Topics

احسن تقویم اوراسفل سافلین - ماہنامہ قلندر شعور ۔ستمبر 2018

نگاہ شے کا احاطے کرلے تو اسپیس غالب ہوجاتی ہے، بصورت دیگر شے موجود ہوتے ہوئے بھی موجود نہیں۔ دیکھنا اور نہ دیکھنا کیا ہے۔۔۔؟ دیکھنے سے وجود کا اثبات ہوتا ہے مگر نہ دیکھنا نفی نہیں ہے۔ انکار اور اقرار بذات خود موجودگی کی دلیل ہیں۔ دیکھنا اس وقت ممکن ہے جب ڈائی مینشن غالب ہوں۔ ڈائی مینشن خدوخال ہیں۔ نگاہ میں کتنی ہی وسعت کیوں نہ ہو، جب تک لامحدودیت کسی نہ کسی حد تک محدودیت میں ظاہر نہیں ہوتی، آنکھ نہیں دیکھتی۔

آسمان میں ڈائی مینشن مغلوب ہیں۔ آسمان کی طرف دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے آسمان کو دیکھا ہے اس لئے کہ نگاہ آسمان کو نہیں۔۔۔ خلا کو دیکھ رہی ہے۔ آنکھ یا کیمرے کے لینس کو حد استطاعت تک بڑھادینے سے بالآخر منظر دھندلا جاتا ہے۔ دھندلاہٹ بھی منظر ہے لیکن یہ منظر ایسا مشاہدہ ہے جس کی حیثیت شاہد اور مشہود کے درمیان پردہ کی ہے۔

آسمان اور زمین دو رخ ہیں۔ زمین اپنی محدودیت میں لامحدود نظر آتی ہے۔ تاحد نگاہ کھلے میدان میں کھڑے ہوں تو سمتوں کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ تعمیرات سے مشرق و مغرب اور شمال جنوب زیربحث آتے ہیں یعنی زمین کو دیکھنا اور سمتوں کا تعین ممکن ہوجاتا ہے۔ شعور محدودیت سے واقف ہے اس لئے وہ محدود شے کے تناظر میں لامحدود کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ نگاہ بیک وقت دو رخ دیکھتی ہے۔۔۔ ایک رخ کی مدد سے دوسرے کو دیکھنا مستند نہیں۔

مثال: مذکر اور مونث ہر نوع میں دو رخ ہیں۔ مذکر کی شناخت مونث ہے اور مونث کی مذکر سے ہے۔ دونوں ایک ہیں اورمتضاد رخ ہیں۔ نگاہ عورت کو دیکھتی ہے تو ذہن میں مرد ہوتا ہے۔۔۔ مرد کو دیکھتی ہے تو ذہن میں عورت ہوتی ہے ۔ یعنی ظاہر چھپے ہوئے رخ عورت کو دیکھتا ہے اور عورت چھپے ہوئے رخ مرد کو دیکھتی ہے۔ پہچان متضاد رخ سے ہو تو ایسے میں دیکھنے کی تعریف پوری نہیں ہوتی اس لئے کہ دیکھنے والے نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ عورت اور مرد بذات خود کیا ہیں بلکہ عورت کے مخالف رخ کو مرد کہا اور مرد کے مخالف رخ کو عورت سمجھا۔ ہم شے کو نہیں دیکھتے، شے کو کسی تناظر میں دیکھتے ہیں جس سے حقیقت پردہ میں چھپ جاتی ہے۔

زمین پر تعمیرات کی وجہ سے آدمی زمین کو ٹکڑوں میں دیکھتا ہے۔ وہ مکانوں کے درمیان فاصلہ یا چار دیواری کے درمیان جگہ کو زمین کہا جاتا ہے۔ فرد نے زمین کو نہیں ، زمین کے ایک حصہ کو دیکھا ہے، وہ بھی اس لئے کہ زمین پر تعمیرات کی شکل میں حد بندیاں ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہاں دو رخ ہوتے ہیں ، پہچان مشکوک ہوجاتی ہے۔ جنت میں آدم و حوا جب تک شجر ممنوعہ سے دور رہے، شک سے محفوظ تھے۔ قریب گئے اور رنگ بدلتے دیکھا تو درخت کی پہچان مشکوک ہوگئی۔ رنگ دیکھ کر ذہن سے درخت مغلوب ہوگیا۔ چوں کہ رنگوں میں تغیر ہے اس لئے رنگوں میں توجہ کی بنا پر نگاہ میں تغیر غالب ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی زمین پر شے کو نہیں، رنگوں کو دیکھتا ہے۔ رنگ تحلیل ہوتے ہیں تو شے غائب ہوجاتی ہے مگر غائب نہیں ہوتی۔

