Topics
کہکشانی نظاموں اور ہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے۔ پے در پے جو خیالات ذہن میں آتے ہیں وہ دوسرے نظاموں اور آبادیوں سے ہمیں موصول ہوتے رہتے ہیں۔ نور کی یہ لہریں ایک لمحہ میں روشنی کا روپ دھار لیتی ہیں۔ روشنی کی یہ چھوٹی بڑی لہریں ہم تک بے شمار تصویر خانے لے کر آتی ہیں۔ ہم ان ہی تصویر خانوں کا نام واہمہ، خیال، تصور اور تفکر رکھ دیتے ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے۔
’’لوگو! مجھے پکارو میں سنوں گا۔ مجھ سے مانگو میں دوں گا۔‘‘
اللہ کا ہر اسم ایک چھپا ہوا خزانہ ہے۔ جو لوگ ان خزانوں سے واقف ہیں جب وہ اللہ کا نام ورد زبان کرتے ہیں تو ان کے اوپر رحمتوں اور برکتوں کی بارش برستی ہے۔ عام طور پر اللہ کے ننانوے نام مشہور ہیں۔ اس بیش بہا خزانے سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہر نام کی تاثیر اور پڑھنے کا طریقہ الگ الگ ہے۔ کسی اسم کی بار بار تکرار سے دماغ اس اسم کی نورانیت سے معمور ہو جاتا ہے اور جیسے جیسے اللہ کے اسم کے انوار دماغ میں ذخیرہ ہوتے ہیں اسی مناسبت سے بگڑے ہوئے کام بنتے چلے جاتے ہیں اور حسب دلخواہ نتائج مرتب ہوتے رہتے ہیں لیکن جس طرح اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی طرح گناہوں کی تاریکی انسان کے اندر روشنی کو دھندلا دیتی ہے۔ کوتاہیوں اور خطاؤں سے آدمی کثافتوں، اندھیروں اور تعفن سے قریب ہو جاتا ہے اور اللہ کے نور سے دور ہو جاتا ہے۔
اسم ذات کے علاوہ اللہ کا ہر اسم اللہ کی صفت ہے اور اللہ کی ہر صفت فعال اور متحرک ہے۔ ہر صفت اپنے اندر طاقت اور زندگی رکھتی ہے۔ جب ہم کسی اسم کا ورد کرتے ہیں تو اس اسم کی طاقت اور تاثیر کا ظاہر ہونا ضروری ہے۔ اگر مطلوبہ فوائد حاصل نہ ہوں تو یہ انسان کی اپنی کوتاہی اور پرخطا طرز عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔
قانون:
جب ہم کسی شئے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو پہلے وہ شئے ہمارے مشاہدے میں آتی ہے۔ پھر شئے کے اندر شعور اور فہم ابھرتا ہے جو شئے کے تعارف کا ذریعہ بنتا ہے۔ جب تک شئے مشاہدے میں داخل نہ ہو یا شئے کی فہم کی اطلاع روح سے شعور کو منتقل نہ ہو ہم کسی شئے کے بارے میں کوئی معانی متعین نہیں کر سکتے۔
ہم جب کسی چیز کا نام لیتے ہیں تو وہ سننے والے کی روح میں پہلے وارد ہوتی ہے۔ مثلاً جب سورج کہا جاتا ہے تو سننے والا اپنے innerمیں سورج کو محسوس کرتا ہے اس کے بعد شعوری طور پر سورج کے معانی اور مفہوم متعین ہوتے ہیں۔ ہم روزانہ ظاہری آنکھ سے سورج کو دیکھتے ہیں وہ سورج داخل کے اندر موجود سورج سے مختلف ہے۔ نہ صرف یہ کہ مختلف ہے بلکہ جس طرح ہم سورج کو دیکھتے ہیں روحانی آنکھ سے جو سورج نظر آتا ہے وہ اس سورج کے برعکس ہے جو ہم دن میں سورج دیکھتے ہیں۔ مادی آنکھ کے ذریعے دیکھنے سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ سورج کے اندر حرارت اور گرمی ہے۔ سورج کی حرارت، گرمی، رنگ اور شعاعوں کے ذریعے زمین کو حرارت اور گرمی پہنچ رہی ہے۔
