Topics
قرآن پاک میں ہے:
’’ہم نے ہر چیز کو معین مقداروں میں پیدا کیا ہے۔‘‘
تفکر کیا جائے تو ساری کائنات میں یہی قانون جاری و ساری ہے۔ ہر چیز ہر نوع اپنی مخصوص معین مقداروں کے ساتھ قائم ہے اور اسے برقرار بھی رکھتی ہے اور نسل در نسل انہی معین مقداروں کو منتقل کرتی رہتی ہے مثلاً بلی کی نسل کتا نہیں ہوتی، بکری کے بطن سے شیر پیدا نہیں ہوتا اور نوع انسانی سے انسان کے علاوہ دوسری کوئی نوع تخلیق نہیں ہوتی۔
قانون یہ بنا کہ ہر نوع اپنی معین مقداروں کی وجہ سے اپنا الگ تشخص رکھتی ہے اور انہی معین مقداروں کی نسل در نسل منتقلی سے ہر نوع کا الگ الگ تشخص قائم رہتا ہے۔
معین مقداریں کیا ہیں؟
معین مقداریں دراصل روشنیاں ہیں جو ایک خاص تناسب سے رد و بدل ہو کر کسی نوع کی تخلیق کرتی ہیں۔ ان تخلیق کرنے والی روشنیوں کو عظیم روحانی سائنسدان قلندر بابا اولیاءؒ نے نسمہ مرکب کا نام دیا ہے۔
قرآن اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
’’اللہ روشنی ہے آسمانوں اور زمین کی۔‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہے:
God said Light and there was Light
’’اللہ نے کہا روشنی! اور روشنی موجود ہو گئی۔‘‘
کیرلین فوٹو گرافی کے ذریعے نسمہ کے روشن عکس کی تصویر کو سائنسدان کیرلن نے Auraکا نام دیا ہے۔
پیراسائیکلوجی کی لامحدود نظر ہمیں بتاتی ہے کہ یہ معین مقداریں کس طرح ڈسپلے کرتی ہیں۔ روشنیوں کی یہ معین مقداریں کہیں الیکٹران، پروٹون اور نیوٹران کی صورت میں اپنا مظاہرہ کر رہی ہیں تو کہیں کروموسومز کی معین تعداد میں فعال اور متحرک ہیں اس بات کو سمجھنے کے لئے کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
کسی بھی عنصر کو اگر دیکھا جائے تو ہر عنصر کا ایٹامک نمبر اور ایٹامک ویٹ ہوتا ہے۔
یہ ایٹامک نمبر کیا ہے؟
یہ کسی عنصر میں موجود الیکٹران یا پروٹون کی تعدادکو ظاہر کرتا ہے یعنی ہر عنصر ایک مخصوص تعداد میں موجود الیکٹران یا پروٹون کا مظاہرہ ہے۔ اگر کسی طریقے سے اس عنصر میں موجود پروٹونز کی تعداد کو تبدیل کر دیا جائے تو یہ عنصر اس کی تبدیلی کے مطابق دوسرے عنصر کی ہیئت اختیار کرے گا۔
نظریۂ رنگ و نور کا شعور ہمیں بتاتا ہے کہ جانداروں میں روشنیوں کی یہ معین مقداریں کروموسومز کی شکل میں اپنا مظاہرہ کرتی ہیں۔
ماہرین جینیات اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں کہ ہر نوع کے لئے کروموسومز کی علیحدہ اور مخصوص تعداد ہے۔ بلی کے لیے علیحدہ، بکری کے لئے علیحدہ، شیر کے لئے علیحدہ اور انسانوں کے لئے علیحدہ کروموسومز کی تعداد مقرر ہے۔
نوع انسانی میں کروموسومز کے ۲۲ جوڑے(کل ۴۶ کروموسومز) ہوتے ہیں۔ روشنیوں کا مخصوص تناسب یا معین مقداریں دراصل کسی نوع کا تخلیقی فارمولا ہے۔ یہی نوعی فارمولا نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے کسی مخصوص نوع کا اپنا الگ تشخص برقرار رہتا ہے۔
نوعی فارمولے کی معین تعداد نسل در نسل کیسے برقرار رہتی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں تخلیقی عمل کا جائزہ لینا ہو گا۔
انسانی جسم میں ہر وقت خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم جاری رہتی ہے۔ اس تقسیم سے نئے نئے خلیے تعمیر ہوتے رہتے ہیں۔نئے بننے والے تمام خلیوں میں کروموسومز کی تعداد وہی رہتی ہے جو کہ پرانے خلیوں میں تھی۔ یعنی پرانے خلیوں میں ۴۶کروموسومز ہیں تو نئے بننے والے خلیات میں بھی ۴۶ کروموسومز ہوں گے۔ لیکن تولیدی نظام میں جہاں تخلیقی خلیے یعنی Sperms(مرد میں) اور Ova(عورت میں) بنتے ہیں، خلوی تحقیف اس طرح ہوتی ہے کہ خلیوں میں کروموسومز کی تعداد آدھی رہ جاتی ہے۔
قرآن پاک میں تخلیقی عمل کو بڑے آسان پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔
’’اور ہم نے بنایا آدمی کو بجنی مٹی سے۔ پھر ہم نے رکھا اس نطفہ کو قرار مکین(رحم مادر) میں پھر بنایا نطفہ سے علقہ پھر بنایا اس علقہ سے مضغہ پھر بنایا مضغہ سے عظما اور پھر چڑھایا عظما پر لحما پھر اٹھا کر کھڑا کیا اس کو ایک نئی صورت میں۔ سو بڑی برکت اللہ کی جو سب سے بہتر بنانے والا ہے۔‘‘
Spermیعنی نطفہ اور Ovaآپس میں ملے اور ملاپ کے نتیجے میں جو چیز بنی اس کو قرآن حکیم علقہ (Zygote) کا نام دیتا ہے۔ علقہ تقسیم در تقسیم ہو کر مضغہ(Blastocyst) کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
علقہ بننے کے سات یا آٹھ دن بعد قرار مکین یعنی رحم مادر میں اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ مضغہ جہاں پر اپنی جگہ بنا لیتا ہے وہاں پر اس کی اور ماں کی شریانوں اور وریدوں کی چھوٹی چھوٹی جالیاں بن جاتی ہیں جو کہ آپس میں بہت قریب ہوتی ہیں۔ اسی رابطہ کے ذریعے بچے کو خوراک ملتی ہے۔ اب مضغہ سے عظما بنا اور اسی عظما پر گوشت چڑھا یعنی ابتدائی شکل میں بچہ (Embryo) وجود میں آ گیا۔ پھر اسے مکمل بچہ بن گیا۔ یہ سارا تخلیقی عمل رحم مادر میں ہوتا ہے۔
بچہ لڑکا یا لڑکی ہوتا ہے، اگر نسمہ مرکب میں کام کرنے والی روشنیوں کا رنگ لطیف ہے یا روشنیوں کی DENSITY کم ہے تو لڑکی پیدا ہوگی اور اگر روشنیوں کی DENSITY زیادہ ہے۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔
عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