Topics
حرکت اطلاع ہے۔ اور
اطلاع زندگی ہے۔ بارش برستی ہے تو زیرزمین شماریات سے زیادہ وسائل سطح پر ظاہر
ہوتے ہیں۔ وسائل کا ظاہر ہونا یہ ہے کہ زمین کے اندر ہر شے کے خول موجود ہیں اور
زیرزمین نظام کے تحت حرکت میں ہیں۔ جب تک خول زمین کی سطح پر ظاہر نہ ہو، خوابیدہ
حالت ہے۔ پودے کا سطح پر آنا، شعور کے لئے بیج (خول) کا بیدار ہونا ہے۔
بیج درخت کی زندگی کا
ریکارڈ ہے۔ علی ہٰذا القیاس کائنات کی جتنی بھی مخلوقات ہیں، ہر مخلوق کا ظاہر
ہونا ریکارڈ (اسپرم) ہے۔
’’اور آپ کو کیا خبر کہ
سجین کیا ہے، لکھی ہوئی کتاب ہے۔‘‘ (المطففین: 9-8)
’’اور آپ کو کیا خبر
علّیین کیا ہے، لکھی ہوئی کتاب ہے جسے مقربین دیکھتے ہیں۔‘‘ (المطففین: 21-19)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالق کائنات فرماتے
ہیں:
’’بے شک اللہ دانہ اور
گٹھلی کا پھاڑنے والا ہے۔ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے
والا ہے۔ یہ سارے کام کرنے والا تو اللہ ہے، تو پھر تم کیوں بہکے جارہے ہو۔‘‘
(الانعام: 95)
تیسری آنکھ دیکھتی ہے
کہ زیرزمین بیج مکمل طور پر درخت اور پھلوں سمیت موجود ہے مگر اسپیس مختلف ہونے کی
وجہ سے درخت ہمیں نظر نہیں آتا۔ مادی آنکھ اس وقت دیکھتی ہے جب شے پھیلتی ہے یعنی
شے کی اسپیس میں اضافہ ہوتا ہے۔
سمجھنا یہ ہے کہ شے کا
ایک رخ زمین میں تو دوسرا اس پانی میں ہے جو آسمان سے برستا ہے۔ آسمان سے پانی
نازل ہونے سے زمین پر روئیدگی پیدا ہوتی ہے۔ بالفاظ دیگر جب لاشعور سے اطلاع شعور
میں داخل ہوتی ہے تو زمین پر زندگی مظہر بنتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین کے لئے پانی اطلاع
(حرکت) ہے جو نازل ہونے سے پہلے بادلوں میں مخفی رہتی ہے۔ جو شے جم جاتی ہے، اس کا
درجہ حرارت منفی شمار ہوتا ہے۔ پانی کا بادلوں کی شکل میں جمنا، درجہ حرارت منفی
ہونا ہے۔ بادل میں موجود توانائی اسپیس کو باہر اور باہر موجود توانائی اسپیس کو
اندر دھکیلتی ہے۔ توانائی سے قوت (فورس) پیدا ہوتی ہے، قوت سے حرارت کا درجہ منفی
سے مثبت ہوجاتا ہے۔ جہاں قوت کا استعمال زیادہ ہو، وہاں حرارت کا تناسب بڑھ جاتا
ہے جس کی وجہ سے جمے ہوئے بخارات (بادل) ایک بار پھر قطروں میں تبدیل ہوتے ہیں اور
زمین جل تھل ہوجاتی ہے۔۔۔ یہ قانون کائنات کی ہر شے میں موجود ہے۔ درجات میں فرق
سے ہر مخلوق گیس، مائع اور ٹھوس میں تبدیل ہوتی ہے اور اسپیس کی مختلف حالتیں
سامنے آتی ہیں۔ درجہ حرارت کم سے کم ہونے سے شے برف بنتی ہے اور حرارت میں اضافہ
سے برف، پانی بن جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مادی جسم چاہے آدمی کا
ہو، حیوان کا ہو، جمادات کا ہو یا نباتات کا ۔۔۔ اسپرم یا بیج سے شروع ہوتا ہے۔
بیج اور اسپرم دونوں پانی ہیں۔ ہر شے کی طرح اسپرم بھی تین حالتوں میں سفر کرتا
ہے۔
1. گیس
(Gas) 2۔
مائع (Liquid) 3۔
ٹھوس (Solid)
اسپرم اپنی ابتدائی
حالت میں گیس کی حالت میں ہوتا ہے۔ توانائی میں اضافہ سے گیس، مائع بن جاتی ہے۔
رحم میں داخل ہو کر مائع، ٹھوس ہوجاتا ہے۔ یہی ٹھوس حالت یا مادی جسم موت کے وقت
جب زمین کے سپرد کیا جاتا ہے تو ٹھوس جسم مٹی میں جاکر مائع بنتا ہے اور مائع، گیس
کی شکل میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ مقررہ وقت کے بعد قبر میں مردہ جسم غائب۔۔۔ صرف مٹی
ہوتی ہے اور مٹی ذرّات کا مجموعہ ہے۔
’’ہم
نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا، پھر اسے ایک محفوظ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا،
پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا، پھر بوٹی کی ہڈیاں
بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری حالت میں لاکھڑا کیا۔ پس بڑا
بابرکت ہے اللہ جو تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہے۔‘‘ (المؤمنون: 14-12)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نباتات، جمادات،
حیوانات، آدمی سب کی پیدائش پانی سے ہوئی ہے۔ پانی۔۔۔ اسپیس ہے۔ اسپیس کا مطلب
وسعت اور وقفہ ہے۔ حرکت سے حالت تبدیل ہوتی ہے اور شے اگلے مرحلہ میں داخل ہوجاتی
ہے۔
آسان مثال نشست کی
تبدیلی ہے۔ ایک شخص دونوں پیر متوازن رکھ کر بیٹھتا ہے، تھوڑی دیر بعد وہ ہلتا ہے
اور پیر دوسرے پیر پر رکھ دیتا ہے۔ یہ بیٹھنے کی دو مختلف حالتیں ہیں۔ ان دونوں
حالتوں کے درمیان وقفہ ہے جسے ہم اسپیس کہتے ہیں۔ اسپیس کیا ہے۔۔۔؟ بیٹھنا بھی
اسپیس ہے۔۔۔ بیٹھنے سے پہلے وہ کہیں تھا، وہاں سے آیا، بیٹھا اور چلاگیا۔ آنا،
بیٹھنا، نشست بدلنا اور اٹھ کر جانا۔۔۔ سب اسپیس کے درجات ہیں جس کی بنیاد حرکت
ہے۔
مخلوق کے لئے اسپیس کی
ابتدا اس وقت ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے ’’الست بربکم‘‘ فرمایا۔ آواز سنی، خالق
کائنات کا دیدار کیا، ادراک ہوا کہ اللہ تعالیٰ مخاطب ہیں، محلوقات نے خالق کائنات
کی حاکمیت و ربوبیت اور بندگی کا اقرار کیا۔ سماعت، بصارت، ادراک اور گویائی سب
اسپیس کے درجات ہیں۔ تمام حواس ’’الست بربکم‘‘ میں موجود ہیں لیکن ذہن محدود ہونے
کی
وجہ سے تخلیقات کی فہم
درجہ بہ درجہ بڑھی۔
اسپیس تفہیم کے مدارج
ہیں۔ کوئی شخص پہلی آواز میں بات سمجھ لیتا ہے اور کسی کو بات سمجھانا پڑتی ہے۔
بات دونوں سمجھ لیتے ہیں لیکن دونوں میں فرق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات میں ہر شے ایک
حرکت سے دوسری حرکت میں داخل ہورہی ہے یعنی حرکت بہ حرکت زندگی ہے۔ داخل ہونا حرکت
اور حرکت کا دورانیہ وقت ہے۔ بچہ کا عمر کے ادوار سے گزرنا، ایک اسپیس سے دوسری
اسپیس بننا ہے۔ پیدائش بھی اسپیس ہے۔ بچپن، لڑکپن،جوانی، بڑھاپا اور موت بھی اسپیس
ہے۔ یعنی کوئی شے یا دور موجود ہے جس نے جگہ لی ہوئی ہے۔ بچپن میں جوانی نہیں آتی
اس لئے کہ جوانی کی اسپیس الگ اور بچپن کی الگ ہے۔ ان تمام ادوار کا دورانیہ وقت
ہے۔
قارئین۔۔۔ اس عبارت کو
ایک سے زائد مرتبہ پڑھیے، ذہن میں جو انکشاف ہو اس کو الگ الگ نمبروں سے لکھئے۔
پھر ان سب کو ایک جگہ لکھ کر پڑھیے۔ انشاء اللہ فہم تک رسائی ہوجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرکت پر غور کیا جائے
تو پہلی بات ذہن میں یہ آتی ہے کہ حرکت کہیں سے آنا ، کہیں جانا اور کسی شے کو آگے
بڑھانا ہے۔ آگے بڑھانے کا مطلب دھکیلنا ہے۔ دھکیلا اس وقت جاتا ہے جب دوسرے رخ پر
کوئی فورس ہو۔ ایک فورس شے کو باہر دھکیل رہی ہے اور دوسری اندر کی جانب دھکا دے
رہی ہے۔ دوسری طرف فورس نہ ہو تو جس چیز کو دھکیلا جارہا ہے وہ نئے زون میں داخل
ہوجائے گی۔ مثال برمودا ٹرائینگل ہے جس کی کشش کے سامنے مادی وجود غائب ہوجاتا ہے۔
ایک اور مثال لٹو کی
ہے۔ جب لٹو زمین میں پھینکتے ہیں تو لٹو کی فورس زمین میں داخل ہونا چاہتی ہے جب
کہ زمین کی فورس لٹو کو اوپر دھکیلتی ہے، کشش اور گریز کی وجہ سے لٹو زمین کی سطح
پر قائم رہتا ہے۔ اگر زمین کی فورس لٹو کو باہر نہ دھکیلے تو لٹو زمین کے اندر
یعنی دوسرے زون میں داخل ہوجائے گا۔
حرکت کا قانون۔۔۔ کشش
اور گریز پر قائم ہے۔ دل کا اندر کی طرف رجوع کرنا کشش اور توانائی کا دل کو باہر
کی طرف دھکیلنا۔۔۔ گریز ہے۔ اسی طرح دن کا گریز رات اور رات کا گریز دن ہے۔ گریز
نہ ہو تو دن اور رات مرحلہ وار آنے کے بجائے کشش کی وجہ سے ایک دوسرے میں ضم
