Topics
اپنے مرشد کے پیغام کو عام کرنے اور پریشان حال لوگوں کو
سکون سے آشنا کرنے کے لیے اس نے مرشد کو دن رات کام کرتے دیکھا ہے۔ وہ عظیم استاد
کے عظیم شاگرد ہیں۔ لوگوں سے بالمشافہ ملاقات، ہزاروں خطوط کے جوابات ، اخبارات و
جرائد میں مسائل کو حل کرنے کے لیے ان گنت تحریریں ، کتابوں کی تصنیف، لیکچرزاور
خطابات، پاکستان سمیت دنیا بھر میں درس گاہوں کا قیام، بین المذاہب ہم آہنگی کے
فروغ کے لیے بے مثال کردار، بین الاقوامی روحانی کانفرنسز ، خدمت خلق، لنگر کا
اہتمام ، مختلف طریقہ ہائے علاج، دنیاوی مصائب کا حل وغیرہ۔۔ ایسی خدمات ہیں جو
انہوں نے بے غرض ہو کر انجام دی ہیں اور دے رہے ہیں۔
ان کے در پر
اس نے ہندو کو بھی دیکھا اور سکھ ، عیسائی کو بھی، یہودی بھی آیا اور پارسی بھی۔ ہر مذہب و ملت کے لوگ آتے ہیں اور بلا
تفریق صداقت کا، عقیدت کا، محبت کا، طریقت کا فیض پاتے ہیں۔ ان سے مل کر
اس نے جانا کہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے، سب سے خوب صورت جذبہ
محبت ہے اور سب سے حسین رشتہ مرشد اور مرید کا ہے۔ مرشد حقیقی محبت سے آشنا کرتا
ہے۔ اللہ کے نام کی چنبیلی من میں لگاتا ہے۔ نفی اثبات کا پانی دیتا ہے۔ پودا جڑ
پکڑتا ہے۔ ٹہنیاں پھیلتی ہیں، پھول لگتے ہیں۔ اللہ سے محبت کی خوش بو مہکتی ہے۔
عظیم ہے وہ مرشد جو یہ پودا من میں لگاتا ہے۔
شیخ یا حی یا
قیوم کے ذکر کی تلقین فرماتے ہیں۔ یاحی یاقیوم کا مطلب ہے تمام وسائل کے ساتھ زندہ
اور قائم رکھنے والا۔ یاحی یا قیوم کا ورد شروع کیا۔ ذکر کرتے وقت ذہن میں مفہوم
کا ہونا ضروری ہے۔ مفہوم خدوخال بناتے ہیں۔ جب تک تصویر نہیں بنتی مظاہرہ نہیں
ہوتا۔
تکرار کے
دوران اگرچہ ورد زبان پر جاری رہتا لیکن ذہن اکثر ذکر سے ہٹ جاتا۔ وہ واپس ذہن کو
ذکر کی طرف متوجہ کرتا۔
ایک بار ذکر
کرتے کرتے دھیان بے دھیان ہو گیا۔
خیال نے
سرزنش کی اور کہا، تمام وسائل کے ساتھ زندہ اور قائم رکھنے والا تو اللہ ہے پھر
ذہن میں کسی اور کی تصویر کا کیا مطلب ۔۔۔
پکارتے اللہ کو ہو اور مانگتے کچھ اور۔۔۔ اللہ کو پکار کر اللہ سے اللہ کے
علاوہ کسی اور کو مانگنا غفلت نہیں۔۔؟
اس نے جواب
دیا کہ میرا مقصد تو اللہ سے واقف ہونا ہے۔
خیال نے کہا جس کا تصور ہوتا ہے ذکر بھی اسی کا
ہوتا ہے چاہے زبان سے کچھ کہو، تصویر اسی کی بنتی ہے جو دل میں ہوتا ہے اور دل میں
وہ ہوتا ہے جو ذہن میں ہوتا ہے۔ وہ لرز گیا کہ نادانی میں کیسی غلطی کر رہا تھا۔
فوراً استغفار پڑھا اور اللہ سے معافی مانگی۔
مرشد کریم
فرماتے ہیں کہ ” کسی چیز کا براہ راست تم سے تعلق نہیں، یہ اللہ کی طرف سے ہے اور
اللہ کی طرف لوٹ جائے گی۔ہر کام کیئر آف اللہ
کرو۔ بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت، ایک دوسرے کا احترام، فرائض کی ادائیگی اور
