Topics
سوچنے اور کھوج لگانے
کے دو رخ ہیں۔
پہلا رخ یہ ہے کہ آدمی
بہت کچھ سوچتا ہے لیکن وہ کچھ نہیں سوچتا۔
آدمی دنیا میں آیا تو
اس کا مطلب وہ کہیں تھا، جہاں سے آیا ہے۔۔۔ کہاں سے آیا نہیں معلوم۔ بچہ بڑھتا ہے،
گھٹتا ہے، گھٹتا ہے، بڑھتا ہے جہاں سے وہ آیا ہے اگر وہاں کوئی زبان (Language) ہے تو وہ کونسی زبان
ہے۔۔۔؟ پتا نہیں وہاں وہ۔۔۔ یہ جانتا تھا کہ میں آدمی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدمی کیا ہے۔۔۔؟
ایک چھپا ہوا رخ ہے۔
آدمی کی پوری زندگی چھپنے اور ظاہر ہونے کی بیلٹ پر رواں دواں ہے۔
دوسرا رخ مظاہرات ہیں،
جب ظہور ہوتا ہے تو اہم بات یہ ہے کہ مظاہرات میں بظاہر کچھ نہیں ہوتا۔ کچھ نہ
ہونے میں جو ہونا ہے اس میں تغیر ہے۔ جس روز بچہ عالم تغیر میں ظاہر ہوتا ہے اسی
وقت سے ظاہر ہونے، چھپنے، پھر ظاہر ہونے، پھر چھپنے یعنی غائب ہونے اور ظاہر ہونے
کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ہر ظاہر چھپتا ہے تو غیب ظاہر ہوجاتا ہے اور ظاہر بنتا
ہے تو غیب چھپ جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا ڈائی سے واقف ہے
ہر شے کا پہلا مسکن ڈائی ہے۔ ڈائی سے مراد ایسا سانچہ ہے جس میں ڈھلنے والی کوئی
چیز ڈال دی جائے تو ڈائی کے مطابق صورت بن جاتی ہے۔ ڈائی مٹی کی تخلیق ہے اور ڈائی
میں جو بھی نقش و نگار بنادیئے جائیں وہ شکل و صورت بن جاتے ہیں۔
زمین پر موجود جو شے
ہماری توجہ اپنی توجہ کے تابع کرلیتی ہے۔ اسی کے مطابق شے اپنی مخصوص شکل و صورت
میں نظر آتی ہے۔ نظام کائنات میں تخلیقی فارمولے (Formulas of Creation) اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں کہ فارمولا ہر شے میں ایک
نظر آتا ہے لیکن شکلیں جدا جدا ہوتی ہیں۔ تخلیق میں جتنی اشیاء ہیں سب کی آنکھ اور
اعضا مختلف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی نہیں جانتا کہ
کائنات کی عمر کیا ہے۔۔۔؟ یہ کہنا کہ کروڑوں سال پہلے بنی، لاکھوں سال پہلے و جود
میں آئی یا ہزاروں سال پہلے تخلیق ہوئی وہ باتیں ہیں جن کی کوئی سند کسی طرح پیش
نہیں کی جاسکتی۔ آدمی یہ بھی نہیں جانتا کہ کل کیا ہوگا اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ
کل آئے گی یا کل نہیں آئے گی۔۔۔؟
آدمی کا ذہن اتنا ترقی
یافتہ ہوگیا کہ چاند گاڑی بنالی۔ چاند کی زمین پر پلاٹ بنا کر انہیں فروخت کردیا۔
اربوں، کھربوں ڈالر پتا نہیں کہاں گم ہوگئے۔ چاند گاڑی کی جو حقیقت ہے وہ سب کو
پتا ہے کہ بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے جس میں سچ اور جھوٹ کی آپس میں جنگ ہورہی ہے۔
اسی صورت میں بڑے بڑے دانشور نئی نئی چیزیں ایجاد کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں بعد میں
خود ہی اس کی نفی کردیتے ہیں۔ ہم ترقی، علم، تحقیق اور سائنس کے ہرگز مخالف نہیں
ہیں لیکن جو دعوے کئے جاتے ہیں یا ماضی میں جو کچھ کہا گیا ہے اس میں مسلسل تغیر
ہر ذی شعور آدمی کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ جب ایک تسلیم شدہ حقیقت کو رد کردیا
گیا تو پھر۔۔۔؟
قابل احترام، محققین
(سائنٹسٹ) کی خدمت میں مؤدبانہ گزارش ہے کہ اب تک جو بھی سائنسی تحقیق ہوئی ہے اور
جو چیزیں وجود میں آئی ہیں اور ان کیEquation بنائی گئی ہے اس کے پیچھے کوئی ایسی شے نظر نہیں آتی جو محدود
یعنی غائب ہونے والی نہ ہو۔
میں ایک صوفی ہوں، سب
کا دوست ہوں، ہر شخص خصوصاً علم دوست حضرات میرے لئے قابل احترام ہیں۔
صوفی ازم کی تعریف بیان
کی جائے تو تصوف ایسا علم ہے جو شعوری دائرے میں رہتے ہوئے لاشعوری Equation کی بات کرتا ہے یقینی
بات ہے کہ شعور کی مختصر تعریف "تغیر" ہے۔ شعور کسی ایک بات کو بیان
کرتا ہے لیکن دلیل اور طوالت اس کا راستہ روکتی ہے۔ یہ دنیا گیند کی طرح گول ہو یا
پپیتے کی طرح ہو ایسا چھپا ہوا خزانہ ہے کہ جب بھی کوئی شے وجود میں آئے گی یا
