Topics

سانس

روشنی خلاء ہے اور خلاء ایک وجود ہے۔ خلاء مسلسل حرکت ہے اور ہر حرکت نزول و صعود میں سفر کرر ہی ہے۔ نزول و صعود کے مختلف دائرے ہیں۔ حرکت کے پہلے دائرے کا نام ’’عالم ملکوت‘‘ ہے۔ عالم ملکوت میں مادی عناصر موجود نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم ملکوت مادی آنکھ سے نظر نہیں آتا۔

روشنی =خلاء =وجود =حرکت

روشنی حرکت بن کر اکہری اور دوہری سمتوں میں بہتی ہے۔ اکہری حرکت زمان ہے۔ خلاء کے اندر فاصلہ اور حرکت ایک جگہ جمع ہو جائیں تو اس دوہری حرکت کا نام مکان ہے۔ دوہری حرکت کو موالید ثلاثہ (نباتات، جمادات اور حیوانات) بھی کہا جاتا ہے۔ انسان کی ذات میں جو روشنیاں کام کر رہی ہیں وہ حرکت پر قائم ہیں۔ ایک حرکت کشش ہے یعنی انسان اپنی بساط کی طرف کھنچ رہا ہے۔ دوسری حرکت یہ ہے کہ انسان زندہ رہنے کے لئے روشنیاں اپنے اندر جذب کر رہا ہے۔ وہ حرکت جو اس ہستی کی طرف کھینچ رہی ہے جس ہستی کے حکم سے کائنات وجود میں آتی ہے ’’ملکوتی صفت‘‘ کہلاتی ہے اور وہ روشنی جو گریز کی شکل میں انسان کو دور کر رہی ہے ’’صفت بشری‘‘ ہے۔ ان دونوں صفات میں ہر صفت ایک اصول کی پابند ہے دنیا میں رہتے ہوئے کوئی آدمی خارجی دنیا میں جتنا زیادہ مستغرق ہو جاتا ہے اسی مناسبت سے وہ کشش کی روشنیوں سے دور ہو جاتا ہے۔ جو آدمی کشش کی روشنیوں سے دور ہوتا ہے اس کی ذات کے اندر روشنیاں یا انوار ضائع ہوتے رہتے ہیں۔ آدمی جتنا گریز(مکانیت) میں داخل ہوتا ہے اسی مناسبت سے اس کے اندر سے ’’ملکوتی صفت‘‘ کم ہوتی رہتی ہے۔ نتیجہ میں وہ عالم ملکوت سے دور ہو جاتا ہے اور اتنا دور ہو جاتا ہے کہ اس کے علم میں یہ بات ہی نہیں رہتی کہ انسان کے اندر ’’صفت ملکوتیت‘‘ کام کرتی ہے۔ جو فی الواقع اس کی اپنی اصل یا بساط ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ عقیدے کے اعتبار سے اتنا دور ہو جاتا ہے کہ اس کی تمام دلچسپیاں مکانیت میں مجتمع ہو جاتی ہیں اور وہ صفت ملکوتیت سے انکار کر بیٹھتا ہے۔ یہ وہی صورت حال ہے جس کے بارے میں آخری کتاب قرآن میں خالق کائنات اللہ نے کہا ہے:

’’ہم نے ان کے دلوں پر مہر کر دی اور کانوں پر مہر لگا دی اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے اور ان کے لئے عذاب الیم ہے۔۔۔۔۔۔‘‘(قرآن)

عذاب الیم سے مراد یہ ہے کہ یہ صفت ملکوتیت سے محروم کر دیئے گئے۔ عالم ملکوت اور عالم ناسوت کے تخلیقی فارمولوں کی مزید وضاحت یہ ہے کہ ملکوتی صفت اور بشری صفت میں امتیازی خط کھینچنے والی روشنی کی ایک مقدار معین ہے۔ روشنی کی مقدار میں توازن بشری تقاضے پیدا کرتا ہے اور جب بشری تقاضے زیادہ ہو جاتے ہیں تو خارجی دنیا(مکانیت) میں انسان کا استغراق بڑھ جاتا ہے اور ایسا ہونے سے انسان اسفل میں چلا جاتا ہے۔ انسان جتنا زیادہ اسفل کی طرف بڑھتا ہے اسی مناسبت سے اس کے اندر کثافت اور Gravityمیں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