سماج کی فلاح میں کردار ادا کرو کیوں کہ اللہ چاہتا ہے مخلوق محبت سے رہے۔ محبت
اللہ کی سنت ہے اور کائنات اس کا مظاہرہ ہے۔ تصوف میں اس راز کو ان الفاظ میں بیان
کیا جاتا ہے۔۔ اللہ سے اللہ کو دیکھو!“
حدیث قدسی ہے:
”
میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے کان،آنکھ اور زبان بن جاتا
ہوں۔
پھر وہ میرے ذریعے سنتے ہیں، میرے ذریعے بولتے ہیں اور میرے
ذریعے
چیزیں پکڑتے ہیں۔“
(
صحیح بخاری)
ستاروں بھری
رات تھی، سکون تھا، فضا مخمور تھی۔سکون نے اندر غالب ہو کر باہر ہر شے کو مغلوب کر
دیا تھا۔ زبان یا حی یا قیوم کا ورد کر رہی تھی اور قلب کی کیفیت نہیں معلوم لفظوں
میں کیسے بیان ہو۔مظاہر نظروں کے سامنے اوجھل تھے اور دل ہر کیفیت سے بے کیف تھا۔ جانتا نہیں تھا اللہ
سے محبت کیسے کرتے ہیں لیکن مرشد کی شفقت میں آیا تو انہوں نے اپنی محبت سے اسے
اللہ سے محبت کرنا سکھایا۔ورنہ ماحول نے تو یہی بتایا تھا کہ اس غلطی کی سزا اللہ یہ دے گا اور فلاں غلطی پر
قبر کا عذاب سخت ہوگا۔ قبر میں اژدھا آئے گا۔زور سے ہاتھ مارے گا۔ قبر میں رہنے
والا سانپ کے مارنے سے ستر گز زمین میں دھنس جائے گا۔ ظالم اژدھا اسے قبر میں
نکالے گا اور پنجہ مارے گا اس طرح اس کی پوری زندگی بدل جائے گی۔ پانی کی جگہ لہو
اور پیپ پلائی جائے گی۔ غرض جو نقشہ بیان کیا جاتا ہے وہ انتہائی ڈراؤنا اور دہشت
ناک ہوتا ہے۔ ڈرنے ٖفاصلے بڑھا دیئے ۔ اللہ تو اس کے قریب ہے لیکن وہ اللہ کے قریب
نہ ہو سکا۔
مرشد کریم نے
بتایا ” اللہ کاا سلوب بیان یہ ہے کہ جب بھی سرزنش کی بات ہوتی ہے تو اللہ فرماتے
ہیں، ' میں رحیم ہوں، میں کریم ہوں، میں
مخلوق سے محبت کرتا ہوں، میری طرف جب کوئی رجوع کرتا ہے، میں اس کی پکار سنتا
ہوں۔' اللہ کی ذات ایسی ماں ہے، جو ستر ماؤں سے زیادہ بندہ سے محبت کرتی ہے، اللہ
کو عجزو انکساری پسند ہے۔ غلطی ہو جائے تو معافی مانگ لو، اللہ غفور الرحیم ہے۔“
ایک بار
انہوں نے ہدایت کی کہ روزانہ ان نعمتوں کو لکھو جو اللہ دیتا ہے اور جو نہیں ملا
اسے بھی نوٹ کر لو۔ جب اس نے لکھنا شروع کیا تو آنکھ، ناک، زبان سے لے کر صحیح
سلامت ہاتھ پاؤں تک نعمتیں بے شمار تھیں اور جب سوچنے لگا کہ کیا نہیں ملا تو شرمندگی
نے آگھیرا۔ دل نے ساتھ دیا اور نہ ان ہاتھوں نے جن میں قلم تھا۔ جو ہاتھ اللہ نے دیئے
ان ہاتھوں سے وہ کیسے لکھے کہ اللہ نے فلاں چیز نہیں دی۔ جو ذہن اللہ نے دیا اس
ذہن سے وہ کیسے سوچے کہ فلاں خواہش پوری نہیں ہوئی۔ اور پھر جس نے یہ نعمتیں دی
ہیں کیا خواہشوں میں اس سے واقف ہونے کا ذکر ہے۔۔۔؟
مشق نے سبق
دیا کہ جو کام محبت سے ہو سکتا ہے وہ ڈر اور خوف پیدا کر کے نہیں۔ زندگی میں شکر
اور خوشی کے پہلو بے شمار ہیں۔جو خواہش پوری نہ ہو اس میں حکمت ہے اور اس پر گریہ
وزاری احسان فراموشی ہے۔ اتنا سوچا ہی تھا کہ ذہن پر دستک ہوئی اور مرشد کی کہی
