Topics

یاُولیِ الاَلباب


رات کو سونے سے پہلے ڈائری میں مرشد کریم کی بیان کی گئی باتوں کو پڑھا اور پہلا کام یہ کیا کہ کچن میں جا کر درمیانہ پیاز اٹھایا اور کھولنے بیٹھ گیا۔وہ احتیاط سے باریک اور ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ہوئے پرت کو پرت سے الگ کر رہا تھا۔ محسوس ہوا وہ پیاز نہیں اپنے اندر موجود پرتوں کو کھول رہا ہے۔پیاز ، پیاز نہیں اس کا وجود ہے۔ بلندی سے دیکھنے والا اسے پیاز نہیں نقطہ کہے گا۔ اس نقطہ میں کائنات بند ہے۔ ہر پرت ایک عالم ہے۔ اس عالم کی ایک بساط ہے۔ اس بساط کی بساط در بساط اور پھر بساط ہے۔اس نے سوچا بنیاد تک پہنچنے کے لیے اس نے اپنے وجود کو کتنے ٹکڑوں میں بانٹ رکھا ہے۔خیال نے بتایا یہ ٹکڑے نہیں فاصلے ہیں۔لیکن بلندی سے دیکھنے والے کے لیے نقطہ اور قریب سے دیکھنے والے کے لیے پرتوں کا مجموعہ۔۔۔؟کیا واقعی فاصلوں کا وجود ہے۔۔؟ اگر ہے تو کیسے طے ہو اور اگر نہیں ہے تو پھر وقت کی کیا حیثیت ہوئی۔۔؟

        ایک بار پھر قرآن کریم سے رجوع کیا اور زمین سے متعلق مزید آیتیں تلاش کیں۔

 ایک مقام پر اللہ نے خود کو آسمان و زمین کا نور فرمایا ہے اور تفصیل میں کئی spaces کا ذکر کیا ہے۔جیسے آسمان۔ زمین۔طاق۔قندیل۔چراغ۔ ستارہ ۔ زیتون ۔ یہ سب کسی اسپیس پر قائم ہیں۔ اسپیس یعنی اس چیز کی زمین یا بساط۔ اور روشنی اس کا وقت ہو گیا۔زمین کو سمٹنے اور پھیلنے والی بنایا۔ کیا پھیلنے اور سمٹنے سے مراد ٹائم اور اسپیس ہے؟ پھر اللہ نے شرق اور غرب یعنی سمتوں کی نفی  کر کے ٹائم اور اسپیس کی نفی کر دی اور فرمایا کہ اعلیٰ زون اللہ کا ذہن ہے اور اللہ جسے چاہے اپنے ذہن تک راہ دیتا ہے۔

مرشد کریم جب کسی تحریر میں تصحیح  فرماتے تو اسے محسوس ہوتا جملوں کی تصحیح نہیں ہوتی بلکہ طرز فکر درست ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ کسی تحریر کو سنتے ہوئے یہ جملہ " فلاں شخص کو میٹھا پسند نہیں" درست کرتے ہوئے مرشد کریم نے فرمایا کہ " لکھو، نمکین سے رغبت زیادہ ہے۔"

   اس  کا دعویٰ تھا کہ وہ اس کے دل میں رہتے ہیں۔ وہ نفیس طبیعت کے مالک ہیں اور اپنے اردگرد ترتیب کو پسند کرتے ہیں۔وہ سوچ رہا تھا کہ کیا مادی اغراض کے ساتھ کوئی دل پاک ہو سکتا ہے؟ کیا وہ ایسی جگہ محبوب ہستی کو رکھ سکتا ہے جہاں اغراض تعفن پھیلاتی ہوں؟ ایک دم اپنی خواہشات سےخوف محسوس ہوا۔خواہشات جو بظاہر معمولی اور چھوٹی نظر آتی ہیں، ان کا قیام اگر طویل ہو جائے تو اژدہا بن کر نگل جاتی ہیں۔ وہ جتنا اس ہستی کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ، کم مائیگی کا اعتراف بڑھ جاتا۔دل آئینہ ہے۔دل نے بتایا کہ انسانیت کے سوا ہر غرض کثافت ہے جو تہ در تہ غالب ہو کر دل کو تاریک کر دیتی ہے۔ ایسے میں دل پر پڑنے والا شفاف عکس بھی دھندلا جاتا ہے۔

