Topics

اطلاع اور خیال ماہنامہ قلندر شعور ۔جون 2018

کام کی تکمیل کے لئے ذہن یک سو ہونا ضروری ہے۔ شک پیدا ہونے یا خیال بدلنے سے ذہن تبدیل ہوتاہے۔ خیال بدلنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ دوسرا خیال نہ آئے بلکہ خیالات میں ہم آہنگی ہونی چاہئے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب ذہن پہلے خیال پر مرکوز ہو۔ مرکزیت قائم ہونے سے خیال کی جزئیات واضح ہوتی ہیں یہاں تک کہ فرد لاشعور میں مخفی مفہوم سے واقف ہوجاتا ہے۔

اطلاع قبول کرنے سے واہمہ میں داخل ہونے کی صلاحیت بیدار ہوتی ہے۔ واہمہ اطلاع کے ذہن میں داخل ہونے کا پہلا مرحلہ ہے اور عالم ناسوت میں انسان کی اصل صلاحیت اطلاع کو واہمہ کے درجہ میں قبول کرنا ہے۔ واہمہ کیا ہے۔۔۔؟

اطلاع نزول کرتی ہے تو دماغ پر ہلکا سا دباؤ پڑتا ہے۔ یہ دباؤ۔۔۔واہمہ ہے اور واہمہ اسپیس کی علامت ہے لیکن اسپیس اس درجہ کم ہے کہ مادی شعور محسوس نہیں کرتا۔ شعور چیزوں کو شکل و صورت میں دیکھنے کا عادی ہے جب کہ واہمہ میں نقول مغلوب، روشنی غالب ہے۔ روشنی کی ایک صفت پھیلنا یا تحلیل ہونا ہے اس طرح کہ جس مقام پر روشنی تحلیل ہوتی ہے وہاں موجود ہر شے روشن ہوجاتی ہے اور ہم چیزوں کو اس روشنی میں دیکھتے ہیں۔

مثال: کمرے میں اندھیرا ہے اور اندھیرا روشنی ہے۔ اندھیرے کو ہم سیاہ رنگ سے منسوب کرتے ہیں۔ سیاہ رنگ کی خاص بات یہ ہے کہ وہ ہر رنگ کو جذب کرکے سیاہ دکھاتا ہے۔ کمرے میں اندھیرا پھیلنے سے ابتدا میں چیزیں نظر نہیں آتیں کیوں کہ آنکھ اندھیرے کی روشنی سے مانوس نہیں ہے۔ وقفہ میں چیزیں ظاہرہوتی ہیں تو آدمی سمجھتا ہے کہ اندھیرا کم ہوگیا، اندھیرا کم نہیں ہوا۔۔۔ سیاہ رنگ سے انسیت پیدا ہوئی ہے۔

غور طلب ہے کہ رنگین اشیا پر سیاہ رنگ غالب ہوکر سیاہ۔۔۔ ہر رنگ کا لبادہ بن گیا۔

باالفاظ دیگر سیاہی تحلیل ہو کر رنگ رنگ اشیا میں غالب ہوگئی۔

تشریح: بظاہر کمرے کی اشیا میں اسپیس ہے لیکن جو شے ان سب چیزوں کو دکھارہی ہے، توجہ اس پر مرکوز ہوجائے تو چیزوں کی انفرادیت مغلوب اور بنیاد غالب ہوتی ہے۔ اصل ہر جگہ ایک ہے اس لئے نگاہ مرکوز ہونے سے اسپیس مغلوب ہوتی ہے، فرد ناقابل پیمائش وقت میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچتا ہے اور ارادہ ذہن میں آتے ہی مظہر بن جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اطلاع وارد ہوتے ہی زمان و مکان کی تسخیر اور شے کا ظاہرہونا۔۔۔ جنت کی دنیا ہے۔ جنت محدود لیکن اپنے زون می لامحدود ہے۔ جنت سے پہلے بھی دنیائیں ہیں۔ کائنات پرت در پرت عالمین پر مشتمل ہے۔۔۔ توجہ فرمایئے۔۔۔

۱۔ انسان جنت میں آنے سے پہلے تھا اس لئے انسان کا حتمی مقام جنت نہیں بلکہ وہ مقام ہے جہاں وہ تخلیق ہونے سے پہلے موجود تھا اور ہے۔

