Topics

وقت کیا ہے

جب انسانی شعور وہم، خیال اور تصور کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کا رخ مفرد روشنی کی طرف ہوتا ہے اور جب وہم، خیال، تصور سے نکل کر محسوسات کی حدود میں داخل ہوتا ہے تو شعور مرکب روشنی سے متعارف ہوتا ہے۔ اب ہم اس طرح کہیں گے کہ شعور کے تغیر سے واقف ہونے کا عمل ہی شعور کی ہستی ہے۔

روح نور کے لمحات میں سفر کرتی ہے۔ انسانی ذہن روشنی کے لمحات میں سفر کرتا ہے۔

مثال:

زید ایک فرد ہے سوال کیا جائے کہ زید کون ہے؟ تو یہ کہا جائے گا کہ زید فلاں کا بیٹا ہے۔ فلاں کا بھائی ہے۔ زید عالم ہے۔ زید کی عمر25سال ہے۔ زید خوش اخلاق ہے۔ زید عقل مند ہے۔ نوجوان ہے۔ وجیہہ ہے۔ بردبار ہے۔ ان تمام باتوں کا مطلب یہ ہوا کہ ہم زید کی صفات کا تذکرہ کر رہے ہیں یعنی زید بہت ساری صفات کا مجموعہ ہے اور یہ تمام صفات زید کے اوصاف ہیں۔ ہم گوشت پوست اور ہڈیوں سے بنے ہوئے زید کا تذکرہ نہیں کرتے بلکہ زید کی صفات کا تذکرہ کرتے ہیں۔

اگر ہم زید کی زندگی کا تجزیہ کریں تویہ کہیں گے کہ زید ان صفات کی فلم ہے۔ زید کی یہ صفات یا زید کی یہ زندگی دراصل اس کی ایک فلم ہے۔ اگر زید سے متعلق اس کے اوصاف کی فلم اور فلم کے اندر آثار و احوال و حوادث کو لپیٹ دیا جائے تو یہ زید کی زندگی کا ایک لمحہ بنا۔

یعنی بیشمار لمحات کا مجموعی نام زید ہے۔ یہ وہی زید ہے جس کو حواس دیکھتے ہیں، چھوتے اور جانتے ہیں۔ زید بے شمار لمحات کی لپیٹی ہوئی سربستہ فلم ہے۔

ہم جب کسی شئے کو دیکھتے ہیں تو غیر متواتر لمحہ درمیانی فاصلے کو ہماری لاعلمی میں اس طرح ناپ لیتا ہے کہ نہ تو شئے کی روشنی ذہن سے ہوا بھر الگ رہتی ہے اور نہ ذہن کی سطح میں داخل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم شئے کو دیکھ سکتے ہیں۔ ذہن شئے سے ہوا بھر الگ رہے یا ہوا بھر شئے میں داخل ہو جائے اسے ہم نہیں دیکھ سکتے۔

آج کے بعد پرسوں کا دن اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک کل کا دن نہ گزر جائے۔ اس طرح جنوری اور ستمبر کے مہینے اس وقت تک نہیں آئیں گے جب تک درمیانی مہینے نہ گزر جائیں۔ ہم جب زینے سے اترتے ہیں تو زینے کی سیڑھیوں کا ناپ جو پہلے سے ریکارڈ ہے۔ ہمارے قدموں کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔ اسی لئے زینے اترنے میں شعوری طور پر سوچنا نہیں پڑتا۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ قدم ڈگمگا جاتا ہے یا ہم گر پڑتے ہیں۔اس وقت کسی وجہ سے ہمارا ذہن ریکارڈ (زمان غیر متواتر) سے ہٹ جاتا ہے۔ وہ رہنمائی جو زمان غیر متواتر کر رہا ہے، زمان متواتر کے ہاتھوں میں آ جاتی ہے۔ جس کے سبب قدم غلطی کر جاتے ہیں اور آدمی گر جاتا ہے۔ زینے کا ناپ زمان متواتر میں ریکارڈ نہیں ہوتا۔ غیر متواتر زمان میں ریکارڈ ہوتا ہے۔



نظریۂ رنگ و نور

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔ 

عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔

انتساب
زمان و مکان ( Time&Space) ایک لمحے کی تقسیم در تقسیم ہے
اور لمحہ کی تقسیم ‘ اطلاع ہے جو ہر آن لہروں کے ذریعہ انسانی دماغ پر وارد ہوتی رہتی ہے۔
اگر ہم ان اطلاعات کا مخزن (Source of Information) معلوم کرنا چاہیں تو
اس کا ذریعہ روحانی علوم ہیں اور
روحانی علوم کے لئے دانشوروں کو بہرحال قرآن میں تفکر کرنا پڑے گا۔