Topics

حقیقت اور فکشن۔ ماہنامہ قلندر شعور ۔جون 2014

 

محترم خواتین و حضرات اور قارئین السلام علیکم!

 پہلاسوال یہ ہے کہ آدمی اور انسان کیا دو کردار ہیں؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ جسمانی اعضا کے ساتھ ہم جو کچھ کررہے ہیں کیا وہ حقیقی ہے یا کارکردگی کسی کے تابع ہے؟

مخلوق کانوں سے سنتی ہے۔ جو کچھ سنتی ہے اس کے مفہوم سے باخبر ہے مگر آواز فی الواقع کیا ہے اس سے واقف نہیں۔ آواز لہر ہے۔ ذائقہ، راحت، تکلیف اگر  لہر ہے توہم محسوس تو کرتے ہیں لیکن دیکھتے نہیں۔۔۔ سوچ، فکر، دانائی یا نادانی پر ہمیں کوئی اختیار ہے۔۔۔ اگر اختیار ہے تو سوال یہ ہے کہ نادان آدمی تجربات کے باوجود دانائی قبول کیوں نہیں کرتا۔۔۔؟ فہم یا نافہمی اگر اطلاع ہے اور اطلاع لہر ہے، لہر توانائی ہے تو کیا ہم جانتے ہیں کہ لہر کیا ہے؟

بچہ کی جیسے جیسے شعوری کیفیات میں ردوبدل ہوتا ہے عقل و شعور میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ پہلی مرتبہ جب بچہ اسکول میں داخل ہوتا ہے تو کوئی ذہین بچہ الف (ا) کو سیدھے الف کے بجائے پنسل سے لٹادے (۔) اور بچہ کہے کہ الف یہ ہے کیا آپ کسی طرح بھی اس کو الف ب سکھاسکتے ہیں؟ استاد یہ بتائے گا بیٹا! یہ سیدھا کھڑا (ا) خط ہے اگر اوپر سے نیچے تک ایک لکیر کھینچی جائے تویہ الف (ا) ہے۔ ہونہار بچہ ب بناکر پینسل سے اور اس کو سیدھا کردے اور کہے یہ الف۔۔۔ دیکھو یہ الف ہے تو آپ کہیں گے اگر لٹا کر دیکھو تو ب ہے سیدھا لکھو تو الف ہے۔ بچہ سوال کرتا ہے سر جب میں نے کاغذ کا رخ بدلا تو یہ الف کیوں نہیں ہے؟ تو استاد بہت پیار سے بچے کو بتائے گا الف سیدھا ہوتا ہے۔ ب لیٹی ہوئی ہوتی ہے لیکن جو مظاہرہ بچے نے کیا آپ کس طرح ثابت کریں گے الف سیدھا ہے۔ ب لیٹی ہوئی ہے۔ کاغذ کا رخ بدل دو تو الف ب بن جاتا ہے اور ب الف۔ اس کو زیادہ بہتر، زیادہ اچھی طرح سمجھنے کے لئے فہم اگر استعمال کی جائے اور اس میں پیچ نہ ہو ابہام نہ ہو تو ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے سوائے اس کے کہ بزرگوں نے بتایا ہے الف یہ ہوتا ہے ب یہ ہوتی ہے۔

مفہوم یہ ہوا کہ الف کو الف، لیٹے ہوئے الف کو ب، دوسرے الف کو ت، اس کو ہم نے علم کی بنیاد قرار دیا ہے۔ کیا یہ فکشن نہیں ہے؟ فکشن کیا ہے۔۔۔ ہر استاد جانتا ہے ابتدائی حروف ا۔ ب۔ اور ب ۔ ا کو اگر فکشن نہیں کہیں گے تو بتایئے کہ پھر فکشن کیا ہے۔۔۔؟ حقیقت میں چوں چرا نہیں اور تبدیلی نہیں ہوتی۔

تین مہینے کے بچے کی تصویر کھینچ کر محفوظ کرلیں۔ پندرہ سال کے بعد جس بچہ کی تصویر ہے اس سے پوچھیں یہ تصویر کس کی ہے۔ بچہ کیا جواب دیتا ہے۔ اس جواب سے علم ہوجائے گا کہ عمر کے 15 سال جو بچہ زندگی کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں ان کو شعور بیان نہیں کرسکتا۔ آپ بچے کو بتایئے یہ تمہارے بچپن کی تصویر ہے تو وہ حیرت کرتے ہوئے آپ کی بات پر یقین کرتا ہے۔ یقین رہنمائی نہ کرے تو۔۔۔؟

