Topics

ENERGY

تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق اللہ  ایسا خالق ہے جس کی تخلیق میں وسائل کی پابندی نہیں ہے۔ اس کے ارادے میں جو چیز جس طرح اور جس خدوخال میں موجود ہے جب وہ اس چیز کو وجود بخشنے کا ارادہ کرتا ہے تو حکم دے دیتا ہے تخلیق اپنے پورے وسائل کے ساتھ وجود میں آجاتی ہے۔

سب سے بہتر خالق ہونے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ اور بھی تخلیق کرنے والے ہیں۔ اللہ کی تخلیق کے علاوہ دوسری ہر تخلیق وسائل کی پابند اور محتاج ہے۔ سائنس دانوں نے بجلی سے دوسری ذیلی تخلیقات کو وجود میں لانا چاہا تو اربوں، کھربوں چیزیں وجود میں آ گئیں۔

اللہ کا وصف یہ ہے کہ اللہ نے ایک لفظ ’’ کُن‘‘ کہہ کر بجلی کو وجود بخش دیا۔ آدم زاد نے اختیاری طور پر جب بجلی کے علم میں تفکر کیا تو اس بجلی سے ہزاروں چیزیں وجود میں آ گئیں۔ بجلی سے جو چیزیں وجود میں آئیں وہ انسان کی تخلیق ہیں۔ روحانی نقطہ نظر سے اللہ کی اس تخلیق میں سے دوسری تخلیقات کا مظہر بننا دراصل نوع انسانی کا بجلی کے اندر تصرف ہے۔ یہ وہی علم ہے جو اللہ نے آدم کو سکھا دیا تھا۔ اللہ نے آدم کو ایسا علم سکھا دیا ہے جو براہ راست تخلیقی فارمولوں سے مرکب ہے۔ جب انسان اس علم کو حاصل کرتا ہے اور اس علم کے ذریعے تصرف کرتا ہے تو نئی نئی چیزیں وجود میں آ جاتی ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کائنات کیا ہے؟

کائنات ایک علم ہے۔ ایسا علم جس کی بنیاد اور حقیقت سے اللہ نے نوع انسانی کو واقف کر دیا ہے۔ اس وقوف کو حاصل کرنے کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ روح کے اندر تفکر کیا جائے۔

اللہ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:

’’ہم نے لوہا نازل کیا اور اس کے اندر انسانوں کے لئے بے شمار فائدے محفوظ کر دیئے ہیں۔‘‘

جن لوگوں نے لوہے کی صفات میں تفکر کیا ان کے سامنے لوہے کی لامحدود صلاحیتیں آ گئیں اور جب ان صلاحیتوں کو استعمال کر کے لوہے کے اجزائے ترکیبی کو متحرک کر دیا گیا تو لوہا ایجادات کا ذریعہ بن گیا۔ موجودہ سائنس کی ہر ترقی کسی نہ کسی طرح لوہے سے وابستہ ہے۔ جس طرح لوہا ایک وجود ہے اسی طرح روشنی بھی ایک وجود ہے۔

وسائل کی حدود سے گزر کر یا وسائل کے علوم سے آگے بڑھ کر جب کوئی بندہ روشنیوں کا علم حاصل کر لیتا ہے ، وہ بہت ساری تخلیقات وجود میں لے آتا ہے۔ اللہ اپنی تخلیق میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ جب وہ کوئی چیز تخلیق کرتا ہے تو تخلیق کے لئے جتنے وسائل موجود ہونا ضروری ہیں وہ از خود وجود میں آ جاتے ہیں۔ بندے کا تصرف یہ ہے کہ وہ اللہ کی بنائی ہوئی تخلیق میں تصرف کرتا ہے۔ اس تصرف کے دو طریقے ہیں ایک طریقہ وسائل میں محدود رہ کر وسائل کو مجتمع کر کے کوئی نئی چیز بنانا اور دوسرا طریقہ روشنیوں میں تصرف کر کے کسی چیز کو وجود میں لانا ہے۔ یعنی کوئی چیز جن روشنیوں پر قائم ہے ان روشنیوں کو متحرک کر کے کسی چیز کو تخلیق کرنا، روحانی دنیا میں ان روشنیوں کا نام ’’نسمہ‘‘ ہے، سائنسی دنیا میں ان روشنیوں کو Auraکہا جا رہا ہے۔ جب کوئی بندہ روشنیوں کے اس علم کو جان لیتا ہے تو اس کے اوپر تخلیقی فارمولے ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ انسان ایک ایسی تخلیق ہے جو اللہ کی تخلیق میں تصرف کرنے کی قدرت رکھتی ہے اور یہ علم اسے اللہ کی طرف سے منتقل ہو اہے۔ اللہ یہ بات جانتے ہیں کہ انسان سے ذیلی تخلیقات وجود میں آتی رہیں گی اس لئے اللہ نے اپنے لئے کہا ہے:

’’میں تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہوں۔‘‘

انسانی زندگی تین دائروں میں تقسیم ہے۔ مادی، ذہنی اور ماورائے ذہنی۔ مادی زندگی کا طبعیات سے تعلق ہے۔ ذہنی دائرے کا نفسیات سے اور ماورائے ذہنی دائرے کا تعلق مابعد النفسیات سے ہے۔

