Topics

آواز، سماعت،ضمیر ۔ ماہنامہ قلندر شعور ۔دسمبر 2017

زندگی آواز پر قائم ہے۔۔۔ آواز زندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ’’کن‘‘ کہا۔۔۔ عالمین کا مظاہرہ ہوا یعنی آواز تصورات کا خول ہے۔ اللہ کے ذہن میں کائنات سے متعلق جو کچھ اور جس طرح سے ہے وہ عدم سے وجود میں آگیا۔ مظاہرہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔۔۔ ہوجا!

ہوجا کے دو رخ ہیں۔ ہوجا ایک طرف آواز اور دوسری طرف تصورات ہیں۔ جو کچھ آواز میں نقش ہے۔۔۔ وہ ہوجا۔ آواز خول کی شکل میں شے کا مادی رخ ہے اور تصورات شے کا غیرمادی رخ ہیں۔ اس طرح کن سے مادیت اور غیرمادیت دونوں وجود میں آگئیں۔ یعنی جو کچھ اللہ کے ذہن میں ہے وہ مادی اور غیرمادی رخ میں ظاہر ہوگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی اندر کی آواز پر سفر کرتی ہے، اسی کے تحت افعال و اعمال انجام پاتے ہیں، بندہ ایک دوسرے سے ربط میں رہتا ہے۔ فاصلہ چاہے فرد سے فرد، نوع سے نوع یا ایک نظام سے دوسرے نظام کا ہو۔۔۔ آواز کے زمان و مکان (ٹائم اور اسپیس) کی پیمائش ممکن نہیں۔

آواز خول (پردہ) کی شکل میں سماعت میں داخل ہوتی ہے اور پردہ کے بغیر بھی ذہن کی اسکرین پر مظہر بنتی ہے۔ خول کی شکل میں سماعت بننا ظاہری رخ ہے جب کہ خول کے بغیر ادراک، آواز کا باطنی رخ ہے۔ ظاہر و باطن دونوں رخ لہروں پر قائم ہیں اور لہریں روشنی ہیں۔ روشنی میں تصورات ہیں، یہ تصورات اللہ کا چاہنا ہیں۔

خول کسی چیز پر محیط غلاف ہے اور غلاف پردہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آواز کی دو قسمیں ہیں۔ ظاہری شکل میں آواز۔۔۔ الفاظ ہیں جب کہ خول سے آزاد صوت۔۔۔ بے آواز ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں آواز ایک ہے، تفریق خول سے پیدا ہوتی ہے۔

تحریر خاموشی سے پڑھئے، انہماک ہونے سے الفاظ بولتے ہیں اور اپنے اندر معنی و مفہوم یا روشنی کا شعور دیتے ہیں۔ باغ بانی کا شوق رکھنے والے پودوں اور پھولوں سے باتیں کرتے ہیں، جواب انہیں الفاظ سے ماورا آواز میں ملتا ہے۔ کسی بھی مظہر پر تفکر سے ذہن میں نکات آنا، شے اور فرد کے درمیان تبادلۂ خیال ہے۔

ہر شخص کے اندر ایسا میکانزم ہے جو ہمہ وقت راہ نمائی کرتا ہے۔ اچھائی اور برائی کی خبر دیتا ہے، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ہم کلام ہوتا ہے، کام کو کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیتا ہے، سکون اور بے سکونی سے مطلع کرتا ہے، فکشن اور حقیقت کا تعارف ہے اور رب سے واقف ہونے کے لئے اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ آدمی سوجاتا ہے لیکن آواز کا میکانزم بحال رہتا ہے۔

یہ میکانزم آدمی کے اندر ضمیر ہے۔ نیند یا موت کے بعد سماعت کی فریکوئنسی بڑ ھ جاتی ہے۔

’’جنگ بدر کے بعد حضور اکرمؐ اس مقام پر تشریف لے گئے جہاں قریش کے سرداروں کی تدفین کی گئی تھی اور انہیں نام لے کر پکارا۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا۔ یا رسول اللہؐ! کیا یہ سنتے ہیں؟ فرمایا، تم ان سے زیادہ نہیں سنتے۔ جو کچھ میں بیان کررہا ہوں یہ خوب سن رہے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیند میں جسم پرسکون ہوجاتا ہے اس لئے کہ سونے والے شخص اور اندر کی آواز میں ہم آہنگی ہوتی ہے، وہ ضمیر کی آواز کو نظرانداز یا رد نہیں کرتا، ہو بہو عمل کرتا ہے۔ یعنی اندر کی آواز سے ہم آہنگی ہوجائے تو آدمی ’’انسانی پیراہن‘‘ میں داخل ہوتا ہے۔

خواب۔۔۔ بیداری کا عکس ہے۔ بیداری میں خوف، ڈر، غصہ، ناشکری،لالچ، ہوس، حق تلفی، بے سکونی اور نافرمانی ہو تو خواب انہی طرزوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس انبیائے کرام علیہم السلام کی تعلیمات پر عمل کرنے سے خواب میں برگزیدہ ہستیوں سے ملاقات ہوتی ہے اور بندہ انوار و تجلیات کا مشاہدہ کرتا ہے۔

