Topics

ماورائی لہر

نظریۂ رنگ و نور کا شارح عرض کرتا ہے کہ کائنات اور کائنات کے اندر موجود رنگینیاں اس لئے پیدا کی گئی ہیں کہ آدم زاد ان سے استفادہ کرے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ دنیا کی لذتوں سے فرار اختیار کر کے کسی بیابان یا کسی گوشہ میں بیٹھ جائے ۔ ماورائی علوم کے بارے میں ایسے سوالات ہمیشہ اٹھتے رہتے ہیں۔

خالق کائنات سے نوع انسانی اور نوع اجنہ کا تعلق دو طریقوں پر قائم ہے ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ کسی بندے کو اپنی طرف متوجہ کر لے اور اس بندے کی طرز فکر میں اس کی ذات اور صفات مستحکم ہو جائیں۔ جب وہ کوئی کام کرے، ارادۃً یا غیر ارادی طور پر اس کا ذہن اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے۔ ایک طرز یہ ہے کہ انسان اللہ کی موجودگی کے بارے میں علمی طور پر یقین رکھتا ہو۔

جس کائنات کو مادی آنکھ دیکھتی اور پہچانتی ہے اس کی بنیاد روشنی ہے۔ ایسی روشنی جس کے اندر بہاؤ ہے۔ موجودہ دور کی سائنس اس کو Gasesکے نام سے جانتی ہے۔ روشنیوں کے بہاؤ سے مراد یہ ہے کہ Gasesکے اجتماع سے شکلیں وجود میں آتی رہتی ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک گلاس پانی بھر کر دیوار پر زور سے پھینکا جائے۔ پانی بہنے کے بعد جب دیوار پر پوری طرح پھیل جائے تو غور سے دیکھنے سے دیوار کے اوپر مختلف شکلیں نظر آتی ہیں۔ جس طرح پانی دیوار کے اوپر مختلف شبیہیں بنا لیتا ہے اسی طرح نزول کرنے والی روشنیوں کا بہاؤ جب زمین(کائنات کی ایک اسکرین) پر نزول کرتا ہے تو روشنیاں پھیلنے اور بکھرنے سے افراد کائنات کی شکلیں بن جاتی ہیں۔ بہاؤ یا زمین کی اسکرین سے ٹکرانے کے بعد شبیہہ کے اندر جوبنیادی مصالحہ بنتا ہے۔ وہ مرکری Mercuryہوتا ہے۔ روشنیوں کے بہاؤ کے بعد پارے کی روشنیوں سے مل کر اور ایک دوسرے کے اند رسے جذب ہو کر اجسام بنتے ہیں۔ انہی اجسام کو حیوانات، نباتات اور جمادات کہا جاتا ہے۔ گیسوں میں جو ابتدائی گیس نکلتی ہے اس گیس کی ابتدائی شکل کا نام جسم مثالی ہے۔ جسم مثالی ان بنیادی لہروں یا ان بنیادی شعاعوں کا نام ہے جو وجود کی ابتداء کرتی ہیں۔ نزول کرنے والی لہروں کو لکیروں سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے۔

مثال:

جس آدمی نے بھی سینما میں فلم دیکھی ہے وہ یہ جانتا ہے کہ پروجیکٹر سے ایک مخصوص روشندان کے ذریعے لہروں کا بہاؤ ہوتا ہے۔ روشنیوں اور لہروں کا یہ بہاؤ اسکرین پر نزول کرتا ہے اور اسکرین سے ٹکرا کر مختلف شکلوں اور صورتوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جب ہم گردن اٹھا کر پروجیکٹر سے نکلنے والی فلمی روشنیوں یا شعاعوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں مسلسل اور متواتر چلتی ہوئی لہروں یا لکیروں کا احساس ہوتا ہے۔ یہ لکیریں نہ ایک دوسرے سے فاصلے پر ہوتی ہیں اور نہ ایک دوسرے میں پیوست ہوتی ہیں۔ ہر لکیر اپنی جگہ تصویر کا کوئی نہ کوئی خدوخال ہوتی ہے۔ جس طرح پروجیکٹر سے نکلنے والی روشنی اسکرین سے ٹکر اکر تصویریں بنتی ہیں اسی طرح خلاء میں سے گزر کر لہریں یا لطیف لکیریں مادی اجسام بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماورائی لکیریں مادی اجسام میں ایک بنیادی واسطہ ہیں۔ پروجیکٹر سے نکلنے والی شعاعوں کو مادی آنکھ دیکھ سکتی ہے۔ ماورائی لکیروں کو صرف شہود کی وہ آنکھ دیکھ سکتی ہے جو روحوں کی نگاہ ہے۔ ایسی کوئی بھی ایجاد ابھی تک وجود میں نہیں آئی کہ جس کے ذریعے ماورائی لہروں کو دیکھا جا سکے۔ البتہ ان لکیروں کے تاثرات کو سائنسی ایجادات کے ذریعے مادیت کے مظہر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آج کل ماورائی لہروں پر بہت کام ہو رہا ہے۔ ماورائی لہروں کے عکس Shadowکو کیمرے کے ذریعے دیکھ لیا گیا ہے۔ یہ دیکھنا لہروں، لکیروں کی شکل میں نہیں ہے بلکہ لہروں اور لکیروں کی روشنیوں کا انعکاس ہے۔ 