۲۔ مخلوق کے لئے دوسرا مقام کائنات کی تخلیق کا ارادہ ہے۔

۳۔ تیسرا مقام وہ حکم ہے جس کے تحت کائنات تخلیق ہوئی۔

۴۔ کن سے فیکون ہونا چوتھا مقام ہے۔

۵۔ آدم سمیت مخلوقات کا کائنات میں ظاہر ہونا پانچواں مقام ہے۔

۶۔ الست بربکم چھٹا مقام ہے۔

۷۔ اللہ کی ربوبیت کا اقرار ساتواں مقام ہے۔

۸۔ خالقِ کائنات نے آدم کو علم الاسماء(کائناتی علوم) سے نوازا، یہ آٹھواں مقام ہے۔

۹۔ آدم کا فرشتوں اور جنات کے سامنے تخلیقی علوم کا مظاہرہ نواں مقام ہے۔

۱۰۔ فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا اورابلیس نے سجدہ سے انکار کردیا۔۔۔ یہ بھی ایک مقام ہے

اس کے بعد آدم جنت میں داخل ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واہمہ شعور میں داخل ہونے کے بعد اطلاع کا پہلا مرحلہ ہے۔ اگر واہمہ انسانی شعور کی صلاحیت سے زیادہ ہوتا تو ذہن واہمہ کو قبول نہیں کرتا جب کہ ذہن قبول کرلیتا ہے۔

واہمہ بذات خود ایک دباؤ ہے اور دباؤ ثقل ہے۔۔۔ ثقل کے معنی ابعاد ہیں۔ ابعاد شے کا حدود اربعہ ہے یعنی واہمہ وہ اسٹیج ہے جس میں شے حدود کے ساتھ موجود ہے۔ مقداروں کے تعین کے باوجود روشنی غالب ہونے کی وجہ سے ذہن اس دباؤ کو محسوس نہیں کرتا، جب واہمہ میں مزید دباؤ پیدا ہوتا ہے تو آدمی ذہن میں ارتعاش کو محسوس کرلیتا ہے۔۔۔ یہ خیال کی دنیا ہے جہاں دماغ (Screen) پر لہروں سے بنی تصویر کا ہلکا خاکہ بنتا ہے۔ اطلاع کا پہلا مرحلہ سے دوسرے مرحلہ میں داخل ہونا تفکر طلب ہے۔

مادی دنیا میں شے اس وقت محسوس ہوتی ہے جب خیال بنتی ہے۔ خیال سے پہلے کی اسٹیج پر آدمی کی گرفت نہیں ہے۔ جس طرح عالم ناسوت سے پہلے جنت کی دنیا ہے اسی طرح خیال سے پہلے واہمہ ہے۔ خیال کا تعلق عالم ناسوت کی ابتدائی اسٹیج سے ہے اور واہمہ کا زون۔۔۔ناسوت میں آنے سے پہلے کا عالم ہے۔ یعنی واہمہ مادی دنیا میں آنے کا پہلا دروازہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالم رنگ و بو میں آنے کی وجہ لامحدود جنت کو چھوڑ کر محدود شے کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ اللہ کی سنت میں جبر نہیں ہے، عدم تعمیل کی صورت میں آدم نے اختیاری طور پر مشقت قبول کی۔ آدمی محدودیت کی وجہ سے زمین میں آیا ہے اسی لئے یہاں وہ نظر غالب ہے جو جنت سے نکلنے کا سبب بنی۔ ہمیں زمین پر چیزیں اس وقت نظر آتی ہیں جب انفرادیت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ باطن میں وہ شے روشنی کی صورت میں ہے اور روشنی نظر نہیں آتی۔

یہی صورت واہمہ کی ہے کہ اطلاع واہمہ کی ہے کہ اطلاع واہمہ کی روشنی کی شکل میں موجود ہے لیکن ہم نہیں دیکھتے جب تک روشنی میں ڈائی مینشن ظاہر نہ ہوں۔

