Topics

خیر الرازقین۔ ماہنامہ قلندر شعور ۔فروری 2015



آدمی اور انسان ہم معنی سمجھے جاتے ہیں جبکہ قرآن کریم میں آدمی اور انسان کی تعریف الگ الگ ہے۔


آدمی کی تخلیق اسپرم سے ہوتی ہے اور اسپرم آدمی کی تخلیق ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اپنی ذات کواحسن الخالقین فرمایا ہے۔ انسان اور آدمی کی تعریف الگ الگ بیان ہوئی ہے۔ انسان احسن تقویم ہے اور آدمی اسفل السافلین ہے۔


آدمی چونکہ اسفل السافلین میں گھرا ہوا ہے اس لئے زندگی میں کثافت اور تعفن کا عمل دخل ہے۔


آدمی اور انسان دو کردار ہیں۔۔۔ آدمی ایسا کردار ہے جس میں شکوک و شبہات، ہٹ دھرمی، ضد، طمع اور لالچ، تجربہ کے برخلاف مال و زر کو سب کچھ سمجھنا، حقیقت شناسی سے دانستہ نادانستہ دور ہوتے رہنا، غرورو تکبر بغاوت ہے۔ آدمی کی تخلیق تعفن سے شروع ہوتی ہے اور تعفن پر ختم ہوجاتی ہے۔ زندگی وسائل پر قائم ہے، وسائل میں سب سے اہم غذا ہے۔ آدمی کی غذا پر غور کیا جائے تو بالآخر بدبودار اور سڑاند کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ آدمی کس طرح وجود میں ظاہر ہوا، جوان ہوا، ماں باپ بنا، بوڑھا ہوا، ان اسباب پر نظر ڈالیئے ہر چیز بظاہر وہ کتنی ہی جاذب نظر ہو حقیقتاً بدبو میں چھپی ہوتی ہے۔


اس کے برعکس انسان جس کو اللہ تعالیٰ احسن تقویم فرمارہے ہیں نور سے معمور ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


استاد نے لیکچر کا آغاز کرتے ہوئے ایک گلاس اٹھایا جس میں بہت تھوڑی مقدار میں پانی تھا۔


استاد نے گلاس کو ہاتھ میں اٹھا کر بلند کردیا، تاکہ تمام طالب علم اسے دیکھ لیں۔


اور سوال کیا: "آپ کے خیال میں اس گلاس کا وزن کیا ہوگا۔۔۔؟"


"پچاس گرام" ۔۔۔"سوگرام" ۔۔۔ "ایک سو پچیس گرام"


ہر اسٹوڈنٹ نے اپنے اپنے اندازوں سے جواب دیا۔


استاد کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے کہا:


"میں خود درست وزن نہیں بتاسکتا جب تک میں اس کا وزن نہ کرلوں۔۔۔"


لیکن سوال یہ ہے کہ اگر میں اس گلاس کو چند منٹوں کے لئے اسی طرح اٹھائے رہوں تو کیا ہوگا؟" ۔۔۔"کچھ نہیں ہوگا! طالب علموں نے جواب دیا۔


"ٹھیک ہے، اب بتایئے کہ اگر میں اس گلاس کو ایک گھنٹے تک اٹھائے رہوں تو کیا ہوگا۔۔۔؟" استاد نے پوچھا۔


"آپ کے بازو میں درد شروع ہوجائے گا۔۔۔ "طالبات میں سے ایک نے جواب دیا۔


"آپ نے بالکل ٹھیک کہا"۔۔۔


استاد نے تائید کی اور دوبارہ پوچھا:


"اب یہ بتاؤ کہ اگر میں گلاس کو دن بھر اسی طرح اٹھائے رکھوں تو کیا ہوگا۔۔۔؟"


"آپ کا بازو شل ہوجائے گا۔۔۔" ایک طالب علم نے کہا۔


"آپ کا پٹھا اکڑسکتا ہے۔" ایک اور طالب علم بولا۔


"بہت اچھا! لیکن اس دوران میں کیا گلاس کا وزن تبدیل ہوا؟"


