Topics
بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’اوروہ اللہ ہے جو
تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری
کرنے والا ہے۔ اس کے لئے بہترین نام ہیں۔ ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی
تسبیح کررہی ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔‘‘ (الحشر: 24)
* کائنات میں سورج،
چاند، ستارے، لاحساب دنیائیں، ارض و سماوات، سماوات و ارض کے اندر مخلوقات پر تفکر
کرنے سے نتیجہ یہ مرتب ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے، عالم الغیب ہے
اور۔۔۔ ایک نہیں بلکہ لاشمار کائناتیں اللہ کے ارادہ کی مظہر ہیں۔
* کوئی بھی شے بذات خود
قائم نہیں، اللہ کی ربوبیت اور خالقیت کا نمونہ ہے۔ یہ باتیں بہت زیادہ غور طلب
ہیں۔ بظاہر زندگی کے معمولات سے متعلق ہیں لیکن ان میں گہرائی بہت ہے۔ صدیاں
گزرجاتی ہیں مگر اس طرف لوگوں کا ذہن یا تو جاتا نہیں اور اگر جاتا ہے تو شکوک و
وسوسوں میں چھپ جاتا ہے۔
* تخلیقات میں کوئی
وجود ایسا نہیں ہے جسے دوام ہو، ٹھہراؤ ہو، استقامت ہو یا اس میں تغیر نہ ہو۔ مٹی
کے ذرّہ سے لے کر آسمانی بروج تک سب میں تغیر ہے۔ سورج میں تغیر، چاند کا غیب
ظاہر، ستاروں کا چھپنا، دن کی روشنی، رات کا اندھیرا، حیات و ممات، خوشی و غم،
سکون و اضطراب، شکوک و شبہات، یقین و بے یقینی وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مخلوق ایک نہیں۔۔۔ ماں
باپ، بہن بھائی، خاندان اور برادری ہوتی ہے۔
خوشی نہ ہو تو غم نہ
ہوگا۔۔۔ غم نہ ہو تو خوشی نہیں ہوگی۔
شے کی بساط پر تفکر کیا
جائے تو ہر چیز ظاہر ہورہی ہے، پروان چڑھ رہی ہے، گھٹ رہی ہے، بڑھ رہی ہے، ظاہر
ہورہی ہے اور غائب ہورہی ہے۔ بچہ کی عمر دو دن ہوئی تو ایک دن غائب ہوجاتا ہے۔ ایک
سال کا بچہ ڈیڑھ سال کا ہوا تو ڈیڑھ سال چھپ جاتا ہے۔ عمر کا چھپنا ظاہر ہونا کبھی
آپ نے دیکھا ہے اور اس کے بارے میں سوچا ہے۔۔۔؟
دنیا میں آنے سے پہلے
ہم کہاں تھے۔۔۔؟ دنیا میں ظاہر ہوئے۔ پہلا دن پردہ میں چھپا تو دوسرا دن ظاہر
ہوگیا۔ تیسرا دن ظاہر ہوا تو دو دن پردہ میں چھپ گئے اور اسی طرح چھپی ہوئی شے
چھپن چھپائی کے کھیل میں اس قدر چھپ گئی کہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
ایک شخص کی عمر چالیس
سال ہے۔ وہ چالیس سال کا کب ہوا۔۔۔؟
حاضرین نے بیک آواز
جواب دیا۔۔۔ جب چالیس سال غائب ہوگئے۔
کیا چالیس سال ہمیں نظر
آتے ہیں۔۔۔؟ چالیس سال کی عمر میں بچپن کی تصویر دکھائی جائے تو کیا آپ پہچان سکتے
ہیں۔۔۔؟
ہر شے غیب ظاہر غیب کے
میکانزم پر قائم ہے۔ اسپرم مسلسل غیب ظاہر نہ ہو تو شکل و صورت کیسے بنے گی۔۔۔؟
کھانا غائب نہ ہو تو توانائی کہاں سے آتی ہے؟ ہم جو کچھ کھاتے ہیں اس سے توانائی
ملتی ہے۔ کھانا کہاں غائب ہوگیا، نہیں معلوم۔ انرجی کہاں سے ظاہر ہوئی، کہاں غائب
ہوگئی، کیسے بڑھ گئی، کیسے گھٹ گئی، نہیں معلوم۔ کیا آپ کو معلوم ہے۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب میں جو بات بتانا
چاہتا ہوں وہ اجازت لے کر بتارہا ہوں۔
آدمی اس دنیا میں آنے