طرز فکر میں نقص ہو تو خواب پیچیدہ ہوتے ہیں، نیند میں خوف یا پریشانی دیکھ کر آنکھ کھل جاتی ہے، دل کی دھڑکن تیز اور وجود کانپتا ہے۔ آنکھ کھلنا فرماں برداری کے زون سے اس زون میں واپس آنا ہے جس میں نافرمانی ہے۔ جیسے ہی بندہ فرماں برداری کے زون میں نافرمانی کا مرتکب ہوا، بے دخل ہوگیا۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ پرسکون شخص سونے کے بعد کیوں جاگتا ہے یا نافرمانی کے زون میں واپس کیوں آتا ہے؟

زندگی سکت اور عادات و اطوار کے مطابق گزرتی ہے۔ جس طرح بیداری میں ذہن بوجھل ہو کر نیند کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔۔۔ نیند کی دنیا کے انوار سکت سے زیادہ ہوجائیں تو بندہ بیدار ہوجاتا ہے۔ عالم ناسوت میں بیدار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ نیند کی دنیا میں سوگیا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ جن لوگوں میں روحانی تحریکات غالب ہوتی ہیں ان کا لاشعور، شعور میں منتقل ہوتا ہے۔ ایسے حضرات و خواتین کے لئے خواب اور بیداری یکساں ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خواب ۔۔۔ نیند کی حالت میں بیداری ہے۔ بیداری ہو یا نیند، آدمی دونوں دنیاؤں میں جاگتا ہے۔ بات شعوری سکت کی ہے جس کی وجہ سے نیند پردہ بن جاتی ہے۔ ایسے لوگ ہیں اور ہر وقت موجود رہتے ہیں جو خواب کے علاوہ بیداری میں سرور کونین حضرت محمدؐ کی زیارت سے مشرف ہوتے ہیں اور نیک اروا ح سے ملاقات کرتے ہیں، نیند ان کے لئے پردہ نہیں بنتی سوال یہ ہے کہ بیدار رہ کر لاشعوری زندگی میں کس طرح داخل ہوا جائے۔۔۔؟

محبوب رب العالمین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰؐ کا ارشاد گرامی ہے:

’’جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔‘‘

حدیث کی روشنی میں ابدال حق حضرت قلندر بابا اولیاؒ فرماتے ہیں:

’’رب العالمین ۔۔۔ انسان کے نفس ناطقہ سے بالکل متصل ہے۔ پڑھنے والے کے ذہن میں یہ خیال آسکتا ہے کہ برائی بھلائی سب کا خالق اللہ ہے۔ یہ بات صحیح ہے، اسلام اس کا شاہد ہے لیکن برائی بھلائی کا خالق ہونے سے اللہ تعالیٰ پر کسی فعل کے صدور کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی جب کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو برائی یا بھلائی کرنے کا اختیار دیا ہے۔ اس کی سب سے پہلی مثال حضرت آدمؑ کے لئے شجر ممنوعہ کے قریب جانے کی ممانعت تھی۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ممانعت کرنے سے پہلے حضرت آدمؑ کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ وہ شجر ممنوعہ کے قریب جائیں یا نہ جائیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں برائی بھلائی کا خالق ہونا اللہ تعالیٰ کا وصف ہے لیکن برائی کرنا یا نہ کرنا انسان کا اپنا اختیار ہے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نفس کیا ہے۔۔۔؟ تصوف میں نفس کو ’’انا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ وہ انا ہے جو ’’میں‘‘ سے آزاد ہے، زمانی و مکانی فاصلے اس کے لئے معدوم ہیں۔ انیبائے کرام علیہم السلام کے واقعات میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے ذہن میں تجسس پیدا ہوا کہ میرا رب کون ہے اور کہاں ہے؟ ذہن اجرام فلکی کی طرف متوجہ ہوا۔

’’جب وہ چاند، سورج اور ستاروں کو اپنی نظروں سے اوجھل ہوتا ہوا دیکھتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ میں چھپنے والوں کو دوست نہیں رکھتا جس کے معنی یہ ہیں کہ رب کی نفی نہیں ہوسکتی۔ رب وہ ہے جس کا انسان کے ضمیر سے جدا ہونا ہرگز ممکن نہیں۔ غیر رب وہ ہے جس کا انسان کے ضمیر سے جدا ہونا ممکن ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے اس قول سے ’’انا‘‘ کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ اس ہی ’’انا‘ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’نفس‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے ’’حبل الورید‘‘ فرمایا ہے۔ یہی وہ ذات انسانی یا انا (ضمیر ) ہے جس سے اس کا رب جدا نہیں ہوسکتا اور یہی معرفت الٰہیہ کا پہلا قدم ہے۔‘‘ (لوح و قلم)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قارئین ! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رب کی معرفت نفس کے عرفان سے ہے، ضابطۂ حیات ہے۔ حضور اکرمؐ نے ہر عمل میں غیر رب کی نفی کی، اللہ کے علاوہ کسی سے توقع قائم نہیں کی۔ سخت حالات سے گزرے لیکن یقین متزلزل نہیں ہوا۔

