ہوتا ہے۔ رسم و رواج ہر قوم کی الگ الگ ہیں کیوں کہ اس بنا پر ایک قوم دوسری
قوم سے منفرد ہے۔
جشن منانا ایسا آئینہ ہے جس میں قوم کی تہذیب کا عکس
نظر آتا ہے۔ خوشی کے اظہار کا طریقہ سب کا ایک دوسرے سے الگ جب کہ ایک ہے۔۔۔
انحصار اقوام کو اسلاف اور ماحول سے منتقل ہونے والی روایات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیان کیا جاتا ہے کہ زمین پر پہلا تہوار اس وقت منایا
گیا جب حضرت آدم ؑ کی توبہ بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوئی۔ جنت سے زمین پر آنے کے
بعد یہ خوشی کا پہلا موقع تھا۔ اسی طرح حضرت نوح ؑ اور ان کی قوم کو طوفان نوح ؑ
سے نجات ملی تو سجدہ شکر ادا کیا۔ بعد میں ان کی امت نے اس روز کو تہوار کے لئے
منتخب کیا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی قوم اس روز عید مناتی تھی جب آتش نمرود حضرت ابراہیم
ؑ کے لئے گل و گلزار بن گئی۔ حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی کی قبولیت اور اس عمل کی
پیروی کے طور پر عیدالاضحیٰ کا حکم آیا۔ قوم یونس ؑ اس روز عیدمناتی تھی جب حضرت
یونس ؑ کی توبہ قبول ہوئی اور وہ مچھلی کے پیٹ سے آزاد ہوئے۔
توریت میں یہودیوں کی عیدوں کا ذکر ہے، ان میں ایک عید
فسح ہے جب بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی۔ عیسائی حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت کے دن
عیدمناتے ہیں۔ ہندومت میں دیوالی اور ہولی دو بڑے مذہبی تہوار ہیں۔ دیوالی پر
چراغاں کیا جاتا ہے جب کہ ہولی میں رنگ پھینکے جاتے ہیں۔ پارسی نوروز کے نام سے
عید مناتے ہیں۔ بدھ مت کے ماننے والے بدھا صاحب کا یوم وفات عید کے طور پر مناتے
ہیں۔ بدھ مت کی اصطلاح میں نروان۔۔۔ جسم کے قالب سے نکل کر حیات جاودانی حاصل کرنا
ہے۔ سکھوں کے اہم تہواروں میں بیساکھی اور گرونانک جینتی ہیں۔ چینی سال کے جشن کے
موقع پر اسپرنگ فیسٹیول منایا جاتا ہے جو چین کا سب سے بڑا تہوار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام میں عید کی ابتدا سن 2 ہجری میں ہوئی۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ جب مکہ سے ہجرت
فرما کر مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے دیکھا کہ اہل مدینہ دو مخصوص دنوں میں سیر و
تفریح کے پروگرام مناتے تھے۔
رسول اللہ ؑ نے پوچھا: ان دو دنوں کی حقیقت کیا ہے؟
لوگوں نے عرض کیا: یہ رسومات ہمارے آباؤ اجداد کے زمانہ
سے چلی آرہی ہیں۔
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان دو تہواروں
کے بدلے ان سے بہتر دو دن تمہارے لئے مقرر فرمادیے ہیں۔عید الاضحیٰ اور عید الفطر۔
(سنن ابی داؤد(
عیدالاضحیٰ۔۔۔ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے بیٹے حضرت
اسمٰعیل ؑ کے ایثار و قربانی کی یاد کے طور پر منائی جاتی ہے۔ اس میں سبق اور حکمت
یہ ہے کہ بندہ اپنی عزیز ترین شے اللہ کی محبت میں قربان کردے۔ عیدالفطر۔۔۔ لیلۃ
القدر کی مقدس ساعتوں سے فیض یاب ہونے کی خوشی میں ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے۔
"بے شک ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل
کیا۔ اور تمہیں کیا ادراک کہ کیا ہے لیلۃ القدر۔ لیلۃ القدر بہتر ہے ہزار مہینوں
سے، اترتے ہیں اس میں روح اور فرشتے اللہ کے حکم سے، سلامتی ہے یہ رات طلوع فجر
تک۔"(القدر(
عیدالفطر کی نورانیت اور پاکیزگی اس امر پر ہے جب من
حیث القوم بندے نفس کا تزکیہ کرکے پاک صاف ہوتے ہیں۔ تیس دن اور تیس رات وقت کی
پابندی، غذا اورنیند میں کمی، سحر و افطار میں مہمان نوازی، عمل میں ہم آہنگی اور
ہر وقت اللہ کی یاد ایسی یک سوئی پیدا کردیتی ہے کہ آدمی کے اندر انسان متحرک
ہوجاتا ہے۔
آدمی پر انسان کا غالب ہونا دراصل ذہن کی رفتار میں
اضافہ ہے جو ستر ہزار گنا ہوجاتی ہے۔ وہ فرشتوں کو دیکھتا ہے اور ان سے ہم کلام
ہوتا ہے۔ حضرت جبرائیل ؑ سے مصافحہ کرتا ہے۔ یہی وہ عید ہے جو انفرادی و اجتماعی
طور پر قلبی سکون ہے۔
حضور اکرمؐ کا ارشاد ہے
"جو بندے شب قدر میں ،اللہ کی یاد و