                                                                                    وہ مزید کثافتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ ضمیر کے بوجھ سے زیادہ اسے اس ہستی کا احساس تھا جو بے غرض  ہو کر اللہ کی خوش نودی کے لیے کثافت میں لتھڑے وجود کو نہ جانے کس صبر سے سامنے بیٹھا دیکھتی لیکن ہونٹوں پر شفیق مسکراہٹ کے ساتھ آلودہ دلوں کو پاک کرنے میں لگ جاتی۔ لوگ محبت کی چاشنی لیے گھروں کو لوٹتے اور چند روز بعد سابقہ ماحول میں رنگ کر پھر ان کے سامنے آ موجود ہوتے۔ لوگ خود کو آلودہ کرنے سے باز نہیں آتے اور وہ ہیں کہ قلوب کی صفائی کرتے تھکتے نہیں۔محبت تو یہ ہے جو مرشد کریم کی اللہ کے لیے ہے۔ بے شک اس کا مرشد مقامِ عبدیت پر ہے۔

 

جب سے اس نے معین مقداروں کے بارے میں سوچنا شروع کیا، عادت بن گئی تھی کہ چلتے پھرتے ذہن میں موجود سوالوں کو دہراتا اور کچھ دیر ان پر تفکر کرتا اور اچانک مفہوم واضح ہو جاتا۔کئی روز سے وہ خود سے پوچھ رہا تھا کی محبت کی جاتی ہے یا ہو جاتی ہے۔۔؟ اور یہ آیت یاد آگئی۔

                             "آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرتیں، وہ آنکھوں کا ادراک بن جاتا ہے۔" ( الانعام:۱۰۳)

     لیکن اس کا سوال سے کیا تعلق ۔۔؟ اور پھر اسے صاحب طریقت کا جواب یاد آگیا ۔ " اللہ نے مخلوق کو اپنی صفات پر پیدا کیا ہے اور اللہ کی صفت محبت ہے۔اللہ کی صفات کو فکشن  علوم اور ذہن سے نہیں سمجھا جا سکتا۔" تفکر اللہ کی عظیم نعمت ہے۔ تفکر میں کائنات سما جاتی ہے۔ اسی تفکر کے ذریعے لامحدودیت ادراک بنتی ہے۔ کوئی اللہ سے کیسے محبت کر سکتا ہے۔۔؟ہاں! اس کی رحمت طلب کر سکتا ہے۔ کیوں کہ اللہ رحمٰن اور رحیم ہے۔ سورہ نمل آیت ۶۲ کا مفہوم ہے کہ اس کے سوا کون ہے جو بےقرار کو قرار دیتا ہے۔ کون ہے جو بندہ سے برائی دور کر کے نفس کو پاک کرتا ہے اور کون ہے جو آدمی کو بندگی کے دائرہ میں لے کر آتا ہے؟

    اللہ اور بندہ کے درمیان فاصلہ حائل نہیں۔ بے قرار دل جب ہر طرف سے ذہن ہٹا کر عاجزی کا اظہار کر کے اللہ کو یاد کرتا ہے تو پھر وہ محبت و سکون بن کر حواس پر چھا جاتا ہے۔ نظر بھی وہ بنتا ہے اور منظر بھی۔۔ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرتیں ، وہ آنکھوں کا ادراک بن جاتا ہے۔

 

وہ مرشد کریم سے محبت کے لائق نہیں تھا۔۔ ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں تھا۔۔ لیکن۔۔ اس کے لیے زندگی ان سے شروع ہوتی تھی اور ان پر ختم۔زندگی میں کشش ان کے دم سے تھی۔ اس دل آویز مسکراہٹ سے تھی جسے دیکھ کر دل کی دنیا بدل جاتی ۔ جیسے انھوں نے اپنی محبت کا چراغ اس کے اندر روشن کر دیا ہو۔ جب توجہ چراغ سے ہٹتی ہے، بے سکونی چھا جاتی اور جس لمحہ روشنی توجہ بنتی، وجود ان کی محبت کو شدت سے محسوس کرتا۔ زندگی تو اس کے اندر تھی۔۔ باہر سب فریبِ نظر تھا۔

   وہ سوچتا وہی دن ہے اور وہی رات لیکن لوگ ہر دن کو نیا دن اور ہر رات کو نئی رات کہتے ہیں اور اسے نیا بنانے کے لیے کسی دن کو منگل تو کسی کا نام بدھ رکھ دیا لیکن کسی کے پاس اس بات کا ثبوت نہیں کہ منگل منگل کیوں ہے اور بدھ بدھ کیوں۔ منگل بدھ کیوں نہیں اور بدھ منگل کیوں نہیں۔