وضاحت: جسم کی ابتدا اسپرم سے ہے اور اسپرم پانی کی ایک شکل ہے۔ اسپرم جمنے سے پانی غائب اور لوتھڑا (clot) ظاہر ہوتا ہے۔ لوتھڑا بڑھتے بڑھتے گوشت، ہڈیوں اور رگ پٹھوں کی شکل اختیار کرکے نرم و ملائم قالب میں ڈھلتا ہے اور ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقل ہوتا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ شباہت تبدیل ہوتی ہے اور بالآخر وہ زندگی کے مختلف ادوار سے گزر کر اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جب اس عالم میں زندگی کی مقدار پوری ہوتی ہے۔ گوشت پوست کا جسم بکھر کر پانی ہوا اور بخارات فضا میں تحلیل ہوگئے لیکن فرد یادداشت میں محفوظ رہتا ہے۔ چاہنے والے یاد کرتے ہیں تو اندر میں تصویر بنتی ہے۔

فرد ختم نہیں ہوا، جس رنگ میں یہاں موجود تھا ، وہ رنگ مغلوب ہوگئے۔

عموماً مرنے والا انہی رنگوں میں نظر آتا ہے جس رنگ میں وہ دنیا میں تھا۔ عزیز و اقارب دوسرے عالم کی مقداروں سے واقف نہیں، اس لئے وہ مرحوم کو اپنے ذہن کے مطابق اس دنیا کے رنگ میں دیکھتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خالق کائنات اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،

’’انسان پر زمانہ میں ایک وقت ایسا تھا جب وہ ناقابل تذکرہ شے تھا۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے تخلیق کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اسے سماعت و بصارت دی، ہم نے اسے راستہ دکھادیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔‘‘ (الدھر۱۔۳)

آیت میں وقت کے دو رخوں کا تذکرہ ہے۔ ایک رخ میں اسپیس غالب اور دوسری میں مغلوب ہے۔ اسپیس کی ایک تعریف رنگ ہے جب کہ وقت اس میں رنگ کا مظاہرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق سے پہلے اور بعد کے مراحل بیان فرمائے ہیں۔

کائنات کی تخلیق سے پہلے انسان+ زمانہ + وقت + ناقابل تذکرہ + شے

کائنات کی تخلیق کے بعد انسان + مخلوط + نطفہ + تخلیق + امتحان+ سماعت + بصارت + راستہ + دکھانا + شکر + ناشکری

زندگی اور وقت دونوں رخوں میں ہیں، فرق حواس کا ہے۔ مخلوط (امشاج) میں رنگوں اور تغیر کی نشان دہی ہے اور دونوں کا مفہوم۔۔۔ تکرار اور دوری ہے۔

اللہ تعالیٰ نے کائنات سے ماورا سطح کو دہر یعنی لازمانیت فرمایا ہے۔ لامحدودیت میں موجود کائناتی پروگرام کا خاکہ ظاہر ہوا تو وقت کا وجود ہوا۔ یہی وقت افراد کائنات کے لئے خلا ہے۔ خلا نظر نہیں آتا مگر ہر مظہر کی اساس ہے۔ سننے اور دیکھنے سے مراد خلا میں حواس پیدا ہونا ہے۔ نطفہ بوند ہے جس کی حیثیت خول کی ہے، خول میں تصورات ہیں جو مخصوص مراحل سے گزر کر کہیں ہاتھی بن جاتے ہیں، کہیں اناج اور کہیں آدمی۔ باالفاظ دیگر نزول سے قبل تصورات بے ترتیب جب کہ نزول کے بعد ترتیب میں ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آیئے ’’آج کی بات‘‘ کو دوبارہ تفکر کے ساتھ پڑھیں۔

