Topics

ضمیر

مراقبہ ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان عالم ظاہر کی طرح اپنے اندر موجود متحرک اور مسلسل عمل کرنے والی مخفی دنیا سے روشناس ہوتا ہے۔ جس طرح ہم خواب کی حالت میں جسم کے تقاضوں سے آزاد ہو کر اس دنیا میں سفر کرتے ہیں جس دنیا کو بیداری کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ اسی طرح مراقبے میں ہم اس دنیا کو دیکھتے ہیں جس دنیا کو ظاہری آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ ہم جب بیدار ہوتے ہیں، مرحلہ وار یہ دنیا ہمارے لئے ایک تجرباتی دنیا بن جاتی ہے۔ اسی طرح جب روحانیت کے طالب علم کی فکر اپنے باطنی وجود (Inner) میں کھلتی ہے تو عالم غیب میں بسنے والی دنیاؤں کے تجربات شروع ہو جاتے ہیں۔ جیسے جیسے غیب کی دنیا میں انہماک ہوتا ہے غیب میں بسنے والے افراد سے تعارف ہوتا رہتا ہے اور غیب کی دنیا کے شب و روز سے پوری واقفیت ہو جاتی ہے۔ غیب کی دنیا ہو یا مظاہراتی دنیا دونوں تجربات کے مدار پر گھوم رہی ہیں۔ جس طرح پیدائش کے بعد رفتہ رفتہ شعور حاصل ہوتا ہے اسی طرح غیب کی دنیا میں بھی ترقی پذیر شعور کارفرما ہے۔ مظاہراتی دنیا میں ہمارا مشاہدہ ہے کہ بچہ پیداہونے کے بعد پہلے ماں کی خوشبو کا احساس کرتا ہے۔ پھر وہ ماں کو پہچانتا ہے۔ اس کے بعد ماحول میں قریب رہنے والے افراد، ماں باپ بھائی بہن دادی نانی اور دادا نانا کو پہچانتا ہے۔ اس کے بعد قریبی رشتہ داروں سے مانوس ہوتا ہے۔ پھر شعور میں اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ دنیاوی علوم حاصل کر کے اپنا ایک مقام بنا لیتا ہے اور دنیا میں اپنی انفرادی حیثیت میں زندہ رہتا ہے۔ اسی طرح روحانیت کا طالب علم جب اپنے اندر موجود غیب کی دنیا سے متعارف ہو جاتا ہے تو اس کی نگاہ میں اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ زمان کے دونوں کناروں کا احاطہ کر لیتا ہے۔ غیب کی دنیا میں جو کچھ ہے اسے چھو لیتا ہے۔ زمین سے باہر افراد کائنات سے ملاقات کرنا، اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، ستاروں میں گھومنا، افلاک کی سیر کرنا اس کے لئے شعوری زندگی بن جاتا ہے۔ روحانیت میں جو غیب مشاہدہ بن جاتا ہے وہ غیب نہیں رہتا شعور بن جاتا ہے۔ افلاک کے بے شمار نظاموں میں فرشتوں کی مخلوق اور اس مخلوق کی کارکردگی سے واقف ہو کر، فرشتوں سے ہم کلام ہونا آسان کام بن جاتا ہے۔ وہ دیکھ لیتا ہے کہ کائنات کی ساخت میں کس قسم کی روشنیاں برسر عمل ہیں۔ ان روشنیوں کا Sourceکیا ہے؟ یہ روشنیاں کہاں سے اور کس طرح تخلیق ہو رہی ہیں اور یہ روشنیاں افرادکائنات میں کس طرح تقسیم ہو رہی



زندگی کا ہر تقاضہ ایک اطلاع ہے۔
اطلاع کا کوئی سورس ہے جہاں سے اطلاعات ایک تسلسل کے ساتھ ذہن میں وارد ہوتی رہتی ہیں۔
گوشت پوست کے جسم کے ساتھ پابند ہو کر عمل کرنا اطلاع کی نزولی حرکت ہے۔
گوشت پوست کے جسم سے آزاد ہو کر عمل درآمد کرنا صعودی حرکت ہے۔ اور یہ کیفیت رات کے حواس سے تعلق رکھتی ہے۔ اطلاع پر عمل درآمد ریکارڈ ہو رہا ہے۔
تقاضوں کے نزول و صعود سے زندگی تعمیر ہوتی ہے۔
نزول و صعود کا یہ عمل ہر آن اور ہر لمحہ جاری و ساری ہے۔

ہیں اور روشنیوں کی مقداروں کے رد و بدل سے کائنات کے نقوش کس طرح بن رہے ہیں۔ تجلی نزول کر کے نور کیسے بنی اور نور نزول کر کے روشنی کس طرح بنا۔ اور روشنی کن قاعدوں اور کن ضابطوں پر قائم ہے۔
زندگی کی وہ حرکت جس میں گوشت پوست کی حرکت شامل ہے نزولی کیفیات پر مشتمل ہے اور وہ حرکت جو جسمانی خدوخال اور گوشت پوست سے مبرا ہو کر متحرک ہے، صعودی حرکت یا صعودی زندگی ہے۔ جب ہم زندگی کا اور زندگی میں کام کرنے والے ان تقاضوں کا تجزیہ کرتے ہیں جو گوشت کے جسم کے تابع ہیں، ہمیں لامحالہ اس طرف متوجہ ہونا پڑتا ہے کہ زندگی کا کوئی تقاضہ ایسا نہیں ہے جو خیال کے بغیر پورا ہوتا ہو۔ خیال اور تقاضے کا تعلق اطلاع سے ہے اور وہ اطلاع کہیں سے آتی ہے اور دماغ کے اوپر وارد ہوتی رہتی ہے۔ دماغ اسے محسوس کر کے معنی پہناتا ہے اور جب اس اطلاع کی تکمیل ہو جاتی ہے تو یہی تکمیل جذبہ یا تقاضہ بن جاتی ہے۔ لامحالہ یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ زندگی کہیں سے آ رہی ہے۔ جو زندگی کہیں سے آ رہی ہے وہ زندگی کہیں جا بھی رہی ہے اور زندگی کا یہ تسلسل اسی طرح قائم ہے کہ ایک ہی جذبہ بار بار بیدار ہوتا ہے اور بار بار وہ جذبہ کہیں غائب ہو جاتا ہے۔ پھر وہ جذبہ ابھرتا ہے اور جذبے کی تکمیل ہونے کے بعد ریکارڈ ہو جاتا ہے۔


نظریۂ رنگ و نور

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔ 

عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔

انتساب
زمان و مکان ( Time&Space) ایک لمحے کی تقسیم در تقسیم ہے
اور لمحہ کی تقسیم ‘ اطلاع ہے جو ہر آن لہروں کے ذریعہ انسانی دماغ پر وارد ہوتی رہتی ہے۔
اگر ہم ان اطلاعات کا مخزن (Source of Information) معلوم کرنا چاہیں تو
اس کا ذریعہ روحانی علوم ہیں اور
روحانی علوم کے لئے دانشوروں کو بہرحال قرآن میں تفکر کرنا پڑے گا۔