Topics
انسان کا ذہن اور طرز فکر ماحول سے بنتی ہے۔ جس قسم کا ماحول ہوتا ہے۔ اسی طرز کے نقوش کم وبیش ذہن میں نقش ہو جاتے ہیں۔ جس حد تک یہ نقوش گہرے یا ہلکے ہوتے ہیں اسی مناسبت سے انسانی زندگی میں طرز فکر کی تشکیل ہوتی ہے۔ اگر کوئی بچہ ایسے ماحول میں پرورش پاتا ہے جہاں والدین اور اس کے ارد گرد ماحول کے لوگ ذہنی پیچیدگی، بددیانتی اور تمام ایسے اعمال کے عادی ہوں جو دوسروں کے لئے ناقابل قبول اور ناپسندیدہ ہیں تو بچہ لازمی طور پر وہی طرز فکر قبول کر لیتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی بچے کا ماحول پاکیزہ ہے تو وہ پاکیزہ نفس ہو گا۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ بچہ وہی زبان سیکھتا ہے جو ماں باپ بولتے ہیں، وہی عادات و اطوار اختیار کرتا ہے جو اس کے والدین سے ورثہ میں اسے منتقل ہوتے ہیں۔ بچہ کا ذہن آدھا والدین کا ورثہ ہوتا ہے اور آدھا ماحول کے زیر اثر بنتا ہے۔ یہ مثال صرف بچوں کے لئے مخصوص نہیں افراد اور قوموں پر بھی یہی قانون نافذ ہے۔ ابتدائے آفرینش سے تا ایں دم جو کچھ ہو چکا ہے، ہو رہا ہے یا آئندہ ہو گا وہ سب کا سب نوع انسانی کا ورثہ ہے اور یہی ورثہ قوموں میں اور افراد میں منتقل ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔
:قانون
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو شعوری طور سے کورا کاغذ ہوتا ہے لیکن اس کے اندر شعور کی داغ بیل پڑ چکی ہوتی ہے۔ شعور کی یہ داغ بیل ماں باپ کے شعور سے بنتی ہے۔ یعنی ماں کا شعور اور باپ کا شعور مل کر بچہ کا شعور بنتاہے۔ یہی شعور بتدریج زندگی کے تقاضوں اور حالات کے رد و بدل کے ساتھ ضرب ہوتا رہتا ہے۔
١۔ بچہ کا شعور +والدین کا شعور +ماحول کا شعور =فرد کا شعور
٢ ۔ اسلاف کا شعور +قوم کا شعور=آدم کا شعور
ہمارے شعور میں آدم کا شعور شامل ہے اور یہ جمع در جمع ہو کر ارتقائی شکل و صورت اختیار کر رہا ہے۔ قانون یہ ہے کہ جب دو چیزیں ایک دوسرے میں باہم مل کر جذب ہوتی ہیں تو نتیجے میں تیسری چیز وجود میں آ جاتی ہے۔
پانی میں شربت ملانے سے شربت بن جاتا ہے۔ پانی میں اتنی حرارت شامل کر دی جائے جو آگ کے قریب ترین ہو تو پانی کی وہی صفات ہو جائیں گی جو آگ کی ہوتی ہیں اور اگر پانی میں اتنی سردی شامل کر دی جائے جو برف کی ہے تو پانی کی وہی خصوصیات ہو جائیں گی جو برف کی ہوتی ہیں۔ اسی طرح جب ماں اور باپ کا شعور جذب ہوتا ہے تو نتیجہ میں تیسرا شعور وجود میں آتا ہے جس کو ہم بچہ کہتے ہیں۔
انسانی ارتقاء مسلسل اور متواتر شعور کی منتقلی کا نام ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ لوگ غاروں میں رہتے تھے۔ پھر لوگ پتھر کے زمانے میں آگئے اور اس کے بعد پتھر کے وہی ہتھیار یا ضروریات زندگی کا سامان دوسری دھاتوں میں منتقل ہوتا رہا۔
علیٰ ہذا القیاس نوع انسانی اسی ورثہ میں چل رہی ہے جو اس کو آدمؑ سے منتقل ہوا ہے۔ آدمؑ نے نافرمانی کی اولاد کی نافرمانی کا ورثہ منتقل ہو گیا۔ آدمؑ نے عجز و انکسار کے ساتھ عفو و درگزر کی درخواست کی، یہ طرز فکر بھی آدمؑ کی اولاد میں منتقل ہو گئی۔
نظریۂ رنگ و نور کے مطابق دیکھنے کی طرزیں دو ہیں۔ ایک دیکھنا براہ راست ہوتا ہے اور ایک دیکھنا بالواسطہ۔ براہ راست دیکھنے سے منشاء یہ ہے کہ جو چیز دیکھی جا رہی ہے وہ کسی میڈیم کے بغیر دیکھی جا رہی ہے۔ بالواسطہ دیکھنے کا مطلب ہے کہ جو چیز ہمارے سامنے ہے وہ ہم کسی واسطے سے دیکھ رہے ہیں۔
