Topics

انسانی صلاحیتیں۔ ماہنامہ قلندر شعور ۔اپریل 2015


سنو بھائی سنو! طرز فکر اگر مثبت اور انبیائے کرام علیم السلام کے وارث اولیاء اللہؒ کی طرز فکر سے ہم آہنگ ہے تو ہر عمل نوع انسانی اور دیگر مخلوق کے لئے سکون و راحت کا باعث ہے۔ طرز فکر اگر محدود ہے، ذاتی منفعت اور انفرادی اغراض کے خول میں بند ہے تو تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال نوع انسانی کے اجتماعی مفاد میں نہیں ہے کیونکہ صلاحیتوں کا استعمال صرف اور صرف اس لئے ہے کہ کسی ایک فرد یا مخصوص گروہ کی اجارہ داری قائم کرکے دیگر افراد کو محکوم بنایا جائے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ منظر عام پر آنے والی نئی نئی ایجادات سکون و آرام کے بجائے نوع انسانی کے لئے پریشانی اور بے سکونی بن گئی ہیں۔


انبیائے کرامؑ ایسی طرز فکر کے حامل ہیں جس میں یہ بات یقینی ہے کہ کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک اللہ ہے، کسی چیز کا رشتہ براہ راست ہم سے نہیں بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ اللہ کی معرفت قائم ہے۔۔۔ اولیاء اللہ، اللہ کی معرفت سوچتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کے ان پسندیدہ بندوں سے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اختیارات کے تحت جو تخلیقات ظہور میں آتی ہیں ان سے مخلوق کی خدمت ہوتی ہے۔ وہ مظاہر کے پس پردہ کام کرنے والی حقیقت سے باخبر ہوتے ہیں اور حقیقت میں ذہنی انتشار نہیں ہے۔ حقیقت غم اور خوف سے آزاد ہے۔ حقیقی دنیا سے متعارف بندے ہمیشہ پرسکون رہتے ہیں۔


راسخ فی العلم برگزیدہ ہستیوں کے دیئے ہوئے سسٹم اور تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے نوع انسانی سکون آشنا زندگی سے ہمکنار ہوجاتی ہے۔


اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیتوں میں فرمایا ہے کہ:


"اس کتاب میں شک نہیں ہے۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو متقی ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں۔" (1:2(


غیب پر یقین رکھنے سے مراد یہ ہے کہ وہ مشاہداتی نظر کے حامل ہوں۔ ان کے اندر غیب بین نظر کام کرتی ہو، جب تک انسان کے اندر مشاہداتی نظر کام نہیں کرے گی اس کی حاکمیت کائنات پر قائم نہیں ہوگی۔


حاکمیت یہ بھی ہے کہ زمین ایک قاعدہ اور ضابطہ کے تحت ہمیں رزق فراہم کررہی ہے۔ ہم زمین پر مکان بناتے ہیں تو زمین مکان بنانے میں حائل نہیں ہوتی۔ زمین اتنی سنگلاخ اور سخت جان نہیں بن جاتی کہ ہم اس پر کھیتیاں نہ اگاسکیں، اتنی نرم نہیں بن جاتی کہ ہم زمین کے اوپر چلیں تو پیر دھنس جائیں۔


سورج اور چاند ہماری خدمت میں مصروف ہیں۔ مقررہ قاعدہ اور ضابطہ کے مطابق اپنی اپنی ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہیں جو ان کے اوپر فرض کردی گئی ہیں۔ چاند کی چاندنی سے پھلوں میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے اور سورج کی گرمی سے میوے پکتے ہیں۔ الغرض کائنات کا ہر جزو اپنا کردار ادا کررہا ہے اور اس عمل سے ہمیں اختیاری یا غیراختیاری فائدہ پہنچ رہا ہے۔


