Topics

عبادات ترک کا پروگرام ہیں ۔ ماہنامہ قلندر شعور ۔جون 2017


روشنی کے لئے روشنی اور اندھیرا دیکھنے کے لئے اندھیرا ہے۔ روشنی سے مراد وہ نہیں ہے جس کو عوام روشنی کہتے ہیں بلکہ وہ روشنی مراد ہے جو آنکھوں کے ذریعے دیکھنے کا ذریعہ بنتی ہے خواہ اندھیرا ہو۔ حشرات الارض اور درندے دن کے علاوہ رات کے وقت بھی دیکھتے ہیں، ان کے لئے رات روشنی بن جاتی ہے۔ روشنی۔۔۔ ادراک ہے۔

اگر کہا جائے کہ اندھیرا دیکھنے کے لئے روشنی اور روشنی دیکھنے کے لئے اندھیرا ضروری ہے تو دیکھنے کی تعریف پوری نہیں ہوتی۔ شے کی پہچان متضاد رخ سے ہے لیکن واقفیت اس وقت ہوتی ہے جب فرد شے میں داخل ہوجائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’جو لوگ میرے لئے جدوجہد کرتے ہیں میں ان کے لئے اپنی راہیں کھول دیتا ہوں۔‘‘ (العنکبوت: 69)

آیت میں "فِینا         "کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس کی حیثیت قانونی ہے۔ کسی شے سے واقف ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اندر میں ’’کنہ‘‘ کا کھوج لگایا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

را ت کے خیال سے ذہن میں تاریکی نمایاں ہوتی ہے۔۔۔ رات کا شعوری تشخص سیاہ ہے۔ اسی طرح دن کا خیال سفید، ہلکے نارنجی یا سرخ رنگ سے نسبت رکھتا ہے۔ نگاہ رات میں یک سو ہو تو سیاہی سے مانوس ہوتی ہے۔ یک سو ہونا۔۔۔ شے میں داخل ہونا ہے۔ انسیت سے سیاہی مدھم نظر آتی ہے، فرد تاریکی میں آباد روشن جہانوں سے واقف ہوتا ہے اور جان لیتا ہے کہ اندھیرا بھی روشنی ہے۔ (اس عبارت کو تین بار پڑھیئے۔)

پریشانی کا ادراک اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک ہم خود پریشانی سے نہ گزریں۔ تکلیف سے واقف ہو کر دوسرے کا کرب محسوس ہوتا ہے اور وہ دور غالب ہوجاتا ہے جب فرد خود کسی کرب سے گزرا تھا۔ ہم سامنے والے کو نہیں، اپنے کرب کو محسوس کرکے تکلیف کا اندازہ لگاتے ہیں۔ اولاد ماں باپ سے کتنی محبت کیوں نہ کرے، ماں باپ کے جذبات سے اس وقت واقف ہوتی ہے جب خود ماں یا باپ بنتی ہے۔

اسی طرح مکان کے باہر کھڑے رہ کر نہیں بتایا جاسکتا کہ اندر کیا ہے۔ اندر کیا ہے۔۔۔ یہ دیکھنے کے لئے مکان کے اندر جانا ہوگا۔ ایک طرف فرد مکان کے اندر اور دوسری طرف مکان فرد کے اندر داخل ہوجاتا ہے۔۔۔ بات ایک ہے لیکن بیان کرنے کے طریقے مختلف ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورج دیکھنے سے ذہن لاشعوری طور پر سورج کا احاطہ کرلیتا ہے۔ گویا داخلی زندگی کے بالمقابل سورج کا مکمل نظام فلم کی شکل میں موجود ہے۔ فلم میں سورج کے نظام کی تفصیلات ہیں۔ دیکھنے سے شے میں جو کچھ ہے، عکس کی صورت میں اندر داخل ہوتا ہے۔ یک سوئی کی مناسبت سے واقفیت ہوتی ہے۔ سورج سے واقف ہونے کے لئے باہر نہیں۔۔۔ اندر دیکھنا ہے۔

