Topics

اولی الالباب ۔ ماہنامہ قلندر شعور ۔مئی 2017

خالق کائنات، اللہ رب العالمین کسی کام کو کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں تو ’’امر رب‘‘ مظہر بن جاتا ہے۔ مظاہرہ کا قانون ایک ہے۔۔۔ نام اور تصویریں الگ الگ ہیں۔
نام۔۔۔ چیزوں کی پہچان اور بات چیت میں آسانی کے لئے رکھا جاتا ہے۔ عمر ایک ہوتی ہے اور نام بھی ایک ہے لیکن عمر ادوار میں تقسیم ہے جب کہ نام تبدیل نہیں ہوتا۔
مثال: اسد ایک فرد ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ بچپن میں اسد، لڑکپن میں سعد اور بڑھاپے میں سعید ہوجائے۔ نام رکھنے سے وہ دوسروں سے منفرد ہوا لیکن ادوار کے حوالہ سے زندگی مزید تقسیم ہوتی رہی۔
جس طرح پھول ایک ہے لیکن جن مراحل سے گزر کر پھول مظہر بنتا ہے ، نام تبدیل ہوجاتا ہے۔ نام رکھنا دراصل شے کو اس کے تشخص سے الگ سمجھنا ہے۔ زیردانے، پتیاں، کلی اور پھول۔۔۔ تغیر کے نام ہیں۔ جب تک زیردانہ کھل کر پھول نہیں بنتا، نام مختلف ہوتے ہیں۔ سمجھنے کا ایک اور زاویہ ہے کہ ذہن شے کی وسعت کا احاطہ نہیں کرپاتا لہٰذا جس ترتیب سے خدوخال تبدیل ہوتے ہیں۔۔۔ ترتیب یا تبدیلی کے نام رکھ لئے جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب شے ہر لمحہ تبدیل ہورہی ہے اور ہم تبدیلی کا نام بھی رکھتے ہیں۔ پھر تبدیل ہونے والی شے کا نام کیوں تبدیل نہیں ہوتا۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعوری لحاظ سے ز مانہ تین حصوں میں تقسیم ہے۔ گزرے ہوئے لمحات ماضی، لمحۂ حاضر کو حال اور وہ لمحات جن کا ظہور ہونا باقی ہے۔۔۔ انہیں مستقبل کہا جاتا ہے۔
رحمت اللعالمین حضرت محمدؐ کا ارشاد گرامی ہے
"جو کچھ ہونے والا ہے، قلم اس کو لکھ کر خشک ہوگیا۔" (مسند احمد)
قلم لکھ کر خشک ہوگیا۔۔۔ ماضی کی نشان دہی ہے۔ اولی الالباب ذہن ارشاد گرامی پر غور کرتا ہے تو نئے نئے زاویوں کا مشاہدہ ہوتا ہے۔

1.     -واقعات کا ظہور پذیر ہونا کیسا ہے۔۔۔

2.     جو لمحہ ابھی آیا نہیں، وہ ماضی کس طرح ہوا۔۔۔

3.     -بچہ نے بڑھاپا دیکھا نہیں، اور وہ اس دنیا میں موجود ہے، کیا بچہ بھی ماضی میں ہے۔۔۔