نظریۂ رنگ و نور کے مطابق، مابعد النفسیات میں، طبعیات اور نفسیات سے ہٹ کر ان ایجنسیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو کائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اور کائنات کے قوانین عمل کا احاطہ کرتی ہیں۔ نظریۂ رنگ و نور اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنے والے فارمولوں سے کہاں تک واقف ہے۔ یہ فارمولے اس کی دسترس میں ہیں یا نہیں اور ہیں تو کس حد تک ہیں۔ انسان کے لئے ان کی افادیت کیا ہے اور ان سے آگاہی حاصل کرکے وہ کس طرح زندگی کو خوشگوار اور کامیاب بنا سکتا ہے۔

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان کی زندگی میں خوشی اور غم کا تعلق براہ راست خیالات اور تصورات سے قائم ہے۔ کوئی خیال ہمارے لئے مسرت آگیں ہوتا ہے اور کوئی خیال انتہائی کربناک۔

نظریۂ رنگ و نور کے مطابق ہر چیز کے دو رخ ہوتے ہیں، دماغ کے بھی دو رخ ہیں، ایک رخ وہ جو سر کے سیدھی طرف ہے اور دوسرا رخ وہ جو سر کے بائیں طرف ہے۔ دونوں حصے یا دونوں دماغ ہر وقت کام کرتے رہتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ایک حصے کی کارکردگی بیداری کے حواس بناتی ہے اور دوسرے حصہ کی کارکردگی سے رات کے حواس بنتے ہیں۔

سیدھی طرف کا دماغ شعور ہے اور الٹی طرف کا دماغ لاشعور ہے۔ جب تک کوئی بات یا کوئی عمل صرف شعور کے دائرے کار میں رہتا ہے وہ چیز زیادہ دیر محفوظ نہیں رہتی اور بھول کے خانے میں جا پڑتی ہے۔ اگر کوئی کام کوئی عمل شعور کی سطح سے گزر کر لاشعور میں داخل ہو جاتا ہے تو یہ کام فہم و فراست کے ساتھ حافظہ کے اوپر نقش ہو جاتا ہے۔

جب ہم کوئی کتاب، کورس کا کوئی مضمون سطحی طور پر پڑھتے ہیں۔ اس میں سبق کا رٹنا بھی شامل ہے تو شعور کی سطح سے وہ آگے نہیں بڑھتا۔ لیکن اگر ہم یہی سبق اور یہی مضمون غور و فکر اور سمجھ بوجھ کے ساتھ پڑھتے ہیں تو وہ لاشعور کی حدود میں چلا جاتا ہے اور اس کا مفہوم یاد رہتا ہے۔ اللہ نے آدم کو زمین میں اپنا نائب مقرر کیا ہے۔ آدم کو نیابت اس وقت منتقل ہوئی جب اللہ نے آدم کو ’’علم الاسماء‘‘ سکھایا۔ اللہ کی طرف سے اس انتظامی امور کو سمجھنا اور اللہ کے دیئے ہوئے ’’علم الاسماء‘‘ کی روشنی میں ان انتظامی امور کو چلانا نیابت کے دائرے میں آتا ہے۔ انسان کو بحیثیت خلیفۃ اللہ’’علم الاسماء‘‘ کی حکمت، تکوین کے اسرار و رموز اس لئے سکھائے گئے کہ وہ نئی نئی تخلیقات وجود میں لاتا رہے۔

اللہ نے ہر چیز کی تخلیق کے فارمولے بنائے ہیں اور ہر فارمولا معین مقداروں کے تحت کام کر رہا ہے، اللہ کی کتاب میں ہے۔

’’ہم نے ہر چیز کو معین مقداروں سے تخلیق کیا ہے۔‘‘

ہم یہ بتا چکے ہیں کہ اصل انسان روح ہے۔ ظاہر ہے روح اضطراب، کشاکش، احساس محرومی اور بیماریوں سے ماوراء ہے۔ روح اپنے اور جسم کے درمیان ایک میڈیم بناتی ہے۔ اس میڈیم کو ہم جسم انسانی اور روح کے درمیان نظر نہ آنے والا جسم کہہ سکتے ہیں۔ یہ غیر مرئی انسان بھی بااختیار ہے۔ اس کو یہ اختیار ہے کہ روح کی فراہم کردہ اطلاعات کو اپنی مرضی سے معنی پہنا دے۔ جس طرح معین فارمولے کام کرتے ہیں۔ اسی طرح روح اور جسم کے درمیان نظر نہ آنے والا جسم بھی فارمولوں کے تحت متحرک اور باعمل ہے۔ اس میں اربوں، کھربوں فارمولے کام کرتے ہیں جن کو ہم چار عنوانات میں تقسیم کرتے ہیں۔

Water Energy

Electric Energy

Heat Energy

Wind Energy

روحانیت کا طالب علم اس علم پر جتنی دسترس حاصل کر لیتا ہے اتنا ہی سکون مل جاتا ہے۔

خوف و غم کی جگہ اطمینان قلب، محرومی کی جگہ کامیابیاں اور شعور کی محدود درجہ بندی سے نکل کر ماورائی دنیا کے شب و روز اس کے سامنے آ جاتے ہیں۔


نظریۂ رنگ و نور

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔ 

عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔

انتساب
زمان و مکان ( Time&Space) ایک لمحے کی تقسیم در تقسیم ہے
اور لمحہ کی تقسیم ‘ اطلاع ہے جو ہر آن لہروں کے ذریعہ انسانی دماغ پر وارد ہوتی رہتی ہے۔
اگر ہم ان اطلاعات کا مخزن (Source of Information) معلوم کرنا چاہیں تو
اس کا ذریعہ روحانی علوم ہیں اور
روحانی علوم کے لئے دانشوروں کو بہرحال قرآن میں تفکر کرنا پڑے گا۔