Topics

یقین

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کر کے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو جاننے، پہچاننے اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے غیر رب کی نفی کرنا ضروری ہے۔ غیر رب کی نفی کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں یہ مذکور ہے کہ انہوں نے شعوری حواس سے ہٹ کر لا شعوری حواس میں داخل ہو کر غور و فکر کیا۔

’’جب رات کی تاریکی چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا، ستارے کی چمک دمک دیکھ کر کہا کہ یہ میرا رب ہے اور جب ستارہ غروب ہوا تو آپ نے فرمایا کہ غروب ہوجانے والا، چھپ جانے والا، گھٹ جانے والا معبود نہیں ہو سکتا اس کے بعد ستارے سے زیادہ روشن اور چمکدار چاندکو دیکھا ، چاند کو دیکھتے ہی دیکھتے یہ صورتحال سامنے آئی کہ چاند گھٹنے والی چیز ہے اور وہ بھی غروب ہو گیا اس کے بعد چاند سے زیادہ روشن سورج کو دیکھا اور یہ سوچا کہ اب تک دیکھی جانے والی چمکدار چیزوں میں سورج سب سے زیادہ روشن ہے۔ بالآخر سورج بھی غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا غروب ہونے والا خدا نہیں ہو سکتا اور میں اس خدا کی طرف اپنا رخ کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔‘‘

اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی گھٹنے والی چیز وہ کتنی ہی طاقتور ہو، کتنی ہی روشن ہو اور کتنی ہی بڑی ہو، قابل پرستش نہیں ہے کیونکہ اس کے پیچھے کوئی بڑی طاقت موجود ہے جو اس کو آنکھوں سے اوجھل کر رہی ہے اور پھر ظاہر کر دیتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس تفکر سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کے اندر ایسی صلاحیت موجود ہے جو انسان کو رب اور غیر رب میں امتیاز کرنا سکھاتی ہے۔ اسی صلاحیت کو پیغمبر اسلام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نفس اور خالق کائنات اللہ نے قرآن پاک میں حبل الورید(رگ جان) کہا ہے۔



بیداری کے حواس میں حرکت کڑی در کڑی مرحلہ وار ہوتی ہے۔ یعنی ایک لمحہ پھر دوسرا لمحہ پھر تیسرا لمحہ۔
نیند کے حواس میں مرحلہ وار حرکت سے بندہ آزاد ہوتا ہے۔
یعنی ایک کے بعد یکدم دسواں، بیسواں لمحہ آ جاتا ہے۔
بیداری کے عالم میں Aمقام سے Bمقام تک کوئی فرد اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک درمیان کے دوسرے مقامات طے نہ کر لے۔
جب کہ رات کے حواس میں Cمقام سے Dمقام تک پہنچنے کے لئے درمیانی مقدمات سے گزرنا ضروری نہیں ہے۔