انا۔۔۔ ضمیر کی آواز ہے۔ ’’انا‘‘ کے ایک درجہ کا ذکر واقعۂ معراج میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ حضرت محمدؐ وہی کہتے ہیں جس کا اللہ انہیں حکم دیتا ہے۔

’’قسم ہے تارے کی جب وہ غروب ہوا۔ تمہارا رفیق بہکا ہے نہ بھٹکا ہے۔ وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا، یہ تو وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے۔ اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے جو بڑا صاحب حکمت ہے۔ وہ سامنے آکھڑ ہوا اور وہ افق اعلیٰ پر تھا۔ پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگیا۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کم فاصلہ رہ گیا۔ پھر باتیں کیں اللہ نے اپنے بندہ سے جو باتیں کیں۔ جھوٹ نہ دیکھا دل نے جو دیکھا۔‘‘ (النجم: 11-1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ کے محبوب حضرت محمدؐ کی حیات مبارک میں خالق کی رضا، ضمیر کی آواز پر عمل اور خودسپردگی نمایاں ہے۔ رسول اللہؐ نے شدید تکالیف اور ذہنی اذیتوں کے باوجود صبر سے کام لیا، عزم و استحکام سے دل شکن حالات کا سامنا کیا اور اللہ پر یقین و توکل سے ہر آزمائش میں کامیاب ہوئے۔

حضور پاکؐ گھر سے باہر نکلتے تو ام جمیل اور ابولہب کے اُکسانے پر گلی کوچوں کے بچے اور دوسرے آوارہ لوگ انہیں پتھر مارتے۔ جس سے رسول اکرمؐ کے سر اور چہرہ مبارک سے خون بہنے لگتا تھا۔ حضرت محمدؐ دامن سے خون پونچھتے اور جب گھر واپس پہنچتے تو حضرت خدیجہؓ انہیں اس حال میں دیکھ کر دکھ بھرے لہجہ میں پوچھتیں۔ کیا آج بہت رنج اٹھایا ہے؟

آپؐ کے الفاظ ذہن کی مرکزیت اور اس پر یقین کے ساتھ قائم رہنے کے عزم کو بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:

’’اے خدیجہؓ! جب انسان یہ جان لے کہ وہ کس مقصد کے لئے اور کس کی خاطر رنج اٹھارہا ہے تو اسے دکھ اور درد کا احساس نہیں رہتا۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غور طلب ہے کہ رب سے متعارف ہونے کے لئے نفس کا عرفان کیوں ضروری ہے؟ نفس یا ضمیر۔۔۔ باطن کا نور ہے اور نور اللہ کی وہ صفت ہے جس پر آسمان و زمین کا قیام ہے۔

ضمیر کی آواز پر عمل کرنے سے مفروضہ حواس (تغیر) کی نفی ہوتی ہے۔ نفی سے مراد یہ ہے کہ آدمی خود پر لازم تمام ذمہ داریاں پوری کرے لیکن نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے اور اللہ کی رضا میں راضی رہے۔ ہر حال میں شکر کو شعار بنائے۔ مخلوق کی خدمت اور زندگی اس تصور میں بسر کرے کہ اللہ اسے اور اس کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔ یہ تصور جب مشاہدہ بنتا ہے تو آدمی پر سے مفروضہ حواس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ روح سے واقف ہوجاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انبیائے کرام علیہم السلام کی زندگی میں پیغام یہ ہے کہ جب تک بندہ ضمیر کی آواز پر عمل نہیں کرتا، دریائے معرفت میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ حضرت سید شاہ محمد ذوقیؒ فرماتے ہیں:

’’رسول اللہ ؐ کی روحانیت کو ایک میگنیفائنگ گلاس سمجھو جس سے توحید کے نکات واضح ہوجاتے ہیں۔ بس ان کے ساتھ تعلق مضبوط کرو، توحید کی معرفت خود بخود ہوجائے گی۔ (تربیتہ العشاق)

قارئین! رحمتہ اللعالمین حضرت محمدؐ کا تصور اور تعلیمات پر عمل کرنے سے اسرارِ الٰہی کھلتے ہیں۔ اولیائے کرام اپنے شاگردوں کو تلقین کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنی ہے تو رسول اللہؐ کو دل کی آنکھوں سے دیکھو۔۔۔ اللہ کی قربت عطا ہوجائے گی۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبؐ کے ذکر کو بلند فرمایا ہے اور ایمان والوں کو تلقین کی ہے کہ ،

’’اللہ اور اس کے فرشتے نبیؐ پر درود و سلام بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔ (الاحزاب: 56)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَماَ صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدُ ٗ مَّجِیْدُ ٗO ۔

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَماَ بَارکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدُ ٗ مَّجِیْدُ ٗO

اللہ حافظ

خواجہ شمس الدین عظیمی


Topics


آج کی بات

خواجہ شمس الدين عظيمي

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