Topics
انسان کا اصل وصف یا انسان کا اصل شرف یہ ہے کہ اللہ نے اسے اپنی نیابت عطا کی ہے۔ آدم بحیثیت خلیفتہ اللہ، اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کا حاکم ہے۔ اللہ کے دیئے ہوئے اختیارات سے وہ کائنات کی حرکات و سکنات کو ایک ترتیب، توازن اور معین مقداروں کے ساتھ قائم رکھتا ہے۔
آدم بحیثیت خلیفتہ اللہ جو احکامات صادر کرتا ہے اس کا تعلق روحانی علوم سے ہے۔ روحانی علوم علم الاسماء کے شعبے ہیں۔ جب کوئی انسان علم الاسماء کے علم سے دور ہو جاتا ہے تو اس کے اندر شیطانی وسوسوں کی ابتداء ہوتی ہے۔ وہ شکوک اور شبہات اور وسوسوں میں مبتلا ہو کر اللہ کی صفت ربانیت کو بھولنے لگتا ہے اور اپنی اصل سے گریز کرتا رہتا ہے۔
تخلیق دراصل علم شئے ہے۔ جب تک کسی شئے کا علم نہیں ہو گا شئے وجود میں نہیں آئے گی۔ کائنات دراصل اللہ کا اپنا ذاتی علم ہے۔ کائنات اور کائنات کے تمام اجزاء ترکیبی پہلے سے اللہ کے ذہن میں موجود تھے۔ اللہ کے ذہن میں کائنات کی موجودگی ہی اللہ کا علم ہے۔ کلیہ یہ بنا کہ کائنات سے پہلے علم ہے، پھر شئے ہے۔علم شئے چونکہ براہ راست اللہ کا ذاتی علم ہے اس لئے اللہ کی طرح اس علم کو بھی بقائے دوام حاصل ہے۔ شئے (مادی وجود) چونکہ علم کے بعد کی مظاہراتی شکل و صورت ہے اس لئے اس کو بقا نہیں ہے۔ شئے کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ’’ہر شئے‘‘ کسی ایک نقطہ یا مرکز کے ساتھ وابستہ ہے۔ شئے کی تخلیق میں یہ بات مخفی ہے کہ شئے ہر آن گھٹتی ہے اور ہر آن بڑھتی ہے۔ گھٹنے اور بڑھنے کا یہ عمل بالآخر فنا ہے۔
کوئی روحانی آدمی کسی شئے میں اپنے اختیار اور ارادے سے تصرف کر سکتا ہے۔ تصرف سے کسی شئے کے خدوخال میں تبدیل واقع ہو سکتی ہے۔ تصرف سے انسانی خیالات میں بھی تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ تصرف علم شئے میں ہوتا ہے شئے میں نہیں ہوتا۔
ماورائی دنیا میں ہر لفظ شکل رکھتا ہے خواہ وہ وہم ہی کیوں نہ ہو۔ قانون یہ ہے کہ ہر شئے کی شکل و صورت ہوتی ہے۔ شکل و صورت کے ساتھ ساتھ اس کے اندر ٹھوس پن ہوتا ہے۔ وہ چیز ظاہر آنکھوں سے نظر آئے نہ آئے اس کے اندر خدوخال موجود ہوتے ہیں۔
ہر آدمی دیکھتا ہے کہ وہم کا مریض تقریباً زندگی سے کٹ جاتا ہے۔ وہم کی طاقت سے اس کا دماغ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ زندگی ایک نقطے پر رک جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ معاشرے میں ایک عضو معطل بن کر زندگی گزارتا ہے۔ وہم میں اگر شکل و صورت، وزن اور طاقت نہ ہو تو کوئی آدمی وہم میں مبتلا ہو کر مریض نہیں بن سکتا۔ ہوا ایک شئے ہے جو آنکھوں سے نظر نہیں آتی لیکن جب ہوا کے جھکڑ چلتے ہیں تو اس کی طاقت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اگر ہوا کی کوئی شکل و صورت نہیں ہے، ہوا میں خدوخال نہیں ہیں، ہوا میں طاقت نہیں ہے تو طوفانی ہواؤں سے بڑی بڑی بستیاں نیست و نابود کس طرح ہو جاتی ہیں؟اس مشاہدے سے ہر فر د گزرتا ہے کہ جب ہوا تیز چلتی ہے تو انسان کے جسم پر ہوا کے اثرات براہ راست مرتب ہوتے ہیں۔ یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی چیز جسم سے ٹکر کر گزر رہی ہے۔ اگر انسان کوشش کرے یا ایسے حالات اس کے ساتھ پیش آ جائیں کہ جن حالات کی بناء پر یکسو ہو جائے تو اس کے اندر چھٹی حس بیدار ہو جاتی ہے۔ نظریۂ رنگ و نور کے مطابق ہر انسان کے اندر پانچ حواس کے علاوہ بے شمار حواس کام کرتے ہیں اس بات کو اس طرح کہا جائے گا کہ پانچ حواسوں میں سے ہر حواس بے شمار حسوں سے مرکب ہے۔ اگر ان حواس کی تعداد کا اندازہ لگایا جائے تو انسان کی مادی اور روحانی زندگی کے اندر جتنی حسیں کام کرتی ہیں ان کی تعداد تقریباً گیارہ ہزار ہے۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔
عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