روحانی آنکھ سے نظر آتا ہے کہ سورج بہت زیادہ چمکدار سیاہ توے کی طرح ہے۔ روحانی آنکھ سے جو سورج نظر آتا ہے اس میں روشنی اور رنگ نہیں ہے۔ اسی طرح جب ہم اپنے سیارہ کو دیکھتے ہیں تو سیارے کے اوپر یا سیارے میں موجود فضا میں جو روشنیاں ہیں ان روشنیوں کو سورج کی روشنیاں قرار دیتے ہیں جب کہ روحانی آنکھ یہ دیکھتی ہے کہ ہر سیارہ بذات خود ایک روشنی ہے۔ سورج کے اندر ظاہری آنکھ سے جو تیزی نظر آتی ہے وہ دراصل زمین یا کسی سیارے کا عکس (Reflection) ہے ۔ روحانی آنکھ جس طرح سورج کو دیکھتی ہے وہ ایسی حقیقت ہے جس میں تغیر نہیں ہے۔
اللہ کو کسی نے نہیں دیکھا لیکن جب کوئی بندہ اللہ کا نام سنتا ہے توا س کے داخل میں ایک حقیقت وارد ہوتی ہے۔ ایسی حقیقت جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مثلاً ایک آدمی اللہ کے وجود سے انکار کرتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انکار کس چیز کا کیا جا رہا ہے؟ مفہوم یہ ہوا کہ ایک حقیقت ثابتہ ہے جو انسان کے اندر داخل ہوتی ہے اور شعور اس حقیقت کا دباؤ بھی محسوس کرتا ہے۔ اس حقیقت کے معانی اور مفہوم اگر ذہن یا شعور کے اوپر پوری طرح واضح نہیں ہوتا تو وہ اللہ کا انکار کر دیتا ہے۔ دراصل وہ کہنا یہ چاہتا ہے کہ جس اللہ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے اس اللہ کو شعوری فہم تسلیم نہیں کرتی۔ روحانیت کے ماہرین نے نگاہ کی تین طرزیں قائم کی ہیں۔ یقین کا علم ہونا، یقین کو دیکھ لینا اور یقین کی حقیقت سے واقف ہونا۔
آئینے کی مثال سامنے رکھ کر تفکر کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ ایک شخص آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہا ہے مگر آئینے کی صفات یا خصوصیات اس کے سامنے نہیں ہیں۔ وہ صرف اتنا جانتا ہے کہ مجھ جیسا ایک انسان میرے سامنے کھڑا ہے۔ اس یقین کی بنیاد پر وہ آئینے میں خود کو دیکھ رہا ہے۔ اس حالت کا نام یقین کا علم ہے۔ یعنی اس میں یہ علم داخل ہو گیا ہے کہ وہ آئینہ دیکھ رہا ہے۔ اگر دیکھنے والے کو یہ علم ہے کہ میں آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہا ہوں اور وہ آئینہ اور عکس کی حقیقت سے ناواقف ہے تو یہ علم، یقین کو دیکھ لینا ہے۔ اس کے برعکس اگر دیکھنے والا اپنی اور آئینہ کی حقیقت جانتا ہے۔ یعنی وہ آئینے کے دیکھنے کو دیکھ رہا ہے تو اس حالت کا نام یقین کی حقیقت سے واقف ہوتا ہے۔
قانون:
ہر چیز اپنے اندر دوسری چیز کو جذب کر رہی ہے اور جذب کر کے دوسرے کو دکھا رہی ہے۔کائنات میں وہ افرا جو اپنی ذات میں دیکھتے ہیں ان کا مشاہدہ ہے کہ ہر چیز خود کچھ نہیں دیکھ رہی بلکہ کسی کے دیکھنے کو دیکھ رہی ہے۔ ساری کائنات ایک آئینہ ہے اور یہ آئینہ روشنی ہے۔ ایک روشنی ہے جو مختلف روپ بدل کر مختلف صورتوں میں ظاہر ہو رہی ہے اور ہر صورت میں روشنی کسی دوسری صورت کو دیکھ لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے اوپر جب موت وارد ہو جاتی ہے اس کے باجوود کہ جسم کے تمام حصے آنکھیں ، دماغ دوسرے اعضاء میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی لیکن وہ کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ وجہ یہی ہے کہ جو روشی آئینے کا کام دے رہی تھی اس نے مادی جسم سے رشتہ منقطع کر لیا ہے۔
