Topics

دو کردار۔ ماہنامہ قلندر شعور ۔جون 2015



بتایا جاتا ہے کہ دنیا گول ہے


لاشعوری بیلٹ پر چلنے والے محقق کہتے ہیں دنیا پپیتے کی شکل کی ہے


دنیا محوری اور طولانی گردش میں چل رہی ہے


ہر زمانے میں زمین پر دو قسم کے آدمی موجود رہے، ایک قسم کے لوگ دنیا کو مقصد حیات سمجھتے ہیں۔۔۔ دوسرے گروہ کے لوگ دنیا کی ہر چیز سے استفادہ کرتے ہیں لیکن دنیا میں دل نہیں لگاتے۔۔۔ وہ کہتے ہیں۔۔۔ چونکہ دنیا کی ہر چیز فانی ہے ۔۔ تو فانی چیز میں دل لگانا فریب نظر


Illusion کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔۔


ہر آدمی پرسکون زندگی گزارنا چاہتا ہے۔۔۔ سکون کیا ہے۔۔۔؟ سکون کی تعریف یہ ہے کہ آدمی خوش رہے۔۔۔ شک اور وسوسوں سے آزاد رہ کر زندگی گزارے۔۔۔ سکون آشنا زندگی گزارنے کی خواہش ہر گروہ کے ہر فرد کی ہے


جو فرد خوش نہیں، وہ خوشی کی تلاش میں ناخوش رہتا ہے اس لئے وہ خوشی سے واقف نہیں۔


زندگی میں یہ تقاضہ امر مجبوری ہے کہ ہر آدمی کو مخلص دوست کی ضرورت ہے جو اکثر و بیشتر پوری نہیں ہوتی۔۔۔ اگر پوری ہوجائے تو اس کا مظہر یہ ہے کہ آدمی یا کسی بھی مخلوق کی زندگی کامیابی سے ہمکنار ہوگئی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بڑے لوگ کہتے ہیں آدمی social animal ہے


 آدمی جانور تو ہے لیکن socialہے۔۔social کا مطلب ہے کہ آدمی۔۔آدمی کے ساتھ میل جول رکھے۔اپنے جذبات و احساسات میں دوسروں کے جذبات و احساسات شامل کرے۔۔۔ خوشی میں خوش رہے اور غم میں دلجوئی کرے۔۔۔


بڑے لوگ بتاتے ہیں کہ دوست کی پرکھ یہ ہے کہ دوست دوست کے کام آئے اور دوست کے اچھے برے معاملات سلجھائے۔۔۔


محترم خواتین و حضرات ہم اس مجلس میں دو کرداروں کا تذکرہ کررہے ہیں۔۔۔


ایک کا نام قناعت۔۔۔ اور دوسرے کا نام اضطراب ہے۔۔۔


دونوں ایک دن، ایک ساعت، چند سیکنڈ کے وقفہ سے پیدا ہوئے۔۔۔ دونوں نے نشوونما کا زمانہ گزارا۔۔۔ نشیب و فراز سے آشنا ہوئے۔۔۔ تلخ و شیریں سے واقفیت ہوئی۔۔۔ تجربات کی بھٹی میں سے گزر کر کسی نتیجہ پر پہنچے۔


قناعت اور اضطراب کی تعریف یہ ہے کہ قناعت ایک شجر سایہ دار ہے اور اضطراب کانٹوں بھری سیج ہے۔


قناعت بندے کو مایوسی سے دور رکھتی ہے اور اضطراب مایوسی کی نشوونما کرتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے؂


ہر خوشی ایک وقفۂ تیاری سامان غم


ہر سکوں مہلت برائے امتحان و اضطراب


شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ خوشی بھی مایوسی میں تبدیل ہوتی ہے اور مایوسی خوشی کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ بزرگوں کا قول ہے مسافر دو کشتیوں میں سفر نہیں کرسکتا۔ اضطراب، بے چینی، پریشانی، غم و خوف ایک قبیل کے کردار ہیں۔ جہاں یہ ہوں گے وہاں سکون نہیں ہوگا۔ جہاں سکون ہوگا وہاں اضطراب، خوف، مستقبل کے خوفناک اندیشے اور وسوسوے نہیں ہوں گے۔


اضطراب اور قناعت دو کردار آپ کے سامنے ہیں۔


اضطراب ایسا کردار ہے جس میں خوف، رنج و غم اور مستقبل کے اندیشے پروان چڑھتے ہیں۔ آدمی اپنی ذات کو فنا کرکے ایسے راستہ کا انتخاب کرتا ہے جہاں خود کی نفی ہوجاتی ہے۔ سونے چاندی کی اینٹوں کی دنیا میں نمایاں مقام حاصل کرنے کے لئے اس نے زیادہ سے زیادہ معیار زندگی بڑھانے کو اہمیت دی۔۔۔ بینکوں سے قرض لیا۔۔۔ دوستوں کے ساتھ ہیر پھیر کیا۔۔۔ اور کروڑوں روپے کے مایا جال میں پھنس گیا۔۔۔ جب کوئی بندہ اس مایا جال میں پھنس جاتا ہے تو وہ دراصل جذباتی، شعوری اور محسوساتی طور پر محدود ہوجاتا ہے۔۔۔ اور یہ محدودیت اسے ایسے دوراہے پرکھڑاکردیتی ہے کہ وہ راستہ کاانتخاب نہیں کرسکتا اس لئے ایک راستہ پر سونے چاندی کی چمک، عزت و وقار کے مینار، خودنمائش، عہدوں کا زعم، بڑی سے بڑی گاڑیوں کا حصول زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ اس مایا جال میں پھنس کر وہ بھول جاتا ہے کہ غیب کی دنیا سے جس طرح بے لباس پنگوڑے میں آیا تھا اسی طرح ایک دن میت ڈولی میں بے لباس، خالی ہاتھ مایا جال سے نکل جائے گا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ایک روز اضطراب اور قناعت دونوں آمنے سامنے ہوئے۔۔۔ قناعت نے اضطراب سے پوچھا کہ تم بے چین، پریشان کیوں ہو۔۔۔؟