سے پہلے کہاں تھا۔۔۔؟
مجلس میں خواتین و
حضرات نے جواب دیا: غیب میں۔
پیدا ہوا تو کہاں آیا؟
حاضرین: ظاہر میں آگیا۔
اور جب دو دن کا ہوگیا
تو پہلا دن کہاں گیا۔۔۔؟ غیب سے آیا غیب میں گیا۔ تیسرا دن غیب سے ظاہر ہوا اور
چوتھا دن غیب میں چلا گیا۔ جب وہ اسّی (80) سال کا ہوا تو دنیا سے رخصت ہوگیا۔
کہاں سے آیا تھا؟
حاضرین: غیب سے۔
آپ کہاں ہیں؟
حاضرین: غیب میں
جب آپ غیب کی ایک شق
ہیں تو کیا غیب کی شق غیب کو نہیں دیکھ سکتی۔۔۔؟
پرہجوم آواز آئی۔۔۔
دیکھ سکتی ہے۔
کیا کسی نے غیب دیکھا
ہے۔۔۔؟
میری معلومات کے مطابق
مجلس میں حاضرین کی تعداد تقریباً آٹھ ہزار ہے۔
یہ خطاب بہت سے ممالک
میں سنا اور دیکھا جارہا ہے۔ دیکھنا اور غائب ہونا، غائب ہونا اور دیکھنا۔۔۔ یعنی
جب غیب و شہود دیکھنا ہے تو ہم کیوں نہیں دیکھ سکتے اور کیوں نہیں دیکھتے۔۔۔؟ جب
کہ بقول مولانا رومؒ
آدمی دید است ، باقی
پوست است
دید آن باشد کہ دید
دوست است
مولانا رومؒ فرماتے ہیں
کہ آدمی نگاہ ہے، باقی پوست ہے اور نگاہ یہ ہے کہ دوست۔۔۔ دوست کو دیکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس راز کو اس طرح
سمجھئے کہ آپ غیب سے ظاہر ہوئے۔۔۔ ظاہر غیب میں چلا گیا، غیب پھر ظاہر ہوا اور
ظاہر ہو کر غائب ہوگیا۔ بالآخر غیب و شہود کا سلسلہ زینہ بہ زینہ ایسی جگہ جاکر
ختم ہوا جہاں دنیاوی اعتبار سے سیڑھی نہیں ہے۔ چالیس (40) سال کی عمر میں کتنے ردوبدل
غیب اور مظاہرے میں ہوئے؟ اسّی (80) دفعہ آپ غیب میں گئے اور چالیس (40) مرتبہ
ظاہر ہوئے۔ بالآخر غیب سے آئے تھے اور غیب میں جاکر غائب ہوگئے۔
غیب ظاہر غیب
40 40 40
غیب = 80 ظاہر 40 =
سول یہ ہے کہ پھر انسان
کی اصل کیا ہوئی۔۔۔؟
مجمع نے بلند آواز سے
جواب دیا، غیب۔
غیب کیا ہے۔۔۔؟ عالم
الغیب والشھادۃ ۔۔۔ غیب اللہ ہے۔ جب اللہ کی قدرت اور اللہ کے انوار سے ہماری
تخلیق ہوئی تو ہم اللہ کی رحمت و قدرت سے وابستہ ہیں۔ صلبی رشتہ کی نہیں۔۔۔ بات
روح کی ہورہی ہے۔ روح کیا ہے۔۔۔؟ روح اللہ کی صفت ہے۔ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں
کہ دنیا میں آنے سے پہلے ہم اللہ کے حضور حاضر تھے۔ ہر روز دو دفعہ اللہ کے حضور
حاضر ہورہے ہیں، دنیا میں مظاہرہ کرتے ہیں اور بالآخر اللہ کے حضور غیب میں واپس
چلے جاتے ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں:
’’وہی اول ہے اور آخر
ہے اور ظاہر ہے اور باطن ہے۔‘‘ (الحدید 3:)
’’اور وہ سب کچھ جانتا
ہے جسے تم لوگ چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو۔ ‘‘ (النمل25: )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشی اور غم کیا ہے۔۔۔؟
جو چیز ذہن کے مطابق ہو، ہمیں پسند ہو، مطلب نکلتا ہو، عزت ملتی ہو وغیرہ۔۔۔ ہمارے
لئے خوشی ہے۔ ہماری خوشی بہت سارے پیسوں میں ہے۔ پیسے نہ ہوں تو ناخوشی ہوجائے گی۔
خوشی ناخوشی کے الٹ پھیر میں زندگی کا تجزیہ کریں اور بتائیں کہ کون سا رخ غالب
ہے۔۔۔؟ ایسے لوگوں کی زندگی میں پریشان کرنے والا رخ ہمیشہ غالب رہتا ہے۔
اَلَا اِنَّ