روحانیت کا لفظ جب زبان سے ادا ہوتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم کسی ایسی طرز فکر کا تذکرہ کر رہے ہیں جو طرز فکر دنیا میں رائج تمام مادی علوم سے الگ ہے۔ ان علوم کا تعلق طبیعات سے ہو، نفسیات سے ہو یا مابعد النفسیات سے ہو۔ ہر علم ہمیں ایک روشنی دیتا ہے۔ شعوری طور پر جب ہم کچھ دیکھتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں مادی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں اور جب ہم روحانی آنکھ سے دیکھنے کا تذکرہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہماری آنکھ واسطہ بن رہی ہے اور ہم کسی چیز کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔ جب ہم پانی کو دیکھتے ہیں تو فی الواقع ہم پانی کو نہیں دیکھتے بلکہ پانی کے دیکھنے کو دیکھتے ہیں۔ یعنی پانی ہمیں دیکھتا ہے اور پانی اپنے دیکھنے کے عمل کو ہمیں منتقل کر دیتا ہے اور ہم پانی کے دیکھنے کو دیکھ لیتے ہیں۔ براہ راست دیکھنے کی نظر کائناتی شعور ہے۔ کائناتی شعور یا کائناتی نظر جس مقام اور جس نقطہ پر جلوہ گر ہوتی ہے وہ ایک ہی طرز رکھتی ہے یہ بات ہر شخص جانتا ہے جس طرح ایک انسان پانی کو پانی دیکھتا ہے اسی طرح انسان کے علاوہ مخلوقات چرندے، پرندے اور درندے اور مخلوق کا ہر فرد پانی کو دیکھتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انسان نے پانی کو پانی دیکھا ہو اور شیر نے پانی کو دودھ دیکھا ہو۔ جس طرح انسان لوہے کو سخت محسوس کرتا ہے اسی طرح چیونٹی سے ہاتھی تک کی مخلوق کا ہر فرد لوہے کو سخت محسوس کرتا ہے۔ کائنات میں پھیلے ہوئے تمام مناظر اسی قانون کے پابند ہیں۔ آدمی چاند کی طرف نظر اٹھا کر چاند کو جس شکل وصورت میں دیکھتا ہے، چکور بھی چاند کو اس صورت میں دیکھتا ہے۔ جس طرح ایک آدمی پانی پی کر آنتوں کی سیرابی کرتا ہے اسی طرح گائے، بھینس، بھیڑ بکریاں اور دوسرے جانور پی کر اپنی جسمانی نشوونما کرتے ہیں۔ درخت کی جڑیں بھی پانی کو پانی سمجھ کر پیتی ہیں۔ جس طرح انسان اور دوسرے جانور پانی سے نشوونما پاتے ہیں اسی طرح پھول بھی پانی سے اپنی نشوونما کرتے ہیں۔ جس طرح ایک سانپ دودھ کو دودھ سمجھ کر پیتا ہے اسی طرح بکری بھی دودھ کو دودھ سمجھ کر پیتی ہے۔ یہ ایک مشترک نگاہ ہے جو ساری کائنات اور کائنات کے تمام افراد میں یکساں طور پر کام کر رہی ہے۔ ان تمام مثالوں سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ کائنات کے اندر جتنی نوعیں ہیں اور مخلوقات میں، نوعوں کے افراد ہیں ان سب میں نظر کا ایک ہی قانون کارفرما ہے۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔
عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