موجد نے فرض کیا اور دنیا نے بغیر شواہد کے تقلید۔

         ہر دن خود کو دہرا رہا تھا۔فہم سے باہر تھا کہ لوگ کیسی زندگی گزارتے ہیں اور کیوں۔۔؟ خود اس کی زندگی کیسی ہے۔ روز ایک ہی معمول اور سب کچھ صرف چند دنیاوی ضرورتوں کے لیے۔ یہ ضرورتیں تو ان پرندوں کی بھی پوری ہوتی ہیں جن کے لیے وہ ہر روز مٹی کے برتن میں باجرہ اور پانی رکھتا ہے۔ کچھ بھی تو نیا اور الگ نہیں تھا۔یہ دنیا اب بے کشش ہو گئی تھی۔ ایسے میں مرشد کریم کا پرنور چہرہ تصور بنتا اور زندگی سے قریب لاتا۔ ہر شے سے محبت کرنا سکھاتا۔ حقیقی زندگی کی کھوج اور مقصدیت کی طرف متوجہ کرتا۔

ایک نشست میں صاحب ِ طریقت نے حاضرین سے فرمایا کہ " اولی الالباب" کون ہیں یہ جاننے کے لیے تعقلون، یعقلون، یتفکرون، تتفکرون، یبصرون، تبصرون ، یتذکرون، تتذکرون، فھل من مدکر، اولی الالباب کے ساتھ قرآن کریم میں وہ تمام الفاظ تلاش کیے جائیں جہاں خالق کائنات اللہ غور و فکر کا حکم دے رہے ہیں تب " اولی الالباب" کے مفہوم سے آپ واقف ہوں گے۔

                                          مرشد کریم کی بات یاد آتے ہی اس نے قرآن کریم میں آیتیں تلاش شروع کر دیں جن میں بلند او اعلیٰ ذات اللہ۔۔اولی الالباب سے مخاطب ہیں۔ آیا ت تلاش کرنے کے بعد اس نے جو سمجھا اس کا خلاصہ تحریر کیا۔

                                   قرآن کریم جگہ جگہ نوع آدم سے مخاطب ہے کہ کیا تم سوچتے نہیں کہ اللہ کتنا عظیم ہے جس نے بغیر کسی ستون کے اتنی بڑی اور متوازن چھت بنائی ۔ستاروں سے آرائش کی اور چاند و سورج سے زیبائش دی۔ زمین کو فرش بنایا اور آسمان سے اس پر پانی برسایا۔ اپنی شان کے مطابق کائنات میں اپنے حکم و اقتدار کے نظام کا اجرا فرمایا۔ ہواؤں اور بادلوں کو تابع فرمان بنایا۔ بادلوں کے مشکیزے بھیجے۔ رحمت کی خوش خبری بھیجی۔ پانی میں رزق کی مقداریں معین کیں۔ مقداریں زمین سے ٹکرائیں تو ہر سو رنگ بکھر گئے۔ اس نے چشمے بنا کر زمین میں چلائے۔ مردہ زمین کو زندہ کیا۔ مخلوقات کو حیات دی۔ ہر جنس کے جوڑے دہرے بنائے۔ مختلف رنگوں کی کھیتی نکالی اور انھیں اٹھان دی۔ پھر سرخ پیلے ہرے نیلے رنگوں کو خشک کیا اور بالآخر اسے چورا چورا کر دیا۔

                                            کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس نے زمین کو گردش کرنے ولا بنایا اور مختلف مادوں کو ملا کر پہاڑ بنایا اور میخوں کی طرح گاڑ کر زمین کی رفتار کو متوازن کیا کہ کہیں تمہیں لے کر دھنس نہ جائے۔وہ رات  کو دن سے اور دن کو رات سے ڈھانکتا ہے۔ ہر رات ہم مرتے ہیں اور ہر صبح نئی زندگی عطا ہوتی ہے۔ دن رات کے تعاقب میں اور رات دن کے تعاقب میں ہے۔جیسے بجلی کا چمکنا، روشن ہونا اور پھر اندھیرے میں ڈوبنا۔ اگر اللہ روزِ قیامت تک کے لیے دن کو رکھے تو کون ہے کہ رات لے آئے اور اگر روزِ قیامت تک کے لیے رات رکھے تو کون ہے کہ دن کی روشنی لے آئے۔دن کو ادھیڑتا ہے تو رات نکل آتی ہے اور رات کو ادھیڑتا ہے تو دن نکل آتا ہے۔ ادھیڑنے کا مطلب دن اور رات کا کسی بساط پر قائم ہونا ہے۔ وہ بنیاد کیا ہے۔۔۔؟