عالم ناسوت میں ذہن کی پستی کا یہ عالم ہے کہ اطلاع دوسرے مرحلہ میں داخل ہو کر بھی فرد کے لئے مظہر نہیں بنتی لہٰذا خیال میں مزید دباؤ (ثقل) پیدا ہوتا ہے اور نقش و نگار نمایاں ہونے لگتے ہیں، اس کیفیت کو تصور کہتے ہیں۔ یہاں بھی خیال کی سی صورت ہے کہ فرد تصور کرکے شے کو یکایک حاضر نہیں کرسکتا۔ جب تک تصور پوری طرح فرد پر غالب اور فرد اس تصور میں مغلوب نہیں ہوجاتا۔۔۔ شے مظہر نہیں بنتی۔ مظہر کے معنی زیادہ سے زیادہ اسپیس قائم ہونا ہے۔ اس مقام کو اللہ تعالیٰ نے ’’اسفل سافلین‘‘ فرمایا ہے۔ جنت سے زمین پر آنے کے بعد نوح آدم پر محدودیت اس حد تک غالب ہے کہ جب تک روشنی پوری طرح مغلوب نہ ہوجائے۔۔۔ روشنی میں موجود خدوخال نظر نہیں آتے۔ یہ روشنی سے دوری اور لامحدودیت سے قربت کی انتہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اطلاع کے نزول کے پہلے مرحلہ واہمہ پرتفکر سے ادراک ہوتا ہے کہ ناسوت میں انسان کا اصل مقام۔۔۔ واہمہ کی دنیا ہے۔ واہمہ میں داخل ہونے کا طریقہ روشنی سے واقف ہونا ہے۔ ہر شے صفت پر قائم ہے۔ روشنی کی مقداریں بھی معین ہیں مگر تحلیل ہونے کی وجہ سے روشنی نظر نہیں آتی۔ انسان کے اندر روشنی سے مماثل صفت ایثار۔۔۔ غیر جانب داری اور بے نیازی ہے۔ یہ کائنات ایثار پر قائم ہے۔ یہاں ہر شے اللہ تعالیٰ کی نیازمند ہوکر بے نیازی سے اپنی ذمہ داری پوری کررہی ہے اور تمام امتیازات سے پاک ہے۔ آسمان نیک و بد دونوں کے لئے سائبان ہے۔۔۔ زمین کبر سے چلنے اور عاجزی اختیار کرنے والے دونوں کی خدمت پر مامور ہے۔ یہی صورت ارض و سما میں موجود انواع و اقسام کی ہے۔

عمل کی ابتدا خیال سے ہوتی ہے۔ فرد خیال میں معنی پہناتا ہے۔ کھانا کھلانے کی اطلاع آئی۔ یہ اطلاع لامحدود ہے کہ اس میں افراد، ان کی نوعیت یعنی نوع کا تعین، تعداد اور کیا کھلانا ہے پر زور نہیں۔۔۔بس کھانا کھلانا ہے۔ اگر فرد مذکورہ اشیاء کا تعین شروع کردے اور تخصیص سے کام لے تو یہ اطلاع کے برخلاف عمل ہے۔ ماحول میں پرندے، جانور اور حشرات الارض بھی موجود ہیں۔ پیغام کی قبولیت کا طریقہ یہ ہے کہ جو میسر ہے وہ کھلادے اور اس کی پروا نہ کرے کہ کھانے میں کون کون شریک ہوتا ہے۔۔۔ دانہ دانہ پر مہر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’آج کی بات‘‘ میں مخفی پیغام کو ایک بار پھر سمجھئے۔

۱۔ اطلاع کے نزول کا پہلا درجہ واہمہ ہے جس میں نقش و نگار موجود ہیں لیکن محسوس نہیں ہوتے۔ ۲۔ ذہن پر دباؤ بڑھنے سے لکیریں واضح ہوتی ہیں جس کو خیال کہا جاتا ہے۔ ۳۔ خیال میں گہرائی سے تصویر میں رنگ بھرتے ہیں۔ ۴۔ رنگ گہرا ہونا احساس کی دنیا ہے۔ ۵۔ احساس غالب ہوجائے تو مظہر بن جاتا ہے۔ اطلاع کیا ہے اور کہاں سے آتی ہے۔۔۔؟

مثال: فلم فیتہ میں موجود ہے اور فیتہ پروڈیوسر کے ذہن کا عکس ہے ۔ عکس پر سے روشنی گزرتی ہے اور تصویروں کو جذب کرکے اسکرین پر بکھرتی ہے۔ فلم کی اصل اسکرین نہیں ہے، اسکرین عکس کو دکھانے کا ذریعہ ہے۔ فیتہ میں تصویر اس وقت بنی جب وہ پہلے سے موجود ہے۔ فلم درختوں کے بارے میں ہو تو فلم سے پہلے درخت کا موجود ہونا ضروری ہے۔

