Topics
میں مرضی کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا ہوں
جب کہ میں اپنے ارادہ سے پیدا ہوتا ہوں نہ مجھے یہاں رہنے پر اختیار ہے۔ بچپن
جوانی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔۔۔ جوانی سنہرا دور ہے لیکن جوانی، بڑھاپے میں ڈھل جاتی
ہے۔ بڑھاپا پیدائش کے مرحلہ سے آزاد ہو کر موت کی آغوش میں سوجاتا ہے۔
پیدائش اور موت کیا ہے۔۔۔؟ یہ بات مثال سے
سمجھنا آسان ہے۔
ریل
کی پٹڑی ( ریلوے ٹریک ) لوہے یالکڑی کے تختوں (Sleepers) سے بنتی
ہے۔ ایک منذل سے دوسری منزل تک پہنچنے کے لئے ریلوے ٹریک پر تختے ہوتے ہیں۔ ہر تختہ دوسرے سے الگ ہے لیکن جس ٹریک پر تختے لگے ہوئے ہیں، وہ ایک
ہے۔۔۔ تختے الگ الگ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ درمیان سے تختے ہٹادیئے
جائیں تو ریل گاڑی حادثہ کا شکار ہوسکتی ہے۔
سفر شروع ہوتا ہے۔۔۔ ریل تختہ بہ تختہ آگے
بڑھتی ہے۔ ایک کے بعد دو، دو سے تین، تین چار میں داخل ہوتا ہے اور چار پانچ بن
جاتا ہے۔ ٹرین پہلے تختہ سے دوسرے تختہ پر آتی ہے تو اگلے پہیے کے لئے پہلا تختہ
غائب۔۔۔ دوسرا مظہر بنتا ہے۔ تیسرا تختہ مظہر بننے سے دوسرا غائب ہوجاتا ہے۔ دس
تختے طے کرنے کے بعد پیچھے رہ جانے والے نو تختے غائب ہوجاتے ہیں ۔ یہ ریل کی
زندگی ہے۔ سوال ہے کہ ریل کے لئے تختوں کا چھپنا۔۔۔ ظاہر ہونا کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلیپر یا تختہ، اسپیس ہے۔ اسپیس مکان ہے۔
مکان وجود، وجود زندگی ہے۔ نظر آنے والی اور نظر نہ آنے والی ہر شے مکان ہے۔
ریل ایک اسپیس سے دوسری اسپیس میں سفر کرتی
ہے۔ دو اسپیس (تختوں) کے درمیان خلا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ریل خلا سے نہیں گزرتی،
ریل خلا سے گزر کر دوسرے خلا میں داخل ہوتی ہے۔ خلا۔۔۔ اسپیس ہے۔ وجود نظر آئے یا
نہ آئے۔۔۔ موجود ہے۔
ریل اور ریلوے ٹریک مکان۔۔۔ ریل کا چلنا
زمان ہے۔ زمان۔۔۔ وقت ہے، شے میں حرکت وقت کی شروعات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلا کی وجہ سے ہر تختہ الگ محسوس ہوتا ہے
لیکن تختے ایک ہیں۔ نام سے شے تقسیم ہوجاتی ہے۔ مکان کے ایک حصہ کو انٹرینس، کسی
کو لاؤنج، ڈرائنگ روم، بیڈروم، فرسٹ فلور اور سیکنڈ فلور کا نام دیا جاتا ہے جب کہ
چار دیواری کا ہر حصہ مکان ہے۔
شعور کے ردوبدل سے ابتدا جب انتہا کو
پہنچتی ہے تو اس کے مختلف نام رکھ دیئے جاتے ہیں۔ مثلاً ابتدا کو پیدائش کا مرحلہ
قرار دیں تو انتہا کو موت کا مرحلہ کہیں گے۔ شعوری حواس میں رہتے ہوئے موت کے مرحلہ
پر تفکر کرتے ہیں تو موت کا مرحلہ بھی حیات ہے۔ ایسی حیات جس کے بعد دوسرا قدم
حیات ہے۔
"وہ زندہ کو مردہ
میں سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ میں سے نکال لاتا ہے۔" (الروم: 19)
درخت کئی ناموں میں تقسیم ہے۔ تنا، شاخ ،
پتے، پھل، بیج اور بیج میں درخت ہے۔ بیج کی انتہا درخت اور درخت کی انتہا بیج ہے۔
بیج درخت بن کر ختم نہیں ہوجاتا، درخت میں سے دوسرا درخت ظاہر ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت کیا ہے۔۔۔؟ موت دوسرے عالم میں زندگی
ہے۔ زندگی، زندگی میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ منتقلی ایک رخ میں غیب اور دوسرے رخ میں
ظاہر ہونا ہے۔ ریل جب ایک اسپیس سے دوسری اسپیس میں داخل ہوتی ہے تو پیچھے رہ جانے