محبت میں قربت کے لئے جاگتے ہیں۔ جبرائیل ؑ ان سعید بندوں سے مصافحہ کرتے ہیں۔ یہ
اتنی بڑی خوشی اور سعادت ہے کہ اس پر جتنا شکر ادا کیا جائے۔۔۔ کم ہے۔"
عید۔۔۔ عود سے ماخوذ ہے جس کے معنی خوشی اور لوٹنے کے
ہیں۔ شیخ اکبر ابن عربیؒ کے مطابق یہ دن ہر سال مسرت کے نئے تصور کے ساتھ لوٹ کر
آتا ہے۔
قرآن کریم میں عید کا لفظ حضرت عیسیٰ ؑ کی دعا میں آیا
ہے جو آپ نے شاگردوں کی درخواست پر نزول مائدہ (نعمت) کے لئے مانگی۔
"ہمارے رب ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل
کر جو ہمارے اور ہمارے اگلوں، پچھلوں کے لئے خوشی کا موقع قرار پائے اور تیری طرف
سے نشانی ہو، ہم کو رزق دے اور تو بہترین رازق ہے۔ (المائدہ 114(
غور طلب ہے کہ تمام مذاہب میں عید کا تصو رمغفرت اور
بخشش کی خوشی میں خالق کائنات اللہ کا شکر ادا کرنا ہے۔
عید کے موقع پر اجلے کپڑے پہننا، خوش بو اور عطر لگانا،
فطرہ دینا، دوسروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا اور اپنے مرحوم اعزہ و اقربا کی
قبروں پر فاتحہ پڑھنا رسول اللہ ؐ کی سنت ہے۔ لوگ کدورتوں کو نظرانداز کرکے عفو و
درگزر سے کام لیتے ہیں اور کھلے دل سے ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں۔۔۔ خوشی ہر طرف
بارش بن کر برستی ہے۔
عید کے مبارک تہواروں میں مسکینوں، محتاجوں، یتیموں،
بیواؤں اور معذوروں کی مدد کی جائے کہ انہیں کم مائیگی کا احساس نہ ہو۔ غریب ہو یا
امیر۔۔۔ ہر طبقہ کو قلبی سکون حاصل ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت امداد اللہ مہاجر مکی ؒ کا ایک ملازم چوری کرکے
بھاگ جاتا، جب پیسے ختم ہوتے تو واپس آجاتا، آپ اسے دوبارہ رکھ لیتے۔
ایک مرتبہ وہ پھر پیسے لے کر غائب ہوگیا۔ عید قریب تھی۔
حضرت امداد اللہ مہاجر مکیؒ عید کے دن پریشان تھے۔
لوگوں سے فرمایا
پتا نہیں اس نے عید کے کپڑے پہنے ہیں یا نہیں۔۔۔ وہ کس
حال میں ہوگا۔
حضرت سری سقطیؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عید کے دن
پیرومرشد حضرت معرف کرخیؒ کو کھجوریں جمع کرتے ہوئے دیکھا تو عرض کیا، حضور! آپ
کھجوریں کیوں جمع کررہے ہیں؟
حضرت معروف کرخیؒ نے قریب موجود بچہ کی طرف اشارہ کرتے
ہوئے فرمایا
میں نے اس لڑکے کو روتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ کیوں
رورہے ہو۔ بچہ نے کہا کہ میں یتیم ہوں اور آج عید کا دن ہے۔ سب نے نئے کپڑے پہنے
ہیں۔۔۔ میرے پاس کپڑے نہیں ہیں۔
انشاء اللہ بچہ کے لئے عید کے کپڑے آجائیں گے۔
حضرت سری سقطیؒ نے پیرومرشد سے عرض کیا: حضرت اس کام کو
میں انجام دے لیتا ہوں، آپ بے فکر رہیے۔
حضرت سری سقطیؒ فرماتے ہیں کہ میں بچہ کو لے کر کپڑے کی
دکان پر گیا اور نئے کپڑے خرید کر دیدیئے۔ اس کام کو کرنے سے دل میں نور نظر
آیا۔۔۔ اور میں خود سے بے خبر ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواتین و حضرات۔۔۔ رمضان المبارک میں اتحاد، تنظیم اور
یقین محکم کے پروگرام پر عمل کرنے سے غیب و شہود کی دنیا روشن ہوتی ہے۔
"عید کادن ہوتا ہے تو فرشتے عیدگاہ کے
راستے میں انتظار کرتے ہیں اور پکارتے ہیں۔۔۔ اللہ کے بندو، چلو رب کریم کی طرف جو
احسان کرتا ہے بھلائی کے ساتھ اور اجر عطا کرتا ہے۔ تمہیں عبادت کا حکم دیا گیا ہے
پس تم نے قیام کیا، روزے رکھے اور رب کریم کی اطاعت کی۔۔۔ اب تم انعام حاصل
کرو۔"
عید کی نماز کے بعد ملائکہ اعلان کرتے ہیں
"آگاہ ہوجاؤ بے شک تمہارے رب نے تمہیں
اجر عطا فرمایا اور تم اپنے گھر کی طرف کام یاب ہو کر لوٹے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوٹے بڑے بچو، بزرگو اور عزیز از جان دوستو! آپ کو عید
مبارک۔۔۔
اللہ مجھے اور آپ کو اپنی مخلوق کی خدمت کی توفیق عطا
فرمائے، آمین
درخواست ہے کہ عید کے مبارک دن عید کی نماز بچوں کے
ساتھ پڑھیں اور عیدگاہ سے لوٹتے وقت بچوں کو میری طرف سے غبارے دلوائیں۔ میں شکریہ
کے ساتھ قبول کرتا ہوں۔
اللہ حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی
جولائی 2016
خواجہ شمس الدين عظيمي
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