اللہ تعالیٰ نے کائنات کو تخلیق کرنا چاہا تو فرمایا۔۔۔ ہوجا! ارادہ میں کائنات سے متعلق پروگرام ظاہر ہوگیا۔ کن میں مفہوم پنہاں ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود شے سے مخاطب ہیں۔ حکم اس شے میں حرکت بن گیا۔ مظاہرہ سے قبل تخلیقات موجود لیکن اپنے وجود سے لاعلم تھیں۔ شے اس وقت قابل تذکرہ ہے جب ادراک ہو۔ اب وہ ایک بڑے پروگرام کا چھوٹا حصہ بن جاتی ہے، ایسا حصہ جس میں پروگرام موجود لیکن مغلوب ہے۔ جیسے کائنات میں ذرّہ اور ذرّہ میں کائنات۔۔۔ پانی میں وجود اور ہر موجود میں پانی۔

ظاہر ہونا۔۔۔ ڈائی مینشن یا خدوخال کا نمایاں ہونا ہے جس سے وقت مغلوب ہوجاتا ہے۔ شے اسپیس میں ظاہر نہ ہو تو مخلوق کے لئے ناقابل تذکرہ ہے۔ شعور کے لئے وقت کو اسپیس کی مدد سے سمجھنا آسان ہے۔ انسان پر زمانہ میں ایک وقت ایسا گزرا ہے جب اس کی حیثیت محض خاکہ (Sketch) کی تھی ، ایسا خاکہ جس میں نقوش نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو بے اختیار اوربا اختیار کرنے کا ارادہ کیا تو خاکہ میں آنکھ، کان، ہاتھ، پیر پر مشتمل نقوش بن گئے اور یہ نقوش پوری کائنات پر محیط ہو کر تخلیقات کا تعارف بن گئے۔

اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو دنیاؤں میں رہنے کے لئے حواس عطا کئے۔ حواس میں اشتراک ہے لیکن اشتراک میں یہ راز مضمر ہے کہ اختیار دراصل ایک وجود میں دو وجود ہیں۔۔۔ یعنی وجود میں خالق کائنات کی مشیت کا علم ایک رخ کوحاصل ہے۔

آسان لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ تمام موجودات میں بحیثیت وجود کے اشتراک ہے جس میں ایک صاحب اختیار اور دوسرا پابند ہے۔ بظاہر تمام مخلوق ایک وجود نظر آتی ہے لیکن ہر وجود میں بے اختیار اور بااختیار ہونے کا علم ہے۔ نوع آدم میں جس وجود کو اس دوسرے علم کا ادراک ہے وہ آدمی کے بجائے انسان ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رب العالمین فرماتے ہیں کہ آدمی سڑاند، بجنی مٹی، کیچڑ اور گارے کی تخلیق ہے۔ دوسرا وجود اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق احسن تقویم ہے۔ احسن تقویم کا منصب خلیفتہ الارض ہے جس کو خصوصی اختیارات سے نوازا گیا ہے۔ فی الارض خلیفہ کے ارشاد گرامی سے ذہن کے دریچے کھلتے ہیں اور سمجھ میں آتا ہے کہ انسان اورآدمی دو رخ ہیں۔ آدمی کا دائرہ حیوان اور انسان بہترین صناعی ہے۔

اس راز کو ذہنی یک سوئی کے ساتھ پڑھیئے ۔ ہر مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے صاحب اختیار بنایا ہے لیکن اختیار کے دو رخ ہیں۔ ایک اختیار سے زندگی کا ایندھن میسر آتا ہے۔ ایندھن جسم کو حرکت میں رکھنے کے لئے توانائی ہے۔ اختیار کے دوسرے رخ کو قرآن کریم اور تمام آسمانی کتابوں نے خلافت ونیابت کا نام دیا ہے۔ آدم جب خود کو اصل سے الگ دیکھتا ہے تو وہ آدمی ہے اور جب وہ خود کو اصل سے وابستہ دیکھتا ہے تو پھر وہ انسان ہے۔ اصل سے دوری۔۔۔ اسپیس کا غلبہ ہے اور اصل سے قربت۔۔۔ وقت کا غالب ہونا ہے۔

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمِ O ثْمَّ رَدَدْنٰہْ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ O

’’ہم نے انسان کو بہترین صناعی کے ساتھ پیدا کیا۔ پھر اس کو اسفل سافلین میں پھینک دیا۔‘‘ (التین: ۴۔۵)

اللہ حافظ

خواجہ شمس الدین عظیمی

 

ستمبر 2018

Topics


آج کی بات

خواجہ شمس الدين عظيمي

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