Topics

انسان حیوان سے کیوں ممتاز ہے

دنیا میں ہزاروں انسان بستے ہیں ہر انسان دوسرے کی زندگی سے ناواقف ہے۔ ہر انسان کی زندگی ایک ایسا راز ہے جس کو دوسرے نہیں جانتے اس راز کی بدولت ہر انسان اپنی غلطیوں کو چھپائے ہوئے خود کو بہتر پیش کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور خود کو مثالی بنا کر دوسروں پر ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ اگر اس کی غلطیاں لوگوں کے سامنے ہوتیں تو پھر وہ خود کو بہتر ظاہر کرنے کی کوشش نہ کرتا اور زندگی کا ارتقاء بھی عمل میں نہیں آتا۔ انسانی ساخت کی یہی خصوصیت اسے جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ ہر ایک حیوان کے اعمال متعین ہیں۔ حیوان کے متعین اعمال کو ہر حیوان کا شعور پوری طرح جانتا ہے چونکہ جانوروں میں انفرادی طور پر ایک دوسرے کے درمیان پردہ حائل نہیں ہے اور ہر حیوان دوسرے حیوان کی زندگی سے پوری طرح واقف ہے اس لئے کوئی حیوان خود کو دوسرے حیوان کے سامنے مثالی بنا کر پیش نہیں کرتا۔

قانون:

خود کو چھپانا اور غلطیوں پر پردہ ڈالنے کا جذبہ ہی انسان کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ انسانی ساخت کا شعوری امتیاز ہی تمام علوم و فنون کا مخزن ہے۔ انسان کی یہ کوشش کہ وہ خود کو دوسروں کے سامنے مثالی بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے اس کو نئے نئے راستوں کی تلاش کی طرف مائل کرتی ہے۔نئے نئے راستوں کی تلاش اور نئی نئی ایجادات کی کوشش ہی دراصل انسانی ارتقاء کا راز ہے۔ یہی شعور انسان کو کائنات کی دوسری تمام مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ ایسی کوشش اور جدوجہد ہے جس جدوجہد اور کوشش سے وہ علوم حصولی سے گزر کر ماورائی عالمین میں داخل ہو جاتا ہے۔یہی کوشش اور جستجو ہے جو نئے نئے راستوں کو تلاش کرتی ہے، نئے نئے علوم کی داغ بیل ڈالتی ہے۔ نئے نئے فلسفوں کو قائم کرتی ہے اور نئے نئے فلسفوں سے بے شمار علوم کی شاخیں مرتب کرتی ہے۔ یہ سب ارتقائی عمل ہیں۔ ارتقائی عمل ہی علم حصولی کا ذریعہ ہے۔ لیکن علم حصولی کے تحت جتنی بھی اختراعات ہوتی ہیں وہ مفروضات اور قیاسات پر مبنی ہیں۔ سادھو کبیر داس کہتے ہیں:

رنگی کو کہیں نارنگی ، تنت مال کو کھویا

چلتی کو کہیں گاڑی ، دیکھ کبیر رویا


نارنگی پھل کا چھلکا، پھانک، پھانک کے اندر گودا، گودے کے اندر بیج، بیج کے اندر گری ہر چیز کا رنگ مختلف ہے۔ لیکن دنیا والے اسے نارنگی سے موسوم کرتے ہیں۔ دودھ سے حاصل شدہ جوہر کو کھویا یعنی ’’کھو دیا‘‘ کہا جاتا ہے۔ بھگت کبیر کہتے ہیں یہ کیسی اندھیر نگری ہے جہاں ہر چیز کو وہ نام دے دیا گیا ہے جو وہ نہیں ہے۔

جب ہم انسانی زندگی کی ساخت اور ارتقاء کے بارے میں سوچ بچار کرتے ہیں اور کائناتی نظام میں زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم یہ جان لیتے ہیں کہ ہر انسان دوسرے انسان کی زندگی سے ناواقف ہے۔ ہر انسان جانتا ہے کہ میری زندگی کے بارے میں میرے علاوہ دوسرا کوئی شخص نہیں جانتا۔ انسانی زندگی کا یہی چھپا ہوا رخ انسان کو حیوانات سے ممتاز کرتا ہے۔ یعنی انسان حیوانات سے اس لئے ممتاز ہے کہ حیوانات میں اخفاء نہیں ہے۔اس پوری وضاحت سے یہ نتیجہ مرتب ہوا کہ انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کو چھپاتا اور اچھائیوں کو بیان کرتا ہے۔ انسانی ساخت کا یہ شعوری امتیاز ہی دراصل اس کو علوم و فنون کی طرف متوجہ کرتا ہے۔



نظریۂ رنگ و نور

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔ 

عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔

انتساب
زمان و مکان ( Time&Space) ایک لمحے کی تقسیم در تقسیم ہے
اور لمحہ کی تقسیم ‘ اطلاع ہے جو ہر آن لہروں کے ذریعہ انسانی دماغ پر وارد ہوتی رہتی ہے۔
اگر ہم ان اطلاعات کا مخزن (Source of Information) معلوم کرنا چاہیں تو
اس کا ذریعہ روحانی علوم ہیں اور
روحانی علوم کے لئے دانشوروں کو بہرحال قرآن میں تفکر کرنا پڑے گا۔