4.     -ماضی کیا ہے۔۔۔؟ سب کچھ ماضی ہے تو پھر حال اور مستقبل کی حیثیت کیا ہوئی

5.     -اگر حال اور مستقبل کی حیثیت نہیں پھر زندگی کیا ہے۔۔۔

ہمارے ذہن میں ماضی کا تصور گزرجانے والا طویل زمانہ ہے جب کہ ماضی طویل نہیں ہے۔ آنکھیں بند کرکے بچپن کا تصور کیجئے۔ کھلونے کے ساتھ کھیلتے یا اسکول یونی فارم میں بچپن کی حرکت کرتی ہوئی تصویر نظر آئے گی۔ ادراک ہوگا کہ وہ دنیا گزرجانے کے باوجود موجود اور سفر میں ہے۔
ماضی کا تصور کرتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ فلم دیکھ رہے ہیں۔ تصور میں گہرائی پیدا ہوتی ہے اور دیکھنے والا اس دور میں داخل ہوکر یہ بھول جاتا ہے کہ وہ فلم دیکھ رہا ہے۔ وہ خود کو فلم کا حصہ سمجھتا ہے۔ تصور قائم نہ رہنے پر احساس ہوتا ہے کہ ماضی تصورات کا ریکارڈ اور ہم خود ناظر ہیں۔
ماضی کی طرح حال بھی پروجیکٹر پر لگی ہوئی فلم ہے۔ فلم دیکھتے ہوئے کیفیات طاری ہوجاتی ہیں اور ڈھائی گھنٹے کے بعد فلم ختم ہوتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ فلم الگ اور فلم دیکھنے والا الگ ہے۔ ناظر اسکرین پر حرکت کرتی ہوئی تصویر دیکھ رہا ہے۔ لیکن جب اس کا ذہن اسکرین کو دیکھنے میں یک سو ہوا تو وہ ذہنی طور پر ان تصویروں میں داخل ہوگیا اور مناظر کے مطابق کیفیت تبدیل ہوتی رہی۔
تجزیہ: فلم کے تمام ریکارڈ ہیں جب کہ کہانی مکمل ہوچکی ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ اسکرین پر فلاں شخص نہیں، اس کی تصویر ہے اور تصویر۔۔۔ عکس ہے۔ وہ شخص اس وقت اسکرین پر نہیں، کہیں اور موجود ہے۔ کہاں ہے، ہم نہیں جانتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس منزل پر جانا ہو وہ موجود ہوتی ہے۔ کراچی سے لاہور جانے والا جانتا ہے کہ لاہور ایک شہر ہے۔ اگر وہ وہاں نہیں گیا تب بھی وہ شہر موجود ہے جب کہ اس نے نہیں دیکھا۔
جو شے موجود ہے وہ ماضی ہے، اس کو مستقبل کہنا کم فہمی یا لاعلمی ہے۔ خیال آتے ہی ذہن میں لاہور کی تصویر بن جاتی ہے۔ بتانا یہ ہے کہ لاہور۔۔۔ ماضی ہے۔ واقفیت نہ ہونے کی بنا پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ لاہور موجود نہیں ہے جب کہ موجود ہے۔
اس را ز کو پھر سمجھئے۔ کائنات کا ہر جز ماضی ہے۔ سوہن حلوہ بنایا جاتا ہے تو حلوہ بھی ماضی ہے۔ سب اجزا موجود ہیں۔۔۔ سوہن حلوہ پہلے سے موجود اجزا کا مرکب ہے۔
عمارت کی تعمیر کے لئے درکار چیزوں کو اکٹھا کرکے ترتیب قائم کی جاتی ہے۔ پانی، مٹی، ریت، بجری، لوہا، لکڑی، اوزار، رنگ، بجلی، ہوا، حرارت، ٹھنڈک اور عمارت کا نقشہ۔۔۔ سب ماضی ہے۔ کیا ماضی سے بنائی ہوئی عمارت کو حال کہا جاسکتا ہے۔۔۔؟
ہم روز آفس جاتے ہیں جو متعین مقام پر موجود ہے۔ کہا جائے کہ ٹھیک ہے، آفس ماضی ہے لیکن آفس جانے کی تیاری مستقبل ہے تو کائناتی ذہن کے لئے یہ دلیل قابل قبول نہیں۔ اس لئے کہ جب ہم نے آفس کہا تو اس کے ساتھ خود کو آفس میں دیکھا۔ خیال کے ساتھ تصور قائم ہوجانا اور خود کو اس مقام پر دیکھ لینا کیا ہے۔۔۔؟ خیال کی دنیا خیالی نہیں۔۔۔ قانون ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالق کائنات کے ارادہ میں موجود کائنات’’ہوجا‘‘ کہنے سے مظہر بن گئی۔ ہر شے ’’کن‘‘ کے ساتھ ’’فیکون‘‘ ہوچکی ہے۔ وہ حصہ جس سے ہم واقف ہیں اس کو ماضی کہتے ہیں، جس سے واقف ہورہے ہیں، اسے حال کہتے ہیں اور جو نظروں سے اوجھل ہے، اس کو مستقبل کہا جاتا ہے۔ زمانہ کی تقسیم۔۔۔ ذہن کی تفہیم ہے۔ حقیقی زمانہ ’’کن‘‘ ہے جو ازل تا ابد ریکارڈ ہے۔
کائنات میں ہر شے لامحدود ہے، ذہن اس کا احاطہ نہیں کرتا اس لئے مختلف نام رکھ لئے گئے ہیں۔ دن ایک ہے لیکن ہر دن کے مختلف نام ہیں۔ نام کو بار بار دہرایا جاتا ہے۔۔۔ سورج اور چاند کا نکلنا ایک ہے۔ جمعہ پہلے کئی بار گزرچکا ہے، آنے والے جمعہ کو مستقبل کیسے کہا جائے۔۔۔؟
نام اس لئے رکھا جاتا ہے کہ شے کا ریکارڈ ذہن سے محو نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر ایک نام رکھنے کے بعد ثانوی نام رکھے جاتے ہیں (مثلاً بچپن، لڑکپن، جوانی، بڑھاپا) تاکہ ریکارڈ یا تشخص سے تعلق قائم رہے۔ شے کا مجموعی نام یا تشخص۔۔۔ ماضی ہے۔
لمحہ آنے والے لمحہ سے جڑا ہوا نہ ہو تو موجودہ لمحہ کا تشخص ختم ہوجائے گا۔ تشخص یا شناخت کا تعلق ماضی سے ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل میں ربط ہے اور یہ تعلق۔۔۔ اللہ کا نور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:
"جو کچھ ہونے والا ہے اس کو لکھ کر قلم خشک ہوگیا ۔" (مسند احمد(
میرے مرشد کریم۔۔۔ قلندر بابا اولیاؒ ’’لوح و قلم‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’اس حدیث سے ماضی کے علاوہ زمانہ کا کوئی اور اسلوب معلوم نہیں ہوتا۔ حال اور مستقبل دونوں ماضی ہی کے اجزا ہیں۔ یہاں سے کائنات کی ساخت کا بالمشافہ سراغ ملتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اللہ کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’ہوجا‘ اور وہ ہوجاتی ہے۔‘‘ (یٰس: 82(
اس آیت میں ارادہ کی ماہیت اور اجزا کا بیان ہے۔ معلوم نہیں پہلے لوگوں نے ماہیت کو کس معنی میں استعمال کیا لیکن ہم اس لفظ میں نور کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا ارادہ لامتناہی نور ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے امر کی وضاحت کی ہے۔ یہ ارشاد کہ میں جس چیز کو حکم دیتا ہوں ہونے کا، وہ ہوجاتی ہے، اس بات کی تشریح ہے کہ امر الٰہی کے تین حصے ہیں۔
نمبر 1 : ارادہ نمبر 2 : جو کچھ ارادہ میں ہے یعنی شے نمبر 3: پھر اس کا ظہور
اللہ تعالیٰ کے الفاظ سے یہ چیز پایۂ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں پہلے سے ان کے علم میں موجود ہے۔ چناں چہ جو کچھ موجود ہے وہ ماضی ہے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماضی کی مقدار کیا ہے۔۔۔؟ ہمارے پاس ماضی کی مقدار کو سمجھنے کی بہت سی طرزیں ہیں۔ روشنی کی دنیا میں ایک سیکنڈ کا طول ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل بتایا جاتا ہے۔ کائنات کے ایک لاکھ
چھیاسی ہزار میل جس کی مکانیت پر مشتمل ہیں بیک وقت اس مکانیت کے اندر کتنے اعمال اور افعال یعنی حوادث رونما ہوئے اس کا اندازہ محال ہے۔ یوں سمجھنا چاہئے کہ ایک سیکنڈ کے اندر تمام کائنات میں جتنے افعال سرزد ہوسکتے تھے وہ محض ایک سیکنڈ میں واقع ہونے والے حوادث ہیں۔ اگر کسی طرح ان افعال کا شمار ممکن ہو تو معلوم ہوسکتا ہےکہ سیکنڈ کی وسعتیں کتنی ہیں۔ یہ بات غور طلب ہے کہ ایک سیکنڈ کے کائناتی حوادث تحریر میں لانے کے لئے یقیناً نوع انسانی کو ازل سے ابد تک مدت چاہئے۔ اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ ایک سیکنڈ ازل سے ابد تک کی مدت کے برابر ہے تو اس دعویٰ میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ جب ازل سے ابد تک ایک ہی سیکنڈ (لمحہ) کارفرما ہے تو زمان متواتر کا مفہوم کچھ نہیں رہتا۔ دراصل اللہ تعالیٰ کے ’’شیؤن ہی زمان کی حقیقت ہیں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواتین و حضرات ! کسی بات کو سمجھنے کے لئے دو طرزیں ہیں۔
-1 یک سوئی کے ساتھ مضمون یا تحریر کو پڑھنا -2 پڑھنے کے بعد تفکر کرنا
پڑھنا عام طرز گفتگو ہے۔ پڑھ کر مضمون کا مفہوم ذہن میں نقش ہوجانا ایسی طرز ہے جو اولی الالباب خواتین و حضرات کا وصف ہے۔ وصف کیا ہے۔۔۔؟ وصف دراصل کسی بات کی کنہ تک پہنچنا ہے۔ اولی الالباب خواتین و حضرات جب ذہنی یک سوئی کے ساتھ تفکر کرتے ہیں تو معنی اور مفہوم خیال کی حدود سے نکل کر تصور بن جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آج کی بات‘‘ لکھنے میں ماورائی ذہن کا عکس کچھ زیادہ نمایاں ہوگیا ہے۔
خلاصہ بیان کیا جائے تو اس طرح کہا جائے گا کہ کائنات کے اسرار و رموز حدیث شریف کے مطابق ’’قلم لکھ کر خشک ہوگیا‘‘ کی تشریح ہیں۔ اولی الالباب خواتین و حضرات تفکر کے دریائے ناپیداکنار میں داخل ہوتے ہیں تو ذہن میں ایک دروازہ کھلتا ہے۔ دروازہ کے اس پار کائنات کی تخلیق اس طرح نظر آتی ہے۔
-1 توہم (ادراک کا انتہائی لطیف درجہ) -2 خیال -3 تصور -4 تصور کا دماغی اسکرین پر مظاہرہ -5 اور اسکرین پر رنگ برنگ متحرک تصویروں کا شعوری مظاہرہ
محترم خواتین و حضرات! التماس ہے کہ ’’آج کی بات‘‘ دو یا تین مرتبہ تفکر کے ساتھ پڑھ کر ذہن میں جھماکا ہوسکتا ہے۔ براہِ کرم ادارہ کو اپنی لطیف کیفیات میں حصہ دار بنائیں۔
* تخلیقات
اللہ حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی


Topics


آج کی بات

خواجہ شمس الدين عظيمي

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