Topics
’’زمانے
کی قسم،انسان خسارہ میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے
رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔‘‘ (العصر: 3-1)
______________________________________________________________________________
عمل کا ردعمل مثبت اور
منفی دونوں ہیں جس سے زندگی پیچیدہ یا راہ نما بن جاتی ہے۔ کسی کو پہاڑ، رائی کا
دانہ نظر آتا ہے تو کوئی رائی کے دانہ کا پہاڑ بنادیتا ہے۔ ذہن الگ ہونے کی وجہ سے
نتائج میں اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی ہر ذرّہ میں مشترک ہونے کے
باوجود سب کے لئے مختلف ہے۔
ڈراما نویس کہانی لکھتا
ہے تو پلاٹ ایک لیکن ہر کردار مختلف ہوتا ہے۔ ڈرامے میں ہر شخص دو زندگیاں جیتا ہے
جب کہ زندگی ایک ہے۔ اجتماعی طرز میں وہ دیگر کرداروں سے منسلک ہے اور انفرادیت اس
کی شناخت ہے۔ انفرادیت کو حیات سمجھنے سے اجتماعیت قائم نہیں ہوتی اور زندگی کو
سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ زندگی کیا ہے اور ایک ہونے کے باوجود الگ الگ کیوں ہے۔۔۔؟
آیئے اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجنوں سمندر کے کنارے
بیٹھا ریت چھان رہا تھا۔ صاحب عقل و فہم نے پوچھا، میاں مجنوں! ریت کیوں چھان رہے
ہو۔۔۔؟ مجنوں نے خشمگیں نگاہوں سے دیکھا اور ریت چھاننے میں مصروف ہوگیا۔ صاحب عقل
و فہم اس کے پاس بیٹھ گیا۔ بہت پیار محبت سے پوچھا۔۔۔ مجنوں بھائی یہ کام کب سے
کررہے ہو۔۔۔؟ مجنوں بولا، پتہ نہیں۔ پوچھا کہ ریت کیوں چھان رہ ہو۔۔۔؟ مجنوں نے
نہایت اشتیاق سے کہا، لیلیٰ کو ڈھونڈ رہا ہوں۔
تعجب سے پوچھا، لیلیٰ !
کیا لیلیٰ ریت میں رہتی ہے۔۔۔؟
مجنوں نے بہت غور سے
دیکھا اور بولا، اگر ریت میں لیلیٰ نہیں ہے تو پھر ریت میں چمک دمک کیسی۔۔۔؟ یہ لیلیٰ
کے حسن کا جمال ہی تو ہے جس سے ریت میں ذرات چمک رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مجنوں صفت امیر
کبیر آدمی نے سروقد، لالہ رخسار، شیریں لب، غزال چشم، چاند کی چاندنی میں ڈھلا ہوا
سراپا، ماہ جبیں کو دیکھا اور حسن کی تاب نہ لاکر بے ہوش ہوگیا۔ ہوش میں آیا تو
مرض عشق اثر کرچکا تھا۔ علاج ہوا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ بالآخر حاذق
طبیب نے مرض کی تشخیص کی تو رشتہ بھیجا گیا جو منظور ہوگیا۔
طبیب نے تجویز پیش کی
کہ شادی جلدی نہیں ہونی چاہئے۔ کچھ وقت انتظار کیا جائے تاکہ بندہ حسن کو دیکھنے
کا متحمل ہوسکے۔ فوراً شادی سے شادی مرگ ہوسکتی ہے۔ تجویز کو خاندان کے بزرگوں نے
پسند کیا۔ شادی سے پہلے کی رسومات شروع ہوئیں۔ اس دوران دونوں خاندانوں کے درمیان
آنا جانا شروع ہوا اور میل جول بڑھا۔ دلہا رفتہ رفتہ ، محبوب کی دید کا متحمل ہوا
اور چند مہینوں بعد دھوم دھام سے شادی ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواجہ باقی باللہؒ کی
خدمت میں ایک نان بائی حاضر ہوتا ہے۔ ایک روز چند مہمان آئے۔ حضرت باقی باللہؒ
مہمانوں کی تواضح کے لئے کچھ موجود نہ ہونے کی وجہ سے متفکر ہوئے۔ یہ دیکھ کر نان
بائی دکان پر گیا اورکھانے پینے کا بندوبست کیا۔
خواجہ باقی باللہؒ خوش
ہوئے اور فرمایا، مانگ، کیا مانگتا ہے۔۔۔؟
عرض کیا، حضور! اپنے
جیسا بنادیجئے۔
خواجہ باقی باللہؒ اس
کو حجرہ میں لے گئے اور اتحادی توجہ سے نگاہ کی۔۔۔ نان بائی شکل و صورت میں حضرت
باقی باللہؒ کی طرح ہوگیا۔ دونوں حجرہ سے باہر آئے تو دیکھنے والے تمیز نہ کرسکے
