Topics

رنگوں کا جہاں

                                                                                                                                             دور۔۔۔ بہت دور افق پر سورج غروب ہو رہا تھا۔ شام ڈھلتے سورج کے بغیر ادھوری ہے۔ دن بھر جلال کے بعد جب سورج جمال بنتا ہے تو نیلگوں آسمان پر سرخ پیلے، نیلے ، سبز ، سیاہ اور کتنے رنگ بکھر جاتے ہیں۔ ایک کے اوپر ایک بادل آسمان تک پہنچنے کے لیے راستے محسوس ہوتے ہیں۔ اس نے نگاہوں ہی نگاہوں میں راستوں کو طے کرنا شروع کیا۔ سوچا دیکھتا ہوں کہ یہ راستے کہاں تک لے جاتے ہیں۔ اور پھر بادلوں پر چلتے چلتے ، ایک کے بعد ایک بادل پر قدم رکھتے راستہ بادلوں میں گم ہو گیا۔ ناچار نظریں لوٹ آئیں۔ اس نے خود سے کہا۔۔۔ پہلے زمین پر اپنے چلنے کی سمت صحیح  کر لو پھر آسمان میں راستے ڈھونڈنا!

                                                                               توجہ دانہ چگتے پرندوں پر مرکوز ہوگئی۔ لیکن کچھ سوچتے سوچتے نگاہیں غیر ارادی طور پر پھر آسمان کی طرف اٹھ گئیں۔ آسمان canvas محسوس ہوتا ہے جس پر ترتیب سے ایک ساتھ بہت سارے رنگ بکھیر دیئے گئے ہیں۔ رنگ رنگ مل کر نئے رنگ بنتے ہیں اور آخر میں سب رنگ مل کر سیاہ بن جاتے ہیں۔ سیاہ رنگ کو کھولا جائے تو دیگر سارے رنگ اس میں موجود ہیں۔ ذہن نے سوال کیا۔ سیاہ رنگ کی کیا اپنی کوئی شناخت ہے یا وہ رنگوں  کا مجموعہ ہے۔ یا پھر رنگ صرف ایک ہے  اور وہ سیاہ ہے۔۔۔؟ سیاہ رنگ کُھلتا ہے تو طرح طرح کے رنگ بنتے ہیں اور سیاہ جب سمٹتا ہے تو سارے رنگ میگنٹ کی طرح واپس آ کر اس میں مل جاتے ہیں۔ اس نے سوچا جب سارے رنگ سیاہ میں شامل ہیں تو دوسرے رنگوں کی کیا حیثیت ہے۔۔۔؟

                                                                                                  خیال آیا رات بھی تو سیاہ ہے۔ رات جب محبوب پر اپنے اسرار کھولتی ہے تو اس سیاہی  میں رنگوں کا جہاں آباد ہو جاتا ہے۔۔۔ اور جس کا کوئی محبوب نہ ہو، رات اس کے لیے اندھیر نگری ہے۔ نگاہیں تاریکی سے ٹکرا کر واپس آجاتی ہیں لیکن محبوب کے لیے رات، رات نہیں۔ روشن راہیں ہیں جن میں رنگ رنگ چشمے پھوٹتے ہیں۔ ہر رنگ نیا جہاں ہے اور ہر جہاں میں لاشمار جہاں آباد ہیں۔

نظر غروب ہوتے سورج پر پڑی۔ عجب قدرت ہے اللہ کی دن میں سورج پر نگاہ نہیں ٹھہرتی اور شام ہوتے ہی نگاہیں اس کا احاطہ کر لیتی ہیں۔ لیکن یہ کیا۔۔۔؟ سورج غروب ہورہا ہے یا سرمئی بادلوں کی تہ در تہ اس پر چڑھ رہی ہے۔۔۔؟ اسے لگا اللہ سورج کو بادلوں سے ڈھانپ رہا ہے۔ بادل جیسی لطیف شے کا آگ برسانے والے سورج کو ڈھانپنا حیران کن تھا۔ وہ روشنی کہاں گئی جو دن بھر تپش برساتی ہے۔ کیا سورج خود روشن نہیں۔۔۔۔؟ اگر سورج خود روشن نہیں ہے تو اس کی روشنی کا سورس کیا ہے۔سورج کہاں سے آتا ہے اور کہاں چلا جاتا ہے۔ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے تو مشرق کیا ہے اور مغرب میں غروب ہوتا ہے تو مغرب کیا ہے۔۔۔؟

