Topics
کائنات آئینہ ہے جس پر لوح محفوظ سے روشنی پھیلتی ہے
اور نقش و نگار منعکس ہوتے ہیں۔ فرد کا لوح محفوظ میں ایک مقام ہے جس کی وجہ سے وہ
اجزائے کائنات کا شعور رکھتا ہے۔۔۔ چاند، سورج، ستاروں اور دیگر اجرام فلکی کو
دیکھتا ہے اور اپنی زمین سے مختلف ماحول سے روشناس ہے۔ نگاہ جب اجرام سماوی کو
دیکھتی ہے تو سورج، چاند، ستارے اور جو کچھ نگاہ کی زد میں آسکیں۔۔۔ قریب محسوس
ہوتے ہیں لیکن مادی جسم کے ساتھ چاند ستاروں تک پہنچنے کی کوشش کی جائے تو راستے
گم ہوجاتے ہیں۔
سائنسی آلات چاند کا زمین سے فاصلہ تقریباً ڈھائی لاکھ
میل اور سورج کا نو کروڑ میل سے زائد بتاتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ نگاہ لاکھوں کروڑوں
میل دور مظاہر کو قریب کیسے دیکھ لیتی ہے؟ جن مقامات تک نگاہ پہنچ جاتی ہے، مادی
جسم کیوں نہیں پہنچتا؟
یہی نگاہ جب زمین پر دیکھتی ہے تو وقت اور فاصلہ حائل
ہوجاتا ہے۔ بات سمجھ میں آتی ہے کہ زمین اور آسمان کی اسپیس مختلف ہے۔ اجرام سماوی
ایسے زون میں ہیں جہاں وقت اور فاصلہ موجود ہو کر لاموجود ہے اس لئے نگاہ جب زمین
کی اسپیس سے نکل کر سماوی اسپیس میں داخل ہوتی ہے تو نگاہ کی ہیئت تبدیل ہوجاتی
ہے۔
ہیئت سے مراد ہے کہ جن قدروں میں نگاہ زمینی اشیا کو
دیکھتی ہے، آسمان کی طرف نظر اٹھتے ہی مقداریں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ زمین اور آسمان
کو دیکھنے کی مقداریں الگ اور معین ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھنے کے مختلف زاویئے ہیں۔ ایک زاویہ یہ ہے کہ آدمی
کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے، اس میں چشمہ، دوربین، خوردبین اور لاسلکی نظام سے
دیکھنے کے زاویے شامل کرلینے سے بصارت کی رینج تبدیل ہوجاتی ہے لیکن دیکھنے والی
شے لینس نہیں ہے۔
ایک زاویہ خیال اور خواب میں مادی آنکھوں کے بغیر
دیکھنا ہے جس میں بصری طرز مذکورہ تمام صلاحیتوں سے زیادہ طاقت رکھتی ہے اور رفتار
لامحدود محسوس ہوتی ہے۔ فرد خود کو ایک وقت میں مختلف مقامات پر دیکھتا ہے اور
اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ واضح ہوتا ہے کہ دوربین اور خوردبین کی طرح مادی آنکھ میڈیم
ہے۔۔۔ دیکھنے والی شے کوئی اور ہے۔
زاویہ بدلنے سے بندہ شعور یا لاشعور سے قریب و دور ہوتا
رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارض و سماوات ایک شے کے دو رخ ہیں۔ جس سطح سے ہم واقف
ہیں وہ زمین اور جس سے ناواقف ہیں اس کی حیثیت آسمان کی ہے۔ ارض و سماوات دونوں
فہم کی حد ہیں۔ جب ہم پہلے آسمان میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں رہنے والوں کے لئے وہ
زمین ہے۔ لیکن یہ زمین۔۔۔ زمین کے برعکس غیب کی دنیا ہے۔ اس دنیا سے متعلق قرآن
کریم میں ارشاد ہے:
’’ہم
نے آسمان میں بروج بنائے اور دیکھنے والوں کے لئے اسے زینت بنایا اور شیطان مردود
سے اسے محفوظ کردیا۔‘‘ (الحجر17-16 )
دیکھنے والی یہ نگاہ مادی حدوں سے دور ہے۔ دور ہونے سے