اضطراب بولا: میں دنیا میں خالی ہاتھ آیا تھا میں نے محنت مزدوری کم کی مگر چالاکی اور ہیرا پھیری سے نہ صرف بچوں کو اچھا کھلایا بلکہ مہنگا لباس خرید کردیا۔ ہر خواہش پوری کی، گاڑی، بنگلہ، نوکر چاکر غرض دنیا کی ہر آسائش ان کے لئے جمع کرنے کی کوشش کی۔۔۔ مگر آج حال یہ ہے کہ جب میں بیمار پڑتا ہوں تو کوئی تیماردار نہیں ہوتا۔۔۔ اولاد مایا جال میں پھنس کر اجنبی ہوگئی۔۔۔ لگتا ہے کہ اس انتظار میں ہے کہ کب میں چارپائی پر مستقل نیند سوجاؤں اور وہ مال دولت ان کے ہوجائیں۔۔۔ وہ مال و دولت جس کے لئے ساری کوشش میں نے کی آج اسی مال و دولت کی خاطر اولاد میرے مرنے کی منتظر ہے۔۔۔ ان کو کیسے سمجھاؤں کہ یہ مال جس نے جمع کیا جب اس کے ساتھ وفادار نہیں رہا تو تم سے وفا کیسے کرے گا۔


"اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو عذاب الیم کی خبر سنادو۔" (34:9(


یہ المناک داستان سن کر قناعت نے کہا۔۔۔ اضطراب بھائی یہ دنیا ایسا مسافر خانہ ہے کہ جو مسافر اسے سب کچھ سمجھ کر دل لگالیتا ہے اور دل لگانے کے لئے ہر وہ چیز اس کے لئے سرمایہ بن جاتی ہے جو اس کی نہیں ہے۔ جب مسافر اس کو اہمیت دیتا ہے تو وہ مجھ سے دور ہوجاتا ہے جیسے جیسے مجھ سے دوری ہوتی ہے "مایا جال" مسافر کو ہشت پا بن کر جکڑلیتا ہے اور آدمی یہاں سے ایسی جگہ چلا جاتا ہے جہاں راحت و سکون نہیں ہے۔


بھائی اضطراب۔۔۔ میں نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ دنیا عارضی، فانی اور بے وفا ہے۔ کسی عارضی، فانی اور بے وفا سے دل لگانا کیا۔۔۔ یہ دنیا مسافر خانہ ہے یہاں لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، جو جاتا ہے وہ آتا نہیں اور جو آتا ہے وہ یہاں سے چلاجاتا ہے۔ جب وہ آتا ہے کچھ ساتھ نہیں لاتا اور جاتا ہے تو کچھ ساتھ نہیں لے جاتا۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ مال و دولت، اولاد، بڑے بڑے محل، زروجواہر، کنبہ، برادری خاندان سب مستقل ہیں جبکہ دنیا میں کوئی ایک شے بھی مستقل نہیں ہے۔ لیکن اس بات سے اربوں کھربوں مخلوق میں کوئی ایک فرد بھی انکار نہیں کرسکتا کہ بے لباس آنے والا آدمی بے لباس چلاجاتا ہے۔


میرے قبیلہ کے افراد میری وسیع چادر میں زندہ رہتے ہیں اور دوسری زندگی میں بھی استغنا کا سرمایہ ان کے کام آتا ہے۔ دنیا میں آنے کے بعد ان کے اندر مستحکم یقین ہوتا ہے کہ وہ رسول اللہؐ کی زندگی کو نمونۂ عمل بناتے ہیں اور مخلوق کی مخلصانہ خدمت کرتے ہیں جیسے فضا میں ہوا، زمین کے اندر۔۔۔ باہر پانی، شجر و حجر، ابلتے چشمے اور باران رحمت امتیاز کے بغیر برستی ہے۔


اللہ اپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے اور بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔ تمام پیغمبران علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت یہ ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق سے اس طرح محبت کرتے ہیں جیسے ماں اپنے بچوں سے۔


خواتین و حضرات قارئین آپ نے " " پڑھ کر سنی۔ اس مضمون میں دو کردار پیش کئے گئے ہیں۔


1۔قناعت -2 ۔اضطراب


قناعت آسودگی، دلجوئی، بلاامتیاز مذہب و ملت، مخلصانہ محبت، چھوٹوں پر شفقت، بڑوں کا احترام اور انجام پر نظر ہونا ہے۔


اور دوسرا کردار اضطراب جو ولن کا کام کرتا ہے۔ طمع، لالچ، خودغرضی، خوف، مایوسی، اللہ پر بھروسہ نہ ہونا، ذہنی پریشانی، شک اور وسوسوں کی یلغار ہے۔


یہ اللہ سے بندہ کو دور کرنے کے کردار ہیں. اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:


"اللہ کے دوستوں کو خوف ہوتا ہے نہ غم۔" (62:10(


قارئین آپ کو فیصلہ کرنا ہے کہ جس بندہ میں خوف اور غم ہے وہ اللہ کا دوست نہیں ہے تو پھر کیا ہے۔۔۔؟


 


۔اللہ حافظ

خواجہ شمس الدین عظیمی

جون 2015


Topics


آج کی بات

خواجہ شمس الدين عظيمي

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