Topics
کائنات ایک نقطہ ہے۔جب یہ نقطہ خود کو دہراتا ہے تو دہرانے کے عمل سے اس نقطے کے دو نقطے ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ نقطہ خود کو دہراتا ہے تو اس نقطے کے مزید دو نقطے بن جاتے ہیں۔ ازل سے اسی طرح ہو رہا ہے۔ شعور کی تکرار سے بے شمار نقطے بن رہے ہیں اور بے شمار نقطے ایک دائرے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ تمام دائرے مل کر بڑا دائرہ بناتے ہیں۔ یہی بڑا دائرہ کائنات ہے۔
جب ہم دائرے کا تذکرہ کرتے ہیں تو دائرے کے ساتھ ساتھ لامحالہ مثلث کا بھی تذکرہ آتا ہے۔ نقطہ جب خود کو دہراتا ہے تو دائرہ بنتا ہے اور ایک دائرے سے دوسرا پھر تیسرا دائرہ بن کر بڑا دائرہ بنتا ہے۔ یہ بڑا دائرہ(ساری کائنات) دراصل افراد کے اوپر قائم ہے۔ یہ افراد ایک طرف دائرہ ہیں تو دوسری طرف مثلث ہیں۔
انسان کے ادراک میں جو کچھ ہے وہ دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ وہ ہے جس کا تعلق رات کے حواس سے ہے اور دوسرا حصہ وہ ہے جس کا تعلق دن کے حواس سے ہے۔ ایک کا نام لیل ہے اور دوسرے کا نام نہار ہے۔ ایک دائرے کا نام خواب ہے اور دوسرے کا نام بیداری ہے۔ نوع انسانی میں رات کے حواس کو تاریکی، غنودگی یا نیند کہہ کر غیر حقیقی تصور کیا جاتا ہے۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔ کائنات میں کوئی غیر حقیقی تصور نہیں ہے۔ اگر ہم غور و فکر کریں تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ دن کے حواس کو اجتماعی شہادت حاصل ہے اور رات کے حواس کو انفرادی۔ لیکن کسی بھی طرح یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ اجتماعی شہادت میں بہت سی غلطیاں ہوتی ہیں۔
جب ایک فرد دوسرے سے متعارف ہوتا ہے چونکہ زمان میں دونوں افراد موجود ہیں اور رشتہ مشترک ہے اس لئے ذات ایک نقطے پر ٹھہر جاتی ہے۔ یہ ٹھہراؤ دراصل دیکھنا ہے۔
انسانی شعور جب اللہ کی دی ہوئی سماعت یا دی ہوئی بصارت کو استعمال کرتا ہے تو اس بصارت یا سماعت کو خود سے منسوب کرنے لگتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے دیکھا، میں نے سنا، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ انسان نے اللہ کی سماعت سے سنا اور اللہ کی بصارت سے دیکھا۔ جب کوئی انسان اللہ کی سماعت و بصارت کو خود سے منسوب کرتا ہے تو یہاں سے غلطیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتا ہے اس کے معانی میں غلطیاں کرنے لگتا ہے۔
’’وہی ہے جس نے تم کو بنایا ایک نفس سے۔‘‘ (القرآن)
تمام نوع انسانی مخفی اسکیم کے تحت بنائی گئی ہے۔ وہ مخفی اسکیم پابند حواس میں نظر نہیں آتی۔ اس لئے مخفی اسکیم مظاہر کے پیچھے کام کر رہی ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’ہم نے مریم پر وحی کی‘‘
مریم پر وحی کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عوام پر بھی القا یا وحی کی جاتی ہے۔ اس لئے کہ حضرت مریم رسول یا نبی نہیں تھیں۔ وحی یا القا کا تعلق خالق کائنات کی دی ہوئی سماعت اور بصارت سے ہے۔ خالق کائنات کی دی ہوئی سماعت اور بصارت ہی عوام کی نگاہ و سماعت ہے۔ ہر انسان کو یہ صفت حاصل ہے اور انسان اس صفت کو ضمیر کے نام سے پہچانتا ہے۔ وہ ضمیر کی آواز سنتا ہے۔ اس آواز کی رہنمائی میں نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ ضمیر کی آواز فی الواقع خالق کی آواز ہوتی ہے اور خالق کا بخشا ہوا نتیجہ ہوتی ہے۔ جب ضمیر رہنمائی کرتا ہے تو نفس کی تنقید شروع ہو جاتی ہے۔ یہ تنقید انسان کی نیت کو غلط یا صحیح رکھتی ہے۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔
عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