Topics
رب العالمین اللہ
تعالیٰ نے چاہا کہ مخلوق مجھے پہچانے تو کائنات بن گئی۔ خالق نے کن فرمایا، عالمین
اور عالمین میں موجودات ظاہر ہوگئیں۔ ظاہر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عدم سے وجود میں
آنے سے پہلے کائنات اللہ تعالیٰ کے ارادہ میں موجود تھی۔ رب ذوالجلال نے اَلَسْتُ
بِرَبِّکُمْ فرمایا، حواس عطا ہونے سے مشاہدہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ خالق اور ہم
مخلوق ہیں۔
ظاہر ہونا ذہن میں عکس
کا منعکس ہونا ہے۔ مثال سے سمجھئے۔
تحریر مضمون نگار کے
ذہن میں مخفی ہوتی ہے، کاغذ پر منتقلی حافظہ میں یادداشت کا عکس ہے۔ الفاظ ذہن سے
باہر آنے کے بعد بھی مضمون نگار سے منسلک ہوتے ہیں اس لئے کہ مضمون کی اصل مصنف کے
ذہن میں ہے اور کاغذ پر نقوش، اصل کی نقل ہیں۔ تفکر سے لامحالہ مصنف کے ذہن سے ربط
ہوجاتا ہے۔۔۔ کاغذ پر محض لکیریں منتقل نہیں ہوتیں، لکیروں میں نقش و نگار اور
تاثرات مخفی ہیں اس لئے پڑھنے اور سننے والے کے ذہن میں تصویر بنتی ہے۔
تصویر
الفاظ کی ساخت پر غور
کیا جائے تو ہر لفظ ایک شکل ہے۔ جیسے عدد ایک (۱)۔ بظاہر ایک (۱)
سیدھ میں کھنچا ہوا خط
ہے لیکن جب اس خط کو بڑی اسکرین پر غور سے دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ ایک (۱)
نقطہ در نقطہ شکل کا
مرکب ہے۔ ہر نقطہ ایک دائرہ ہے اور دائرہ میں بے شمار مثلث (ٹرائی اینگل) ہیں۔
نقطوں سے مل کر جب عدد ایک (۱) بنتا ہے تو یہ اپنی جگہ ایک بڑا دائرہ ہے جس میں
شماریات سے زیادہ مثلث ہیں۔ بتانا یہ ہے کہ ایک میں پوری کائنات بند ہے۔
کسی نہ کسی مخلوق کو
ظاہر کرتا ہے اور O محیط ہونے کی علامت ہے۔ محیط کا مفہوم ہے کہ مخلوق اور وسائل کی
پابند ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات اللہ تعالیٰ سے
واقف ہونے کا میڈیم ہے۔ میڈیم کی معرفت شے کا سورس سے ربط قائم ہوتا ہے۔ احسن
الخالقین اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
’’زمین اور آسمان کی
پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اولی الالباب کے لئے نشانیاں
ہیں، جو اٹھتے ، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور زمین و
آسمانوں کی ساخت پر غور و فکر کرتے ہیں کہ پروردگار یہ سب تو نے بے مقصد تو نہیں
بنایا تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔ پس اے رب ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔‘‘
(اٰلِ عمران: 191-190 )
جب ہم کائنات کو میڈیم
کہتے ہیں تو اس سے مراد مجموعی و انفرادی دونوں تشخص ہیں۔ ہر شے ایک طرف میڈیم کا
درجہ رکھتی ہے اور دوسری طرف اپنی ذات میں کائنات ہے۔ جس طرح بچہ ماں باپ سے الگ
نہیں، ان کی صفات کا عکس ہے اسی طرح کائنات میں موجود عالمین، عالمین میں موجودات
اور موجودات کی صفات، سب میں کائنات کے خواص ہیں اور کائنات رب العالمین کے جلال و
جمال کا مظہر ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد
ہے، ’’سب حمد اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا رب ہے۔‘‘
تعریف ہمیشہ کام کرنے
والے کی ہوتی ہے یا کام کی خوب صورتی کو سراہنے کے لئے کی جاتی ہے۔ عالمین ایسا
بامعنی لفظ ہے جو بتاتا ہے کہ کائنات لاشمار عالمین کا مجموعہ ہے۔ ہر عالم کی