پانی کی ایک صفت بھگونا ہے۔ اگر کوئی شے پانی میں داخل ہو کر بھیگے نہیں تو اس نے پانی کی صفات کو قبول نہیں کیا۔

(1) آگ میں جو شے جاتی ہے، جل جاتی ہے (2) اگر وہ نہ جلے تو اس نے آگ کے تاثر کو قبول نہیں کیا (3) آگ جب کسی کو قبول کرتی ہے تو پہلے جلاتی ہے۔ (4) اگر وہ نہیں جلا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آگ نے فرد کو یا فرد نے آگ کے تاثرات کو رد کردیا۔ (5) تصرف سے آگ کا غالب رخ ٹھنڈ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور حرارت اس درجہ پر آجاتی ہے جو آگ کی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نگاہ درخت میں داخل ہو کر درخت کو دیکھتی ہے۔ یک سوئی سے خدوخال یا صفات واضح ہوتی ہیں۔ عکس بننے سے اندر موجود درخت کا ریکارڈ ذہن کی سطح پر آتا ہے۔ درخت کو دیکھنے کے لئے ہم خود نہیں، درخت کے دیکھنے کو دیکھتے ہیں۔

زید آپ کا دوست ہے۔ قربت زیادہ ہونے کے باوجود نہیں بتاسکتا کہ آپ کے اندر کیا ہے جب تک کہ آپ خود نہ بتادیں۔ اسی طرح درخت بھی وجود ہے، اندر کیا ہے یہ درخت جانتا ہے۔

مخلوق میں معرفت کا قانون یہ ہے کہ اللہ کی ذات تو لامحدود ہے۔ تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر جیسے سات سمندر ان کی سیاہی۔۔۔ اللہ کی باتیں ختم نہیں ہوتیں۔ ارشاد ہے:

’’آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرتیں، وہ آنکھوں کا ادرا بن جاتا ہے۔‘‘ (الانعام 103:)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اندر میں سے رجوع، باہر کی دنیا کا ترک ہے۔ ترک کا مطلب چھوڑدینا نہیں ہے بلکہ اس زاویہ سوچ کا ترک ہے جس میں تغیر ہے۔ دن میں جاگنا، رات (لاشعور) کا ترک ہے۔۔۔ رات کو سونا، دن(شعور) کا ترک ہے۔ دن کے شعور کو ترک کردیا جائے تو لاشعوری کیفیات غالب ہوجائیں گی۔ اس کی مثال روایت کی دنیا ہے۔

شعور، لاشعور کے تابع ہے۔ جب لاشعور نے شعور کو آزاد کیا تو عارضی طور پر لاشعور کا ترک ہوا اور جب دن کا شعور ترک ہوا تو لاشعور کا غلبہ ہوگیا۔ باطن سے رجوع ، ظاہر کا ترک ہے۔۔۔ نظر ظاہر میں ہو تو باطن سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

’’میری صلوٰۃ، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب اللہ کے لئے ہے، جو رب العالمین ہے۔‘‘ (الانعام: 162)

ارشاد باری تعالیٰ میں ترک کے قانون کی وضاحت اور زندگی کا احاطہ ہے۔

ربط، قربانی، جینا اور مرنا۔۔۔ زندگی ہے۔ دین اور دنیا الگ نہیں، دین میں دنیا اور دنیا میں دین ہے۔ آدمی خود پر لازم تقاضے پورے کرے لیکن مقصد اللہ ہو۔

صلوٰۃ ربط ہے۔ ربط کے بغیر مراحل طے نہیں ہوتے۔

مثال: ٹی وی دیکھتے ہوئے ذہن کہیں اور ہو تو ربط قائم نہیں ہوتا۔ یہ نکتہ قابل غور ہے کہ ٹی وی دیکھنے کا کوئی مقصد ہوتا ہے۔ مثلاً وقت گزارنا، تفریح یا حالات و واقعات سے باخبر ہونا۔ آدمی وقت گزارنے کے لئے ٹی وی دیکھے تو دراصل وہ ٹی وی میں پروگرام نہیں دیکھ رہا۔۔۔ وقت گزار رہا ہے۔ اسی طرح ڈاکومینٹری (دستاویزی فلم) دیکھنے کا مقصد تفریح یا معلومات میں اضافہ ہے۔ آدمی ڈاکومینٹری اس لئے نہیں دیکھتا کہ اس کو ڈاکومینٹری دیکھنی ہے۔ اس کا ربط ڈاکومینٹری دیکھ کر بھی دستاویزی فلم سے نہیں ہے۔