کائنات میں جو کچھ ہے، جو کچھ تھا ، جو کچھ ہو رہا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے وہ سب کا سب ریکارڈ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام حواس دراصل ریکارڈ ہیں۔ اگر بھوک پیاس حواس ریکارڈ نہ ہوں تو بھوک پیاس کا وجود ہی نہیں ہو گا۔ بھوک پیاس کا تقاضہ ایک اطلاع ہے جب اس اطلاع میں معنی شامل کر لئے جاتے ہیں تو یہ بالواسطہ طرز فکر بن جاتی ہے۔ اس کی مثال بہت آسان ہے۔ ایک آدمی آنکھوں پر چشمہ نہیں لگاتا وہ جو کچھ دیکھتا ہے براہ راست دیکھتا ہے۔ دوسرا آدمی آنکھوں پر چشمہ لگاتا ہے وہ جو کچھ دیکھ رہا ہے اس کے دیکھنے میں گلاس واسطہ ہے۔ اس مثال کو اور زیادہ گہرائی میں سمجھا جائے تو اس طرح کہا جائے گا کہ عینک میں اگر سرخ رنگ کا گلاس ہے تو ہر چیز سرخ نظر آتی ہے۔ نیلا گلاس ہے تو ہر چیز نیلی نظر آتی ہے۔ حالانکہ شئے نہ نیلی ہے اور نہ سرخ ہے۔ جب ہم کسی رنگین شیشے کو دیکھنے کے لئے واسطہ بنائیں گے تو نظر وہی دیکھے گی جو ہمیں شیشہ دکھائے گا۔
طرز فکر اور نظر کا قانون ایک ہی بات ہے۔ ایک طرز فکر ایسی ہے جو بالواسطہ کام کرتی ہے اور ایک طرز فکر یہ ہے کہ براہ راست کام کرتی ہے۔ کوئی آدمی اگر کسی ایسے شخص کی طرز فکر کو اپنے لئے واسطہ بناتا ہے جس کی طرز فکر براہ راست کام کر رہی ہے تو اس شخص کے اندر وہی طرز فکر منتقل ہو جاتی ہے۔
’’براہ راست طرز فکر‘‘ طالب علم کے اندر منتقل کرنے کا ایک مسلسل عمل ہے۔ جتنے پیغمبر تشریف لائے ان سب کی طرز فکر ہی تھی کہ ہمارا رشتہ ماورائی ہستی کے ساتھ براہ راست قائم ہے اور یہی رشتہ کائنات کی جان ہے۔ دنیا میں جتنے ہادی آئے ان کی تعلیمات بھی یہی رہیں کہ بندے کے ذہن میں یہ بات نقش ہو جائے کہ بندہ ایک ماورائی ہستی کے رشتے میں بندھا ہوا ہے۔ تمام انبیاء نے اسی طرز فکر کو مستحکم کرنے کے لئے نوع انسانی کو اچھائی اور برائی کا تصور عطا کیا ہے۔ اگر اچھائی اور برائی کا تصور عطا کیا ہے۔ اگر اچھائی اور برائی کا تصور نہ ہو تو نیکی اور برائی دونوں عمل ناقابل تذکرہ ہو جائیں گے۔
شیطان کو بھی اللہ نے پیدا کیا ہے۔ شیطان کو ہم اللہ کی تخلیق کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن شیطان زندگی کا ایک ایسا وصف ہے جو اللہ کے لئے ناپسندیدہ ہے اور شیطنت کے برعکس اللہ کے احکامات کی بجا آوری اللہ کے لئے پسندیدہ عمل ہے۔
ایک طالب علم جو باشعور ہے اور دوسرے علم میں اعلیٰ مہارت رکھتا ہے۔ جب روحانیت کا علم حاصل کرنا چاہے گا تو اس کے اندر بچے کی افتاد طبیعت کا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ روحانیت میں اس کی حیثیت ایک بچے سے زیادہ نہیں ہے۔
امام غزالیؒ کا بڑا مشہور واقعہ ہے آپ اپنے زمانے کے یکتائے روزگار عالم اور دانشور تھے۔ بڑے بڑے جید علماء ان کے علوم سے استفادہ کرتے تھے۔ بیٹھے بیٹھے ان کو خیال آیا کہ خانقاہی نظام (روحانی درسگاہ) کو بھی دیکھنا چاہئے۔ انہوں نے دور دراز کا سفر کیا مگر کچھ حاصل نہیں ہوا۔ کسی نے پوچھا آپ ابو بکر شبلیؒ سے بھی ملے ہیں۔ امام غزالیؒ نے فرمایا کہ میں نے اب تک روحانی مکتبہ فکر کا کوئی مشہور آدمی نہیں چھوڑا جس سے ملاقات نہ کی ہو۔ اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ سب کہانیاں ہیں جو لوگوں نے اپنے بارے میں مشہور کر رکھی ہیں۔ پھر انہیں خود ہی خیال آیا کہ ایک مشہور آدمی رہ گیا ہے اس سے بھی کیوں نہ ملاقات کر لی جائے۔