                                                               مرشد کریم نے فرمایا تھا ایسے بھی عالمین ہیں جہاں سورج مغرب سے نکلتا ہے اور مشرق میں غروب ہوتا ہے۔

اس نے سوچا سورج کے مشرق  یا مغرب سے نکلنے میں کیا حکمت ہے۔ یہاں مشرق وہاں مغرب، وہاں مغرب یہاں مشرق۔۔۔ کیا اس تبدیلی کا دونوں عالمین میں وقت کی رفتار پر اثر پڑتا ہے۔۔۔؟ قرآن نے خود شرق اور غرب کی نفی کی ہے۔ شرق اور غرب نہیں ہے تو ہم کیا دیکھ رہے ہیں؟

        ایک کے بعد ایک سوال ذہن میں آرہا تھا۔ شیخ کے پاس جانے سے پہلے اس نے قرآن میں سورج سے متعلق آیات تلاش کیں ، غور کیا اور جو سوالات اور باتیں سمجھ میں آئیں اس کا خلاصہ نوٹ بک میں لکھا۔

 

                                                                         اللہ نے آدم کو پیدا کیا۔ معین مقداروں کا علم دیا۔ آدمی سے انسان کا مقام عطا کیا اور علم میں تصرف کرنا سکھایا۔ زمین وآسمان کو اعتدال میں رکھا اور تدبیر سے اس میں موجود ہر شے کی حدود معین کیں۔ سورج چاند کو پکڑ سکتا ہے نہ چاند سورج کو۔ رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ دن رات سے۔ سب منزلیں ، مقام اور وقت معین ہے اور سب فرماں برداری سے اپنے کام میں لگے اللہ کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں۔

        قرآن کریم میں ” فالق الاصباح“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اس نے لغت میں فالق کا مطلب دیکھا۔ فالق کا مطلب ” چیرنے والا“ ہے۔ فالق ، فلق سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں چیرنا۔چوں کہ صبح کا نور رات کی تاریکی کو چیرتا  دیتا ہے اس لیے صبح کو فلق کہا گیا ۔ اللہ وہ ہے جو رات کی تاریکی  کو چیر کر صبح کو روشن کرتا ہے اور مقررہ وقت کے بعد اس روشنی کو پھر رات کی تاریکی میں بدل دیتا ہے۔ اس نے سمجھا کہ صبح رات میں بند ہے تو پھر رات کس میں بند ہے۔۔۔؟

        سورج کی روشنی پھیلتی ہے تو سائے سمٹتے ہیں اور جب سائے پھیلتے ہیں تو سورج کی  روشنی دھیرے دھیرے سمٹتی جاتی ہے۔ خالق کائنات نے قرآن کریم میں سورج اور اس کی دھوپ چڑھنے کی قسم کھائی ہے۔ چاند کی قسم کھائی ہے جب وہ سورج کے پیچھے آتا ہے۔ دن کی قسم کھائی جب وہ سورج کو روشن کرتا اور رات کی قسم کھائی جب وہ سورج کی روشنی کو ڈھانک لیتی ہے۔

