Topics

ناقابل تذکرہ شئے

جس ہستی نے یہ کائنات بنائی اس کا ارشاد ہے؛

’’انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی۔‘‘

یہی بات اس ہستی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہی:

’’اور جب تو بناتا مٹی سے جانور کی صورت میرے حکم سے ۔ میری مرضی اور میرے دیئے ہوئے علوم سے۔ پھر اس میں پھونک مارتا تو ہو جاتا جانور۔‘‘

حضرت عیسیٰ علیہ السلام مٹی کے جانور میں پھونک مارتے تھے تو وہ اڑ جاتا تھا۔ پیدائشی اندھے اور کوڑھی کے اوپر دم کرتے تھے وہ بھلا چنگا ہو جاتا تھا۔

یہ راز ہمارے اوپر منکشف ہو اچکا ہے کہ ’’کُن‘‘ کے بعد اجتماعی اور انفرادی طور پر تمام موجودات یکجائی طور پر تخلیق ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ کہ ’’میں ہوں‘‘ مخلوق کو کوئی ادراک نہیں تھا۔ ایک حیرت کا عالم تھا۔ خالق کائنات نے جب اس محویت اور اس حیرت کو ختم کرنا چاہا تو موجودات کو براہ راست مخاطب کیا اور کہا:

’’پہچان لو، میں تمہارا رب ہوں۔‘‘

جیسے ہی روحوں کے کانوں سے خالق کی آواز ٹکرائی، سننے کے ادراک کے ساتھ متوجہ ہونے کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔ روحیں جب اس آواز کی طرف متوجہ ہوئیں تو نظر وجود میں آ گئی اور نظر نے کائنات کے خالق کو دیکھ لیا۔ خالق کو دیکھتے ہی روحوں نے جواباً عرض کیا:

’’جی ہاں! آپ ہمارے رب ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے مخلوق کوجو علوم منتقل کئے ہیں ان کے تین درجے ہیں۔ تینوں علوم اور اللہ کی تینوں صفات مخلوق میں ہمہ وقت، ہر آن اور ہر لمحہ جاری و ساری ہیں۔ لیکن ان صفات کا علم مکلف مخلوق کو دیا گیا ہے۔ یہ وہی علم ہے جس کو خالق کائنات نے اپنی ’’امانت‘‘ کہا ہے۔ جس نوع کو یہ علم حاصل ہے وہ مکلف ہے اور جس نوع کو یہ علم حاصل نہیں ہے وہ غیر مکلف ہے۔ جہاں تک شعور کا تعلق ہے کائنات موجود ہر شئے کو شعور حاصل ہے۔ شعور سے مراد سمجھ اور عقل ہے۔ خالق کائنات نے جہاں اپنی امانت کو دینے کا تذکرہ کیا ہے وہاں اس بات کا بھی اعلان کر دیا ہے کہ کائنات میں موجود کوئی شئے، کوئی مخلوق اور کائنات کا کوئی ایک ذرہ بھی عقل و شعور سے خالی نہیں ہے۔ خالق کائنات نے سماوات و ارض اور پہاڑوں کو اپنی امانت پیش کی تو سب نے یہ کہہ کر اپنی بے بضاعتی اور اپنی ناتوانی کا اعتراف کیا کہ ہم اس امانت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انکار بجائے خود اس بات کا اقرار ہے کہ جو شئے یا جو ہستی انکار کر رہی ہے اس کے اندر سمجھ اور عقل موجود ہے۔ اگر سمجھ اور عقل موجود نہ ہوتی تو انکار یا اقرار دونوں زیر بحث نہیں آتے۔ آخری کتاب قرآن میں اس امانت کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے:

’’اور ہم نے اپنی امانت ارض و سماوات اور جبال(پہاڑوں) کو پیش کی۔ سب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم یہ بار نہیں اٹھا سکتے۔ اگر ہم نے آپ کی امانت اپنے کاندھوں پر اٹھائی تو ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، اور انسان نے اس امانت کو قبول کر کے اس کو حاصل کر لیا۔ بے شک یہ ظالم اور جاہل ہے۔‘‘

