Topics

سیاہ تختہ

زندگی کا قانون اور زندگی جن قواعد و ضوابط پر چل رہی ہے ان کو جاننے کے لئے ہمیں یہ علم حاصل ہے کہ کائنات میں موجود ہر تخلیق دو لہروں پر قائم ہے۔ جب یہ دو لہریں بیک وقت کام کرتی ہیں تو ان سے عالم ناسوت اور انسانی دنیا کی تخلیق ہوتی ہے اور جب مفرد لہر کام کرتی ہے تو اس سے جنات کی دنیا اور ماورائی دنیائیں تخلیق ہوتی ہیں۔

نظریۂ رنگ و نور کے مطابق کوئی چیز مجرد ہو، مادی ہو، مرئی ہو، یا غیر مرئی ہو بہرحال دو لہروں سے تخلیق ہو رہی ہے۔ کائنات میں موجود کسی شئے کا قیام دو لہروں کے علاوہ ممکن نہیں ہے۔ ہم جب مرئی اشیاء دیکھتے ہیں تو ہمیں خدوخال نظر آتے ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ خدوخال سے مرتب اس شئے کو کوئی نادیدہ شئے سنبھالے ہوئے ہے۔ دونوں لہریں اس نادیدہ شئے کے ساتھ مل کر زندگی بن رہی ہیں اور زندگی احساس یا حس کے نام سے جانی جاتی ہے۔

دو لہریں دراصل ایک حرکت ہیں۔ ایسی حرکت جو تواتر کے ساتھ بغیر کسی وقفے کے لمحہ بہ لمحہ ہو رہی ہے۔ ہماری تمام حرکات کا تعلق معین مقداروں سے ہے۔ یہ مقداریں حرکت بن رہی ہیں۔ مکانیت دراصل لمحات ہیں۔ ایسے لمحات جن میں ایسی ترتیب پائی جاتی ہے جس ترتیب کے اوپر مکانیت کی تعمیر ہوتی ہے۔ ہر لمحہ ایک مکان ہے۔ تمام مکانیت لمحات کی قید میں بند ہے۔لمحات کی حرکت کا جہاں تک تعلق ہے یہ سارے کے سارے اللہ کے علم میں حاضر ہیں۔ مکانیت پر اللہ کی پوری گرفت ہے۔ ایسا کوئی لمحہ، جو لمحہ بہ لمحہ زنجیر بن کر کائنات میں مکانیت کی تخلیق کرتا ہے اللہ کے علم سے باہر نہیں ہے۔

ایک لمحات کا باطن ہے اور لمحات کا دوسرا رخ ظاہر ہے۔ لمحات کا باطن یا شعور یک رنگ ہے اور دوسری طرف لمحات کا دوسرا رخ ظاہر یا کل رنگ ہے۔ جو چیز نظر آ رہی ہے وہ لمحات کا ظاہری رخ’’کل رنگ‘‘ ہے اور جو رخ نظروں سے اوجھل ہے وہ لمحات کا باطنی شعور ’’یک رنگ‘‘ ہے۔ ایک طرف لمحات کی گرفت میں ساری کائنات ہے دوسری طرف لمحات کی گرفت میں کائنات میں موجود تمام افراد ہیں۔ کائنات کا لمحات کی گرفت میں ہونا یا افراد کا لمحات کی گرفت میں ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ لمحات بیک وقت حرکت کرتے ہیں۔ ایک حرکت کائنات کی ہر شئے میں الگ الگ واقع ہوتی ہے۔ یہ حرکت اس شعور کی تعمیر کرتی ہے جو شئے کو اس کی مفرد ہستی کے دائرے میں موجود رکھے ہوئے ہے۔ دوسری حرکت کائنات کی تمام حرکتوں میں جاری و ساری ہے۔ یہ حرکت اس شعور کی تعمیر کرتی ہے جو کائنات کی ہر شئے کو ایک دائرے میں حاضر رکھتی ہے۔

لمحات کے ایک رخ میں کائناتی افراد الگ الگ موجود ہیں۔ افراد شکل و صورت کے اعتبار سے یکساں ہونے کے باوجود شعوری دائرے میں الگ الگ ہیں۔ دوسری طرف لمحات میں تمام افراد کا شعور ایک نقطے پر مرکوز ہے۔ ایک انفرادی شعور اور دوسرا اجتماعی شعور ہے۔ ہر فرد بحیثیت فرد کے ایک نوع ہے اور ہر نوع بحیثیت نوع کے ایک فرد ہے۔ جب نوع فرد ہے تو شعور ہے اور جب نوع اجتماعی حیثیت میں نوع ہے تو فرد کا لاشعور ہے۔ ہر فرد دو رخوں میں حرکت کرتا ہے۔ جب وہ اپنی نوع کے اندر حرکت کرتا ہے تو وہ لاشعور ہے۔ جب نوعی اعتبار سے انفرادی حرکت کرتا ہے تو وہ شعور ہے۔ جس طرح ایک فرد کی مثال دی گئی ہے اسی طرح ہم پوری کائنات کو فرد مان لیں اور کائنات کے اندر موجود اشیاء کو اس کے اجزاء فرض کر لیں تو کائناتی شعور کو ’’مرکزی شعور‘‘ کہیں گے۔

مثال:

ہر فرد کے شعور میں اس کے اپنے مخصوص ماحول کے مطابق اشیاء کی موجودگی ہوتی ہے مثلاًہر فرد اپنے شعور کے مطابق کسی چیز کو پسند یا رد کرتا ہے اور کسی چیز سے مانوس ہوتا ہے۔ ہر فرد اپنے شعور کے دائرے میں اپنے مخصوص ماحول، مخصوص جذبات و کیفیات کے اعتبار سے چیزوں کو منتخب یا رد کرتا ہے۔ لمحات ایک خاص وقت میں فرد کے شعور کی تعمیر کرتے ہیں۔ ہم کسی چیز کو رد کرتے ہیں یا پسند کرتے ہیں تو یہ رد کرنا یا پسند کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ جس چیز کو قبول کیا جاتا ہے وہ کہیں موجود ہے۔ اس موجود سے متعلق ہم اپنے انفرادی شعور کی بنیاد پر رد یا قبول کر لیتے ہیں۔

ہم جب فرد کی حیثیت میں زندگی کے متعلق اطلاعات پر غور کرتے ہیں تو لامحالہ یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ زندگی کے تمام جذبات سے متعلق جو اطلاعات ملتی ہیں ہم ان کو دو طرح سے قبول کرتے ہیں یا دو طرح سے معانی پہناتے ہیں۔ ایک معانی پہنانا انفرادی طور پر معانی پہنانا ہے اور دوسری طرح میں اجتماعی طور پر معانی پہنانا ہے۔



نظریۂ رنگ و نور

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔ 

عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔

انتساب
زمان و مکان ( Time&Space) ایک لمحے کی تقسیم در تقسیم ہے
اور لمحہ کی تقسیم ‘ اطلاع ہے جو ہر آن لہروں کے ذریعہ انسانی دماغ پر وارد ہوتی رہتی ہے۔
اگر ہم ان اطلاعات کا مخزن (Source of Information) معلوم کرنا چاہیں تو
اس کا ذریعہ روحانی علوم ہیں اور
روحانی علوم کے لئے دانشوروں کو بہرحال قرآن میں تفکر کرنا پڑے گا۔