Topics

علم حضوری کیا ہے۔ ماہنامہ قلندر شعور ۔جنوری 2016



بات کرنے کی طرزیں، اظہارِ خیال، بات سے مفہوم، مفہوم سے نتیجہ، نتیجہ پر عمل اور عمل کے نتیجہ میں اختیار یا مجبوری، کامیابی و ناکامی اس وقت سامنے آتی ہے جب سمجھ میں آجائے کہ زندگی کیا ہے۔۔۔ کیوں ہے۔۔۔ زندگی اگر دینی و دنیاوی تقاضے پورے کرنے کا عمل ہے تو عمل کیا ہے۔۔۔؟ عمل زیرِبحث آتا ہے تو اس حقیقت پر تفکر لازم ہے کیا عمل کرنے پر آدمی بااختیار ہے۔۔۔ اگر بااختیار ہے تو دوسرا رخ بے اختیار ہونا کیا ہے۔۔۔؟
قرآن کریم میں اللہ نے فرمایا ہے
(7-9:83ہرگز نہیں، یقیناًبدکاروں کا نامۂ اعمال قیدخانہ کے دفتر میں ہے اور تمہیں کیا معلوم کہ کیا ہے وہ قید خانہ کا دفتر؟ وہ ایک کتاب ہے لکھی ہوئی۔ (


ہرگز نہیں، بے شک نیکو کاروں کا نامۂ اعمال بلند پایہ لوگوں کے دفتر میں ہے اور تمہیں کیا معلوم کہ کیا ہے وہ بلند پایہ لوگوں کا دفتر؟