سوال یہ ہے کہ بالغ آدمی بچپن کی تصویر کوجو اس کی اپنی تصویر ہے جو ریکارڈ بھی ہے کیوں نہیں پہچانتا۔۔۔؟

چھوٹے سے بچے کو جس میں شعور مستحکم نہیں ہوتا جب اماں، ابا، پھوپھی، تائی چاند کی طرف اشارہ کرکے چندا ماموں کا تعارف کراتے ہیں تو 70-60 سال کی عمر میں یہی بچہ اپنے بچوں کو چاند کا تعارف چندا ماما سے کراتا ہے۔

کیا کوئی صاحب فہم آدمی کانٹوں بھرے یا پھل دار درخت کا تذکرہ اس کے تعارف کے بغیر کرسکتا ہے۔۔۔؟

کسی درخت کا بیج یا جڑ جب تک خود غائب ہو کر درخت یا پودے کو ظاہر نہ کرے تو درخت کا تذکرہ کسی بھی طرح ممکن نہیں۔ چھوٹا سا بیج جب سایہ دار درخت بنتا ہے جس کے نیچے قافلے ٹھہرتے ہیں تو وہ کیا ماہ و سال ، شب و روز سے گزرے بغیر قابل تذکرہ ہے۔۔۔؟

خشخاش سے چھوٹے بیج میں بہت بڑا درخت چھپا ہوا ہے۔ یہ مائیکرو فلم جب زمین کی آغوش میں نشوونما پاتی ہے تو یہ چھوٹا سا بیج سایہ دار شجر بن جاتا ہے اور اس کی چھت کے نیچے قافلے ٹھہرتے ہیں۔

سایہ دار شجر پرندوں کے لئے خوان نعمت ہے۔ پتے چوپایوں کے لئے خوراک، شاخیں چہچہاتے پرندوں کے لئے گھونسلہ یا گھر، مسافروں کے لئے دھوپ کی تمازت سے بچاؤ، بہترین منظر کشی کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک، دماغ کا سرور، آرام کے لئے ہوا دار کمرہ ہے۔ اس کی بنیاد کیا ہے۔۔۔؟ چھوٹے سے بیج کا وزن کیجئے اور بیج کے ٹنوں وزنی مظاہرہ پر کیا تفکر کرنا ضروری نہیں۔۔۔؟

کون نہیں جانتا۔۔۔ سب جانتے ہیں کہ انسان کا ایک روپ آدمی دنیا میں آنے کے بعد وہ شعورنہیں رکھتا جو بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے میں ہوتا ہے۔ 3 مہینے تک دنیا میں آنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ (آنکھ میں لینس) عکس قبول نہیں کرتا اور جب پردہ ہٹتا ہے تو نظر وہ کچھ دیکھتی ہے جس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ جیسے جیسے ماحول، ماحول کے نقش و نگار، ماحول میں چلتی پھرتی تصویروں کا دباؤ یا مناظرکی خوشنمائی بار بار ظاہرہوتی ہے اسی مناسبت سے شعور بڑھتا رہتا ہے۔

سائنسدان قابلِ احترام ہیں کہ انہوں نے اللہ کی نشانیوں پر تفکر کیا جس کے نتیجے میں نئی نئی گتھیاں کھلیں اور سمجھ میں اضافہ ہوتا رہا۔ سائنٹسٹ، مفکر، صاحب عقل اگر تفکر کا رشتہ سورس آف انفارمیشن سے جوڑدیں صرف میٹر(matter) کے دائرہ کار میں رہ کر ریسرچ نہ کریں، آگے بڑھیں، شعوری ارتقا کے ساتھ ساتھ شعور کی بنیاد  (base) لاشعور کے دروازے پر دستک دیں تو یقیناًشعوری محدودیت کا پردہ اٹھ جائے گا اور ان قوانین کو سمجھنے کا ایسا حقیقی آئینہ دیکھ لیں گےجس میں فکشن اورحقیقت (Reality) دونوں الگ الگ نظر آتے ہیں۔ اس دور کے سائنٹسٹ، مفکر اور صاحب فہم افراد خوش نصیبی کا تاج پہن سکتے ہیں اگر وہ لاشعور کا کھوج لگانے میں کامیاب ہوجائیں تو انہیں تبدیل نہ ہونے کے قانون سے واقفیت ہوجائے گی جو فکشن نہیں حقیقت (Reality) ہے۔

اللہ حافظ

جون 2014

خواجہ شمس الدین عظیمی

 

Topics


آج کی بات

خواجہ شمس الدين عظيمي

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