والے تختے نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔
پیدائش۔۔۔ مظہر اور موت۔۔۔ غائب ہونا ہے۔
غائب ہونا، شے کا ختم ہونا نہیں ہے۔ ایک زون میں چھپنا دوسرے زون میں ظاہر ہونا۔۔۔
چھپنا پہلے زون میں موت ہے۔ کائنات اللہ کی صفات کا مظہر ہے اور اللہ کی صفات قائم
بالذات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی جب چاہے، ماضی میں سفر کرتا ہے اور مستقبل سے واقف
ہوسکتا ہے۔ ان لوگوں سے ملاقات کرتا ہے جو عالمِ دنیا سے نقل مکانی کرگئے ہیں۔۔۔
اور اس لمحہ میں داخل ہوسکتا ہے جب اس نے پہلی مرتبہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کرکے ’’قالو
ابلیٰ‘‘ کہہ کربندگی کا عہد کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منزل تک پہنچنے کے لئے ریل درمیان میں
موجود راستہ طے کرتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کراچی سے سفر شروع کیا جائے تو
حیدرآباد سے گزرے بغیر سکھر آجائے۔ پنجاب کی حدود میں داخل ہونے کے لئے سندھ کا
فاصلہ طے ہونا ضروری ہے۔ یہ رفتار بڑھنا، فاصلہ کا حذف ہونا نہیں ہے۔۔۔ رفتار میں
اضافہ سے راستہ کی طوالت محسوس نہیں ہوتی۔
نیند کی دنیا میں آدمی ایک لمحہ میں کراچی
اور دوسرے لمحہ میں مدینہ منورہ میں خود کو حاضر دیکھتا ہے۔ جاگنے کے بعد وہ سمجھتا
ہے کہ ناقابلِ پیمائش وقت میں کراچی سے مدینہ منورہ جانا، درمیانی فاصلہ کا حذف
ہونا ہے۔ کائنات میں شارٹ کٹ نہیں ہے۔۔۔ مقداریں معین ہیں۔ کراچی سے مدینہ منورہ
پہنچنے کے لئے جتنا فاصلہ متعین ہے وہ سب طے کرتا ہے۔۔۔ نیند کی دنیا میں حواس کی
رفتار اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ وقت اور فاصلہ موجود ہونے کے باوجود محسوس نہیں
ہوتا۔
سوچنا یہ ہے کہ نیند میں جسم بستر پر ہے،
پھر رفتار بڑھنے کا مفہوم کیا ہے۔۔۔؟ اور جب آدمی بیدار ہوتا ہے تو رفتار کم کیوں
ہوجاتی ہے۔۔۔؟ نیند اور بیداری میں رفتار کی اسپیس کو مدنظر رکھا جائے تو جسم کی
حقیقت زیرِبحث آجاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسپیس پر آدمی ٹائم کے ساتھ چل رہا ہے لیکن
اسے نہیں معلوم کہ ٹائم کیا ہے۔
ریل گاڑی اسپیس در اسپیس آگے بڑھتی ہے،
رفتار زیادہ ہونے سے ہزاروں میل کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ رفتار سے مکان کی
درجہ بندی عمل میں آتی ہے۔ اگر درجہ بندی نہ ہو تو دو زون کے درمیان فرق ختم
ہوجائے گا۔ ہوائی جہاز اور ریل کی رفتار برابر ہونے سے دونوں میں تخصیص نہیں رہے
گی۔ ذہن نشین یہ کرنا ہے کہ ریل اور ہوائی جہاز دونوں
وجود ہیں، دھات (Matter)سے بنتے ہیں اور حرکت کے تابع ہیں لیکن ہوائی جہاز کے انجن کی
استعداد زیادہ ہے ۔ریل گاڑی کو ہوائی جہاز کا انجن نہیں لگایا جاسکتا۔ اس کے لئے ریل کی
باڈی تبدیل کرنا ہوگی تاکہ وہ ہوائی جہاز کے انجن کی طاقت برداشت کرسکے۔
یہی صورت ہماری ہے۔ ہم ہر زون میں لباس
تبدیل کرتے ہیں۔ زمین کے لباس کے ساتھ جنت میں نہیں رہا جاسکتا اور جنت میں رہ کر
زمین کا لبادہ اوڑھنا ممکن نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح ریل گاڑی پٹری پر سفر کرتی ہے اور
اسپیس در اسپیس غیب ظاہر غیب کا مظاہرہ ہوتا ہے اسی طرح کائنات بھی ریلوے ٹریک کی
مانند "بیلٹ" پرقائم ہے۔۔۔ ریل "زندگی" ہے۔ عالمین میں