کہ خواجہ صاحبؒ کون ہیں اور نان بائی کون ہے۔ فرق یہ تھا کہ حضرت باقی باللہؒ
ہوشیار اور نان بائی مخمور تھا۔ تین روز بعد نان بائی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے انسان
کو کائنات کا علم عطا کیا ہے اور خالق کائنات سے واقف ہونے کی صلاحیت عطا فرمائی
ہے۔ یعنی انسان کی سکت کائنات کی وسعت کے برابر ہے اور جتنا اللہ چاہیں ۔
’’نور پر نور ہے، ہدایت
دیتا ہے اللہ اپنے نور کی جسے چاہے۔‘‘ (النور: 35)
نور پر نور۔۔۔ صلاحیتوں
کا انکشاف ہے۔ نان بائی میں حضرت باقی باللہؒ بننے کی صلاحیت تھی اس لئے وہ ان کے
جیسا بن گیالیکن۔۔۔ شعور برداشت نہیں کرسکا۔
مثال: خواب میں اکثر و
بیش تر ہم خود کو مختلف حالتوں میں دیکھتے ہیں۔ آدمی خواب میں یک لخت خود کو پرواز
کرتا دیکھتا ہے اور گرتا نہیں لیکن بیداری میں اڑنے کی کوشش میں گر جاتا ہے۔
بیداری میں اڑنے کا خیال اور خواب میں خود کو پرواز کرتے دیکھنا نشان دہی ہے کہ
اڑنے کی صلاحیت موجود ہے۔ فرق یہ ہے کہ شعور میں مرحلہ وار سکت سے واقف ہوتے ہیں
اور لاشعور میں بھی لیکن۔۔۔ رفتار کی وجہ سے لاشعور میں ترتیب محسوس نہیں ہوتی اور
فرد سمجھتا ہے کہ وہ یک لخت اڑ گیا۔
شعور ہو یا لاشعور۔۔۔
واقفیت کے مراحل ایک ہیں۔ مصوری صلاحیت ہے۔ خواب میں خود کو مصور دیکھنا، درحقیقت
مصوری کا علم حاصل کرنا ہوتا ہے۔ صفات منتقل ہونے کے بعد بندہ مصور بن جاتا ہے۔
صلاحیت۔۔۔ سکت ہے کہ کون کتنی وسعت کا متحمل ہے۔
-1 نان بائی کی صلاحیت
و رفتار حضرت باقی باللہؒ جیسی نہیں تھی۔ اس لئے علم کے انوار کو برداشت نہیں
کرسکا اور ایک ملک سے کسی دوسرے ملک میں منتقل ہوگیا۔
-2 مجنوں صفت امیر آدمی
کی شادی اس وقت ہوئی جب وہ دید کا متحمل ہوا ورنہ ذہنی توازن بگڑجاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر شے سکت کا مظاہرہ ہے
اور سکت یہ شے کی زندگی ہے۔ زندگی ہر لمحہ ظاہر ہوتی ہے اور دوسرے لمحہ غائب
ہوجاتی ہے۔ ذرّہ سے ذرّات۔۔۔ ذرّات سے ابھار، ابھار سے ڈھلان، ڈھلان سے ٹیلا اور
ٹیلے سے پہاڑ بنتا ہے۔ غور طلب ہے کہ شے انتہا کو پہنچتی ہے تو نئی شکل ظاہر ہوتی
ہے۔ احسن الخالقین اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور بلاشبہ ہم نے
انسان کو مٹی کے ست (سللتہ) سے بنایا۔ پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند
(نطفہ) میں تبدیل کیا۔ پھر اس بوند کو لوتھڑے (علقہ) کی شکل دی۔ پھر لوتھڑے کو
بوٹی بنادیا، پھر ہڈیاں (عظما) بنائیں، ہڈیوں پر گوشت (لحما) چڑھایا، پھر ہم نے
اسے نئی صورت میں بنادیا، پس اللہ بڑا بابرکت ہے جو تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق
ہے۔‘‘ (المومنون: 14-12)
سلٰلۃ ۔۔۔ نطفہ ۔۔۔
علقہ ۔۔۔ مضغہ ۔۔۔ عظٰما۔۔۔ لحما۔۔۔ اور پیدائش۔
پیدائش، بچپن، جوانی،
بڑھاپا اور موت۔۔۔ مقداریں ہیں۔ بچپن وسعت پوری کرکے لڑکپن میں داخل ہوتا ہے، بچپن
کی شکل تبدیل اور لڑکپن مظاہرہ بن جاتا ہے۔ لڑکپن کی انتہا، جوانی ہے، جوانی کا
آخر بڑھاپا ہے اور بڑھاپا غائب ہوجاتا ہے۔
مظاہرہ سکت کے مطابق
ہوتا ہے، سکت وسعت ہے اور وسعت یہ ہے کہ شے میں پھیلنے یا سکڑنے کی کتنی مقداریں
ہیں۔ مقدار سے زیادہ کوئی شے پھیلتی ہے نہ کم ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں انتہا پر
پہنچ کر غائب ہوجاتی ہے۔
-1 اگر زید کی کل عمر