حاکمیت یہ بھی ہے کہ آپ اپنے اختیار کے تحت زمین سے، سمندر سے، دریاؤں سے، پہاڑوں سے، چاند سے، سورج سے اور دیگر اجزائے کائنات سے کام لے سکیں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مدینہ کی طرف ہجرت فرماتے ہوئے رسول اکرمؐ بنو خزاعہ کی خاتون عاتکہ بنت خالد کے خیمہ کے پاس سے گزرے۔ یہ خاتون ام معبہ کے نام سے مشہور تھی اور آنے جانے والوں کو پانی پلاتی اور کھانا کھلاتی تھی۔ حضورؐ نے خیمے کی چوب سے ایک بکری بندھی دیکھی۔ دریافت فرمانے پر ام معبہ نے کہا "یہ بکری کمزور اور بیمار ہے، ریوڑ کے ساتھ نہیں جاسکتی۔ لاغری کے سبب دوسری بکریوں سے پیچھے رہ جاتی ہے۔"


حضورؐ نے دریافت فرمایا کہ یہ دودھ دیتی ہے۔ ام معبہ نے جواب دیا اسے دودھ نہیں اترتا۔ حضورؐ نے برتن طلب کرکے دودھ دوہنا شروع کیا۔ جب برتن بھر گیا تو حضورؐ نے پہلے ام معبہ کو پلایا۔ پھر حضورؐ نے اپنے ساتھیوں کو پلایا۔ سب سے آخر میں حضورؐ نے خود نوش فرمایا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حضرت جابرؓ بن عبداللہ کے پاس ایک بکری تھی۔ انہوں نے بکری کو ذبح کیا ان کی اہلیہ نے گندم پیس کر روٹی اور گوشت پکایا اور ایک پیالے میں ثرید تیار کیا۔ حضرت جابرؓ ثرید کا پیالہ لے کر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جابرؓ سے فرمایا۔ "اے جابر! اپنے ساتھیوں کو جمع کر اور ان کو میرے پاس ایک ایک کرکے بھیج دے۔"


حضرت جابرؓ ایک ایک ساتھی کو سیدناحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس بھیجتے رہے۔ سب نے سیر ہو کر کھایا۔ حضورؐ کھانے والوں سے صرف اتنا فرماتے تھے "کھاؤ اور ہڈی نہ توڑو" سب لوگ جب ثرید کھا کر چلے گئے تو حضورؐ نے ہڈیوں کو جمع کیا اور ان پر اپنا دست مبارک رکھ کر کچھ ارشاد فرمایا بکری کان ہلاتی ہوئی کھڑی ہوگئی۔ حضورؐ نے فرمایا: "جابرؓ اپنی بکری لے جاؤ۔"


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ایک شخص نے حضرت عمرؓ سے شکایت کی! "یا امیر المومنین! میں زمین پر محنت کرتا ہوں، بیج ڈالتا ہوں او رجو کچھ زمین کی ضروریات ہیں انہیں پورا کرتا ہوں لیکن بیج جل جاتا ہے۔"


حضرت عمرؓ نے فرمایا"جب میرا اس طرف سے گزر ہو تو بتانا۔"


حضرت عمرؓ ادھر سے گزرے تو ان صاحب نے زمین کی نشاندہی کی۔ حضرت عمرؓ تشریف لے گئے اور زمین پر کوڑا مار کر فرمایا کہ "تو اللہ کے بندے کی محنت کو ضائع کرتی ہے جب کہ وہ تیری ضروریات پوری کرتا ہے۔"


اور اس کے بعد زمین لہلاتے کھیت میں تبدیل ہوگئی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ابوبصیر نے حضرت امام حسینؓ سے نقل کیا ہے کہ عہد اول میں کچھ لوگوں نے ساحل عدن پر ایک مسجد بنائی لیکن وہ گرگئی، دوسری بار تعمیر ہوئی پھر گرگئی، اسی طرح کئی بار ہوا۔ سب کے سب خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئے اور واقعہ بیان کیا انہوں نے حضرت علی مرتضیٰؓ کے پاس بھیج دیا۔ لوگوں نے جب حضرت علیؓ سے واقعہ دریافت کیا تو حضرت علیؓ نے فرمایا:


قبلہ کی طرف داہنے بائیں تھوڑی سی زمین کھودو۔ وہاں پر دو قبریں نکلیں گی ان پر لکھا ہوگا۔۔۔ انا رضوی واختی حبا۔۔۔ میں رضوی اور میری بہن حبا ایسی حالت میں مرے کو کسی طرح ذات خدا میں شرک کو روا نہ رکھا۔ پس ان دونوں لاشوں کو غسل و کفن دے کر نماز پڑھو اور دفن کردو اور پھر شوق سے وہاں مسجد بناؤ۔ چنانچہ لوگوں نے ایسا ہی کیا اور پھر وہ مسجد نہ گری۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہم سب جانتے ہیں کہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے تخلیق کی ہے۔ کائنات کے تمام اجزاء بشمول انسان اور انسان کے اندر کام کرنے والی تمام صلاحیتیں ایک مرکز پر قائم ہیں۔