        قرآن کریم کے مطابق سورج خود روشن نہیں، دن کی روشنی اسے منور کرتی ہے۔

یہ سوال کہ دن کیا ہے اور رات کیا، ایک بار پھر ذہن میں گردش کرنے لگا۔

                                                              قرآن کریم میں ذوالقرنین کا بھی ذکر ہے کہ جب وہ پہنچا سورج کے ڈوبنے کی جگہ تو دیکھا کہ وہ ڈوبتا ہے دلدل کی ندی میں۔۔۔ اس بات کا کیا مطلب ہے؟ سورج کو چمک اور ایک مقام پر سراج بھی کہا گیا ہے۔ سورج کی روشنی کے لیے ”ضیاء“    کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ لغت کے مطابق ” ضوء“ زیادہ تیز روشنی کو کہتے ہیں۔ صاحبِ کشف کے نزدیک ” ضوء“ نور سے پھیلنے والی شعاع کو کہتے ہیں۔

                                                                                   قرآن نوع آدم سے مخاطب ہے کہ کیا تم دیکھتے نہیں سورج، چاند ، ستارے، پہاڑ، درخت، جانور اور آدم کی اولاد میں کئی نیک بخت اللہ کو سجدہ کر رہے ہیں۔ اس نے سوچا سورج، چاند ستارے، پہاڑ وغیرہ جب اللہ کو سجدہ کرتے ہیں تو کس طرح جھکتے ہوں گے۔۔۔؟

                                                                               خیال آیا سجدہ کا وقت نہیں لکھا۔ ساری مخلوق ہر وقت اللہ کو سجدہ کررہی ہے۔ تو کیا جس حالت میں ہم پہاڑ سورج اور چاند کو دیکھتے ہیں ، یہ ان کے سجدہ کی حالت ہے۔۔۔؟

                                   سجدہ کے حقیقی معنی کیا ہیں۔۔۔؟

 

 

                                                         بک شیلف میں موجود مرشد کریم کی تحریر کی گئی کتابوں میں سورج سے متعلق ابواب کا مطالعہ کیا اور چند باتیں مختصر نوٹ کی شکل میں ڈائری میں محفوظ کر لیں۔

                                                                         شیخ فرماتے ہیں کہ       ”  سورج  میں روشنی نہیں ہے، اصل میں زمین روشن ہے۔ زمین محوری اور طولانی گردش کر رہی ہے۔ زمین کی روشنی کا انعکاس سورج کے اوپر ہوتا ہے اور سورج کا یہ انعکاس دھوپ ہے۔ اللہ نے ہر شے دو رخوں پر پیدا کی ہے۔ زمین کا باطنی وجود ایسی ماورائی لہروں سے بنا ہے جو براہ راست نور سے فیڈ ہوتی ہیں۔ جب زمین کا ظاہر وجود باطن میں داخل ہوتا ہے تو زمین کے اندر موجود عناصر میں توانائی داخل ہوتی ہے جس سے زمین پر موجود مخلوق کو حیات نو عطا ہوتی ہے۔ آنکھ جب سورج کو دیکھتی ہے تو اس میں شعاعیں اور روشنیاں پھوٹتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ سورج دیکھنے کے بعد یہ تاثر قائم ہوتا ہے سورج کے اندر حرارت اور گرمی ہے جب کہ ایسا نہیں۔ جب ہم اپنے سیارہ کو دیکھتے ہیں تو سیارہ میں روشنی کو سورج کی روشنی قرار دیتے ہیں۔ جب کہ اندر کی آنکھ دیکھتی ہے ہر سیاہ بذات خود روشن ہے۔ سیارہ جب سورج کے سامنے ہوتا ہے تو سیارہ کی روشنی سورج پر پڑتی ہے۔ سورج کے اندر ظاہری آنکھ سے جو تیزی نظر آتی ہے وہ دراصل زمین یا کسی سیارہ کا عکس ہے۔“

                                                     قرآن کریم میں سورج سے متعلق آیات کی روحانی توجیہ شیخ طریقت سے سمجھنا چاہتا تھا۔

ان کی خدمت میں عرض کیا۔سرکار! سورج کیا ہے۔ زمین کی روشنی جب سورج پر پڑتی ہے تو یہ روشنی زمین سے جاتے ہوئے کیوں محسوس نہیں ہوتی۔ منعکس ہو کر کیوں محسوس ہوتی ہے۔ زمین کی روشنی ہم سے گزر کر سورج تک جاتی ہے۔ تو کیا ہمارا عکس بھی سورج پر پڑتا ہے؟

