Topics

علم حضوری۔ماہنامہ قلندر شعور۔فروری 2019

ذہن انسانی کی مختلف ساخت ہوتی ہیں جس کو عرف عام میں ذوق ، دل چسپی اور طبیعت کا رحجان کہتے ہیں۔مثلاً ادب ، تاریخ، الہام،وحی اور وہ تمام علوم جس میں انسان دل چسپی لیتا ہے۔جب کوئی ادیب یا فن کار ذہنی ساخت کے مطابق کسی عنوان کا انتخاب کرتا ہے تو وہ باکمال سخن پرداز ، شاعر، سیاست دان ، وہ علوم جو الوژن پر قائم ہیں اور وہ علوم جو یقینی درجہ رکھتے ہیں مثلاً علم حصولی اور علم حضوری میں صلاحیت کے مطابق نامور ہو جاتا ہے۔

          ذہن کے تین رُخ ہیں:   گھٹنا

          ۱۔ گھٹنا      ۲۔ بڑھنا      ۳۔ جن مقداروں پر تخلیق ہے، ان میں قائم رہنا

    گھٹنے  اور بڑھنے سے کثرت نظر آتی ہے جب کہ تخلیق جس فطرت پر ہے اس میں تبدیلی نہیں۔ احسن الخالقین اللہ فرماتے ہیں،

                   ’’ یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جما دو ، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی

                   ساخت بدلی نہیں جا سکتی۔ یہی راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘    (الروم : ۳۰)

          ذہن کے جس رُخ میں تغیر نہیں، اللہ تعالیٰ نے اسے احسن تقویم فرمایا ہے، دیگر ساخت اسفل سافلین کے درجہ میں آتی ہے۔بات نوع آدم کی ہو رہی ہے۔

          ’’ احسن ‘‘ کے معنی جملہ صفات اور ان میں کامل تناسب ہے۔ ’’ تقویم‘‘ کے معنی سیدھا کرنے، درست کرنے، تناسب کے ساتھ بنانے کے ہیں۔ احسن تقویم کا مفہوم اعلیٰ ساخت یا بہترین توازن کا حامل ہونا ہے۔یعنی اس ساخت میں اتنی وسعت ہے کہ یہ کائنات کے تخلیقی فارمولوں سے واقف ہو سکتی ہے۔

………………………

          سمجھنا ضروری ہے کہ توجہ سے ساخت میں تبدیلی کا عمل کیا ہے۔۔۔؟

          شاگرد تصور کے خدوخال کو طبیعت میں رفتہ رفتہ جذب کرتا ہے۔ طبیعت سے مراد ذہن ہے اورجذب اپنی طبیعت کی نفی کر کے تصویر کے خدوخال کو نمایاں کرنا ہے۔ مشق سے حافظہ میں لکیروں کا تناسب واضح ہوتے ہی تصویر بن جاتی ہے۔تصویر اگر پہاڑ  کی ہے تو استاد نے سکھانے اور شاگرد نے سیکھنے کے لئے اپنے تصور کو مغلوب اور پہاڑ کی ساخت کو غالب کیا ورنہ پہاڑ کا عکس کاغذ پر منتقل نہ ہوتا۔

          قانون:  جذب ہونا نشان دہی ہے کہ تصویر کا ایک رُخ اندر موجود ہے جس کی فریکوئنسی باہر اپنے دوسرے رُخ سے ملتی ہے۔دراصل اندر میں موجود یہ رخ بار بار راہ نمائی کرتا ہے کہ تصویر کیسے بنے گی۔

          بظاہر نقش کو ابھارنے میں استاد نے راہنمائی کی لیکن تصویر کا عکس استاد نے شاگرد کے ذہن میں منتقل نہیں کیا۔ وہ اس کے ذہن میں تصویر کو دیکھ نہیں سکتا جب تک کہ شاگرد اظہار نہ کر دے۔ درحقیقت دونوں نے اپنے اندر تصویر دیکھی، استاد نے اپنی طبیعت کے مطابق راہ نمائی کی، شاگرد نے اپنے فہم کے مطابق قبول کیا۔

          استاد سے شاگرد کے ذہن میں تصویر منتقل نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم باہر دیکھ رہے ہیں۔ اس طریقہ کار  میں جس عمل سے شاگرد گزرتا ہے، سکھانے کے لئے استاد کو بھی گزرنا پڑتا ہے۔ یہ علم حصولی (اکتسابی علوم) کی ایک مثال ہے۔

…………………………

          عارف نے نوجوان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا، ’’ کیا ہوا۔۔؟‘‘

          نوجوان نے حیران ہو کر ہاتھ کی طرف دیکھا اور پھر کیفیت کا ادراک ہوتے ہی عرض کیا ، ’’دل پر دباؤ محسوس ہو رہا ہے۔‘‘

          عارف نے ہاتھ پر دباؤ بڑھایا، ’’ اور گہرائی میں سوچو۔‘‘

          نوجوان کی پلک جھپکنا رکی اور چند ثانیے بعد وہ بولا۔۔ ’’ لہریں ‘‘

          عارف نے کہا ، ’’ ہاں !‘‘ دباؤ کی مقدار مزید بڑھائی ، ’’ اور اب۔۔۔؟‘‘

          مادی جسم غیر محسوس ہوتے ہی لہروں کی سنسناہٹ ادراک بنی تو نوجوان نے کہا، ’’ اس سے پہلے لہریں ہاتھ سے ہاتھ میں منتقل ہوتی محسوس