مراد یہ ہے کہ بروج کی زینت کو اللہ کے فرمان کے مطابق شیطان صفت آدمی (حکم عدولی
کرنے والا) نہیں دیکھ سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح سمندری ماحول کے اثرات آبی مخلوق میں اور خشکی
کے اثرات خشکی کی مخلوق میں ہوتے ہیں اسی طرح آسمانی دنیا کے اثرات۔۔۔ وہاں کی
مخلوق پر محیط ہیں۔
زمین کا خمیر مٹی ہے اور سماوات۔۔۔ روشنی کی دنیائیں
ہیں۔ روشنی کی ایک صفت پھیلنا ہے اس طرح کہ حدود و قیود ہونے کے باوجود نظر نہ
آئے۔
سوال یہ ہے کہ زمین سے باہر چیزوں کی ساخت ہمیں زمینی
اجسام کی طرح کیوں نظر آتی ہے۔۔۔؟ یہ بھی فہم طلب ہے کہ آیا ہم زمین سے با ہر
دیکھتے بھی ہیں یا نہیں؟ سورج، چاند اور ستاروں کو دیکھ کرہر فرد یہ کہتا ہے کہ
سورج اور چاند گول جب کہ ستارے روشنی کی قندیل ہیں۔ کیا چاند ستارے اسی طرح ہیں
جیسے نظر آتے ہیں۔۔۔؟
ہم زمین کے باہر ماحول سے اس طرز پر روشناس ہیں جو طرز
زمین پر کام کرتی ہے۔ نگاہ زمینی حدو سے بظاہر نکل کر بھی سورج، چاند، ستاروں اور
خلا کو نہیں۔۔۔ ذہن کے دیکھنے کو دیکھتی ہے۔ ذہن شے کو صلاحیت کی مناسبت سے محدود
یا لا محدود دکھاتا ہے۔ سیاہ چشمہ لگا کر آسمان کو دیکھنے سے آسمان پر سیاہی نہیں
پھیلتی اسی طرح رنگین چشمہ لگا کر زمین پر دیکھنے سے چیزوں کے رنگ نہیں بدل جاتے۔
سماوی اجرام کو حقیقی شکل میں دیکھنے کے بجائے جو تاثر ذہن میں قائم ہوتا ہے آدمی
اسے دیکھتا ہے۔
ارضی شعور کے بارے میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
’’اگر
تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے
راستہ سے بھٹکادیں گے۔ وہ محض گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔‘‘
(الانعام: 116)
لامحدودیت میں داخل ہونے کے باوجود محدودیت میں رہنے کی
ایک اور مثال خواب کی دنیا ہے جہاں زمان و مکان۔۔۔ بیداری سے مختلف ہے۔ خواب روشنی
کا زون ہے لیکن پردہ کے دوسری طرف ہر شے اور منظر اسی طرح نظر آتا ہے جس طرح ہم
بیداری میں دیکھتے ہیں۔
’’وہ
محض گمان کی پیروی کررہے ہیں اور گمان حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دے سکتا۔‘‘
(النجم: 8)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین کیا ہے۔۔۔؟ رب العالمین اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور
وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا پیدا کئے۔ اور ہر طرح کے
ثمرات کے جوڑے دہرے بنائے۔ وہی رات کو دن کا لباس پہناتا ہے۔ غور کرنے والوں کے
لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔‘‘ (الرعد: 3)
’’کیا
ہم نے زمین کو بچھونا اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا؟‘‘ (النبا: 7-6)
زمین باحواس مخلوق ہےجس کی ذمہ داری انواع و اقسام کے ثمرات کی
نشوونما ہے۔ ارض(زمین) کی ایک صفت پھیلنا ہے۔ زمین وہ حواس ہیں جن میں پھیلاؤ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے پھیلاؤ کو قائم رکھنے کے لئے پہاڑ اور دریا بنائے۔ شے پھیلنے سے