                                                        وہ مسکرائے اور فرمایا۔۔۔” ایک شیشہ لیں گول اور اس کو سورج کے سامنے کریں، سورج کی روشنی شیشہ پر پڑے گی تو reflection  ہوگا۔ سورج جہاں ہے شیشہ میں مخالف رخ پر نظر آئے گا۔ سب الوژن(illusion) ہے۔

سیارہ روشن ہے۔ مستقل گردش کر رہا ہے۔ جیسے جیسے سورج کے سامنے آئے گا اسی مناسبت سے سورج میں تپش پیدا ہوتی جائے گی اور جس مناسبت سے سیارہ اوٹ کر جائے گا وہاں رات ہوگی اور جو حصہ سورج کے سامنے ہوگا وہاں دن۔ اس کو اللہ نے فرمایا ہم رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتے ہیں۔ ادھیڑتے ہیں رات کو دن پر سے اور دن کو رات پر سے۔ نکا لتے ہیں دن میں سے رات کو اور رات میں سے دن کو۔ رات اور دن ایک عکس ہیں۔ شیشہ کی مثال سامنے رکھیں۔ یہ سوال کہ روشنی زمین سے جاتے ہوئے کیوں نہیں محسوسس ہوتی تو۔۔ اس آنکھ سے محسوس نہیں ہوتی لیکن اندر کی آنکھ دیکھتی ہے۔ “

                                                                      وہ الفاظ کاغذ پر تحریر کر رہا تھا اور ذہن مرشد کریم کے الفاظ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے سوچا روحانی لوگوں کا اتنی تپش کو قریب سے محسوس کرنا اور پھر اس سے محفوظ بھی رہنا۔۔۔؟  سوال نہیں کیا بس جو نوٹ کیا اسے کچھ لمحہ خاموشی سے دیکھا۔

                                   مرشد کریم کے سامنے وہ کھلی کتاب ہے۔

وہ شیخ کے الفاظ کو پڑھ رہا تھا اور شیخ اس کے ذہن کو۔

انہوں نے فرمایا، ” پریکٹس ہو جاتی ہے۔ آپ اس کو تندور کی مثال سمجھیں۔ روٹیاں بنانے والے تندور میں کس قدر جھک کر روٹیاں لگاتے ہیں انہیں تپش کی عادت ہو جاتی ہے۔ ساری بات پریکٹس کی ہے۔ روحانی لوگ تو سورج میں چلے جاتے ہیں چاند میں چلے جاتی ہیں۔ انہیں باقاعدہ مشاہدہ کروایا جاتا ہے۔ روحانیت میں مشاہدہ کے بغیر کچھ نہیں ہوتا اور مشاہدہ ہی سب سے بڑا تجربہ ہے۔ “

        عرض کیا ،سائنس کہتی ہے کہ سورج زمین سے نو کروڑ میل دور ہے اور اس کی روشنی زمین پر آٹھ منٹ چند سیکنڈ میں پہنچتی ہے۔ پھر ہماری حیثیت کیا ہوئی۔ہم کس دور میں رہ رہے ہیں۔۔۔ ہم آٹھ منٹ پہلے کے سورج کو دیکھ رہے ہیں یا آٹھ منٹ بعد کے۔۔۔ ہم کیا دیکھ رہے ہیں؟