          ہوئیں اور اب جسم میں پھیل گئی ہیں۔‘‘

          عارف نے گہری نظر سے دیکھتے ہوئے فرمایا ، ’’ یہ علم کی منتقلی ہے،!‘‘

…………………………

علم حضوری سکھانے میں استاد قلم و کاغذ کا سہارا نہیں لیتا۔وہ اپنے ذہن کے نقوش شاگرد کے ذہن میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کیوں کہ وہ لہروں کا علم جانتا ہے۔

          لہر کیا ہے۔۔۔؟  ربط ہے اور  ربط فریکوئنسی (تعدد) پر قائم ہے۔ فریکوئنسی مقداریں ہیں۔ بظاہر مقدار الگ الگ مگر بنیاد مشترک ہے اور وہ روشنی ہے یہی وجہ ہے کہ ظاہر میں الگ ہونے کے باوجود باطن میں ہر مقدار ایک ہے۔

           تربیت روحانی استاد بھی کرتا ہے مگر وہ فرد کو شے کے باطن سے متعارف کراتا ہے۔ ظاہر سے متعارف کرانے میں اسپیس در اسپیس کی پابندی ہے جب کہ باطن کے تعارف سے اسپیس مغلوب ہوتی ہے۔

…………………………

          ظاہر اور باطن کے فرق اور ان میں اشتراک کو کائناتی ساخت کی مثال سے سمجھیں۔

’’ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو،

فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن

کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے، نور پر نور۔ اللہ اپنے

نور کی طرف جس کی چاہتا ہے راہنمائی فرماتا ہے۔ وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے۔ اللہ ہر چیز سے خوب واقف ہے۔‘‘ (النور:۳۵)

          آسمان ، زمین ، طاق،چراغ،فانوس،موتی،تارا، زیتون، درخت ، تیل، شرق ، غرب۔۔ سب اسپیس ہیں مگر ان سب کا باطن نور ہے۔

اور نور کا خالق رب العالمین اللہ ہے۔عالمین کو پڑھنے یعنی مشاہدہ کرنے کی دہ طرزیں ہیں۔

          ۱۔ اسپیس در اسپیس پڑھنا

          ۲۔ نور سے واقف ہو کر پڑھنا

          اسپیس در اسپیس پڑھنے سے اسپیس غالب ہوتی ہے۔ فرد ایک کے بعد ایک شے سے اس طرح واقف ہوتا ہے کہ وہ چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ سمجھتا ہے۔

          اس کے برعکس نور سے واقفیت ہو جائے تو بندہ زمین و آسمان کی تخلیقات سے متعارف ہو جاتا ہے کیوں کہ سب کا باطن نور ہے۔۔

   اللہ نور السمٰوٰت و الارض۔

……………………

          روحانیت میں سالک کے ذہن کی ساخت تبدیل ہوتی ہے، وہ ساخت جو ماحول کے زیرِ اثر بنی ہے یعنی ہر شے کو انفرادی تشخص میں

   دیکھنا۔ وجہ سالک کے ذہن میں اپنا تشخص ہے۔ صوفی محدود ذہن کو تحلیل کر کے لامحدودیت میں داخل کرتا ہے اور سکھاتا ہے کہ فرد بذات

   خود کچھ نہیں، نظام کا حصہ ہے اور نظام کا قیام قاعدہ اور ضابطہ کے مطابق ہے۔

          وہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہم باہر نہیں اندر دیکھتے ہیں اور اند دیکھنے کو باہر دیکھنا سمجھتے ہیں۔

          صوفی تربیت اور نشیب و فراز سے گزار کر اپنا عکس سالک کے ذہن میں منتقل کرتا ہے یہاں تک کہ سالک کا ذہن مغلوب اور استاد کا

    غالب ہوجاتا ہے۔

          صوفی  کی  تربیت کا منشا یہ ہے کہ سالک اندر کی دنیا سے روشناس ہوجائے۔

          خالق کائنات اللہ کا فرمان ہے کہ ہم زندگی موت سے نکالتے ہیں اور موت زندگی سے نکالتے ہیں۔اس فرمان پر تفکر کیا جائے تو ظاہر

   ہوتا ہے کہ مرنا ختم ہونا نہیں بلکہ امر ہونا ہے۔مادی جسم ہر وقت تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یہ تبدیلی ہی تو ہے جس کو عرف عام میں بچپن ، لڑکپن،

  جوانی، بڑھاپا اور بالآخر موت یعنی غائب ہوجانا کہتے ہیں۔

           ہم مرنا جس معنی میں بولتے ہیں، وہ موت نہیں ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ آدمی مرتا نہیں، منتقل ہوتا ہے۔ اور یہ تغیر غیب سے شروع ہوتا ہے

   اور غیب پر ختم ہو جاتا ہے۔مفہوم سمجھنے کے لئے یکسوئی کے ساتھ غور کیجئے ۔ انشاء اللہ بات سمجھ آجائے گی۔

          خواتین و حضرات قارئین ! ہم سب پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں۔ تفکر کیجئے، جو بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے، لکھ کر بھیج دیجئے۔

اللہ حافظ

 

Topics


آج کی بات

خواجہ شمس الدين عظيمي

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