وقت اور فاصلہ بڑھتا ہے اور حرکت کم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح سمٹنا وقت اور فاصلہ کا کم
ہونا۔۔۔ حرکت کاتیز ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پھیلاؤ میں توازن کے لئے پہاڑوں کو
کیلوں کی مانند بنایا تاکہ زمین کی ظاہری حرکت اس میں موجود ان افراد کے شعور کے
مطابق ہو جو باطنی حواس سے واقف نہیں ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کی اصل صلاحیت
یعنی سمٹنے کو ختم نہیں کیا بلکہ پہاڑ رکھ دیئے۔ یہاں پہاڑ کے ظاہری رخ کا تذکرہ
ہے جس کی خصوصیت آیت میں ثقل (gravity) بتائی
گئی ہے۔ ہر شے کہیں سے آتی ہے، ثقل پیدا ہوجائے تو مطلب یہ ہے کہ شے واپس جانا
نہیں چاہتی۔ ثقل۔۔۔ حقیقت سے گریز ہے۔ ثقل کی نفی کرتے ہوئے باری تعالیٰ فرماتے
ہیں:
’’تم
دیکھتے ہو کہ پہاڑ جمے ہوئے ہیں۔ یہ جمے ہوئے نہیں، بادلوں کی طرح اڑ رہے ہیں۔‘‘
(النمل: 88)
پھیلنے اور سمٹنے، گھٹنے اور بڑھنے میں کشش اور گریز کا
عمل زیربحث آتا ہے۔ زمین ایسا مقام ہے جس کے باطن میں کشش اور ظاہر میں گریز ہے۔
ثقل ختم ہوجائے تو فرد زمین کے ظاہری حواس سے نکل کر باطنی حواس سے واقف ہوتا ہے
جو پوری کائنات میں مشترک ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’اے
گروہ جن و انس! تم زمین اور آسمان کے کناروں سے نکل کر دکھاؤ، تم نہیں نکل سکتے
مگر سلطان سے۔‘‘ (الرحمن: 33)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاگرد نے استاد سے پوچھا، آدمی سورج، چاند اور ستاروں
کو دیکھتا ہے اور استفادہ کرتا ہے۔ کیا دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ نگاہ زمین کے
کناروں سے باہر نکل گئی؟
استاد نے کہا، اللہ تعالیٰ کی سنت میں تبدیلی اور تعطل
نہیں ہے۔ ہم زمین کے باہر ماحول سے روشناس ہیں۔ روشناسی کا مفہوم شے کا تاثر ہے،
ادراک نہیں۔ روشناسی اور تاثر ایسے الفاظ ہیں جن میں انعکاس
(reflection) کا قانون پنہاں ہے۔ شعور جو کچھ دیکھتا ہے
دراصل وہ لاشعور کا عکس ہے۔ اجرام فلکی کیا ہیں؟ اس سے صرفِ نظر شعور صرف عکس
دیکھتا ہے۔
شاگرد نے پوچھا، شعور عکس دیکھتا ہے تو کیا آپ اور میں
بھی یہاں عکس ہیں۔۔۔؟
استاد نے سمجھایا، کائنات گلوب کی مانند ہے۔ زمین،
آسمان اور ان میں مخلوقات، میں اور تم سب یہاں عکس ہیں۔ روشنی کہیں اور سے آتی ہے۔
جہاں سے آتی ہے، مخلوقات کی اصل وہاں ہے۔ شعور روشنی کے غلاف میں بند مادہ کو اور
لاشعور روشنی کو دیکھتا ہے۔ گلوب میں مکمل نقش و نگار ہیں۔ جب ہم matter کو دیکھتے ہیں تو دراصل
گلوب کے اندر بند وجود کو دیکھتے ہیں لیکن جب وجود کو خواب میں دیکھتے ہیں تو
روشنی کا وہ غلاف جو شعور کو دکھاتا ہے، اتنا لطیف ہوجاتا ہے کہ مادیت مغلوب
ہوجاتی ہے اور نگاہ مادیت کے بغیر روشنی کے ہیولیٰ کو دیکھتی ہے۔
گلوب میں بننے والے عکس کو دیکھ کر ہم سمجھتے ہیں کہ
زمین کے باہر اور اندر کے ماحول سے واقف ہیں۔ واقف نہیں، روشناس ہیں۔ قدرت نے
کائنات یا زمین کو آئینہ بنایا ہے کہ آدمی عکس کی طرف متوجہ ہو کر اصل کو دیکھنے