۱۔ Aمماثل ہے اخفی کے۔

۲۔ Bفلم ، ٹیپ کا وہ حصہ جو روشنی کے سامنے سے گزرتا ہے مماثل ہے لوح محفوظ ۔

۳۔ حرکت Cمحوری گردش کے مماثل ہے جو مکان کو تخلیق کرتی ہے۔

۴۔ Eروشنی کی لکیروں کا زون جہاں تصویریں باطنی خدوخال میں موجود ہیں جو کہ مماثل ہے نسمہ کے۔

۵۔ اسکرین پر مظاہراتی خدوخال جو کہ مماثل ہے زمین کے۔

*****

انعکاس چونکہ مادیت کے مظہر کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس لئے نظر آ جاتا ہے۔ جن شعاعوں یالکیروں سے جسمانی خدوخال وجود میں آتے ہیں یہ دو طرح کی ہوتی ہیں۔ مفرد لہریں۔ مرکب لہریں۔ لہریں مفرد ہوں یا مرکب خلاء اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ وہ نہ ایک دوسرے سے فاصلے پر ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ یہ لکیریں مفرد ہوں یا مرکب ہوں مادی اجسام میں خدوخال بھی بنتی ہیں اور خدوخال ہر دوسرے فرد پر منعکس بھی کرتی ہیں۔ ان لہروں یا ان لکیروں کے تاثرات ہی حسیں بنتی ہیں۔ یہ لکیریں اور لہریں انسانی دماغ کے اوپر جب نزول کرتی ہیں تو نزول کے بعد دماغ کے اوپر ہلکا سا دباؤ پڑتا ہے۔ اتنا ہلکا کہ حواس کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ یہ ہلکا سا دباؤ کسی بات سے متعلق، کسی عمل سے متعلق یا کسی زندگی سے متعلق ہوتا ہے۔ اس زندگی کا تعلق ماضی، حال اور مستقبل سے بھی ہو سکتا ہے اس دباؤ کا نام واہمہ ہے۔ جب یہ دباؤ ذرا زیادہ ہوتا ہے تو حواس میں ہلکا سا ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور اس کے ہلکے ارتعاش میں ذہن کے اوپر لہروں سے بنی ہوئی تصویر کا بہت ہلکا سا خاکہ حواس کے اندر داخل ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت کا نام خیال ہے۔ روشنیوں کا نزول جب گہرا ہوتا ہے تو دماغ کے اوپر نقش و نگار واضح ہو جاتے ہیں۔ کسی چیز کا خاکہ جب نمایاں ہوتا ہے تو ذہن اس کی طرف منتقل ہونے لگتا ہے اور ذہن میں یہ بات آنے لگتی ہے کہ فلاح چیز کے بارے میں خیال آ رہا ہے۔ اس کیفیت کا نام تصور ہے اور پھر جب تصور میں گہرائی ہو جاتی ہے تو احساس بن جاتا ہے۔ احساس کے اندر جب رنگینی واقع ہو جاتی ہے تو وہ کیفیت جس کو ہم نے واہمہ، خیال، تصور اور احساس کہا ہے اپنے پورے خدوخال کے ساتھ مظہر بن کر ہماری مادی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔

دنیاوی علوم کی طرزوں میں ہم ماورائی لہروں یا لکیروں کو ڈرائنگ سے تشبیہہ دے سکتے ہیں۔