ہوئی بات یاد آئی۔
فرمایا ، ” اللہ احسان نہیں کرتا، احسان کا بدلہ ہوتا
ہے اور مخلوق اللہ کی نعمتوں کا حق ادا نہیں کر سکتی۔ اللہ عنایت کرتا ہے۔“
وہ مرشد کریم کے پاس بیٹھا تھا۔ ان کے تصور میں رہ کر یا
پھر ان کے پاس آکر وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتا ہے یہاں تک کہ دل دھڑکنے کا
بھی احساس نہیں ہوتا۔ خیال نے کہا۔۔ اس لیے کہ تمہاری دنیا سامنے موجود ہوتی ہے۔
جب اپنی دنیا سے توجہ ہٹتی ہے تو بے چینی گھیر لیتی ہے اور جیسے ہی متوجہ ہوتے ہو
قلب روشن ہو جاتا ہے۔ وجود ہو کر بھی موجود نہیں ہوتا۔
سوچا کسی وقت
ان سے عرض کرے گا کہ یہ کیسی کیفیت ہے جو دل میں محسوس کرتا ہوں مگر آنکھ نہیں
دیکھتی۔ یہ سوال کسی اور وقت کے لیے رہنے دیا ۔ اس وقت وہ کچھ اور جاننا چاہتا
تھا۔
جیسے ہی وہ
اس کی جانب متوجہ ہوئے عرض کیا، حضور! جتنے سلاسل ہیں سب میں کسی مخصوص اسم کا ورد
بتایا جاتا ہے۔ سلسلہ عظیمیہ میں یا حی یا قیوم ہے۔ مخصوص اسم کے ورد کی کیا وجہ
ہے۔
ہاتھ میں
کاپی پین دیکھ کر فرمایا۔۔ ” لکھو ! ہم جب دنیا میں بولی جانے والی مختلف زبانوں
پر غور و فکر کرتے ہیں تو اس کے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں۔
زبان
فی الواقع کیا ہے۔۔؟ ایک زبان تو وہ ہے جو آدمی کے 32 دانتوں کے درمیان ہے۔ یہ بات
بہت راز کی ہے 32 دانتوں کے پردوں میں زبان چھپی ہوئی ہے۔اس کی وجہ بظاہر عام ہے
کہ زبان ذائقہ چکھتی ہے۔ زبان میں ہڈی نہیں ہوتی۔ ہڈی نہ ہونے سے یہ مراد بھی لی
جا سکتی ہے کہ زبان کو جب چاہے مرضی کے مطابق لمبا کر دیا جائے ، گول کر دیا جائے،
دانتوں میں دبا لیا جائے۔ دل آزاری میں اور ایسے زخم دینے میں جو کبھی مضمحل نہ
ہوں زبان کو بطور ہتھیار استعمال کر لیا جائے۔دھوکا فریب میں اس کا استعمال آج کل
بہت زیادہ ہے۔ زبان کے فوائد بھی ہیں۔ آج کل ایک فائدہ بہت زیادہ منظر عام پر آیا
ہے ۔ وہ یہ کہ شہر سے میلوں دور جنگل میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پیٹ پوجا کے اتنے
سارے سامان میسر ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ شہر کا ہر پیٹ خالی ہے۔ گاڑیوں کے قافلے
جاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پہلے اونٹ چلتے تھے اب ان کی جگہ۔۔۔؟
زبان تکذیب ،
جھوٹ اور فریب کا بہترین لاؤڈ اسپیکر ہے۔ آواز جتنی چاہے اونچی کر لو اور اگر کسی
کو آواز سنائی دینا مقصود نہ ہو تو جتنی چاہے آہستہ کر لو۔
زبان ایمان کو بھی قبول کرتی ہے اور شیطان کی دوستی میں بھی کردار پورا کرتی ہے۔
دنیا کی آبادی نہ جانے کب سے ہے اور ماہ و سال معلوم کرنے کا کوئی یقینی ذریعہ
نہیں۔ دو ہزار سال گزرنے کے بعد زبان گُنگ ہوجاتی ہے اور تاریخ کا حوالہ دینے میں
قبل مسیح کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
دنیاؤں میں