                                                                  کیا تم عقل نہیں رکھتے کہ اللہ زمین کے اوپر اور اندر ہر جان دار کے رزق کا اہتمام کرتا ہے ۔ گو بر اور خون کے درمیان میں سے خالص دودھ نکالتا ہے۔ نہ گوبر دودھ میں شامل ہوتا ہے اور نہ خون۔ ہر شے معین حدوں میں ہے۔پہاڑ کی گہرائیوں میں رینگنے والے حشرات ہوں، آبی مخلوقات ہو ں یا پھر ہوا میں موجود نظر نہ آنے والے وائرس اور بیکٹیریا۔۔۔ وہ ہر ایک کا میزبان ہے۔

               کیا تم غور نہیں کرتے پاک بات پر جو تمہیں نیکی کی طرف راغب کرتی ہے۔ وہ پاکیزہ درخت کی مانند ہے جس کی جڑیں زمین میں مضبوط ہوتی ہیں اور شاخ آسمان میں ، وہ ہر وقت اپنے رب کے حکم سے پھل دیتا ہے ، اس کی قربت کے درجے بڑھتے جاتے ہیں اورناپاک بات ناپاک درخت کی طرح ہے جسے زمین کے اوپر اکھاڑ دیا گیا ہو، اس کے لیے کچھ بھی اور کہیں بھی قرار نہیں ہے۔

                                            کیا تم چلتے پھرتے نہیں زمین میں کہ دل تمہارے سمجھیں اور کان سننے لگیں ان درو دیوار کو جو تمہیں اپنا حال سناتی ہیں کہ زمین کسی کی میراث نہیں۔ کل یہاں کوئی اور تھا ، آج کوئی اور۔۔۔ اور آنے والے کل میں کوئی اور ہو گا۔ کتنی بستیاں ڈھا دی گئیں ہیں، محل ویران ہیں ، عمارتیں کھنڈرات ہیں، کنویں خشک ہیں، وہ بادشاہ جنھوں نے خدائی کے دعوے کیے اور وہ لوگ جنھوں نے سمجھا کہ موت کبھی نہیں آئے گی، ان کی مٹی آج پیروں کی دھول ہے۔

                                                     دیکھو ، سنو اور عبرت پکڑو کہ جو لوگ حق سے منکر ہوتے ہیں وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن نہیں دیکھتے، وہ سن رہے ہوتے ہیں لیکن نہیں سنتے کیوں کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں اندھے ہوجایا کرتے ہیں اور وہ آنے والے دور کی گردو غبار بن جاتے ہیں۔

                                            

 

 

 

                                           ابدالِ حق قلندر بابا اولیا ؒ نے آدم کی حقیقت کا بہت خوب صورتی سے رباعی میں ذکر فرمایا ہے،

آدم                                              کا                     کوئی                                            نقش                                          نہیں                                                 ہے                                                                 بے                                                                کار

اس                                    خاک                            کی                        تخلیق                      میں                 جلوے                        ہیں                               ہزار

دستہ                                                       جو                                 ہے                                          کوزہ                                     کو                              اٹھانے                                   کے                                    لیے

یہ                                         ساعدِ                                          سیمیں                                                                    سے                                                          بناتا                                                          ہے                                      کمہار

                                                    قرآن نوع آدم کو تفکر کی طرف راغب کرتا ہے کہ دھیان کرو بہتے چھلکتے پانیوں میں۔ بکثرت میووں میں۔ لمبے لمبے سایوں میں۔ تہ بہ تہ وجود میں۔ رات کی تاریکی میں۔ دن کے اجالے میں۔ ہواؤں کی گردش میں۔ زمین و آسمان کی پیدائش میں خود تمہارے اندر ۔ یہ سب نشانیاں قرآن میں بیان کر دی گئی ہیں اور تمہارے لیے قرآن کو سمجھنا آسان کر دیا ، پھر ہے کوئی سمجھنے والا۔۔؟

                                                                                         کیا تمہارے پاس عقلِ سلیم نہیں جو تمہیں بتائے کہ اندھا اور بینا۔ پاک اور ناپاک۔ جاننے والا اور نہ جاننے والا۔ سننا اور بہرہ۔ سمجھ والا اور نا سمجھ ۔ علم والا اور بے علم ۔ ایمان دار اور بدکار برابر نہیں؟ نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں جو اٹھتے بیٹھتے غرض ہر حال میں اللہ کی یاد سے دلوں کو منور رکھتے ہیں۔ کائنات کی ساخت پر غور و فکر کرتے ہیں اور جب ذکر کی تکرار سے اندر کی آنکھ کھلتی ہے تو حقیقت کو جان لیتے ہیں اور بے اختیار پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! آپ نے کچھ بھی بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ بے شک وہی راہ پاتا ہے جو نفس کو معبود نہیں بناتا اور صرف آپ سے رجوع کرتا ہے۔

Topics


مرشد کی باتیں

خواجہ شمس الدین عظیمی