قصہ کوتاہ، وہ ملاقات کے لئے عازم سفر ہوئے اور حضرت شبلیؒ سے ملاقات کی۔ حضرت ابو بکر شبلیؒ اس وقت مسجد کے صحن میں بیٹھے گڈری سی رہے تھے۔ امام غزالیؒ حضرت ابو بکر شبلیؒ کی پشت کی جانب کھڑے ہوگئے۔ حضرت ابو بکر شبلیؒ نے پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر فرمایا۔ غزالی آ گیا تو نے بہت وقت ضائع کر دیا ہے۔ علم سیکھنے کے لئے پہلے عمل کیا جاتا ہے پھر علم آتا ہے۔ اگر تو اس بات پر قائم رہ سکتا ہے تو میرے پاس قیام کر ورنہ واپس چلا جا۔ امام غزالیؒ نے ایک منٹ توقف کیا اور کہا۔’’میں آ پ کے پاس قیام کروں گا۔‘‘ یہ سن کر حضرت ابو بکر شبلیؒ نے فرمایا کہ سامنے مسجد کے کونے میں جا کر کھڑا ہو جا۔ امام غزالیؒ نے حکم کی تعمیل کی۔ کچھ دیر کے بعد بلایا، دعا سلام کے بعد اپنے ساتھ گھر لے گئے۔ بہت خاطر مدارت کی۔ امام غزالیؒ بہت خوش ہوئے کہ مجھے بہت اچھا روحانی استاد مل گیا ہے۔ جس نے میرے اوپر آرام و آسائش کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ چند روز بعد حضرت شبلیؒ نے امام غزالیؒ سے فرمایا۔ ’’بھائی اب کام شروع ہو جانا چاہئے اور کام کی ابتداء یہ ہے کہ ایک بوری کھجور لے کر شہر کے بازار میں بیٹھ جاؤ اور بوری کھول کر یہ اعلان کرو کہ جو آدمی میرے سر پر ایک چپت رسید کرے گا اسے ایک کھجور ملے گی۔‘‘امام غزالیؒ تین سال تک بازار میں کھجور کی مفت دکان لگائے بیٹھے رہے اور ان تین سال تک اس کے سر پر چپت لگتے رہے۔ تین سال کی مدت پوری ہو گئی تو حضرت ابو بکر شبلیؒ نے امام غزالیؒ کو وہ علم منتقل کر دیا جس کی تلاش میں وہ سالہا سال سے سرگرداں تھے۔ امام غزالیؒ جب بغداد واپس پہنچے تو صورتحال یہ تھی کہ معمولی کپڑے زیب تن تھے، ہاتھ میں ایک ڈول تھا، ڈول میں رسی بندھی ہوئی تھی۔ شہر والوں کو جب علم ہوا کہ امام غزالیؒ واپس تشریف لا رہے ہیں تو ان کے استقبال کے لئے پورا شہر امڈ آیا۔ لوگوں نے جب انہیں عام لباس میں دیکھا تو حیران و پریشان ہوئے اورکہا۔’’یہ آپ نے کیا صورت بنا رکھی ہے؟‘‘ امام غزالیؒ نے فرمایا۔’’اللہ کی قسم! اگر میرے اوپر یہ وقت نہ آتا تو میری زندگی ضائع ہو جاتی۔‘‘ امام غزالیؒ کے الفاظ بہت فکر طلب ہیں۔ اپنے زمانے کے یکتا عالم فاضل، دانشور یہ کہہ رہا ہے کہ روح کا سراغ نہ ملتا تو زندگی ضائع ہو جاتی۔
امام غزالیؒ کھجور کی تقسیم پر علمی مناظرہ شروع کر دیتے تو انہیں یہ علم حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ یہی صورتحال آسمانی علوم کی ہے۔ طالب علم کے اندر جب تک اپنی انا کا علم موجود ہے وہ آسمانی علوم نہیں سیکھ سکتا۔ مسلمان جب کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں تو اللہ کی نفی کرتے ہیں پھر اللہ کا اقرار کرتے ہیں۔ لا الہ کوئی معبود نہیں۔ الا اللہ مگر اللہ، اس کی عام تفسیر تو یہ ہے کہ حضور اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے زمانے میں بتوں کی پوجا ہوتی تھی لوگ بتوں کو خدا مانتے تھے۔ لا الہ کا مفہوم یہ ہوا کہ بت معبود نہیں مگر اللہ معبود ہے۔ باریک بین نظر اور گہرے تفکر اور براہ راست طرز فکر سے غور کیا جائے تو اس کی تشریح یہ ہو گی کہ لا الہ ہمارے شعوری علوم کے احاطہ میں اللہ کے جاننے کی جو طرز ہے ہم اس کی نفی کرتے ہیں اور اللہ کو اس طرح تسلیم کرتے ہیں جس طرح اللہ خود کو اللہ کہتا ہے۔ محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کے پیغامبر ہیں۔ محمدالرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ کو جس طرح جانا اور جس طرح بتایا ہم اسی طرح اللہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ مرتب ہوا کہ پہلے ہم نے اپنے علم کی نفی کی پھر علم کا اثبات کیا۔ علم کی نفی کی تو اپنی نفی کی اور جب اپنی نفی کی توا للہ کے سوا کچھ باقی نہ بچا۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔
عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