جن کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے ہر ایک میں زبان بولی جاتی ہے اور دنیاؤں میں ہر
زمین ایک خطہ ہے۔ہر خطہ میں مفہوم واضح کرنے کے لیے زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
لیکن ( کسی کو بتایئے گا نہیں) عجیب بات یہ ہے جب زبان سے پلاؤ کا لفظ نکلتا ہے تو آواز ہمیں نظر نہیں آتی۔ ہم
سنتے ہیں اور جیسے ہی سنتے ہیں اندر کہیں کوئی اسکرین ہے اس پر اس شے کا عکس نظر
آتا ہے۔ جب اس عکس کی طرف ذہن متوجہ ہوتا ہے تو پلاؤ کے اندر جو کچھ ہے یا پلاؤ جن
اجزا سے تیار ہوتا ہے ذہن کی اسکرین پر اس کا نقشہ اسی طرح بن جاتا ہے۔ حلق سے جو آواز
نکلتی ہے پتہ نہیں وہ آواز کیا ہے لیکن دماغ اس کو فوراً پلاؤ کے معنی پہنا دیتا
ہے۔“
اتنا فرما کر
مرشد کریم تھوڑی دیر کے لیے رکے اور فرمایا۔۔۔ ” سوچو اور تجربہ کرو لفظ پلاؤ جب
ہم بولتے ہیں پ ل ا ؤ کے حروف سامنے نہیں ہوتے مگر بہترین اصلی گھی میں تیار شدہ
پلاؤ کا نقشہ ابھر آتا ہے ۔ پہلے پلاؤ کے ساتھ اصلی گھی کی خوش بو بھی عضلات کو
متاثر کر دیتی تھی اب یہ زمانہ ہے کہ نقلی گھی اصلی کے دام میں ملتا ہے۔ شاید آپ
اس گتھی کو سلجھا دیں۔“
صاحب ِ طریقت
کی باتوں میں بہت سے معانی پنہاں تھے اور وہ ذوق و شوق سے سن رہا تھا کہ آخر بات
جاتی کہاں تک ہے۔ اچانک اندر گونجار پیدا ہوئی جس کا مفہوم یہ تھا کہ ان باتوں کا
میرے سوال سے کیا تعلق ہے جو میں نے مخصوص اسم کے ورد سے متعلق کیا۔
خیال آتے ہی
اندر کسی نے سرزنش کی، بہت ہوشیار ہو۔۔۔؟
اس نے کہا ۔۔۔ نہیں۔
پھر اپنا ذہن
کیوں استعمال کرتے ہو۔۔۔؟
سمجھ نہیں آرہا جواب کا سوال سے تعلق کیسے جوڑوں۔
کیا جواب ختم ہو گیا۔۔؟
نہیں۔
آواز آئی ، بس یہی کمی ہے۔
میں سمجھا نہیں۔۔۔؟
آواز بولی۔۔۔
مرشد کے سامنے ذہن کو استعمال کرنا! مرشد کا جواب محض جواب نہیں سفر ہے تربیت ہے
جو ابتدا سے شروع ہوئی جیسے کائنات کی ابتدا دو لفظوں سے ہوئی اور ابھی تک ک اور ن
کی گونج جاری ہے۔ لفظ محض لفظ نہیں، لفظوں میں کائنات ہے۔ مرشد اپنے جواب میں
راستہ کے مناظر دکھا کر تزکیۂ نفس کرواتے ہوئے، غلطیوں کی نشان دہی کر کے فرماں
برداری کا بیج بو کر منزل تک پہنچا دیں گے لیکن شرط یہ ہے کہ سفر ادب کے دائرہ میں
رہ کر طے ہو۔ جس راستہ ( جواب) سے لے جارہے ہیں، بلا چون و چرا گزرتے جاؤ۔ رک گئے
اور ذہن کو استعمال کیا تو راستہ بے راستہ ہو جائے گا اور منزل کا نشان بھی خاک
میں دب جائے گا۔
مرشد کریم اس
بات کو سمجھ گئے اور انہوں نے فرمایا کہ ”
اسکول میں ٹیچر طالب علم کو جو بھی بتاتا ہے اگر طالب علم بھی سوال کرنا
شروع کر دے تو کیا طالب علم پوری زندگی پہلی جماعت میں پاس ہو سکتا ہے۔۔۔؟ شاگرد
اگر کہے کہ میں الف کو ب اور ب کو الف کہوں گا کیا کوئی دنیا میں ایسا طریقہ یا
دلیل ہے کہ شاگرد کو یہ باور کرادیا جائے کہ الف، الف ہوتا ہے۔ سیدھا خط کھینچ دو