کی جستجو اور استعداد پیدا کرے۔ جب تک ’’سلطان‘‘ سے واقف نہیں ہوں گے، گلوب کی
حدود سے نہیں نکل سکتے۔
شاگرد نے پوچھا، سلطان کیا ہے، اس کا علم کیسے حاصل ہو؟
استاد نے بتایا، سلطان وہ نظر ہے جو غیب میں دیکھتی ہے۔
ابدال حق قلندر بابا اولیاؒ سلطان سے واقف ہونے کا فارمولا بیان فرماتے ہیں کہ،
’’شعور
کا یہ قانون ہے کہ انسان اس دنیا میں جتنا ہوش سنبھالتا جاتا ہے اتنا ہی اپنے
ماحول کی چیزوں میں انہماک پیدا کرتا جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں ماحول کی تمام چیزیں
اپنی اپنی تعریف اور نوعیت کے ساتھ اس طرح محفوظ رہتی ہیں کہ جب اسے ان چیزوں میں
سے کسی چیز کی ضرورت پیش آتی ہے تو بہت آسانی سے اپنی مفید مطلب چیز تلاش کرلیتا
ہے۔ معلوم ہوا کہ انسانی شعور میں ترتیب کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں کے استعمال
کی چیزیں اور حرکات موجود رہتی ہیں۔ گویا ماحول کا ہجوم انسانی ذہن میں پیوست ہے۔
ذہن کو اتنی مہلت نہیں ملتی کہ شعور کی حد سے نکل کر لاشعور کی حد میں قدم رکھ
سکے۔ یہاں ایک اصول وضع ہوتا ہے کہ جب انسان یہ چاہے کہ میرا ذہن لاشعور کی حدوں
میں داخل ہوجائے تو اس ہجوم کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کرے۔ انسانی ذہن ماحول
سے آزادی حاصل کرلینے کے بعد، شعور کی دنیا سے ہٹ کر لاشعور کی دنیا میں داخل
ہوجاتا ہے۔‘‘ (لوح و قلم)
استاد نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا، لاشعور میں داخل
ہونے کا قانون ذہن کو ہجوم سے خالی کرنا ہے۔ ہجوم میں تکرار ہے اور تکرار سے شک
پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کی سنت یہ ہے کہ جب وہ کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو
کہتا ہے کہ ہو اور وہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان میں یک سوئی کا قانون اور
شک سے اجتناب ہے۔ توجہ منقسم ہونے سے حرکت اور رفتار کی طاقت تقسیم ہوتی ہے جس سے
اسپیس غالب اور وقت مغلوب ہوجاتا ہے۔ اسپیس کا غالب ہونا یہ ہے کہ جو مضمون ایک دن
میں لکھا جاسکتا ہے، یک سوئی نہ ہونے سے ایک ہفتہ میں بھی پورا نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزیز دوستو! اللہ تعالیٰ کے معاملات میں تغیر اور تعطل
نہیں ہے جب کہ شعوری اعتبار سے کوئی شے ایسی نہیں جو گھٹتی بڑھتی اور ظاہر غیب نہ
ہوتی ہو۔ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ سلطان وہ صلاحیت ہے جس سے بندہ دیکھ لیتا ہے کہ
یہاں کوئی شے گھٹتی ہے نہ بڑھتی ہے۔۔۔ قریب ہے نہ دور!
محترم خواتین و حضرات، طلبا و طالبات۔۔۔ آپ نے مضمون
پڑھا، یقیناً اس پر غور بھی کیا ہے۔ گزارش ہے کہ آپ جو کچھ سمجھے ہیں وہ ہمیں لکھ
کر بھیج دیں۔ آپ کی نگارشات ادارہ ’’ماہنامہ قلندر شعور‘‘ شائع کرے گا۔ انشاء
اللہ۔
اللہ حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی
فروری 2018
خواجہ شمس الدين عظيمي
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