اَوْلِیاَءَ اللہِ لاَ خَوْف عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo ۔۔۔اللہ کو ماننے والا، اللہ پر یقین کرنے والا۔۔۔ اللہ کا دوست
ہوتا ہے اور اللہ کے دوست کی پہچان یہ ہے کہ اسے خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غمگین ہوتا
ہے۔۔۔ زندگی میں سے خوف و غم نکل جائے تو کیا چیز باقی رہی؟ خوف و غم سے خوشی میسر
نہیں آتی۔ ہمیں خوشی زیادہ ہوتی ہے یا غم زیادہ ہوتا ہے۔۔۔؟
بیک زبان آواز گونجی۔۔۔
غم زیادہ ہوتا ہے۔
غم زیادہ ہوتا ہے تو
خوشی کم ہوجاتی ہے، خوشی زیادہ ہوتی ہے تو غم کم ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت
آدمؑ سے فرمایا کہ جنت تمہاری میراث ہے۔ شرط یہ ہے کہ یہاں خوش ہو کر کھاؤ پیو
جہاں سے دل چاہے لیکن۔۔۔ ایک درخت کے قریب نہیں جانا۔
غور کریں کہ بہت بڑا
گھر ہے جس میں آرام و آسائش کی ہر چیز ہے۔ گھر کا مالک کہتا ہے کہ سب تمہارا ہے
مگر اس الماری کی طرف گئے تو اس گھر میں نہیں رہو گے۔
عقل مندی کیا ہے۔۔۔؟
حاضرین نے جواب دیا، الماری کی طرف نہ جائیں۔
اگر الماری کھولی تو
وہاں الوژن (فریب نظر) کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور آپ گھر سے بے گھر ہوگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنت کی زندگی حاصل کرنے
کے لئے آدمی اور انسان کے فرق کو سمجھنا ہوگا۔ آدمی کا تعلق حیوانات سے ہے۔ ساری
عادتیں جو حیوانات میں ہیں، نوع آدم میں موجود ہیں۔ کھانا، پینا، سونا، جاگنا، گھر
بنانا، بچے پیدا کرنا، بچوں کو پالنا، حفاظت کرنا، دشمن کے خطرہ کو محسوس کرنا،
مقابلہ کرنا، گرمی سردی کا احساس۔۔۔ کون سی ایسی چیز ہے جو جانوروں میں ہے اور
آدمی میں نہیں ہے۔۔۔؟ آپ کہتے ہیں کہ آدمی میں عقل ہے۔ کیا آدمی کے سارے بچے عقل مند
ہوتے ہیں۔۔۔؟ قرآن کریم میں جانوروں کی عقل کا تذکرہ ہے، ان کے نام سے سورتیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی
امانت ارض و سماوات و پیش کی۔ سماوات و ارض سے مراد یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں
جتنی مخلوقات ہیں سب کو پیش کی۔ پہاڑوں کو امانت پیش کی۔ سب نے عاجزی سے امانت کو
قبول کرنے سے انکار کردیا مگر انسان نے قبول کرلیا۔ غور طلب ہے کہ یہاں آدم کا لفظ
نہیں ہے، انسان کا لفظ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطلب یہ ہے کہ آدمی اور
انسان دو کیٹیگری ہیں۔ انسان اللہ تعالیٰ کی بہترین صناعی ہے، صاحب امانت ہے، اللہ
کا نائب ہے اور فرشتوں کا مسجود ہے اور آدمی ۔۔۔ آدمی کیچڑ ہے، گارا ہے، سڑاند ہے،
بجنی کھنکھناتی مٹی، اسپرم (Sperm) ہے۔ آدمی نوع حیوانات میں اور انسان کائنات میں افضل مخلوق ہے۔
ہم سونا، چاندی تلاش
کرتے ہیں لیکن کائنات میں ہمارا منصب کیا ہے اس پر غور نہیں کرتے۔ سونا چاندی مٹی
ہے، گھاس پھوس مٹی ہے۔ پھل فروٹ مٹی ہے، ہم خود بھی مٹی ہیں لیکن۔۔۔ انسان مٹی
نہیں ہے، وہ احسن تقویم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ آدمی
حیوان ناطق ہے۔ کیا بکری، بلی، کتے، گھوڑے، شیر، ہاتھی، گونگے بہرے ہیں، کون سی