تخلیق اللہ تعالیٰ کی صفات پر قائم ہے۔ علوم پر تفکر کیا جائے تو ہر نوع اور نوع
کا ہر فرد دوسرے سے منفرد ہے۔ پانی ایک ہے لیکن صفات مختلف ہیں۔ کھارا، میٹھا،
کڑوا، ہلکا، بھاری۔ (اولی الالباب = صاحب یقین و فہم و فراست)
گرم، ٹھنڈا، یخ بستہ،
کالا، سفید، نیلا، سبز، چشمہ، کنواں،نہر، دریا، سمندر۔۔۔ سب پانی ہے۔ ’’عالمین‘‘
سے وضاحت ہوتی ہے کہ صرف ہماری زمین نہیں، ہر عالم میں جتنے سمندر ہیں سب روشنائی
بن جائیں اور درخت قلم۔۔۔ اللہ کے علوم کا شمار ممکن نہیں۔
اَلْحَمْدُِ ﷲِ رَبِّ
الْعٰلَمِیْنَ۔۔۔ سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے، جو لاتعداد عالمین اور ان میں
زندگی کے نظام کو قائم رکھتا اور وسائل فراہم کرتا ہے۔۔۔ آدمی سمیت تمام مخلوقات
میڈیم ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میڈیم شے کا تعارف ہے۔
آدمی، آدمی سے کتنا مختلف کیوں نہ ہو، دیکھ کر پہچان لیتے ہیں کہ یہ نوع آدم کا
فرد ہے۔ غور کیا جائے تو خدوخال اور قد کاٹھ مختلف ہونے کے باوجود تقاضے اور افعال
مشترک ہیں۔ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، خوشی اور مایوسی کا اظہار، سوچ
بچار، ہم دردی اور بے حسی۔۔۔ سب شعور کے غلاف میں بند ہے۔ سوال یہ ہے کہ،
-1 خدوخال مختلف ہیں تو
تقاضوں میں اشتراک کیوں ہے۔۔۔؟
-2 تقاضوں میں اشتراک
کے باوجود خدوخال مختلف ہونا کیسا ہے۔۔۔؟
-3 کیا اشتراک کے معنی
یہ نہیں کہ جسم کو حرکت دینے والی ایجنسی ایک ہے اور نظام زندگی کو قائم رکھنے کے
لئے مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے۔۔۔؟
بجلی سے چلنے والے
کھلونے مختلف ہوتے ہیں لیکن حرکت (بجلی) ایک ہے۔ احکم الحاکمین اللہ تعالیٰ کا
قرآن کریم میں یہ ارشاد تین بار غور سے پڑھئے،
’’وہ ماؤں کے رحموں میں
تمہاری جیسی چاہتا ہے صورتیں بناتا ہے۔‘‘ (اٰلِ عمران: 6 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفکر کی ابتدا اپنے آپ
سے کی جائے تو کائنات کی تخلیق کو سمجھنا آسان ہے۔
زندگی خیال پر قائم ہے۔
کوئی ایک عمل ایسا نہیں جو خیال کے بغیر کیا جائے۔ خیال نہ آئے آدمی لکھ نہیں
سکتا۔ الفاظ ذہن میں نہ ہوں بات نہیں کرسکتا۔ آواز لہروں میں تبدیل ہو کر کان کے
پردوں سے نہ ٹکرائے ، سن نہیں سکتا۔ خیال مفہوم نہ بتائے، ادراک نہیں ہوتا۔ تصویر
دل کے آئینہ پر منعکس نہ ہو، آدمی دیکھ نہیں سکتا۔ سب کچھ خیال کے تابع ہے لیکن
خیال کیا ہے، یہ آتا کہاں سے ہے، ہمارے اندر کس طرح متحرک ہے، خیال کو قبول کرنا
کیا ہے، ہم خیال قبول کرتے ہیں یا اس کا بھی خیال آتا ہے وغیرہ۔۔۔ اس طرف ذہن نہیں
جاتا، سماعت، بصارت، ادراک اور گویائی۔۔۔ خیال کی شکل میں وسائل ہیں۔ ہم ان وسائل
کو استعمال کرتے ہیں لیکن غور نہیں کرتے کہ وسائل فراہم کرنے والا کون ہے۔
’’رحمن و رحیم اللہ
تعالیٰ آدمی کو حقیقت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں،
’’میں تمہارے اندر ہوں،
تم مجھے دیکھتے کیوں نہیں؟‘‘ (الذٰریٰت: 21)
ظاہر۔۔۔ اور باطن،
زندگی کے دو رخ ہیں۔ سوچ بچار سے واضح ہوتا ہے کہ حرکت باطن سے ظاہر میں منتقل
ہوتی ہے۔ آدمی جن صفات کا مجموعہ ہے ان اوصاف کا خالق رب العالمین اللہ ہے۔ یعنی
حواس اس وقت بیدار ہوئے جب مخلوق نے اللہ تعالیٰ کی آواز سنی۔ رب کائنات کے صفاتی علوم