خالق کائنات اللہ نے آدم علیہ السلام سے کہا تھا کہ تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور جہاں سے دل چاہے خوش ہو کر کھاؤ پیو اور اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تمہارا شمار ظالموں میں ہو گا۔ خوش نہ ہونا عالم اسفل(مکانیت) ہے۔ نافرمانی اور ناخوشی بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ آدمؑ کا اللہ سے عارضی طور پر رشتہ منقطع ہو گیا ۔ جیسے ہی رشتہ منقطع ہوا، اسی مناسبت سے روشنیو ں کا توازن کم ہو کر عارضی طور پر ٹوٹ گیا اور آدم بشری خول میں بند ہو گیا اور اس مقام پر آدم نے خود کو ننگا محسوس کیا۔ ننگا محسوس کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدم کے اوپر کثافتوں کا ہجوم ہو گیا۔ جیسے ہی آدم کے اوپر کثافتوں کا ہجوام ہوا، آدم نے خود کو جنت کی فضا سے کوئی الگ چیز سمجھا۔ جب آدم کی دلچسپیاں روشنیوں سے دور ہوئیں تو کثافتوں نے آدم کو کھینچ لیا۔ کثافتوں اور ثقل کی کشش نے جب آدم کو اپنی طرف کھینچا تو آدم اسفل میں قید ہو گیا اور جنت کی فضا نے آدم کو رد کردیا۔

آدم جب تک کشش ثقل میں داخل نہیں ہوا وہ زمانیت میں رہا۔ آدم کو نافرمانی کے احساس نے مکانیت میں قید کر دیا۔ آدم نے کشش سے گریز کر کے اپنے اوپر ملکوتیت کے دروازے بند کر لئے۔ جب کوئی آدم  زادگریزسے کشش میں داخل ہو جاتا ہے تو اس پر عالم ملکوت کے دروازے دوبارہ کھل جاتے ہیں۔

ماورائی دنیا میں داخل ہونا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک انسان مکان کی قید سے آزاد نہ ہو۔ آزاد ہونے سے مراد یہ ہے کہ انسان جسمانی تقاضوں کو ثانوی حیثیت دے دے اور جہاں سے تقاضے روشنی کی شکل میں نزول کر رہے ہیں ان کی طرف متوجہ ہو جائے روشنی کی طرف متوجہ ہونے کے لئے ذہنی یکسوئی کے ساتھ مراقبہ بہترین عمل ہے۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ

1۔ آدمی کسی تاریک گوشے میں جہاں گرمی، سردی معمول سے زیادہ نہ ہو بیٹھ جائے۔

2۔ ہاتھ ، پیر اور جسم کو ڈھیلا چھوڑ دے اور اپنے اوپر ایسی کیفیت طاری کر لے جس کیفیت میں ذہن جسم کی طرف سے ہٹ جائے۔

3۔ سانس گہرائی میں لیا جائے۔ گہرائی میں سانس لینے سے سانس کی رفتار میں ٹہراؤ پیدا ہو جاتا ہے۔

4۔ آنکھیں بند کر لی جائیں اور اپنے اندر جھانکنے کی کوشش کی جائے۔

5۔ خیالات پاکیزہ ہوں۔

6۔ عمل کی پاکیزگی یہ ہے کہ آدمی کسی کوبرا نہ سمجھے۔ کسی کی طرف سے بغض و عناد نہ رکھے، اگر کسی سے تکلیف پہنچتی ہے تو معاف کر دے، انتقام نہ لے۔