آیئے! انسان کے اندر کام کرنے والی صلاحیتوں کا سراغ لگائیں۔


مشاہدہ یہ ہے کہ ہمارے تصورات اور احساسات گوشت پوست کے ڈھانچے کے تابع نہیں ہیں بلکہ روح کے تابع ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق روح کا علم قلیل کردیا گیا ہے مگرلامحدود کا قلیل بھی لامحدود ہوتا ہے۔ روح لامحدود ہے علم روحانیت جاننے والے خواتین و حضرات نے اس علم کو سمجھنے کے لئے درجہ بندی کی ہے اور فارمولے بنائے ہیں اور ان


فارمولوں سے اپنے شاگردوں کو روشناس کیا ہے۔


انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ اس طرح یہ امر یقینی ہوگیا ہے کہ قدرت کے جس قدر شعبے ہیں ان شعبوں میں اللہ کے نائب کا اللہ کے عطا کردہ علم الاسما ءکی بنا پر تعلق ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اللہ تعالیٰ نے جب کائنات کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو جو کچھ ارادہ میں تھا ا س کے مظاہرہ کے لئے فرمایا "ہوجا"۔ اس ارشاد کی تعمیل میں زندگی کے مراحل وقوع میں آنا شروع ہوگئے اور موجودات زندگی کا آغاز ہوا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جب عالم ناسوت (دنیا) میں اللہ تعالیٰ کے ارادے سے نقش و نگار کا ظہور ہوتا ہے تو حرکت زمان و مکان میں منتقل ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ خالق اکبر ہیں جب مخلوق عالم وجود میں آئی تو مخلوق کو صفات منتقل ہوئیں۔


تخلیق کی ساخت دو رخوں پر قائم ہے۔ ایک رخ ظاہر اور دوسرا غائب ہے۔ چھپنا ظاہر ہونا اور پھر چھپنا غیب کے اوپر قائم ہے۔ جب ہم گلاب کو دیکھتے ہیں تو یقین کی حد تک یہ سمجھتے ہیں کہ گلاب کے اوپر کی نسلیں موجود ہیں۔ نسلوں کی موجودگی علم شے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگرچہ وہ باغبان کے سامنے موجود نہیں ہیں اور باغبان ان کو دیکھ بھی نہیں سکتا لیکن گلاب کا موجود ہونا اوپر کی نسلوں کے موجود ہونے کی کامل شہادت ہے۔ گلاب کے بعد گلاب کی آئندہ نسلوں کا ہونا بھی یقینی امر ہے لیکن باغبان کے سامنے گلاب کی آئندہ نسلیں نہیں ہیں وہ صرف موجودہ گلاب سے واقف ہے۔


یہی صورت حال آدمی، حیوانات، نباتات و جمادات کی ہے۔ اس بات کو اس طرح سمجھنا آسان ہوگا کہ باغبان زمین پر موجود گلاب کی نسلوں سے تو بظاہر واقف ہے لیکن جن مقداروں پر گلاب موجود ہے یہ علم باغبان نہیں جانتا۔ البتہ وہ جانتا ہے کہ موجودہ گلاب سے پہلے بھی گلاب تھا اور آئندہ بھی گلاب کی موجودگی جب تک اللہ تعالیٰ چاہیں یقینی امر ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یہ وہ علم ہے جو خالق کائنات اللہ نے علم اسما ءکے عنوان سے ہم سب کے دادا، خلیفتہ الارض حضرت آدمؑ کو سکھایا ہے۔ اگر ہم یہ علم سیکھ لیں تو سعید اولاد کی حیثیت سے حضرت آدمؑ کے ورثا میں شامل ہوجائیں گے۔


اللہ حافظ

خواجہ شمس الدین عظیمی

اپریل 2015


Topics


آج کی بات

خواجہ شمس الدين عظيمي

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