لائی جائے گی تو زمین کے وسائل زیرِبحث آئیں گے جبکہ عجیب اور قابل غور بات یہ ہے
کہ جس شے کو بنیاد قرار دیا جاتا ہے اور ثابت کرنے کے لئے مساواتیں (Equations) بنائی جاتی ہیں وہ سب
گھٹنے، بڑھنے، ظاہر ہونے اور غائب ہونے کے فارمولے پر قائم ہے۔ جس چیز میں باقی
رہنے کی صلاحیت موجود نہ ہو اس شے سے جو بھی فارمولا بنے گا اس میں تبدیلی اور
تغیر ہوتا رہے گا۔ اور اس سے بڑی طاقت والی چیز اس شے میں تبدیلی پیدا کرتی ہے اور
ہر شے موجود کے باوجود غائب ہوجاتی ہے۔
دنیا میں ہر شے جو ظاہر
ہے وہ چھپ رہی ہے۔ کہاں چھپ رہی ہے ہم نہیں جانتے۔ اگر وہ زمین کے ذرات میں تبدیل
ہوجاتی ہے تو زمین بھی ظاہراور غیب کی بیلٹ پر قائم ہے۔ موجودہ زمانہ زمین کے غائب
ہونے کا زمانہ ہے جب پانی کی مملکت ظاہر ہوتی ہے تو زمین کفن پہن لیتی ہے اور جب زمین کی
حاکمیت کا وقت آتا ہے تو بڑے بڑے سمندر، آبشاریں اپنا رخ بدل لیتی ہیں اور زمین کی
حاکمیت قائم ہوجاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑے بڑے سائنسدان جن کے
دماغوں کی حفاظت کی جاتی ہے زمین پر سے غائب ہوجاتے ہیں اور اس طرح غائب ہوجاتے
ہیں کہ ایک مٹھی مٹی کے علاوہ ان کا وجود زیربحث نہیں آتا ۔ ایک مٹھی مٹی کے ذرات
کی چھان پھٹک کی جائے تو وہ کسی ذرہ میں بھی نظر نہیں آتے۔
میں بحیثیت صوفی اپنے
قابل قدر بزرگوں اور دوستوں سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ شعور کی سنگین چار دیواری سے
نکل کر شعور کی اس Base کو تلاش کریں،
ڈھونڈیں، جس کو ہم نے لاشعور کا نام دے کر شعور کی بنیاد کی نفی کردی ہے۔
آکسیجن، گیسز، معدنیات،
سونا، چاندی، بارش، انار اور انار کی ساخت، انجیر اور انجیر کی ساخت وغیرہ وغیرہ
پر غور کیا جائے تو ان سب اشیاء میں آدمی کی کارفرمائی نظر نہیں آتی لیکن
کارفرمائی سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں سے بھی یہ سب اشیاء وجود پذیر ہورہی
ہیں دراصل وہی اصل شعور ہے اور جس کو ہم شعور کہتے ہیں وہ بلاشک و شبہ لاشعور
کہلانے کے لائق ہے اس لئے کہ شعوری تخلیق کو بقا نہیں ہے۔
آدمی ہمہ وقت کچھ نہ
کچھ سوچتا رہتا ہے۔ سوچ کے پیچھے کوئی مقصد ہو یا نہ ہو۔ دماغ ایسا ریڈیو بن گیا
ہے جس کا سوئچ رات دن آن رہتا ہے اور اس سوچ میں خودغرضی عروج پر ہے۔ جبکہ خودغرضی
پر غور کیا جائے تو مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ آدمی بے لباس دنیا میں آتا ہے
اور بے لباس دنیا سے چلا جاتا ہے بڑے بڑے بادشاہ جب مٹی کے ذرات میں تبدیل ہوتے
ہیں تو یہ مٹی مستقل پیروں میں روندی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانشور اقرار کرتے ہیں
کہ سائنس اور مذہب الگ الگ نہیں ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا
چاہئے۔ تصادم کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ اگر مذہب پر دست درازی کی گئی تو
چوپائے اور آدمی میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
تاریخ میں گزرنے والے
واقعات پر نظر ڈالئے ، حالات و واقعات کا کھوج لگایئے۔ آپ کو تہذیبوں کے فروغ اور
عالم گیر وسعت کے مینار نظر آئیں گے۔ تاریخ کی اسکرین پر نظر آتا ہے کہ جہاں عالم
گیر وسعت کے نشانات ملتے ہیں وہاں یہ بھی نظر آتا ہے کہ انسانی دنیا تباہ و
بربادہوتی رہی لیکن تباہی اور بربادی کے بعد دنیا کی چمک دمک پھر ظاہر ہوگئی۔
سائنسدانوں کا یہ خیال کہ ترقی کے فسوں میں تباہ کاریاں ختم ہوجائیں گی یہ ایک
دلفریب Illusionہے۔
جب عاقل و بالغ دماغ
ایک بم سے تین لاکھ آدمیوں کو قتل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور اس کا ستر ہزار
بموں کا ذخیرہ تکیہ ہے تو وہ کیسے دعویٰ کرسکتا ہے سائنسی ترقی سے دنیا گل و گلزار
بن جائے گی۔
دعاگو
خواجہ شمس الدین عظیمی
مارچ 2015
خواجہ شمس الدين عظيمي
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