’’بے شک یہ ظالم اور جاہل ہے۔‘‘ یہ نقطہ بہت زیادہ غور طلب ہے کہ جس امانت کے حاصل ہونے کے بعد انسان کائنات کی تمام مخلوق میں ممتاز ہوا اور اشرف المخلوقات قرار پایا اس کے بارے میں یہ کہنا ’’بے شک یہ ظالم اور جاہل ہے‘‘ خالق کائنات نے ارض و سماوات اور جبال کو یہ نہیں کہا کہ وہ جاہل اور ظالم ہے۔ غور و فکر اس طرف نشاندہی کرتا ہے کہ سماوات زمین اور پہاڑ انسان سے زیادہ دانا، عقلمند اور باشعور ہیں۔ خالق کائنات کی دی ہوئی اس امانت یعنی اسماء کی صفات سے واقف نہیں ہے تو اس کی حیثیت کائنات کی دوسری تمام مخلوقات سے کمتر ہے۔ جہاں آدم کو علم الاسماء عطا کرنے کا تذکرہ ہے وہاں پہلی بات یہ بتائی گئی ہے کہ علم الاسماء کا علم آدم کو اس لیے عطا کیا گیا کہ خالق آدم کو اپنا نائب بنانا چاہتا ہے۔ نائب وہ ہوتا ہے جو اپنے سرپرست کے اختیارات یا اپنے سربراہ کے اختیارات کو استعمال کر سکے۔ اختیارات کا استعمال اس وقت ممکن ہے جب اختیارات سے متعلق قوانین سے واقفیت حاصل ہو۔ تخلیقی امور کو جب ہم وضاحت سے بیان کرتے ہیں تو اس میں زندگی اور موت دونوں شعبے آ جاتے ہیں۔ جب کسی فرد پر موت وارد ہوتی ہے تو دراصل وہ ایک Zoneسے نکل کر دوسرے زون میں پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی جب عالم ناسوت میں مرتا ہے تو عالم اعراف میں پیدا ہو جاتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس ازل سے ابد تک موت و زیست کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

نوٹ: خالق کائنات کے دیئے ہوئے اختیارات کے تحت جو بھی تخلیق وجود میں آتی ہے وہ دراصل ذیلی تخلیق ہوتی ہے۔ یعنی کوئی بھی نئی تخلیق بہرحال خالق کائنات کے بنائے ہوئے تخلیقی اجزاء یا تخلیقی صفات سے وجود میں آتی ہے۔

نظریۂ رنگ و نور پر محیط شعبہ روحانیت میں ’’لا‘‘ کے مراقبہ کی بڑی اہمیت ہے۔’’لا‘‘ کا مراقبہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ذات کی نفی کر دے۔ ذات کی نفی سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص انفرادی طور پر اپنے بارے میں، ماحول کے بارے میں، کائنات کے بارے میں، کائنات کی جزئیات کے بارے میں جو کچھ جانتا ہے اس کی نفی کر دے۔

سوال یہ ہے کہ علم کی نفی کیوں کی جائے؟

علم کی نفی اس لیے کی جائے کہ عالم ناسوت میں رہتے ہوئے ہمارا علم اور ہمارے جاننے، پہچاننے اور شناخت کرنے کی طرزیں مفروضہ اور فکشن حواس پر قائم ہیں۔ جب تک مفروضہ اور فکشن حواس کی طرزیں منفی درجہ حاصل نہیں کر لیں گی اس وقت تک غیر فکشن اور حقیقت پر مبنی حواس سے ہم واقف نہیں ہو سکتے۔ فکشن اور حقیقت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ حقیقت میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔ فکشن اور مفروضہ حواس ہر آن اور ہر لمحہ تغیر پذیر ہیں۔ حواس کی حیثیت فکشن ہو یا حقیقی ، دونوں حواس اور دونوں طرح کی طرز زندگی کا دارومدار علم کے اوپر ہے۔ ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے اگر اسے جنگل میں چھوڑ دیا جائے اور وہاں اس کی نشوونما ہو تو اس کی تمام تر زندگی ان جانوروں کی طرح ہو گی جن جانوروں میں اس نے پرورش پائی ہے۔ اسی طرح اگر ہمیں کسی چیز کے متعلق کوئی علم نہیں ہے یا ہمارے سامنے اس کا کبھی تذکرہ نہیں ہوا ہے تو وہ چیز ہمارے لئے اور ہماری نگاہ کے لئے معدوم کی حیثیت رکھتی ہے۔

