Topics

حیات (زندگی) کیا ہے۔ ماہنامہ قلندر شعور ۔اکتوبر 2018

آج کی بات پڑھئے، آپ کیا سمجھے۔۔۔؟ ادارہ کو اپنی رائے سے آگاہ کیجئے۔

زندگی روحانیت کے گرد گھوم رہی ہے۔ یہ فقیر پر تقصیر سالوں سے ایک ہی بات کہہ رہا ہے اور ایک ہی موضوع پر آپ سے گفتگو ہوتی ہے۔ تئیس ہزار سات سو پچیس دن اور تئیس ہزار سات سو پچیس راتوں میں اتنا کچھ کہہ دیا گیا ہے کہ جب کچھ بولنا چاہتا ہوں تو ذہن پر وہ نقوش ابھر آتے ہیں جو آپ کے گوش گزار کئے جاچکے ہیں۔ کسی بھی موضوع یا عنوان پر لکھنا چاہتا ہوں تو یہ خیال آتا ہے کہ یہ سب لکھا جاچکا ہے۔۔۔ یہی حال تقریر کا ہے۔

اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ میں نے ہر ہر طبقہ پر اپنی بساط کے مطابق روحانی علوم بیان کئے۔ میں مشکور ہوں آپ نے پذیرائی بخشی اور اس بات سے واقف ہوں کہ جب تجربہ اور مشاہدہ زندگی بنتا ہے تو شاگردوں کی توقعات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

عزیزان گرامی! ہر آدمی چاہتا ہے کہ وہ خوش رہے، صحت مند رہے، اسے کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ہر شخص کہتا ہے کہ میں خوش رہنا چاہتا ہوں۔ ہر دوسرا آدمی تلقین کرتا ہے کہ خوش رہا کرو۔ آدمی کوئی چیز ساتھ نہیں لے جاتا، کپڑے پہنے ہوئے پیدا نہیں ہوتا، مرتا ہے تو کپڑے بڑی قینچی سے کاٹ دیئے جاتے ہیں۔

آدمی پیدا ہوتا ہے تو ساتھ کچھ نہیں لاتا اور ساتھ کچھ نہیں لے جاتا۔ زندگی میں کوئی اختیار نہیں ہے لیکن ہر آدمی خود کو بااختیار سمجھتا ہے۔ اختیار نہیں ہے تو خوش کیسے رہے گا۔ اختیار ہے تو ناخوش کیوں ہوتا ہے۔ جو شخص کہتا ہے کہ خوش رہا کرو۔۔۔ وہ بھی غمگین ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا میں کوئی عمل دو رخوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ آدمی اگر خوش رہے گا تو ناخوش رہا کرو۔۔۔ وہ بھی غمگین ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناخوش ہوگا تو خوش بھی رہے گا۔ یہ سب الفاظ کا ہیر پھیر ہے۔ لفظوں کا گورکھ دھندا ہے۔

اصل صورت حال یہ ہے کہ آدمی خوش رہنے سے واقف ہے اور نہ اسے یہ معلوم ہے کہ غم کیا ہے۔ اسے پانی کی ضرورت ہے۔ پانی ہر جگہ موجود ہے۔ سردی، گرمی سے بچنے کے لئے بنیادی ضرورت مکان ہے۔ مکان بنانے کے لئے زمین پہلے سے موجود ہے۔ زمین نہ ہو تو مکانات تعمیر نہیں ہوں گے۔ زندگی کے لئے بنیادی ضروریات آدمی کی پیدائش سے پہلے اور آدمی کے مرنے کے بعد بھی موجود رہتی ہیں۔ جو چیزیں پہلے سے موجود ہیں وہ مرنے کے بعد بھی موجود رہیں گی۔ اس کے لئے ناخوش ہونا اپنے اوپر ظلم ہے اور ظلم ہی ناخوشی ہے۔ زندگی میں کام آنے والی بنیادی چیزیں اللہ تعالیٰ نے اس طرح فراہم کردی ہیں کہ فرد چاہے نہ چاہے وہ چیزیں اس کو ملتی رہتی ہیں۔