7۔ ضروریات زندگی اور معاش کے حصول میں اعضاء کا وظیفہ پورا کر کے جدوجہد میں کوتاہی نہ کرے لیکن نتیجہ کے اوپر نظر نہ رکھے۔ نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے۔

8۔ اپنے کسی عمل سے یہ محسوس ہو جائے کہ مجھ سے زیادتی ہو گئی ہے تو بلا تخصیص، وہ ناتواں ہو، کمزور ہو، چھوٹاہو، اس سے معافی مانگ لی جائے۔

9۔ جو کچھ اپنے لیے پسند کرتا ہے دوسروں کے لئے بھی پسند کرے۔

10۔ ذہن کے اندر مال و متاع اور اسباب کی محبت نہ ہو۔ اللہ کے دیئے ہوئے وسائل کو خوش ہو کر استعمال کرے۔ لیکن وسائل کو مقصد قرار نہ دے۔

11۔ اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنے کا جذبہ دل میں موجود ہو۔ جس طرح ممکن ہو اللہ کی مخلوق کی خدمت کرے۔

جس شخص کے اندر پاکیزہ خیالات، پاکیزہ اوصاف موجود ہوتے ہیں اس کی ذات میں جلا پیدا ہو جاتی ہے۔ شعور کا آئینہ صیقل اور شفاف ہو جاتا ہے۔ مراقبہ ایک ایسا عمل ہے جس عمل میں روحانی استاد کے حکم کی تعمیل ضروری ہے۔ شاگرد کے اندر اگر چوں چرا ہے اور تعمیل نہیں ہے تو مراقبے کا عمل پورا نہیں ہوتا۔ کامیابی کے لئے خود سپردگی ضروری ہے۔

جسم کا تعلق سانس سے ہے۔ سانس کی آمد و شد ختم ہو جائے تو جسم بے جان ہو جاتا ہے۔ روحانیت سیکھنے کے لئے سانس سے قطع تعلق کرنا ضروری نہیں ہے۔ صرف سانس کا بہت آہستہ ہونا ضروری ہے۔ جب انسان اپنا تعلق گوشت کے جسم سے سانس کی حد تک قائم رکھتا ہے تو جسم غیر محسوس ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال خواب دیکھنا ہے۔ آدمی خواب میں سانس لیتا رہتا ہے خواب یا سونے کی حالت میں سانس کے اندر گہرائی پیدا ہو جاتی ہے اور سانس ہلکا اور لطیف ہو جاتا ہے۔ سانس میں لطافت آ جانے سے جسم مثالی تجلی کی طرف صعود کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہم سو جاتے ہیں تو ہمارا جسمانی نظام برقرار رہتا ہے لیکن ہمارا ذہنی تعلق گوشت پوست کے جسم سے عارضی طور پر منقطع ہو جاتا ہے۔ گوشت پوست کے جسم سے یہ عارضی لاتعلقی بیداری میں منتقل کر دی جائے تو انسان ماورائی یا غیب کی دنیا میں منتقل ہو جاتا ہے۔ غیب کی دنیا لطیف دنیا ہے۔ جس طرح انسان اس دنیا میں کام کرتا ہے، کھاتا پیتا ہے اسی طرح غیب کی لطیف اور نورانی دنیامیں بھی چلتا پھرتا اور کھاتا پیتا ہے۔



نظریۂ رنگ و نور

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔ 

عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔

انتساب
زمان و مکان ( Time&Space) ایک لمحے کی تقسیم در تقسیم ہے
اور لمحہ کی تقسیم ‘ اطلاع ہے جو ہر آن لہروں کے ذریعہ انسانی دماغ پر وارد ہوتی رہتی ہے۔
اگر ہم ان اطلاعات کا مخزن (Source of Information) معلوم کرنا چاہیں تو
اس کا ذریعہ روحانی علوم ہیں اور
روحانی علوم کے لئے دانشوروں کو بہرحال قرآن میں تفکر کرنا پڑے گا۔