Topics
اس سے پہلے ہم شعور اور لاشعور کے ضمن میں کافی تفصیلی بحث کر چکے ہیں اور شعور اور لاشعور کے ضمن میں یہ بات بتائی جا چکی ہے کہ انسان نور اور نسمہ سے مرکب ہے۔ یعنی نور اور نسمہ سے انسانی ہستی بنی ہوئی ہے اور یہ نور اور نسمہ ذہن کے غیر شعوری اور شعوری پیمانے ہیں۔
شعوری دنیا میں غیب سے آشنا ہونا ممکن نہیں ہے۔ شعوری دنیا یا زمان متواتر سے نکل کر بندہ لاشعوری دنیا یا زمان غیر متواتر میں داخل ہو جاتا ہے تو اس پر غیب منکشف ہو جاتا ہے اور فرشتوں کی دنیا سامنے آ جاتی ہے۔ دو ایجنسیاں ایسی ہیں جو شعور کے بالمقابل موجود ہیں۔ ایک ایجنسی کا نام غیب الغیب ہے۔ دوسری ایجنسی کا نام غیب ہے۔ غیب الغیب نور مفرد ہے اور غیب نور مرکب ہے۔ غیب الغیب (نور مفرد) اور غیب(نور مرکب) کی تشریح سمجھنا ضروری ہے۔ انسانی ذہن کی تین سطح ہیں اور ہر سطح کے دو دو رخ ہیں۔ ان دو دو رخوں کے الگ الگ نام مرکب روشنی، مفرد روشنی، مطلق روشنی، نور مرکب، نور مفرد اور نور مطلق ہیں۔ مرکب روشنی شعوری دنیا ہے۔ مفرد روشنی لاشعوری دنیا ہے اور جنات کی دنیا ہے۔ مطلق روشنی فرشتوں کی دنیا ہے۔ نور مرکب سماوات اور ملائکہ سماوی کی دنیا ہے۔ نور مفرد ملاء اعلیٰ کی دنیا ہے۔ جس میں عرش، کرسی، بیت المعمور شامل ہیں۔ نور مطلق بیت المعمور کے اوپر کے حجابات اور زمان حقیقی ہے۔
زمان غیر متواتر سے نکل کر انسان زمان حقیقی میں داخل ہو جاتا ہے۔ انسانی ذہن کے باقی پانچ رخ یعنی شعوری دنیا، شعوری تجربات، شعوری واردات و کیفیات پانچ رخوں پر قائم ہیں۔ پہلا رخ وہم، دوسرا رخ خیال، تیسرا رخ تصور، چوتھا رخ احساس اور پانچواں رخ مشاہدہ ہے۔ ان پانچ رخوں کے بالمقابل عالم فطرت واقع ہے، عالم فطر ت سے مراد یہ ہے کہ وہ اطلاعات جو بحیثیت مخلوق کے ہر مخلوق کے لئے ایک اطلاع ہے لیکن ہر مخلوق اس اطلاع کو اپنی حدود میں رہ کر قبول کرتی ہے اور اپنی طرف سے اس میں کوئی تصرف نہیں کر سکتی۔
تشریح:
کائنات میں تین زمانے ہیں۔
1۔ زمان حقیقی (Timelessness or Real Time)
2۔ زمان غیر متواتر (Non-Serial Time)
3۔ زمان متواتر (Serial Time)
زمان حقیقی:
زمان حقیقی میں کسی قسم کے خدوخال نہیں پائے جاتے محض احساس یا ادراک پایا جاتا ہے۔
زمان غیر متواتر:
وہ زمانہ جس میں نوع صرف نوع ہے اور نوع اپنی نوع جیسی ہستی کے علم سے آگاہ ہے۔
زمان متواتر:
تمام دنیائیں جو زمین(ارض) پر آباد ہیں جو ٹائم کی گرفت میں ہیں وہ دنیائیں جن کا تعلق افراد نوع سے ہے۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔
عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