میرے دوستو! غور کیجئے اللہ تعالیٰ زمین نہ بناتے، گیہوں کا دانہ تخلیق نہ ہوتا۔۔۔ چاول بیج نہ بنتا۔ دھوپ نہ نکلتی تو کیا غذائی ضروریات پوری ہوجاتیں؟ اللہ تعالیٰ چوپائے اور پرندے پیدا نہ کرتے تو گوشت کھانے کو کہاں سے ملتا۔۔۔؟ ہم دودھ کہاں سے پیتے۔۔۔؟

آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر کی مشینری پر تفکر کرے۔ جسمانی مشین چلانے میں آدمی کیا کردار ادا کرتا ہے؟ اقتدار کی خواہش فرد کے اندر اس وقت ہوتی ہے جب اس کے اندر کی مشینری چلتی رہے۔ دل دھڑکتا رہے، آنتیں چلتی رہیں، گردے کام کرتے رہیں، دماغ سگنل وصول کرتا رہے، دماغی سیلز اعصاب کو متحرک رکھیں، آنکھ دیکھتی رہے، ڈیلے حرکت کرتے رہیں، پلک جھپکتی رہے، دماغ پر عکس منعکس ہوتا رہے یعنی دماغ اطلاعات فراہم کرتا رہے۔ ہمارے اندر بصیرت ہو، عقل بھی ہو لیکن اگر آنکھ نہ ہو تو آدمی دیکھ نہیں سکتا۔ دل نہ ہو تو حرکت کا وجود بظاہر غائب ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مخلوق کا آنا زمین پر ابھی موقوف نہیں ہوا۔ عالم ارواح سے قافلہ چل پڑا ہے، اسے دنیا سے گزرنا ہے اس لئے یہاں وسائل فراہم کردیئے گئے ہیں۔

جو چیز موجود ہے اس کے لئے خود کو محدود کرلینا نادانی ہے۔ وسائل کی قدر و قیمت اس حد تک ہو کہ وسائل استعمال کے لئے بنائے گئے ہیں تو آدمی خوش رہتا ہے اور جب کوئی فرد وسائل کی قیمت اتنی لگادیتا ہے کہ اس کی اپنی قیمت کم ہوجائے تو آدمی ناخوش ہوتا ہے۔

فرد دنیا والوں سے توقعات قائم کرلیتا ہے تو اس کے اوپر خوشی و غم اس لئے مسلط ہوجاتے ہیں کہ جس سے توقعات قائم کی گئی ہیں وہ خود محتاج ، عاجز و لاچار ہے۔ جو شخص خود وسائل کا محتاج ہے وہ دوسروں کو کیا دے سکتا ہے۔۔۔؟

امام ابوحنیفہ ؒ کپڑے کے بڑے سوداگر تھے۔ ان کے پرائیویٹ سیکریٹری نے کہا، سمندر میں جہاز ڈوب گیا ہے اور نقصان ہوا ہے۔

امام ابوحنیفہؒ چند سیکنڈ خاموش رہے اور فرمایا، یا اللہ! تیرا شکر ہے۔

کچھ عرصہ کے بعد خبر آئی کہ جو جہاز ڈوبا تھا وہ امام صاحبؒ کا نہیں تھا۔ جہاز ساحل پر لگ گیا ہے اور بہت نفع ہوا ہے۔ سیکریٹری نے خوشی خوشی اطلاع دی۔