(18-20:83) ایک کتاب ہے لکھی ہوئی۔

آپ کیا سمجھے علیین۔۔۔ اعلیٰ اور سجین۔۔۔اسفل زندگی ہے کیا۔۔۔؟
لکھی ہوئی کتاب ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ ۔۔۔ ہر علم ریکارڈ ہے۔ پوری زندگی اگر ریکارڈ نہ ہو تو زندگی کو سمجھنا ممکن نہیں۔ لفظ زندگی کا مفہوم ’’حرکت‘‘ لیا جاتا ہے۔ جب ہم لفظ حرکت بولتے یا لکھتے ہیں تو معنی یہ ہیں کہ ظاہر اور چھپے ہوئے دونوں رخ ظاہر ہوں اور غیب کے دبیز پرتوں میں چھپ جائیں۔ چھپتا۔۔۔ غیب ہے اور ظاہر ہونا۔۔۔ مظاہرہ ہے۔
انوار تجلیات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو وید، تورات، زبور، انجیل اور آسمانی صحائف اور آخری الہامی کتاب قرآن کریم ایسی دستاویز ہیں جن میں نزول و صعود کا قانون بیان ہوا ہے اور اس قانون پر عمل کرنے کے لئے ہدایات روشن دلیلوں کے ساتھ موجود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرپیچ اور گم
بھیر مسئلہ یہ ہے کہ ۔۔۔ جس بیلٹ پر کروڑوں دنیائیں، کھربوں سورج، اربوں چاند، سماوات متحرک ہیں وہ کیا ہے۔۔۔؟
کھربوں دنیائیں اور چاند سورج اپنی اپنی متعین منزل پر سفر کررہے ہیں، وہ راستہ کیا ہے۔۔۔؟ راستہ سے مراد ایسا راستہ جس کی ہر سمت یقین سے روشن ہے۔ الہامی کتابوں، رسولوں اور پیغمبروں کی تعلیمات پر عمل کرنے والا جب اس راستہ پر قدم رکھتا ہے تو تلاش کرنے والے کو شکوک و شبہات سے بالاتر رہنمائی ملتی ہے۔
(جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کرتے ہیں انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے اور یقیناًاللہ نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔ (69:29
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخلیق اس وقت وجود میں آتی ہے جب اس کا بنانے والا ہو۔ دنیا کی مثال سامنے ہے اور اس مثال پر فکری، عملی، اختیاری، غیراختیاری جہد مسلسل ضروری ہے۔
جنوری 2016 کے قلندر شعور میں آج کی بات میں میری کوشش ہے کہ اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ اور حضور سرورکائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام رحمت اللعالمینؐ کی رحمت سے وہ باتیں خواتین و حضرات کی خدمت میں پیش کروں جو ابدال حق قلندر بابا اولیاؒ کے فیض سے مجھ عاجز فقیر کو منتقل ہوئی ہیں۔ یہ علم کیا ہے۔۔۔ علم حضوری ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین اس بات سے واقف ہیں کہ کائنات میں کوئی ایک شے بھی علاوہ خالق کائنات کے ایسی نہیں جو ایک رخ پر موجود ہو۔ اس موجودگی کی مثال کائنات میں ہر مخلوق کا و جود ہے۔ مثلاً بھوک پیاس، اولاد، خاندان، احتیاج، کھانا پینا، غصہ، عفو و درگزر، یقین، بے یقینی، علم ، لاعلمی، سرد و گرم، گرم اور سرد، راحت تکلیف، خوشی اور غم، سونا جاگنا، حواس بیدار ہونا، نیند میں حواس کا متحرک رہنا، غیب و شہود، شہود اور غیب، حیات و ممات، موت اور زندگی، اضطراب و سکون۔۔۔ اس کے علاوہ ساڑھے گیارہ ہزار حاضر غیب۔۔۔ غیب حاضر الٰہی صفات، زمان و مکاں کی پابندی اور اس سے آزاد زندگی۔۔۔ یہ سب ایسے عوامل ہیں جن کے بغیر لفظ زندگی بے معنی ہے۔
خواب اور بیداری۔۔۔ اس کے باوجود کہ زمان و مکاں کی گرفت میں ہیں۔۔۔ مشاہدہ یہ ہے زمان و مکاں کی پابندیوں کے جال میں قید فرد بھی زمان و مکاں سے آزاد ہوسکتا ہے۔ بات بظاہر مشکل ہے لیکن مثال کے آئینہ میں آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔
فرض کیجئے میرا نام زید ہے۔ میں رفیقہء حیات بیگم، من موہنی صورت بچوں، ماں باپ اور اپنی نانی کے پاس بیٹا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غنچہ دہن پوپلے منہ سے بہت ہلکے اور لطیف الفاظ کانوں میں رس گھولتے ہیں۔۔۔مدبھری آواز سنتا ہوں۔ آواز جیسے ہی کانوں کے پردہ سے یا کان کے اندر ڈھول پر پڑتی ہے تو چونک کر دادی اماں کو تلاش کرتا ہوں۔ تلاش کی مفرد مرکب لہریں جب آپس میں ایک دوسرے سے ملتی ہیں تو نظر آتا ہے کہ دادی اماں سامنے کھڑی ہیں۔ آنکھیں کھولتا ہوں بند کرتا ہوں، ہتھیلیوں سے مسلتا ہوں لیکن نظر دھوکہ نہیں کھاتی اور ماضی میں گم ہوجاتا ہوں۔