ایسی مخلوق ہے جو نہیں بولتی۔۔۔؟ گھاس پھوس بھی حیوان ناطق ہے۔ ہر شے اللہ کی
تسبیح بیان کررہی ہے۔ صبح سویرے ہم سب سوتے ہیں تو چڑیاں چوں چوں کورس میں حمد
پڑھتی ہیں۔
’’کوئی چیز ایسی نہیں
جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کررہی ہو مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں
ہو۔‘‘ (بنی اسرآئیل: 44)
حیوان اور انسان میں
فرق تلاش کریں۔ روحانیت سے متعلق کتابوں میں یہ باتیں وضاحت کے ساتھ بیان کردی گئی
ہیں۔ کتابیں اس لئے لکھی گئی ہیں کہ ان کو پڑھیں، تفکر کریں اور اپنی عادات کو
تبدیل کریں۔ اگر کوئی قوم اپنی تبدیلی نہیں چاہتی تو اللہ بھی اس کے اندر تبدیلی
پیدا نہیں کرتا۔
’’حقیقت یہ ہے اللہ کسی
قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔‘‘ ( الرعد
11:)
ہم نے سب کچھ دنیا کو
سمجھ لیا ہے اور اللہ کی نعمتوں سے محروم ہورہے ہیں لیکن دنیا کو نہ سمجھنا بھی
نادانی ہے۔ اسلام رہبانیت کی اجازت نہیں دیتا۔ رہبانیت تو بھیڑ بکریوں کی بھی نہیں
ہوتی۔ بھیڑ بکریوں کو کبھی غاروں میں بیٹھے دیکھا ہے۔۔۔؟ صبح نکلتے ہیں، کھاتے
ہیں، پیتے ہیں، کھیلتے ہیں، گھر آجاتے ہیں، ان کے بچے ہوتے ہیں اور وہ اپنے بچوں
کو دودھ پلاتے ہیں۔
اسلام یہ ہے کہ آپ
اللہ۔۔۔ اللہ کے رسولؐ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے سادہ زندگی گزاریں۔ اچھا
کھائیں، اچھا پہنیں، صاف ستھرے گھر میں رہیں۔ صفائی نصف ایمان ہے۔ صفائی ہوگی تو
ایمان بالیقین ہے۔
اللہ کی عنایت ، رسول
اللہؐ کی رحمت و شفقت سے میرے مرشد کریم نے مجھ عاجز بندہ میں جو روشنی منتقل کردی
ہے میں چاہتا ہوں میرے بچے اس سے واقف ہوجائیں۔ غور و فکر کرکے اس بات کو کسی بھی
طرح یقین کے درجہ تک پہنچادیں کہ جسم لباس ہے۔۔۔ جسم روح کے تابع ہے۔ روح سے واقف
نہیں ہوئے تو جنت میں یہ سڑاند جسم نہیں جائے گا۔
اللہ تعالیٰ مجھے۔ آپ
سب کو سیدناحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روحانی فرزند حضور بابا اولیاؒ کی
تعلیمات پر سچے دل سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔
خلاصہ
* کائنات میں کوئی شے
بذات خود قائم نہیں۔۔۔ اللہ کے ارادہ کی مظہر ہے۔
* تفکر کی عادت نہ ہونے
سے خیال شکوک و وسوسوں میں چھپ جاتا ہے۔
* نظام حیات غیب ظاہر
غیب کے میکانزم پر قائم ہے۔ آدمی جب تک غائب نہیں ہوجاتا۔۔۔ ظاہر نہیں ہوتا۔
* مخلوق غیب کے علاوہ
کچھ نہیں لیکن غیب کیا ہے۔۔۔ واقف نہیں۔
* پسند کے مطابق عمل۔۔۔
خوشی اور ناپسند عمل ہمارے لئے ناخوشی ہے۔ اگر خوشی ہے تو قائم کیوں نہیں رہی اور
اگر ناخوشی ہے تو خوشی میں کیوں تبدیل ہوگئی۔ خوشی اور ناخوشی کی ہماری تعریف
مفروضہ ہے۔
* اللہ کے دوستوں کو
خوف اور غم نہیں ہوتا۔ ان کا یقین ہے کہ ہر شے اللہ کی طرف سے ہے۔
* نافرمان زندگی کا
نتیجہ الوژن (فریب نظر) کے علاوہ کچھ نہیں۔
* آدم نوع حیوانات میں
اور انسان کائنات میں افضل مخلوق ہے۔
* تفکر سے حقیقت کا
مشاہدہ کرلیں کہ جسم لباس ہے اور روح کے تابع ہے۔
خواجہ شمس الدين عظيمي
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