امام صاحبؒ نے فرمایا، یا اللہ! تیرا شکر ہے۔

سیکریٹری نے پوچھا، جہاز ڈوبنے کی خبر پر شکر کرنے کا کیا مفہوم ہے؟

امام صاحبؒ نے فرمایا، میں نے دونوں دفعہ دل میں دیکھا، دل میں خوشی یا ناخوشی کا اثر نہیں ہوا۔ دل نے کہا، اللہ کا مال تھا،۔ دوسری مرتبہ بھی دل نے کہا، اللہ کا مال ہے اللہ نے چاہا تو نفع ہوگیا۔ میں نے اس بات پر شکر ادا کیا کہ دینے والا اور لینے والا اللہ ہے اور میں اللہ کے ساتھ راضی برضا ہوں اس لئے میں نے شکر ادا کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کیسی نادانی ہے کہ 50 سال کا آدمی 51 ویں سال میں داخل ہونے کے لئے پریشان ہے لیکن وہ یہ نہیں سوچتا کہ پیدائش کے پہلے دن سے پچاس سال تک اللہ نے ہر ہر طرح میری کفالت کی ہے۔ میں بھوکا نہیں رہا، ننگا نہیں رہا۔ ایک تھا، ایک سے دو ہوا، دو سے آٹھ ہوئے۔ بچوں کی شادیاں کیں، بچوں کے بچے ہوئے۔ آدمی اپنے ماضی پر کبھی غور نہیں کرتا کہ میں کس طرح پیدا ہوا، کس طرح میری پرورش ہوئی، بچے ہوئے، بچوں کے بچے ہوئے اور اب میں پچاس سال کا ہوں۔ روزگار اور میرے تمام بچوں کے پاس زندگی گزارنے کی سہولتیں موجود ہیں۔ یہ خیال کیوں نہیں آتا۔۔۔؟ اس لئے نہیں آتا کہ آدمی ذات کے خول میں بند ہے۔ فرد مستقبل کے بارے میں تو سوچتا ہے لیکن گزرے ہوئے زمانہ کو یاد نہیں کرتا۔ روحانی نقطۂ نظر سے زندگی انسان کی ہو۔ سیاروں کی ہو۔ سورج چاند کی ہو، درخت کی ہو یا کسی اور کی۔۔۔ ماضی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد عالی مقام ہے،

’’زمانہ کو برا نہ کہو، زمانہ اللہ ہے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی حال ہے، مستقبل ہے یا ماضی ہے۔۔۔؟

ہمیں بچشم تفکر، حال اور مستقبل کا وجود نظر نہیں آتا اس لئے کہ ہر لمحہ ریکارڈ ہورہا ہے اور ریکارڈ ہوجانا ماضی ہے۔ ماضی۔۔۔ حال اور مستقبل کی تقسیم ہے۔ حال ماضی بن رہا ہے اور مستقبل ماضی میں دفن ہورہا ہے۔ آدمی سوچتا ہے کل کیا ہوگا؟ لیکن۔۔۔ کل تو ہے ہی نہیں۔ فرد آنے والے کل کو کل کہتا ہے، یہ نہیں دیکھتا کہ غروب آفتاب کے بعد ہر دن ماضی بن جاتا ہے۔

یہ ساری کائنات حرکت ہے۔ حرکت ازل سے جاری ہے۔ حرکت اگر نہیں رہے گی تو کائنات تھم جائے گی۔ انسان کائنات پر حاکم ہے۔ کائنات پر حاکمیت کا اختیار اللہ کا عطا کردہ ہے۔ اللہ کے دیئے ہوئے اختیارات کے تحت کائنات اور کائنات میں موجود ہر شے (وسائل) انسان کی محکوم ہے۔ جب کوئی بندہ حاکمیت کے اختیار سے واقف ہوجاتا ہے تو اس کے اندر سے غم و خوف نکل جاتا ہے۔ حرکت کے علوم سے واقف بندہ پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ ہم جس کو حال اور مستقبل کہتے ہیں، وہ ماضی کے نقوش ہیں۔

مثال: ہم تیس سال کے لئے پروگرام بناتے ہیں اور اس پروگرام پر عمل درآمد کے لئے تیس سالوں کو چھ (6) پر تقسیم کردیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تیس سال (ماضی میں) پہلے ہم نے جو پروگرام ترتیب دیا ہے، چھ وقفوں میں اس پر عمل درآمد ہورہا ہے۔