لاشعوری دنیا سے واقف ہونے کا قانون بھی یہی ہے لیکن ہم غور نہیں کرتے۔ اللہ سے ربط کے بجائے اس قانون کو دنیاوی اغراض اور محدود طرزوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ انبیائے کرام اور اولیاء اللہ کی تعلیمات کیئر آف اللہ طرز فکر ہے۔۔۔ دنیاوی تقاضے پورے کئے جائیں، مقصد اللہ تعالیٰ کی خوش نودی ہو۔ کیئر آف اللہ طرز فکر۔۔۔ ترک اور اللہ سے قربت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قربت۔۔۔ ایثار ہے۔ ایثار کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ وقت، فاصلہ، عمر اور جذبات کے ایثار سے ’’مقصد‘‘ حاصل ہوتا ہے۔ آدمی ہر لمحہ جیتا مرتا ہے۔ مقصد اللہ ہے تو جینا مرنا اللہ کے لئے ہوجاتا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔

’’جو لوگ میرے لئے جدوجہد کرتے ہیں میں ان کے لئے اپنی راہیں کھول دیتا ہوں۔‘‘ (العنکبوت 69)

اللہ تعالیٰ کی صفات میں غور و فکر کیا جائے تو اللہ تعالیٰ خود تک پہنچنے کے راستے کھول دیتے ہیں۔ رب العالمین نے صفات سے واقف ہونے کے لئے عالمین اور اس میں موجود مخلوقات میں غور و فکر کا حکم دیا ہے۔ کائنات اللہ کی صفات پر قائم ہے اور اس کے امر سے متحرک ہے۔ خلق اور امر کی کنہ تلاش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بندہ اپنی تخلیق اور تخلیق میں حرکت کے میکانزم سے واقف ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شے میں حرکت نہ ہو تو شے کو ڈیڈ باڈی سمجھا جاتا ہے جب کہ ڈیڈ باڈی نہیں ہے۔ ڈیڈ باڈی دراصل ذرات کا بکھرنا ہے اور ذرات زندگی ہیں۔

محترم قارئین ، ایک منٹ ٹھہریئے! سوچئے کہ آپ نے کیا پڑھا ہے اور کیا سمجھا ہے۔۔۔؟

خالق کائنات کے ذہن میں شماریات سے زیادہ پروگرام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی کا پروگرام متحرک کیا اور آغاز ’’کن‘‘ سے ہوا۔ کن حکم ہے۔۔۔ تخلیق عمل میں آجائے!

اللہ کے ذہن میں جس طرح پروگرام کے خدوخال محفوظ ہیں اس پر عمل درآمد ہوگیا۔ سماوات، ارض اور ارض و سماوات میں تخلیق کا ظہور ہوا۔ ظہور کائنات کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف الست بربکم کے عنوان سے ظاہر کیا۔ مخلوقات کے سامنے اپنی رونمائی فرمائی اور ارشاد فرمایا، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔۔۔؟

1 ’’کن‘‘ وہ ارشاد ہے جس سے کائنات بشمول فرشتہ، جنات اور انسان نے کائنات کی بساط پر خود کو موجود دیکھا۔

2 تخلیق کے پہلے مرحلہ میں رب العالمین کی آواز سنی یعنی رب کائنات کی طرف سے سماعت منتقل ہوگئی۔