اگر کسی انسان میں نفس کو پہچاننے والی صلاحیت ختم ہو جائے تو ایسا بندہ رب سے متعارف نہیں ہو سکتا انسان اور انسانی زندگی کا جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تو وسائل زیر بحث آ جاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی کسی لمحہ ٹھہرتی نہیں ہے۔ ہر لمحہ، ہر آن، ہر منٹ زندگی کی تجدید ہو رہی ہے۔ اس تجدید کو قائم رکھنے کے لئے اللہ نے مادی وسائل پیدا کئے ہیں۔ مادی وسائل گیسیں، (صفحہ 96تصویر)روشنی، ہوا، پانی اور غذا وغیرہ ہیں۔ انسان کے اوپر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ اس کی جسمانی ساخت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود ہوا، پانی اور غذا سے زندگی کی تجدید نہیں ہوتی۔ مادی دنیا میں اس حالت کا نام موت ہے۔ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے جسمانی اعضاء ناک، منہ، آنکھ اور کان موجود رہتے ہیں۔ ان چیزوں کو برقرار رکھنے والے وسائل بھی موجود ہیں۔ لیکن ہوا، پانی کسی طرح کی غذا آدمی کی زندگی کو بحال نہیں کرتی۔ زندگی کا دارومدار ہوا، پانی اور غذا پر ہوتا تو مردہ جسم کو ان چیزوں کے ذریعے زندہ کرنا ممکن ہو جاتا۔ ہم اس حقیقت تک پہنچ گئے ہیں کہ مادی وسائل سے زندگی کی تجدید نہیں ہو رہی ہے۔ جب زندگی کا دارومدار صرف ہوا، پانی اور غذا پر نہیں ہے تو کوئی نہ کوئی ہستی ایسی موجود ہے جس کے اوپر انحصار کرنا امر مجبوری ہے۔ یہ وہ ہستی ہے جس نے انسان کے لئے دوسرے تمام وسائل پیدا کئے ہیں۔
’’پاک ہے وہ ذات جس نے سب چیزوں کو دو دو قسموں پر پیدا کیا۔‘‘ (قرآن)
ان دو قسموں کو سمجھنے کے لئے ہمیں انسان کے اندر کام کرنے والے شعوری اور لاشعوری حواس کو سمجھنا پڑے گا۔ شعوری اسباب زیر بحث آتے ہیں تو ہمارا واسطہ ہر ہر قدم پر غیر رب سے پڑتا ہے اور ہم زندگی گزارنے کے لئے رب کے علاوہ دوسری بہت ساری چیزوں سے اپنا رشتہ قائم کرلیتے ہیں۔ زندگی کا تجزیہ ہمارے اوپر منکشف کرتا ہے کہ انسانی زندگی آدھی شعوری اور آدھی لا شعوری حواس میں گزرتی ہے۔ برملا یوں کہا جا سکتا ہے کہ عمر کا زیادہ حصہ لاشعوری حواس میں گزرتا ہے۔
مثال:
انسان پیدا ہوتا ہے دس سال کی عمر تک لاشعوری زندگی گزارتا ہے لیکن شعوری زندگی میں فی الواقع افہام و تفہیم نہیں ہوتی۔ د س بارہ سال یا آٹھ نو سال کی شعوری زندگی میں اگر نیند کا وقفہ شمار کر لیا جائے تو لاشعوری زندگی، شعوری زندگی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے۔ اگر انسان شعوری زندگی میں رہتے ہوئے لاشعوری زندگی میں زیادہ حصہ گزارے تو اسے روحانی بیداری میسر آ جاتی ہے۔
زندگی کا ایک وقفہ یہ ہے کہ انسان شعوری حواس میں کام کرتا ہے۔ اس وقفہ کو بیداری کہا جاتا ہے۔ شعوری حواس یا بیدار میں ہمارے اوپر زمان و مکان Time and Spaceکا غلبہ رہتا ہے۔ یعنی ہم خود کو ہر ہر قدم پر مقید اور پابند محسوس کرتے ہیں۔ زندگی کے دوسرے مرحلے اور دوسرے وقفے نیند کی حالت میں ہمارے اوپر سے ارضی زمان و مکان کی پابندی ٹوٹ جاتی ہے اور جب ارضی زمان و مکان کی پابندی ٹوٹ جاتی ہے تو ہم اس دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں جس دنیا میں ارضی زمان و مکان نہیں ہیں۔
شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے سے انسان کے اوپر سے زمان و مکان کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ روحانی زندگی حاصل کر کے غیب کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔ جب ہم روحانیت کے علوم سے بحث کرتے ہیں تو لازماً ہمیں الہامی کتابوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ آخری الہامی کتاب قرآن انسان کے لئے ایک طرف روحانی ورثہ ہے۔ دوسری طرف ماورائی علوم کی دستاویز ہے۔ ایسی دستاویز جس میں چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ہر بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ سورہ بقرۃ کی پہلی آیت میں اللہ نے اس قانون کو اس طرح بیان کیا ہے:
’’یہ کتاب! نہیں ہے شک اس میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کتاب ان لوگوں کو ہدایت دیتی ہے جو متقی ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘
باطن روشن علماء قرآن کے ان الفاظ کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ اگر بندے کے اندر شک اور وسوسہ ہے تو یہ کتاب اس بندے کی رہنمائی نہیں کرتی۔ یہ کتاب صرف ان لوگوں پر ہدایت کے راستے کھولتی ہے جو منافق نہیں ہیں۔ آخری کتاب قرآن کے ارشاد کے مطابق متقی لوگوں کی نشانی اور صفت یہ ہے کہ وہ غیب کے اوپر یقین رکھتے ہیں۔ غیب سے مراد وہ تمام چیزیں، وہ تمام عوامل، وہ تمام حالات اور وہ تمام دنیائیں ہیں جو ظاہراً آنکھ سے نظر نہیں آتیں۔ قانون یہ بنا کہ غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے۔ یہ بات امر مسلمہ ہے کہ ان دیکھی چیزوں پر یقین کی تکمیل نہیں ہوتی۔ یہ قانون صرف غیب کی دنیا میں ہی نافذ نہیں ہے، ہماری روزمرہ زندگی میں بھی یہ قانون نافذ اور جاری و ساری ہے۔ نوع انسانی کی زندگی کا ہر شعبہ اس قانون کا پابند ہے۔ اس قانون کی حدود میں رہتے ہوئے جب ہم زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں یا اپنے افعال و کردار کا محاسبہ کرتے ہیں تو ہم جان لیتے ہیں کہ جب تک ہم کسی چیز کی طرف یقین کے ساتھ متوجہ نہیں ہوتے ہم اسے نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔
مثال:
ایک آدمی کسی درخت کے نیچے کھڑا ہوا ہے۔ آنکھیں بند ہیں یا آنکھیں کھلی ہوئی ہیں لیکن درخت کی طرف متوجہ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں کہ درخت موجود ہے اس کی آنکھوں کے سامنے نہ تو درخت کی ساخت آتی ہے اور نہ ہی اس کی نظروں کے سامنے پھول پتیاں اور رنگ آتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر وہ درخت کو دیکھتا ہے تو درخت کی ساخت، درخت کے پھول، درخت کی پتیاں، درخت کے رنگ، درخت کی اونچائی، درخت کا پھیلاؤ سب نظروں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہمیں اس بات کا یقین کر لینا پڑتا ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ درخت موجود ہے۔ ہمارے ادراک میں یہ بات موجود ہے کہ دنیا میں ہزار ہا درخت موجود ہیں لیکن اگر قانون کی شرط پوری نہ کر کے درخت کو ایک حقیقت تسلیم کرنے کے بعد درخت کا مشاہدہ نہ کیا جائے تو ہم درخت کو نہیں دیکھ سکتے۔ درخت دیکھنے کے لئے پہلے درخت کی موجودگی کا تصور ذہن میں موجود ہونا ضروری ہے اور درخت سے متعارف ہونے کے لئے ادراک سے ایک قدم باہر آ کر درخت کا مشاہدہ کرنا ضروری ہے۔ یہی صورت غیب کی دنیا کی ہے۔
مثال:
ہم ایک شہرسے دوسرے شہر کی طرف سفر کرتے ہیں۔ سفر ہم اس لئے کرتے ہیں کہ ہمیں شہر کی موجودگی کا یقین ہے۔ جب ہم سفر کر کے یقین کے سہارے آگے بڑھتے ہیں تو ہم شہر کو دیکھ لیتے ہیں۔ شہر کی موجودگی کا یقین ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کا یقین اس بنیاد پر قائم ہے کہ ہم نے کوئی نہ کوئی شہر پہلے سے دیکھا ہوا ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ شہر میں سڑکیں ہوتی ہیں، مکانات ہوتے ہیں۔ مکانات میں انسان بستے ہیں۔ شہر میں درخت ہوتے ہیں۔ یہی حال غیب کی دنیا کا ہے۔ جس طرح دنیا میں ہزار ہا شہر ہیں اسی طرح خلاء سے اس پار غیب کی لاکھوں دنیائیں آباد ہیں۔ جن کی تعداد اربوں کھربوں بھی ہو سکتی ہے۔ اگر ہمارے اندر غیب کی کسی دنیا کا مشاہدہ موجود نہ ہو تو ہم کسی بھی غیب کی دنیا میں داخل نہیں ہو سکتے اور اس ہستی تک نہیں پہنچ سکتے جو غیب الغیب سے ماورا ہستی ہے۔ یہی وہ قانون ہے جو ہماری مادی اور روحانی دنیا میں نافذالعمل ہے۔ 
مثال:
ہر بچہ ماں باپ کی بتائی ہوئی بات کو حقیقت تسلیم کر کے اس سے استفادہ کرتا ہے۔ نوع انسانی میں جتنے بھی بچے ہیں ان کی تربیت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ بچے ماں باپ کے کہنے پر ماں باپ کی بتلائی ہوئی باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔
ماورائی دنیا کا ہر مسافر یہ جانتا ہے کہ زندگی یقین کے اوپر رواں دواں ہے۔ کائنات میں انتظامی امور کا قانون مادی دنیا اور ماورائی دنیا دونوں میں نافذ ہے۔ ہمارا تجربہ یہ ہے ، ہر بچہ کے اندر غذائی ضرورت پوری کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ وہ غذائی ضرورت پورا کرنے کے لئے رو کر اظہار کرتا ہے۔ اس کے بعد بچے کے اندر یہ شعوری صلاحیت پیدا ہوتی ہے کہ وہ ماحول میں موجود سب سے قریبی ہستی کو پہچانتا ہے۔ بچے کے اندر پہچاننے کا ایک بڑا ذریعہ قوت شامہ ہے یعنی وہ ماں کو ماں کی خوشبو سے پہچانتا ہے۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے بچے کے شعور میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ شعور میں مسلسل اضافے سے جو کیفیت شعور میں داخل ہونے کے بعد مستحکم ہوتی ہے اس کیفیت کا نام یقین ہے۔ ماں باپ اگر پانی کو پانی کہتے ہیں تو بچہ بھی پانی کہتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس جتنی چیزیں ماحول میں موجود ہیں ان سب کا نام اور اشیاء کی خاصیتیں بچہ من و عن اسی طرح قبول کرتا ہے۔ جس طرح والدین کے ذہن میں موجود ہے۔ بچہ جب شعور کے اس دور میں داخل ہوتا ہے جہاں علم سیکھنے کا وقت آتا ہے وہاں بھی ہمیں یقین کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ استاد ایک لمبی لکیر کو ’’الف‘‘ کہتا ہے۔ بچہ اس یقین کے ساتھ جو اسے ماحول سے منتقل ہوا ہے استاد کے کہنے پر الف کہتا ہے اور یقین اس کی زندگی پر محیط ہو جاتا ہے۔ کبھی کسی نے نہیں دیکھا کہ کسی بچے نے بوڑھے ہو کر اس بات کی تردید کی ہو کہ سیدھی لکیر الف نہیں ہے۔ قانون یہ بنا کہ جس طرح شعوری دنیا میں داخل ہونے کے لئے یقین کا ہونا ضروری ہے اسی طرح لاشعوری دنیا سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے یقین بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔
یقین کہاں ہوتا ہے؟
جہاں بھی ہوتا ہے اسے انا، ذاتِ انسانی Internal Egoکہتے ہیں۔ انا یا ذات کی اصل خالق کائنات کی صفات ہیں جن کے ذریعے کائنات کے تمام افراد اور کائنات کے تمام افراد کے حواس ایک رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔

مثال:
ایک تالاب ہے۔اس تالاب میں ایک چھوٹی سی کنکری پھینک دی جائے تو تالاب میں دائرے بنتے ہیں۔ یہ دائرے بیچ سے شروع ہو کر تالاب کے چاروں کناروں پر گھوم جاتے ہیں۔ یہ دائرے اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ ان کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔
تالاب میں ہر لہر کسی ایک نوع کی شکل و صورت کا نام ہے۔ اس شکل و صورت کا نام ایک طرف نوع ہے اور دوسری طرف فرد ہے۔ جب ہم نے تالاب میں کنکر پھینکا تو تالاب کے اندر بیشمار لہریں دائروں کی شکل میں متحرک ہو گئیں۔ یعنی لہروں کا وجود تالاب کے اندر موجود تھا۔ یہ وجود لہروں کی شکل میں سطح تک پہنچا۔ تالاب کے اندر سے نکل کر تالاب کی سطح پر لہر بننا فرد کا شعور ہے۔ جب تک لہر تالاب کے پانی کے اندر ہے وہ فرد کا لاشعور ہے۔ جب ہم نے یہ بات تسلیم کرلی کہ تالاب کی سطح پر ابھرنے والی تمام لہریں کائنات کے افراد ہیں تو یہ بات لازماً ماننی پڑے گی کہ ساری کائنات ایک مخفی رشتے میں بندھی ہوئی ہے اور وہ مخفی رشتہ تالاب کا پانی ہے۔