        فرمایا، ” موجودہ سائنس نے ہبل بنالی۔ الوژن ہے یہ۔ تحقیق کرتے ہیں اور پھر بعد میں اس کو رد کر دیتے ہیں لیکن ظلط ثابت ہونے پر نوبل انعام واپس نہیں لیتے۔کیسے معلوم ہو کہ سورج نو کروڑ میل دور ہے۔ کوئی ناپا ہے انھوں نے۔۔۔ نو کروڑ میل کو کیسے ناپ لیا؟ بس جو ذہن میں آیا لکھ لیا۔ تصدیق ہے تو پھر سائنس میں روز بروز تبدیلیاں کیوں ہوتی ہیں۔۔۔؟ بارش برسائیں یا روک کر دکھائیں ، ہوا بند کر دیں یا پھر چلائیں۔ جہاز ان کے گم ہو جاتے ہیں۔ برمودا ٹرائنگل کی حقیقت کا کھوج کیوں نہیں لگاتے۔۔۔؟ یہ کہتے ہیں پانی آکسیجن اور ہائیڈروجن سے بنتا ہے تو پھر پانی کی قلت کیوں ہے۔ کہتے ہیں مہنگا ہے اگر آکسیجن اور ہائیڈرون سے بننے والا پانی بہت مہنگا ہے تو پھر جو لوگ بہت دولت رکھتے ہیں ان ک لیے ہی بنا لو۔ پانی آکسیجن اور ہائیڈروجن سے نہیں بنتا۔ سائنسی ترقی الوژن

(illusion)   ہے!“

                                                          دنیا کے مستقبل سے متعلق جواب دیتے ہوئے مرشد نے فرمایا تھا جو چیز یہاں اصلی ہے وہ نقلی بھی ہے۔ نقلی چیز میں تغیر ہوتا ہے اصلی میں تغیر نہیں ہوتا۔ بہت گہری بات تھی۔ اس نے اس وقت اس پر زیادہ سوچا نہیں لیکن ڈائری میں نوٹ کر لیا تھا۔ اب جب موجودہ سائنس کی ترقی کا ذکر آیا تو ذہن میں اصلی اور نقلی والی بات تازہ ہو گئی۔ کائنات کی بے ثباتی بتاتی ہے کہ کائنات کے ظاہر میں تغیر ہے لیکن باطن میں نہیں۔ مرشد نے فرمایا تھا کہ اللہ کی سنت میں تبدیلی ہے نہ تعطل ہے۔

                                    اس نے خیال سے پوچھا کہ کائنات کا باطن اللہ کی سنت ہے تو پھر اللہ کی سنت کیا ہے؟

خیال نے کہا اللہ کا ہر حکم اس کی سنت ہے۔

اس نے سوچا ظاہر باطن تک پہنچنے کے لیے اللہ کی نشانی ہے۔ محقق  (scientist)  کائنات کے ظاہر میں تفکر کرتا ہے لیکن جس source نے کائنات کو تھام رکھا ہے، آسمان کو گرنے سے روکا ہے، زمین کو مدار میں حرکت کا پابند کیا ہے، چاند ، سورج اور ستاروں کی منزلیں مقرر کی ہیں، پانی کی ایک بوند سے رنگ رنگ جان دار بنائے، اناج، میٹھے پھل اور پھول پیدا کیے جس کے رس سے شہد کی مکھی آب شفا بناتی ہے۔ پہاڑ ، بلند و بالا چوٹیاں ، چشمے دریا اور سمندر بنائے، ان دیکھی حد بندیاں سمندر کو باہر آنے سے روکتی ہیں، محقق (scientist)  خلا میں سیٹیلائٹ بھیجتا ہے لیکن جس source نے خلا کو بنایا اس پر غور نہیں کرتا۔ تغیر پر تفکر کر کے تغیر کو حتمی سمجھتا ہے اس لیے تحقیق بھی تغیر پر قائم ہے۔ پھر نیا محقق آتا ہے اور اس تحقیق کو رد کر کے اپنی تحقیق پیش کرتا ہے جس کا انجام پہلی تحقیق سے مختلف ہوتا۔ دنیا ان محققین کی معترف ہے لیکن یہ کیوں نہیں سوچتی کہ خالق کے تصور کے بغیر ہر تحقیق نظر کا  دھوکا ہے۔ بالکل Hubble دور بین کی طرح!

Topics


مرشد کی باتیں

خواجہ شمس الدین عظیمی