3 سماعت کے بعد بصارت کا ظہور ہوا اور کائنات نے خالق کائنات کو دیکھا۔

4 اقرار کیا۔۔۔ قالو بلیٰ۔۔۔ جی ہاں، آپ ہمارے رب ہیں۔ رب کا مفہوم ہے کہ کائنات کے لئے حیات و ممات کے وسائل کا خالق و مالک اللہ ہے، تخلیقات نے خالق کائنات کی ربوبیت کا اقرار کیا اور اطاعت و فرماں برداری کا عہد کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تجزیہ : تخلیق کی بنیاد ترک پر ہے۔ ترک ایسا زاویہ ہے جس میں نفی اثبات دونوں ہیں۔ اثبات کی حیثیت نفی سے ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ کسی ہستی کے لئے سب کچھ اختیار اور اس کی مرضی کے خلاف چیزوں کا ترک کرنا، آدمؑ کی تخلیق ترک اور اثبات پر قائم ہے یعنی اللہ کے پسندیدہ اعمال پر عمل کرنا اور ناپسندیدہ اعمال چھوڑدینا۔

اسلام قبول کرنے کے لئے سب سے پہلے انکار اور اقرار کیا جاتا ہے۔

لا الہٰ۔۔۔ کوئی معبود نہیں الا اللہ۔۔۔ مگر اللہ!

لا الہٰ۔۔۔نفی ہے۔ الا اللہ۔۔۔ اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرنا ہے۔

نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور شریعت مطہرہ پر عمل پیرا ہونا اللہ کی خوش نودی ہے۔ اس کے برعکس شک، وسوسہ اور شریعت کے خلاف عمل کرنا۔۔۔ اللہ کے لئے ناپسندیدہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عبادات ترک کا پروگرام ہیں۔ عبادت کا مقصد ذہن کو فکشن دنیا سے ہٹا کر ہر کام مِن جانب اللہ کرنا ہے۔ فکشن۔۔۔ شک و وسوسہ ہے اور یقین، حقیقت ہے۔ وسائل دروبست اللہ کی ملکیت ہیں۔ بندگی یہ ہے کہ اللہ کے عطا کردہ وسائل کو اللہ کا فضل و کرم سمجھ کر استعمال کیا جائے اور ہر نعمت پر خالق کائنات کا شکر ادا ہو۔

روزہ۔۔۔ ترک کا پروگرام ہے اور ذہن کو ’’کیئر آف اللہ‘‘ کے پیٹرن پر قائم کرتا ہے۔ تعمیل سے ذہن حقیقت کی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے۔ حدیث قدسی ہے۔

’’روزہ میرے لئے ہے اور روزہ کی جزا میں خود ہوں۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے عید، روزہ کی جزا اور انعام ہے۔ عید کا مطلب اجتماعی خوشی ہے۔ آپ سب کو عید مبارک۔ درخواست ہے کہ عید کی نماز بچوں کے ساتھ پڑھیں اور بچوں کو میری طرف سے عیدی ضرور دیں۔۔۔ حساب دوستاں دردل۔

اللہ حافظ

خواجہ شمس الدین عظیمی



خلاصہ

1.     -1 روشنی کے لئے روشنی اور اندھیرا دیکھنے کے لئے اندھیرا ہے جب کہ اندھیرا بھی روشنی ہے۔

2.     -2 سیاہی سے مانوس ہونا، سیاہی مدھم ہونا نہیں۔۔۔ رات کی مقداروں سے واقف ہونا ہے۔

3.     -3 شے کا آگ میں نہ جلنا، آگ کا قبول نہ کرنا ہے۔

4.     -4 دیکھنا ہے کہ ہم درخت کے دیکھنے کو دیکھتے ہیں۔

5.     -5 دن میں جاگنا، رات اور رات میں جاگنا، دن کا ترک ہے۔

6.     -6 شے حرکت کے بغیر ڈیڈ باڈی ہے جب کہ ڈیڈ باڈی نہیں ہے۔

7.     -7 ترک میں نفی اور اثبات دونوں ہیں۔ لا الہٰ۔۔۔ نفی ہے اور الا اللہ۔۔۔اللہ کی ربوبیت کا اقرار ہے۔

8.     -8 روزہ کی جزا اللہ تعالیٰ ہیں۔

 

Topics


آج کی بات

خواجہ شمس الدين عظيمي

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