پروگرام کے مطابق جو بھی کوشش اور جدوجہد کی جاتی ہے وہ ماضی کے نقوش میں رنگ آمیزی ہے۔ جب کوئی قوم ماضی سے اپنا رشتہ توڑلیتی ہے اور اسلاف کے نقوش قدم پر عمل پیرا ہو کر اپنی حالت سنوارنے کے لئے عملی اقدام نہیں کرتی۔۔۔ کوشش، حرکت، عمل اس کی زندگی سے نکل جاتے ہیں تو ایسی قومیں زمین سے نیست و نابود کردی جاتی ہیں۔ جو قومیں ماضی سے رشتہ مستحکم رکھتی ہیں اور اسلاف کے کارناموں کو زندگی کا نصب العین بنا کر عمل کرتی ہیں وہ عروج و ترقی کے مینار تعمیر کرتی ہیں۔

اگر فرد فی الواقع خوش رہنا چاہے تو روزانہ ماضی کو یاد کرے اور حساب لگائے کہ اللہ نے پچاس ساٹھ سالہ زندگی میں کتنی نعمتیں عطا کی ہیں۔ فرد اپنے جیسے لوگوں سے توقعات توڑ کر اللہ سے توقعات قائم کرکے جدوجہد کرے تو وہ محدودیت سے نکل جاتا ہے۔ وہ ایسے لامحدود دائرہ میں محفوظ ہوجاتا ہے جہاں خوف و غم نہیں ہے۔

خوشی فطری عمل ہے جب کہ ناخوش اور غمگین ہونا غیرفطری ہے۔ ناخوش آدمی خود اپنے آپ سے دور ہوجاتا ہے جب کہ خوش رہنے والا انسان اپنی ذات میں انجمن ہے۔۔۔ لوگ اس کے گرویدہ ہوجاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی کی چھان پھٹک کی جائے تو یہ طرز عمل اظہر من الشمس ہے کہ آدمی غیب اور حاضر کی بیلٹ پر وقت گزارتا ہے۔ پیدائش سے پہلے ایک مقام پر موجودگی ہے تو دوسرے مقام پر انتقال ہے۔ جب مظہر وجود میں آتا ہے تو وہ قانون قدرت کے مطابق غیب ظاہر غیب کے عمل سے گزرتا ہے۔ ہر نیا دن (جب کہ وہ نیا نہیں ہے) غیب ہوجاتا ہے۔ اور اس طرح وہ پچاس سال تک غیب و شہود میں ادل بدل ہوتا رہتا ہے۔

’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف جانا ہے۔‘‘ (البقرۃ: ۱۵۶)

حیات (زندگی) کیا ہے۔۔۔؟ صاحب فہم لوگ بیان کرتے ہیں، سنتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ پیدائش غیب و شہود کا مظاہرہ ہے۔ پیدائش کے بعد ایک اور دو کے درمیان اگر غیب و شہود کا مرحلہ سامنے نہ آئے تو کسی بھی طرح عمر کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے غیب و شہود کے مظاہرہ کا علم انسان کو عطا کیا ہے۔

قارئین کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ پیدائش کے فارمولے پر غور کریں۔

آدمی پیدا ہونے سے پہلے کہاں تھا۔ ہم اس مقام کا نام غیب رکھتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ دنیا میں آنے سے پہلے بندہ غیب میں تھا۔ غیب سے ظاہر ہوا اور ظاہر غیب ہوگیا۔

رحیم و کریم اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،

’’اسی زمین میں سے ہم نے تمہیں پیدا کیا، اسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے۔‘‘ (طٰہٰ :۵۵)

اللہ حافظ

خواجہ شمس الدین عظیمی

 

اکتوبر 2018

Topics


آج کی بات

خواجہ شمس الدين عظيمي

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