"نہیں۔۔۔" طالب علموں نے جواب دیا۔


"تو پھر بازو میں درد اور پٹھا اکڑنے کا سبب کیا تھا؟ " استاد نے پوچھا۔


طلبا ء و طالبات خاموش رہے۔۔۔


گلاس! ایک طالب علم نے کہا۔


"درست ہے!۔۔۔ ہماری زندگی کے مسائل بھی کچھ اسی قسم کے ہیں۔۔۔ اگر انہیں ذہن پر چند منٹ سوار رکھیں تو وہ ٹھیک ٹھاک لگتے ہیں۔۔۔ انہیں زیادہ دیر تک سوچتے رہیں تو وہ سردرد بن جائیں گے۔۔۔ ان خیالات میں زیادہ دیر الجھے رہیں تو آپ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔"


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مذکورہ استاد کی تھیوری سوفیصد درست ہے۔۔۔ ہم نے روزمرہ زندگی کے بہت سے چھوٹے، غیراہم اور معمولی نوعیت کے معاملات کو اس قدر اہمیت دے دی ہے کہ ان کا بوجھ ہمہ وقت ذہن پر سوار رہتا ہے۔۔۔ اور توانائی ضائع ہوتی رہتی ہے۔۔۔ لاعلاج امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔۔۔ ہر دوسرا فرد ڈپریشن، ٹینشن اور اعصابی دباؤ میں مبتلا ہے۔۔۔


ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ ہم جب بھی بات کرتے ہیں مستقبل کا رونا روتے رہتے ہیں۔۔۔ ہمیں ہمیشہ مستقبل کی فکر لاحق ہوتی ہے۔۔۔


کہتے یہ ہیں کہ رزق اللہ دیتا ہے۔۔۔ تجربہ بھی یہی ہے کہ رازق اللہ تعالیٰ ہے۔۔۔ ماں کے پیٹ سے لے کر اٹھارہ بیس سال کی عمر تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس طرح رزق عطا کیا ہے کہ آپ نے کوئی محنت مزدوری نہیں کی اور جب بیس سال کی عمر سے آپ آگے نکل جاتے ہیں، تھوڑا سا پڑھ لکھ جاتے ہیں، ہاتھوں میں جان آجاتی ہے تو پھر ہر فرد کل کی فکر میں دبلا ہونے لگتا ہے۔۔۔


حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا:


"اگر خوش رہنا ہے۔۔۔ جنت کی زندگی میں سانس لینا ہے۔۔۔دنیا کی پریشانیوں سے آزاد ہونا ہے تو تم عمر میں کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوجاؤ کیفیت اللہ تعالیٰ کے سامنے سات آٹھ سال کے بچے سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔۔۔"


جبکہ صورتحال یہ ہے کہ بڑے ہو کر آپ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ میں کماؤں گا نہیں تو کھاؤں گا کہاں سے۔۔۔؟


یہ پریشانی آپ نے اپنے اوپر ازخود مسلط کرلی ہے۔۔۔


آج کا انسان اس لئے بے سکون اور پریشان ہے کہ وہ بچپن سے دور ہوگیا ہے۔۔۔


تجربہ ہے کہ بچوں میں سکون و اطمینان کی طرزیں بڑوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔۔۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے ذہن میں یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ کپڑے کیسے بنیں گے؟ جوتے کیسے آئیں گے۔۔۔؟ اسکول کی فیس کس طرح ادا کی جائے گی۔۔۔؟ بچے ان تمام الجھنوں سے آزاد ہوتے ہیں۔۔۔ بچپن میں بڑوں کے لئے یہ پیغام چھپا ہوا ہے:


سب کا کفیل اللہ تعالیٰ ہے۔۔۔


وہ اپنی مخلوق کی تمام ضروریات ہر لمحہ پوری کرتا ہے لیکن جب انسان اس قابل ہوتا ہے کہ وہ روزی تلاش کرسکے تو اکثر اس کا یقین کمزور اور بہت کمزور ہوجاتا ہے۔