قارئین۔۔۔ آپ بھی اس تجربہ یا اس قسم کے تجربات سے گزرے ہیں۔ اگر ہم اس کو خیال کی کارفرمائی سمجھیں تو یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ہم زندگی کا کوئی بھی عمل اس وقت تک نہیں کرتے جب تک خیالات کی لہریں دماغ کی اسکرین پر مظاہرہ نہ بنیں۔ ہم سینما دیکھتے ہیں۔ گھر گھر ٹیلی ویژن موجود ہیں۔ اخلاقی غیراخلاقی پروگرام نشر ہورہے ہیں لیکن نظر نہیں آتے اور جب اس پروگرام سے متعلق لہریں اسکرین سے ٹکراکر مظاہرہ بنتی ہیں تو لہروں میں چھپی ہوئی تصویریں وجود کے ساتھ اسکرین پر نظر آتی ہیں۔
التماس ہے کہ غور و فکر کریں کہ جب زید، میں یا آپ شربت پیتے ہیں ، شربت پینے سے پہلے لہریں دماغ کی اسکرین پرکیا ریڈیو، ٹی وی، موبائل فون کی لہروں کے قائم مقام نہیں ہوتیں۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی چیز دیکھتے ہیں تو اس وقت تک آنکھ تصویر نہیں کھینچتی جب تک دماغی کیمرے میں موجود فلم پر عکس نہ بنے۔ آج کل کیمرا عام ہے۔ ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ کیمرے سے جوتصویر بن رہی ہے اس کا پروسیس کیا ہے۔۔۔؟ کیمرے کے لینس کو اگر آنکھ سے تشبیہ دی جائے تو بات آسان ہوجائے گی۔
کیمرے میں موجود لینس اگر ظاہر نہ ہو اور ظاہر ہو کر چھپ نہ جائے تو تصویر نہیں بنتی۔ ہم آنکھ کو اگر کیمرے سے تشبیہ دیں اور کیمرے کے اندر کی فلم کو دماغ سمجھ لیں تو کہیں گے شٹر گرا۔۔۔ کیمرے کی آنکھ کھلی۔۔۔ پلک جھپکی۔۔۔ پتلی سامنے آئی۔۔۔ اور آنکھ میں تل کے قائم مقام کیمرے کے لینس نے عکس کو دیکھا اور تصویر دماغ کی اسکرین پر منتقل کردی۔
کیا آنکھ اور کیمرے کا عمل آنکھ مچولی نہیں ہے۔۔۔؟ اگر ہے تو کیمرے کے لینس نے غیر موجود دادی اماں کو کیسے دیکھا۔۔۔؟ اور جیسے ہی پلک جھپکی، دادی اماں نظروں سے اوجھل ہوگئیں۔
آپ کھلی آنکھوں سے کوئی شے دیکھ رہے ہیں۔ آنکھ کی پتلی پر جسے کیمرے کے لینس کے قائم مقام سمجھا جاسکتا ہے، شٹر کی طرح پلک گری، پھر کیا ہوا۔۔۔؟ پھر کیا ہوا۔۔۔؟ بتایئے پھر کیا ہوا۔۔۔؟
بوجھو تو جانیں۔
یہ بھی سوچئے کہ شعور معطل ہے۔ جس شہر، جس محلہ اور جس بیڈ پر سورہے ہیں۔۔۔ ہم نہیں جانتے بند آنکھوں کے پیچھے دو آنکھیں جو نظر نہیں آتیں، کھلتی ہیں۔ کھاتے ہیں، پیتے ہیں، سوتے ہیں، جانگتے ہیں، پاکی ناپاکی کا نہ صرف احساس ہوتا ہے بلکہ عملاً غسل واجب ہوجاتا ہے۔ جسم غافل ہے۔ شعور معطل ہے۔ نرم و گرم بستر یا کانٹوں بھری سیج پر ہم سورہے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ کانٹوں بھری سیج ہے یا نرم و ملائم فوم کا گدّا۔
خواب کے عالم میں دوستوں کے ساتھ پکنک پر ہیں۔ پیپر پلیٹس میں فش، کباب، سینڈوچز، بریانی غرض انواع و اقسام کی ڈشز اور کاغذ کے گلاس میں مشروب  ہے کیا ہم جانتے ہیں کہ نیند کی دنیا اور بیدار ی کی دنیا میں اگر فرق ہے تو وہ کیا ہے۔۔۔؟
عزیزان گرامی۔۔۔ جو کچھ آج کی بات میں ہم نے پڑھا وہ مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاؒ کی تعلیمات کا ایک زاویہ تین طرزوں میں بیان کیا گیا ہے۔
روحانی علوم میں 23 کلاسیں پڑھائی جاتی ہیں۔ زاویہ سے مراد یہ ہے علم کو تین طریقوں سے پڑھا جائے۔ تصوف میں ان تین طرزوں کی اصطلاح یہ ہے۔
(۔اجمال (خلاصہ1
(۔تفصیل (وضاحت2
(۔اسرار (علم کے رموز و نکات3
اس تحریر کواگر مکمل ذہنی یکسوئی کے ساتھ پڑھا جائے تو روشنی کے تین زاویئے ذہن کی سطح پر روشن عبارت بن کر ابھریں گے۔ انشاء اللہ
اگر یہ تحریر پڑھ کر رموزو نکات نہ کھلیں تو یہ مضمون تین دفعہ پڑھئے اور بتایئے آپ کیا سمجھے۔۔۔؟



اللہ حافظ 
خواجہ شمس الدین عظیمی

جنوری 2016

Topics


آج کی بات

خواجہ شمس الدين عظيمي

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