مثال:
جب آدمی سورج کو دیکھتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ میں سورج کو جانتا ہوں۔ ذہن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ سورج بھی میری طرح اس کائنات کا ایک فرد یا ایک رکن ہے۔ بظاہر سورج کے ساتھ انسان کا کوئی رشتہ نظر نہیں آتا لیکن جب ایک انسان سورج کو دیکھتا ہے تو سورج سے اپنے اندر قربت کا احساس محسوس کرتا ہے۔ یہ بات ذہن میں نہیں آتی کہ سورج سے میرا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یہی رشتہ یا آپس میں ربط وہ مخفی احساس ہے جو تالاب کی تہہ میں ہر نوع کے ہر فرد کو حاصل ہے۔ اسی ربط کی وجہ سے کائنات کا ہر ذرہ ایک دوسرے سے متعارف ہے۔
نسل کشی کے سلسلے پر غور کیا جائے تو کائنات میں درخت اور تمام حیوانات، جمادات اور نباتات اس صفت میں انسان کے ساتھی ہے۔ ان مشاہدات اور تجربات کے پیش نظر یہ ماننا امر مجبوری ہے کہ کوئی ایسی ہستی ہے جو ہر چیز پر محیط ہے اور جس طرح وہ ہستی چاہتی ہے اسی طرح کائنات کے افراد زندہ اور متحرک رہتے ہیں۔ چونکہ انسان کی اصل اور انسان کی بنیاد روشنی کے سمندر کی تہہ پر ہے اس لیے وہ اپنی اصل سے واقف ہو کر کائنات کو دیکھ لیتا ہے۔ جب تالاب کی تہہ میں یا غیب کے سمندر میں حرکت ہوتی ہے تو فرد کو اس کا اس لیے علم ہوتا ہے کہ فرد کی اصل سمندر یا تالاب کی تہہ ہے۔ 



نظریۂ رنگ و نور

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔ 

عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔

انتساب
زمان و مکان ( Time&Space) ایک لمحے کی تقسیم در تقسیم ہے
اور لمحہ کی تقسیم ‘ اطلاع ہے جو ہر آن لہروں کے ذریعہ انسانی دماغ پر وارد ہوتی رہتی ہے۔
اگر ہم ان اطلاعات کا مخزن (Source of Information) معلوم کرنا چاہیں تو
اس کا ذریعہ روحانی علوم ہیں اور
روحانی علوم کے لئے دانشوروں کو بہرحال قرآن میں تفکر کرنا پڑے گا۔