موجودات اس بیلٹ پر موجود ہیں۔۔۔ ایک دوسرے سے منسلک اور ہم رشتہ ہیں۔ اللہ کا
نظام ہے کہ اس نے مخلوقات میں ربط قائم کیا ہے اور یہ ربط کائنات ہے۔
ایک شے بھی ختم ہوجائے، کائنات منہدم
ہوجائے گی۔ اس لئے جب تک کائنات قائم ہے، ہر وہ شے جو نظر آکر غائب ہوجاتی ہے یا
نظر نہیں آتی۔۔۔ موجود ہے۔
زمانۂ قدیم میں زمین پر ڈائناسور تھے جو اب
نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں لیکن آدمی جب چاہے انہیں تصور میں دیکھ سکتا ہے۔ وہ کہیں
پر ہیں اس لئے ان کی تصویر کا نقش دماغ میں بن جاتا ہے۔ ڈائناسور کا وجود یکسر ختم
ہوجائے تو ذہن سے ان کا ریکارڈ حذف ہوجائے گا۔ ہم آگے بڑھ گئے ہیں اور ڈائناسور
ریل کے تختوں کی طرح پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان کا پیچھے رہ جانا موت نہیں۔۔۔ ہماری
نظروں سے اوجھل ہونا ہے۔ قارئین ان سات سطروں پر غور کیجئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریل کا رکنا مکانیت اور چلنا زمانیت ہے۔
اگلے تختہ میں سفر کے لئے ریل ایک لمحہ کے لئے رکتی ضرور ہے لیکن رفتار کی وجہ سے
محسوس نہیں ہوتا۔ رکے بغیر ریل کا دوسرا لمحہ زیربحث نہیں آئے گا۔ پہلا لمحہ دوسرے
لمحہ میں اس وقت داخل ہوتا ہے درمیان میں جب اسپیس ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ دیکھنے
والا جب ریل گزرتی دیکھتا ہے تو جان لیتا ہے کہ ریل، بیلٹ (ریلوے ٹریک) پر چل رہی
ہے۔ بیلٹ کی زندگی۔۔۔ ریل کی زندگی ہے۔
زندگی ایک ہی بیلٹ کے مختلف مدارج طے کرتی
ہوئی آگے بڑھتی ہے اس طرح کہ زندگی ایک ہے لیکن معین وقت طے کرکے ایک اسپیس سے
دوسری اسپیس میں داخل ہوتی ہے۔۔۔ اس کا نام بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا ہوجاتا
ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریل اور اس میں سوار افراد سفر میں ہیں۔
فرد جو کچھ پیچھے چھوڑ آیا ہے، آنے والا لمحہ پچھلے لمحہ کی توانائی سے بنا ہے۔
توانائی ایک تختہ سے دوسرے تختہ میں منتقل ہوتی ہے۔ غور و فکر کرنے والا اگر ریل گاڑی
کے ایک تختہ سے بھی واقف ہوجائے تو وہ پٹری پر موجود تختوں کا تعارف حاصل کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیہون شریف سے کراچی آرہا تھا، ریل میں سیٹ
پر ایک بزرگ بیٹھے تھے۔ چہرہ پر نقاب تھا، سلام کیا اور پوچھا حضرت! آپ سے ایک
سوال کرسکتا ہوں۔۔۔؟
بزرگ نے فرمایا: سوال ضرور کرو۔
عرض کیا: زندگی کیا ہے؟
نقاب پوش بزرگ نے فرمایا: بیٹا! ریل دیکھی
ہے؟
عرض کیا: جی دیکھی ہے۔
فرمایا۔۔۔ ریل کو دنیا سمجھ لیا جائے تو
آدمی ریل کے کسی ایک ڈبے میں بیٹھتا ہے یعنی وہ پیدا ہوتا ہے۔ چھوٹے بڑے اسٹیشن
گزرتے ہیں، ریل کسی ایک اسٹیشن پر رکتی ہے تو کچھ مسافر ریل سے اتر جاتے ہیں۔ اگر
ہم ریل کو دنیا سے تشبیہ دیں تو آدمی دنیا (ریل) میں بیٹھتا ہے اور کئی اسٹیشن کے
بعد ایک اسٹیشن پر اترتا ہے۔ ریل میں بیٹھنا، دنیا میں آنا ہے۔ راستہ میں چھوٹے
بڑے کئی "اسٹیشن" زندگی کے ماہ و سال ہیں۔ جو مسافر اسٹیشن پر اترا ہے
وہ دراصل عالمِ ظاہر سے عالمِ غیب کا مسافر بن گیا۔ جس پلیٹ فارم پر اترا۔۔۔ وہ
دوسری دنیا ہے۔
اللہ حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی
نومبر 2016
خواجہ شمس الدين عظيمي
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