مثال:

ایک کاغذ ہے جس میں سیدھی سیدھی لکیریں بنی ہوئی ہیں۔ ان سیدھی لکیروں میں کوئی تصویر ابھری ہوئی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کاغذ میں گراف بنا ہوا ہے۔ سیدھی لکیروں کو دوسری لکیر کاٹ رہی ہے۔ ان دونوں لکیروں کے عمل سے کاغذ کے اوپر چھوٹے چھوٹے چوکور خانے بن جاتے ہیں۔ ہم ان چوکور خانوں سے ایک تصویر بناتے ہیں۔ تصویر بناتے وقت ان خانوں کو معین تعداد کے ساتھ تصویر کی بنیاد بناتے ہیں۔ ہم ان خانوں کے ناپ اور ان خانوں کی تعداد سے مختلف اعضاء کی ساخت کا تناسب قائم کرتے ہیں۔ اکہری لکیر یا دوہری لکیر یں بھی تصویر کی اصل ہیں۔ ان ہی لکیروں کی ضرب تقسیم سے نوعیں بنتی ہیں اور نوعوں کے خدوخال وجود میں آتے ہیں۔


۱۔ اطلاع کے نزول سے دماغ کے اوپر ہونے والا ہلکا سا دباؤ واہمہ کہلاتا ہے۔ شعور اس کی گرفت نہیں کر سکتا۔

۲۔ دباؤ میں گہرائی سے حواس میں ہلکا سا ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور ذہن پر لہروں سے بنی تصویر کا ہلکا سا خاکہ بن جاتا ہے۔ اس کو خیال کہتے ہیں۔

۳۔ روشنیوں کے نزول میں مزید گہرائی سے نقش و نگار نمایاں ہونے لگتے ہیں اور ذہن اس کی طرف متوجہ ہونے لگتا ہے۔ اس کیفیت کو تصور کہتے ہیں۔

۴۔ تصور میں گہرائی پیدا ہونے سے احساس (حواس) پیدا ہو جاتے ہیں۔

۵۔ احساس کے اندر رنگین شئے کو خدوخال کے ساتھ مظہر بناکر سامنے لےآتی ہے۔


احساس میں رنگینی پیدا ہونے کے بعد خدوخال مظہر بنتے ہیں۔ لیکن جب تک احساس کے اندر گہرائی اور رنگینی پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک ہم لہروں، لکیروں یا شعاعوں کو کسی رنگ کا نام نہیں دے سکتے۔

ماورائی لکیریں یا بے رنگ شعاعیں ہی کائنات اور افراد کائنات کی چھوٹی بڑی حرکات ہیں۔ ان لہروں، لکیروں یا بے رنگ شعاعوں کا جتنا اجتماع ہوتا ہے اور دماغی اسکرین پر جس مناسبت سے بکھرتا ہے یا ذہن انسانی پر لہروں کے مسلسل نزول کے بعد ضرب تقسیم ہوتی ہے۔ اسی مناسبت سے حواس ترتیب پاتے ہیں۔ انہی لکیروں کی ضرب تقسیم کشش (Gravity) بن جاتی ہے۔ ان ہی لہروں اور ماورائی لکیروں کی حرکات اور گردشیں وقفہ بن جاتی ہیں۔

لہروں کی اجتماعیت ایک طرف ہمیں مکانیت سے آشنا کرتی ہے اور دوسری طرف زمانیت کا احساس دلاتی ہے۔ لہریں اپنی ضرورت اور طبعی تقاضہ کے تحت ممکن کی شکل و صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ نظریۂ رنگ و نور میں لفظ ممکن اس چیز کے لئے استعمال ہوتا ہے جس چیز کو آخری درجہ میں مادی آنکھ دیکھ لے۔


نظریۂ رنگ و نور

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔ 

عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔

انتساب
زمان و مکان ( Time&Space) ایک لمحے کی تقسیم در تقسیم ہے
اور لمحہ کی تقسیم ‘ اطلاع ہے جو ہر آن لہروں کے ذریعہ انسانی دماغ پر وارد ہوتی رہتی ہے۔
اگر ہم ان اطلاعات کا مخزن (Source of Information) معلوم کرنا چاہیں تو
اس کا ذریعہ روحانی علوم ہیں اور
روحانی علوم کے لئے دانشوروں کو بہرحال قرآن میں تفکر کرنا پڑے گا۔