اگر یقین اسی طرح اللہ تعالیٰ پر قائم ہوجائے جس طرح بچوں کا والدین پر ہوتا ہے ہم سکون آشنا ہوجائیں گے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حکایت سنئے۔۔۔ ایک صاحب کو بیٹھے بیٹھے خیال آیا۔۔۔ یہ کہتے ہیں کہ رزق اللہ دیتا ہے۔ ٹھیک ہے اللہ رزق دیتا ہے لیکن اگر میں کھانا نہ کھاؤں تو مجھے زبردستی کھانا کون کھلاسکتا ہے، کھانا پینا چھوڑدیا گھر والوں نے اصرار کیا کہ کھانا کھاؤ۔ پریشان ہو کر گھر سے نکل آئے اور ایک پرانے قبرستان میں جاکر بیٹھ گئے۔ ابھی سورج پوری طرح آسمان کے اس طرف چھپا بھی نہیں تھا کہ ایک صاحب قبرستان میں آئے کسی قبر کے پاس بیٹھ کر فاتحہ پڑھی اور نذر گزاری ۔جاتے وقت اس شخص کی نظر ان صاحب پر پڑی تو اس نے انہیں کھانے کے لئے لڈو دیئے۔ انہوں نے سختی سے منع کردیا کہ میں نہیں کھاتا۔ اس نے پانچ لڈو کاغذ میں لپیٹ کر وہاں رکھ دیئے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


آدھی رات گزری تھی کہ چند لوگ قبرستان میں آئے۔ انہوں نے گھٹری کھولی تو اس میں سامان تھا ان صاحب کو خیال آیا کہ یہ چور ہیں اور چوری کا مال تقسیم کرنے یہاں آئے ہیں اٹھ کر بیٹھ گیا چور گھبراگئے کہ یہ کوئی مخبر ہے۔


ڈاکو جب قریب آئے کہ یہ کون ہے؟ تو دیکھا وہاں ایک پڑیا رکھی ہوئی ہے پڑیا کھولی تو اس میں پانچ لڈو تھے، چور بھی پانچ ہی تھے انہوں نے خیال کیا کہ یہ کوئی ہم سے بڑا چور ہے۔ لڈو کھلا کر ہمیں بے ہوش کردے گا اور سارا مال لے اڑے گا۔


سردار نے کہا کہ اس کی سزا یہ ہے کہ یہ پانچوں لڈو اسے کھلادیئے جائیں۔ ایک نے ایک ٹانگ پکڑی، دوسرے نے دوسری، تیسرے نے ایک ہاتھ پکڑا اور چوتھے نے دوسرا، پانچویں چور سینے پر بیٹھ گیا اور کہا لڈو کھاؤ۔ ان صاحب نے منع کیا تو سینہ پر بیٹھے صاحب نے سختی کرکے منہ کھلوایا اور لڈو منہ میں ڈالا ، جب ان صاحب نے لڈو نہ کھایا تو چور نے انگلیوں سے زبردستی وہ لڈو حلق میں اتاردیئے۔ ان صاحب کی حالت ایسی تھی کہ داڑھی میں لڈو کے ذرات اس طرح چپک گئے کہ جیسے دھنکی ہوئی روئی۔ اس ہیئت کذائی میں آسمانوں سے آواز آئی کہ گھر جاؤ ورنہ روز اسی طرح لڈو کھلائیں گے۔ غیبی آواز سن کر وہ بادل نخواستہ گھر واپس چلے گئے۔ بیگم نے جب یہ حال دیکھا تو سمجھ گئیں کہ یہ کیا ہوا ہے۔


قارئین بتایئے کہ یہ کس بزرگ کا قصہ ہے۔


 


دعاگو

خواجہ شمس الدین عظیمی

فروری 2015

Topics


آج کی بات

خواجہ شمس الدين عظيمي

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