ساٹھ سال ہے تو وہ ایک لمح زیادہ جینے کی قوت نہیں رکھتا۔ ساٹھ سال پورے ہوتے ہی
زندگی گزارنے کی سکت ختم ہوجاتی ہے۔ -2 مقدار ذہنی سکت سے زیادہ ہو تو شعور مغلوب
اور نیند غالب ہوجاتی ہے۔ -3 غصہ یا نظر انداز کردینا، معاف کردینا یا انتقام لینا
بھی سکت کا مظاہرہ ہے۔ -4 دن اور رات کا ادل بدل رات اور دن کا پھیلاؤ ہے کہ جب
رات کی مقدار پوری ہوتی ہے تو دن بن جاتی ہے اور دن کی مقداروں کی انتہا رات ہے۔
-5 ایجاد۔۔۔ ذہن کی و سعت ہے۔ جہاز اس وقت ایجاد ہوا جب ذہن پچیس ہزار فٹ کی بلندی
سے آشنا ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات مکمل ہوتی ہے مگر
وسعت کے مطابق سمجھ میں آتی ہے۔ جگہ دینے کے لئے جگہ چھوڑنی پڑتی ہے۔ ذہن خالی نہ
ہو تو تفہیم میں اختلاف ہوتا ہے۔ استاد ایک اور طالب علم پچاس ہیں۔ سوال کیا جائے
کہ زندگی کیا ہے تو پچاس ز اویے سامنے آئیں گے جب کہ استاد نے زندگی کے بارے میں
جو سمجھایا اس میں اختلاف نہیں ہے۔ ہر شاگرد نے ذہنی وسعت کے مطابق سمجھا اور اپنے
اندر میں دیکھنے کو دیکھا۔ شاگرد ایسا بھی ہوتا ہے جو استاد کے ذہن کو قبول کرتا
ہے۔
ایک نوجوان کسی ماہر فن
کے پاس آیا اور کہا، آپ سے بہت متاثر ہوں اور آپ کا علم سیکھنا چاہتا ہوں، مجھے
کتنے سال لگیں گے؟ استاد نے کہا، دس سال!
نوجوان نے کہا، میں بہت
محنت کروں گا، حکم کی تعمیل کروں گا، علم سیکھنے کے لئے دن رات ایک کردوں گا، مجھے
مخلص پائیں گے، اب مجھے کتنے سال لگیں گے؟
استاد نے کچھ دیر اسے
دیکھا اور کہا۔۔۔ بیس سال!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رویہ سکت کا مظاہرہ ہے۔
زندگی عمل میں کم اور ردعمل میں زیادہ گزرتی ہے۔ عمل میں تعمیل۔۔۔ ردعمل میں عدم
تعمیل ہے۔ تجربہ یہ ہے کہ تحمل نہ ہو تو معاملات الجھ جاتے ہیں۔ نظرانداز کردینے
سے آدمی پریشانیوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اللہ کسی کو اس کی و سعت سے زیادہ تکلیف نہیں
دیتا۔ ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے اس کا پھل اسی کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس
کا وبال اسی پر ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے، بہت سی کوتاہیوں سے درگذر
فرماتا ہے۔ درگزر۔۔۔ نظرانداز کردینا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اے نبیؐ، نیکی اور
بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ
تمہارے ساتھ جس کی عداوت تھی وہ دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان
لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے
نصیب والے ہیں۔ اور اگر تم شیطان کی طرف سے وسوسہ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ
لو، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘ (حٰم السجدۃ: 36-34)
آسانی کے بعد مشکل اور
مشکل کے بعد آسانی ہے، زندگی دو حالتوں میں سفر کرتی ہے۔ وسعت سے اعتدال قائم ہوتا
ہے۔ گوشت گلانے کے لئے ہر ایک منٹ کے بعد پانچ منٹ حرارت نہ ہو تو گوشت نہیں گلتا۔
حرارت تھوڑی لیکن مسلسل ہو تو گوشت گل جاتا ہے۔ اسی طرح عمل تھوڑا لیکن مستقل ہو
تو یہ استقامت ہے۔ ارادہ میں استحکام سے صلاحیتوں کا انکشاف ہوتا ہے اور بندہ اس
راستہ پر قائم ہوجاتا ہے جو انعام یافتہ لوگوں کا ہے۔
’’اور ہم ضرور تمہیں
خوف و خطر، بھوک، جان و مال کے نقصانات اور آمدنی کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری
آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ
’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔‘‘ انہیں خوش خبری دے
دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے عنایات ہوں گی، اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور
ایسے ہی لوگ ہدایت پر ہیں۔‘‘ (البقرۃ: 157-155)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خشکی میں سب سے بڑا حجم
پہاڑ کا ہے، اس کے باوجود پہاڑ کے ظاہر الوجود میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ تجلیات
کو برداشت کرسکے۔ سکت کا تعلق باطن سے ہے۔
’’تم دیکھتے ہو کہ پہاڑ
جمے ہوئے ہیں، یہ جمے ہوئے نہیں ہیں، بادلوں کی طرح اڑ رہے ہیں۔‘‘ (النمل: 88)
’’اگر ہم یہ قرآن کسی
پہاڑ پر نازل فرماتے تو تو دیکھتا کہ وہ اللہ کی خشیت سے جھک جاتا، ٹوٹ کر پاش پاش
ہوجاتا ۔ اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کررہے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔‘‘
(الحشر: 21)
اڑنا اور ریزہ ریزہ
ہوجانا اشارہ ہے کہ پہاڑ باہوش و حواس ہے اور جانتا ہے کہ وہ اللہ کی امانت کا
متحمل نہیں ہوسکتا اور جب انسان نے اس امانت کو اٹھالیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا
کہ انسان ظالم اور جاہل ہے۔
مادیت میں حقیقت کے
مشاہدہ کی سکت نہیں۔ کوئی شخص حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتا جب تک کہ حقیقت۔۔۔ ادراک
نہ بن جائے۔ آدمی سکت سے اس وقت واقف ہوتا ہے جب ’’ایاک نعبدو ایاک نستعین‘‘ کے
مصداق اللہ کو اپنا مددگار بنالیتا ہے۔ سکت سے واقف ہونے کی مشق صبر ہے۔ صبر کا
دائرہ پھیلنے سے استحکام پیدا ہوتا ہے۔
’’اللہ صبر کرنے والوں
کے ساتھ ہے۔‘‘ (البقرۃ: 153)
آدمی کو وہی ملتا ہے جس
کی اس نے کوشش کی اس نے کوشش کی۔ جو صبر کرتا ہے، اللہ اس کی سکت میں وسعت
فرمادیتا ہے۔ سیدناحضور پاکؐ کی حیات طیبہ کے ہر عمل میں امت کے لئے سبق ہے کہ آپؐ
کا ہر عمل اللہ کے لئے ہے۔ یہ سوچ بندہ کو غیر جانب دار طرز فکر سے آشنا کردیتی
ہے۔
اس کی مثال حضرت محمدؐ
کا ارشاد گرامی ہے جب آپؐ نے حضرت خدیجہؓ سے فرمایا:
’’اگر انسان یہ جان لے
کہ وہ کس کے لئے اورکس کی خاطر رنج اٹھارہا ہے تو اسے دکھ اور درد کا احساس نہیں
ہوتا۔‘‘
اللہ رب العزت کا ارشاد
ہے:
’’زمانہ کی قسم، انسان
خسارہ میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور ایک
دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔‘‘ (العصر: 3-1)
اللہ حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی
خلاصہ
-1 عمل ایک اور ردعمل
زیادہ ہوں تو زندگی پیچیدہ ہوجاتی ہے۔
-2 دیدار کی تاب نہیں
ہوتی لیکن اللہ کے چاہنے سے وصال ہوجاتا ہے۔
-3 نان بائی کا شعور،
حضرت باقی باللہؒ کے شعور کو برداشت نہیں کرسکا۔
-4 ہر شے اور رویہ سکت
کا مظاہرہ ہے اور سکت وسعت ہے۔ ذہن خالی نہ ہو تو تفہیم میں اختلاف ہوتا ہے۔
-5 ارادہ میں استحکام
صلاحیتوں کا انکشاف ہے۔
-6 سکت کا تعلق باطن سے
ہے اور واقف ہونے کی مشق صبر ہے۔
-7 راسخ فی العلم
خواتین و حضرات یقین رکھتے ہیں کہ ہر عمل اللہ کی طرف سے ہے۔
وَالرّٰسِخُوْنَ فیِ
الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہ کُل مِّنْ عِنْدِ رَبِّناَ
خواجہ شمس الدين عظيمي
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