ہوجائیں گے اور دونوں کا وجود ختم ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرکت کا دوسرا نام
رفتار ہے۔ کائنات میں درجہ بندی رفتار کی وجہ سے ہے۔ رفتار۔۔۔ توانائی ہے۔ توانائی
اندر رجوع کرتی ہے لیکن اندر کی اسپیس اسے باہر کردیتی ہے۔ اگر یہ عمل نہ ہو تو
رفتار کو کسی بھی طرح بیان نہیں کیا جاسکتا۔ حرکت اس طرح حرکت بنی کہ وہ دھکا دے
لیکن کوئی رکاوٹ دھکا دے کر اس کو باہر کردے۔ جو نادیدہ عمل اندر دھکیل رہا ہے اس
کا نام اسپیس ہے۔
مثال: آدمی چلتا ہے تو
زمین (اسپیس) کو پیچھے دھکیلتا ہے، زمین اسے آگے دھکا دیتی ہے۔ پیر اٹھانے سے وہ
کسی حد تک زمین کی ثقل سے آزاد ہوا، اس کا وزن خلا میں چلا گیا مگر اگلے لمحہ زمین
کی کشش نے اسے کھینچ لیا اور اس نے پیر زمین پر رکھ دیا۔ اب فرد نے دوسرا قدم
اٹھایا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرکت کا تعین رفتار سے
ہے۔ آدمی سانس لیتا ہے، ہوا۔۔۔ اسپیس ہے اور اسپیس میں رفتار وقت ہے۔ وقت اندر
رجوع کرتا ہے تو سانس کو توانائی دے کر باہر آتا ہے۔ سانس اندر جا کر باہر نہ آئے
تو فرد کے لئے وقت کا مظاہرہ نہیں ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ جب حرکت وقت ہے تو پھر وقت
کیا ہے۔۔۔؟ رسول اللہؐ کا ارشاد گرامی ہے:
’’وقت میں میرا اور
اللہ کا ساتھ ہے۔‘‘
اللہ تبارک و تعالیٰ کا
فرمان ہے:
’’کیا انسان پر زمانہ
کا ایک وقت ایسا نہیں گزرا جب وہ ناقابل تذکرہ شے تھا؟ ہم نے انسان کو ایک مخلوط
نطفہ سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لئے ہم نے اسے سننے اور
دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے اسے راستہ دکھایا خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے
والا۔‘‘ (الدھر: 3-1)
وقت اللہ کا چاہنا ہے
اور اللہ کا چاہنا یہ ہے کہ بندہ ہر حال میں شکر ادا کرکے زندگی گزارے۔ کائنات اس
فارمولے پر قائم ہے کہ جب اللہ کسی شے کا ارادہ کرتا ہے تو حکم دیتا ہے ’’ہو‘‘ اور
وہ ’’ہوجاتی‘‘ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی حرکت ہے۔ کھانا،
پینا، اٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، پلک جھپکانا، سوچنا۔۔۔ سب حرکت ہے۔ آدمی سوچتا
ہے کہ حرکت کیا ہے، کہاں سے آتی ہے، کس طرح ادراک بنتی ہے، مظاہرہ کیسے ہوتا ہے
اور پھر حرکت کہاں چلی جاتی ہے۔۔۔؟
’’وہی اول ہے اور آخر
ہے اور ظاہر ہے اور باطن ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ وہی ہے جس نے آسمانوں
اور زمین کو چھ ایام میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا۔ اس کے علم میں ہے
جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے
اور جو کچھ ا س میں چڑھتا ہے۔ وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو۔ جو کام بھی تم
کرتے ہو، وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ وہی زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے اور
تمام امور اسی کی طرف رجوع کئے جاتے ہیں۔‘‘ (الحدید: 5-3)
’’وہ تمہارے ساتھ ہے
جہاں بھی تم ہو۔ جو کام بھی تم کرتے ہو وہ اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘
’’آج کی بات‘‘ میں حرکت
کو مختلف زاویوں سے بیان کیا گیا ہے۔ آپ تمام علم دوست خواتین و حضرات اور طلبا و
طالبات سے درخواست ہے کہ ’’آج کی بات‘‘ کو غور و فکر سے پڑھیں۔انشاء اللہ ذہن کھلے
گا۔ جو بات سمجھ میں نہ آئے ، ادارہ کو لکھ کر بھیج دیجئے، شکریہ۔
اللہ حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی
خواجہ شمس الدين عظيمي
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