گونگے، بہرے لوگوں کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ وہ نہ سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں۔ نگاہ کی حیثیت میں جس قدر معلومات ان کو فراہم ہوتی ہے اسی مناسبت سے ان کی صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں اس کو محسوس کرتے ہیں لیکن اس کی تشریح نہیں کر سکتے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ گونگے، بہرے بچے ہر چیز کو دیکھ رہے ہیں۔ ماحول سے آشنا بھی ہیں لیکن چونکہ ان کی علمی سطح محدود ہے اس لئے ان کا علم بھی محدود رہ جاتا ہے۔ قانون یہ بنا کہ نگاہ ہو، سننا ہو یا چھونا وہ سب علم کی ایک شاخ ہے اور دیکھنے، سننے، چھونے اور محسوس کرنے میں علم ہی رہنمائی کرتا ہے۔ اگر کسی آدمی نے زندگی میں کبھی پتھر نہ دیکھا ہو اور اس کے علم میں لائے بغیر پتھر اس کے سامنے رکھ دیا جائے اور اس سے کہا جائے کہ وہ بتائے کہ یہ کیا چیز ہے؟ وہ کچھ بھی نہیں بتا سکتا۔ اس لئے کہ پتھر کے متعلق اس کا علم نفی کا درجہ رکھتا ہے۔ لیکن اگر پتھر کے بارے میں اس کو علم ہے تو اسے پتھر کو چھونے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ وہ صرف دیکھنے کے بعد ہی پتھر کے بارے میں اپنی معلومات کا اظہار کر دے گا۔ اگر پہلے سے کسی چیز کا علم نہیں ہے اس کو نہ دیکھنا ممکن ہے ، نہ سننا ممکن ہے اور نہ چھونا ممکن ہے یعنی کسی چیز کے بارے میں علم ہی اس کا وجود ہے۔ یہ بات قانون بن گئی کہ ہر چیز کا وجود اس کا علم ہے تو پھر نگاہ بھی علم ہے اور سماعت بھی علم ہے۔ بات کرنا بھی علم ہے۔ چھونا بھی علم ہے اور انسانی زندگی کے تمام کردار بلا تخصیص علم ہیں۔ موجودات کی حیثیت علم کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ علم حقیقت ہے، علم ہی موجود ہے، لاعلمی لاموجود ہے۔

کائنات میں موجود تمام مخلوقات اور تمام مخلوقات کی حیات و زیست کا پروگرام سب کا سب علم ہے۔ کائنات کے بارے میں خالق کائنات نے اپنی مرضی سے ایک پروگرام بنایا ہے۔ جب اس نے پروگرام پر عمل درآمد کا ارادہ کیا اور جب اس پروگرام کو متحرک کرنا چاہا تو سوئچ آن کر دیا اور پروگرام نشر ہونے لگا۔

نوع انسانی کے کسی ایک فرد کا یا تمام افراد کا بکری کے ساتھ اگر کوئی مخفی رشتہ نہ ہو تو انسان بکری کو نہیں پہچان سکتا اور بکری انسان کو نہیں پہچان سکے گی۔ ماورائی دنیا کا مسافر اس بات پر لازماً تفکر کرتا ہے کہ میں بکری کو کیوں پہچانتا ہوں اور بکری مجھے کس طرح پہچانتی ہے۔ شیر انسان کو جانتا ہے اور انسان شیر کو جانتا ہے۔ جب کوئی انسان آسمان کی طرف نظر اٹھاتا ہے تو وہ برملا پکار اٹھتا ہے کہ یہ چاند ہے۔ یہ سورج ہے۔ یہ ستارہ ہے۔ صرف پکارتا ہی نہیں ہے بلکہ اپنے حواس میں علمی اور محسوساتی طور پر چاند، سورج اور ستارے کو جانتا ہے۔ کوئی آدمی جب تفکر کو اپنا شعار بنا لیتا ہے تو اس کے اندر تجلی کا علم متحرک ہو جاتا ہے۔ وہ کائنات میں تمام آسمانی اجرام اور اجرام میں بسنے والے ہر ذی روح اور غیر ذی روح افراد کو ایک مخفی رشتے میں بندھا ہوا دیکھ لیتا ہے۔ روحانی مسافر کو جب مخفی رشتہ کا علم ہو جاتا ہے تو لاکھوں سال پہلے کی دنیا یا لاکھوں سال بعد کی دنیا کا ریکارڈ اس کے سامنے آ جاتا ہے۔



نظریۂ رنگ و نور

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔ 

عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔

انتساب
زمان و مکان ( Time&Space) ایک لمحے کی تقسیم در تقسیم ہے
اور لمحہ کی تقسیم ‘ اطلاع ہے جو ہر آن لہروں کے ذریعہ انسانی دماغ پر وارد ہوتی رہتی ہے۔
اگر ہم ان اطلاعات کا مخزن (Source of Information) معلوم کرنا چاہیں تو
اس کا ذریعہ روحانی علوم ہیں اور
روحانی علوم کے لئے دانشوروں کو بہرحال قرآن میں تفکر کرنا پڑے گا۔