لامتناہی ہیں۔ البتہ جن اسمائے الٰہی سے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو متعارف کروایا ہے
وہ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کی آواز میں مخفی ہیں۔ مخلوق اللہ کی دی ہوئی سماعت سے
سنتی ہے، اللہ کی عطا کی گئی بصارت سے دیکھتی ہے، اللہ کی دی گئی فہم سے ادراک ہوتا ہے اور صفت کلیم کی
نوازش سے کلام کرتی ہے۔ زندگی کا کوئی عمل اس دائرہ سے باہر نہیں۔ پھر ذہن اللہ کی
طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتا جب کہ خالق کائنات نے فرمایا ہے کہ میں تمہاری رگ جاں سے
زیادہ قریب ہوں۔۔۔؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین ’’آج کی بات‘‘
میں بیان کئے گئے نکات کو ایک بار پھر سمجھئے۔
-1 اللہ تعالیٰ نے جب
کن کہا، کائنات بن گئی۔ غور طلب ہے کہ ’’ ک+ن= کن‘‘ کی آواز سے کائنات تخلیق ہوئی۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے ذہن میں کائنات سے متعلق جتنا پروگرام مخفی ہے اور جتنا
اللہ نے ظاہر کرنا چاہا، وہ وجود کے ساتھ موجود ہوگیا۔
-2 عدم سے موجودگی کا
مفہوم ہے کہ ایسا پروگرام جو غیب الغیب ہو اور وجود کے ساتھ ظاہر ہوجائے۔
-3 وجود کی موجودگی کا
یہ تیسرا مرحلہ ہے یعنی اللہ کے ذہن میں تخلیقی پروگرام متحرک ہوا اور اس کا
مظاہرہ ہوگیا۔
-4 مظاہرہ کے عنوان الگ
الگ ہیں۔ ایک مظاہرہ یہ ہے کہ چیز موجود ہے لیکن اس کے موجود مظاہرہ کو بھی علم
نہیں ہے کہ میں کیا ہوں، کس نے مجھے ’’مورتی‘‘ بنایا۔
-5 مظاہرہ میں کائناتی
نقوش اگر ظاہر نہ ہوں تو مفہوم پورا نہیں ہوتا۔ وجود تو ظاہر ہوا لیکن وجود کے
یونٹ (الگ الگ نوعیں، نوعوں میں الگ الگ مخلوقات) میں تقاضے پیدا ہوئے کہ ہم کون
ہیں، کس نے بنایا ہے اور بنانے کا مقصد کیا ہے۔۔۔؟
-6 اللہ تعالیٰ نے تجسس
ختم کرنے کے لئے مخلوقات کو سماعت و بصارت (سننے اور دیکھنے کی حس) عطا کی۔ بصارت
کا مطلب ہے کوئی شے موجود ہے، وہ مشاہدہ میں آئے۔
-7 اس تجسس کو بحال
کرکے اللہ تعالیٰ نے اپنی رونمائی فرمائی اور مخلوق کو اس بات کا ادراک ہوگیا کہ
ہمارا بنانے والا، خالق و مالک اللہ ہے۔ ہر ذی روح نے اس بات کا اقرار کیا کہ ہم
مخلوق ہیں اور ہمیں تخلیق کرنے والا خالق کائنات اللہ ہے۔ ادراک سے بصارت متحرک
ہوئی اور ہر آنکھ نے خالق کائنات اللہ کا مشاہدہ کیا۔
-8 مشاہدہ کے بعد آواز
گونجی کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔۔۔؟ مخلوقات نے رب کائنات کو دیکھا اور
دیکھنے کے بعد اعتراف کیا قَالُوْ بَلیٰ ۔۔۔ جی ہاں، آپ ہمارے خالق و مالک ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین! بڑے سفید چارٹ
پر ’’آج کی بات‘‘ میں دی گئی شکل کے مطابق دائرہ بنایئے۔ دائرہ کے اندر جتنے خانے
یا مثلث بن سکتے ہیں، بنالیجئے۔ دائرہ کو تین فٹ کے فاصلہ پر رکھئے، کمر سیدھی ہو۔
اب دائرہ پر نظر جمائیں یہاں تک کہ پلک جھپکنے کا عمل کم سے کم ہوجائے۔ آپ کو
دائرہ میں تصاویر نظر آئیں گی۔ حاصل مشاہدہ چارٹ کے ساتھ ادارہ ’’ماہنامہ قلندر
شعور‘‘ کو بھیج دیں، شکریہ۔
اللہ حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی
اپریل 2018
خواجہ شمس الدين عظيمي
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