سینما کی اسکرین پر بننے والی تصویر کہاں سے آتی ہے۔۔۔؟ جواب فلم کا فیتہ ہے تو فیتہ پر نقش ہونے سے پہلے فلم کہاں ریکارڈ تھی۔۔۔؟ فرد دنیا میں ہر کام یادداشت کے تحت کرتا ہے اور ذہن میں دیکھی ہوئی چیز کو دہراتا ہے۔ یعنی وہ کسی چیز کو اندر دیکھتا ہے اور باہر دہراتا ہے۔ دہرانے سے گندم باہر نہیں آجاتی۔۔۔عکس ظاہر ہوتا ہے۔ عکس کے معنی کثرت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اندر میں ایک ہونے کے باوجود گندم باہر کثرت میں ہے اور یہ کثرت ’’الوژن‘‘ ہے۔

مندرجہ بالا تحریر غور سے پڑھئے۔

وضاحت: بھوک کے تقاضے کی تسکین ہوئی نظر آتا ہے کہ کھانا ختم ہوگیا اور بھوک بھی لیکن دونوں موجود رہتے ہیں کیوں کہ چند گھنٹوں بعد ذہن میں پھر بھوک کی تصویر بنتی ہے۔ بھوک ختم ہوگئی تھی تو پھر تقاضا کیوں پیدا ہوا اور۔۔۔ کھانے کے باوجود گندم کیوں ختم نہیں ہوتی۔۔۔؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واہمہ ہو یا خیال، تصور، احساس اور مظہر۔۔۔سب اطلاع کا تسلسل ہیں۔ اطلاع کہیں سے آکر باہر اس وقت نظر آتی ہے جب اندر میں اسکرین پر نمایاں ہوتی ہے۔ فرد اندر دیکھتا ہے۔ اور اندر کو باہر پرگمان کرتا ہے جس سے توجہ اندر سے ہٹ جاتی ہے۔

ماحول میں لاکھوں چیزیں موجود ہیں اور سب کی بنیاد روشنی ہے۔ ذہنی یک سوئی یہ ہے کہ ہزاروں چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کیا جائے۔ اس سے ہزاروں جگہ دیکھنے کی صلاحیت ایک نقطہ میں آجاتی ہے۔ جب تک آدمی ہر شے میں مشترک شے کو تلاش نہیں کرلیتا۔۔۔ واہمہ میں داخل نہیں ہوسکتا۔ واہمہ کی بنیاد اطلاع ہے اور اطلاع کا سورس وہ مقام ہے جہاں تخلیقات ریکارڈ کی شکل میں موجود ہیں۔

مخلوق میں شعور کی داغ بیل واہمہ سے پڑتی ہے۔ فرد اندر موجود خبر کے نظام کی طرف متوجہ ہوجائے تو عالم ناسوت کی حد بندیاں ٹوٹتی ہیں اور پرفضا و پرکیف جنت مسکن بنتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترم خواتین و حضرات۔۔۔پیارے بچو!

عید۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رمضان المبارک میں لیلۃ القدر سے مشرف ہونے کی خوشی منانے کا انعام ہے۔ جو لوگ ظاہر کو ثانوی حیثیت دے کر باطنی دنیا کا عرفان حاصل کرتے ہیں وہ حقیقی خوشی میں داخل ہوجاتے ہیں۔ تہوار ہر مذہب میں مسرت و شادمانی اور ذہنی کشاکش سے آزاد ہونے کا بہترین سلسلہ ہے۔ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

’’بے شک اللہ کے دوستوں کو خوف اور غم نہیں ہوتا۔‘‘ (یونس: ۶۲)

خوشی یہ ہے کہ آدمی اپنے اندر خوشی کی لہریں محسوس کرتا ہے۔ جب دو افراد آپس میں خلوص، محبت اور اظہار وارفتگی سے گلے ملتے ہیں تو ہر دو وجود خوشی سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔

السلام علیکم۔۔۔ آپ پر اللہ کی رحمت ہو۔

عیدمبارک۔۔۔ اللہ تعالیٰ سب پر خوش بختی قائم رکھے۔

بچوں کو میری طرف سے عیدی ضرور دیں۔ کتنی دیں۔۔۔ انتخاب آپ کے اوپر ہے۔

اللہ حافظ

خواجہ شمس الدین عظیمی

 

جون 2018

Topics


آج کی بات

خواجہ شمس الدين عظيمي

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