الف ہے، لکیر دائیں سے بائیں بنا دو ، ب ہے اسی طرح بے کو پھر سیدھا کر دو تو الف
ہے؟“
یہ سن کر
اندر سے کسی نے سرگوشی کی کہ الف اس لیے الف ہے کہ استاد نے بتایا الف ہے۔ طالب
علم الف اور، بے دونوں سے واقف نہیں۔ جب واقف ہی نہیں پھر چون وچرا کے کیا معنی۔۔۔؟
مرشد کریم نے
پوچھا۔ ،” سمجھے۔۔۔؟“
ہاتھ جوڑ کر عرض کیا حضور کچھ نہیں سمجھا۔
فرمایا، ” کسی بلند بالا عمارت کی پانچویں منزل میں ایک کمرہ ہے۔ اس کمرے میں ایک نایاب موتی
ہے۔ اگر تم سے لانے کے لیے کہا جائے تو کب لاؤ گے؟ اوپر جانے کے لیے سیڑھی در
سیڑھی راستہ طے کر کے پانچویں منزل پر پہنچنا ہے۔ بس۔۔۔ یہ ایسی بات ہے کہ اب تم
سمجھ جاؤ گے۔“
بہت شرمندہ ہوا۔ معافی مانگ کر ذہن کو محبوب کے تابع کر
دیا۔ بھاری وجود لطیف ہوگیا۔
اب وہ نہیں تھا بس مرشد کی آواز تھی اور کمرے میں خاموشی۔
خاموشی میں بھی ہر طرف مرشد کا وجود تھا۔
وہ فرما رہے تھے ۔۔ ” لفظ جب ہمارے کان میں مختلف پردوں سے
ٹکرا کر کان کے اندرایک سفید چمک دار موتی سے ٹکراتے ہیں۔ تو ان لہروں کا مفہوم
دماغ میں پلاؤ آتا ہے۔خالی بات پلاؤ کی نہیں پوری زندگی کا عمل یہی ہے۔ میں نے کہا
پہاڑ۔۔۔پہاڑہے۔ پہاڑ کا آس پاس کہیں وجود نہیں
ہے۔ لفظ پلاؤ یا پہاڑ دراصل لہروں کی زبان ہے جس کو شارٹ فارم بھی کہہ سکتے
ہیں۔ یہ لہریں ہمیں نظر نہیں آتیں۔ جب کہ مرے ہوئے آدمی کے حلق سے کوئی آواز نہیں
نکلتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مرنا اور جینا لہروں کے اوپر قائم ہے۔ غصہ اور محبت
بھی لہروں کے اوپر قائم ہے۔بات یہ ہے کہ لہروں کے لیے سورس کا ہونا ضروری ہے۔ وہ
سورس کیا ہے۔۔۔؟یہ ایم اے کلاس کا سوال ہے آپ کچھ سمجھے؟“
سوال پوچھ کر
انھوں نے گفتگو جاری رکھی۔ ” زندگی کیا ہے۔ زندگی کی اگر مختصر تشریح کی جائےکہ یہ
ہے کیا اور کس چڑیا کا نام ہے۔ کسی شاعر نے کہا،
زندگی
کا ساز بھی کیا ساز ہے |
بج رہا ہے اور بے آواز ہے |
دنیاؤں کا چلن تعارف کی پٹری پر قائم ہے۔ تعارف کے لیے لفظ سہارا بنتے ہیں۔ لفظ سفر نہ کریں تو بولنے اور سننے والا دونوں گونگے بہرے ہیں۔زندگی اصل میں دنیاوی زبان میں برقی لہر ہے۔ ہم روز ٹی وی دیکھتے ہیں، سنتے ہیں ہنستے بھی ہیں کوئی منظر دیکھ کر ڈر بھی جاتے ہیں، آنکھیں پانی بن جاتی ہیں۔ کردار کا عمل نظر آتا ہے لیکن جن لفظوں سے کردار تشکیل پایا ہے وہ پتہ نہیں کیا ہے، نظر نہیں آتا لیکن اس کاوجود ہے۔ کوئی آدمی سمجھنا چاہے نہ سمجھنا چاہے۔ آواز کے وجود میں خوشی بھی ہے، غم بھی ہے، نفرت بھی ہے، محبت بھی ہے،حقارت بھی ہے اور عزت بھی۔ بات الجھ گئی۔ کہنا کچھ چاہتے تھے وہ کچھ کہہ دیا گیا جس کو لوگ سننا نہیں چاہتے۔ اس لیے اس بات کو سننے اور سمجھنے میں فائدہ تو ہے نہیں۔ سونا چاندی کچھ ملے تو آدمی پھر شوق سے سمجھنے کی کوشش کرے گا۔“