Topics
آدمی خیال میں خیال بے خیال ہوتا ہے تو باہر کی دنیا غائب اور اندر میں نقش
و نگار واضح ہوتے ہیں۔ نقش و نگار گہرے ہو کر مظہر بن جاتے ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے
کہ آدمی باہر دیکھ رہا ہے جب کہ قانون ہے کہ ہر شخص اندر دیکھتا ہے۔
آہٹ محسوس
ہوئی اور وہ چونک گیا۔ اس لئے نہیں چونکا کہ کون آیا ہے کہ اس لئے کہ بظاہر آہٹ باہر
سے آئی لیکن اس نے اندر میں محسوس کی جیسے کسی نے باہر نہیں، اندر Knock کیا ہو۔ آواز کہاں سے آئی۔۔ اور باہر
دیکھنا کیا ہے، اس پر غور و فکر جاری ہے۔
آہٹ سے ذہن متوجہ ہوا اور بہت
ساری چیزیں ایک ساتھ نگاہ بنیں لیکن نگاہ میں گہرائی اس وقت پیدا ہوئی جب ذہن نے
ساری چیزوں کو ایک ساتھ دیکھنے کے بجائے ایک چیز میں بہت ساری چیزوں کو دیکھا۔ بعض
اوقات اسے ایک چیز میں بہت ساری چیزیں نظر
آتی ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہت ساری چیزوں کے باوجود کچھ نظر نہیں آتا۔
محسوس کیا کہ بہت ساری چیزوں کو ایک ایک کر کے دیکھنے کے بجائے ایک چیز میں ہر چیز
کو دیکھنا آسان ہے۔
مضمون نگار مضمون لکھتا ہے ۔ مضمون لکھتے وقت ذہن میں خیالات کی رو بہتی ہے
جس کا تعلق کائنات میں قریب اور دور سے ہوتا ہے۔ مضمون نگار بات زمین سے شروع کر
کے کہکشانی نظام پر ختم کرتا ہے کیوں کہ وہ لاشعوری طور پر جانتا ہے کہ زمین محض
یہ زمین نہیں ہے جس پر ہم چل پھر رہے ہیں، کہکشانی نظام کی بنیاد بھی زمین ہے۔
علمائے باطن زمین کو بساط فرماتے
ہیں، ایسی بساط جس پر روشنیاں پھیل کر قسم قسم کے نقش و نگار بناتی ہیں اور ہر
نقش دوسرے نقش سے منفرد ہے۔ زمین کا مطلب
بنیاد ہے جس پر کوئی شے قائم ہو۔
اس تعریف کی روشنی میں کائنات میں بشمول
انسان ہر مخلوق ایک رخ میں زمین اور دوسرے رخ میں کوئی نہ کوئی مخلوق ہے۔
بات ہو رہی تھی ایک چیز میں بہت ساری چیزوں کو دیکھنا۔۔ یعنی ذرّہ میں
متحرک کائنات پر غور کرنا۔ کائنات میں بے شمار ذرّات ہیں اور ہر ذرّہ میں کائنات
ہے۔ کثرت میں وحدت کو تلاش کرنے سے ہر شے میں وحدت نظر آتی ہے۔
مرشد کریم نے غور و فکر کا حکم دے کر فہم کی جس دنیا سے روشناس کرایا ہے وہ
بحر بے کنار ہے۔ہر لفظ ایک کتاب ہے اور کتاب میں ہزاروں لاکھوں الفاظ ہیں۔ ایک شے
پر غور کرنے سے اتنی ساری باتیں سامنے آتی ہیں کہ جب وہ لکھنے بیٹھتا ہے تو بات
مشکل ہو جاتی ہے مگر یہ بات ضرور ہے کہ غور و فکر ایسا سمندر ہے کہ ایک بار غوطہ
لگانے والا کبھی نہیں چاہے گا کہ وہ باہر آئے۔
بات
گہری ہے اور آہستہ آہستہ کھل رہی ہے اس طرح کہ ہر بار نئی محسوس ہوتی ہے۔ درمیانی
وقفہ ہر زاویہ کو نیا دکھاتا ہے ورنہ یہاں کچھ بھی نیا نہیں، ایک ہی بات کی تکرار
ہے۔ جب تک مشاہدہ نہیں ہوتا، آدمی ہر بات کو نئی بات۔۔ ہر دن کو نیا دن سمجھتا ہے۔
اللہ فرماتے ہیں کہ ہم رات کو دن میں
داخل کرتے ہیں اور دن کو رات میں داخل کرتے ہیں۔ رات اور دن مسلسل ایک دوسرے میں
داخل ہو رہے ہیں اور ایک دوسرے میں سے باہر آرہے ہیں۔ چوں کہ درمیان میں دن آجاتا
ہے اس لئے ہر رات نئی محسوس ہوتی ہے اور دن کے بعد رات آجاتی ہے تو آنے والا دن
نیا محسوس ہوتا ہے۔ نیا دن اس لئے محسوس ہوتا ہے کہ بیچ میں وقفہ ” رات“ ہے۔ رات
اس لئے نئی محسوس ہوتی ہے کہ بیچ میں وقفہ ” دن“ ہے۔
ہر شے دوسری شے سے اس لئے الگ محسوس ہوتی ہے کہ درمیان میں خلا یا اسپیس
ہے۔ آپ کے ہاتھ میں پنسل ہے۔ پنسل کا ہاتھ میں نظر آنا بتاتا ہے کہ ہاتھ اور پنسل
میں اسپیس ( خلا) ہے۔ اسپیس نہیں ہوگی تو ہاتھ پنسل میں اور پنسل ہاتھ میں داخل ہو
جائے گی۔
خلا اور قربت کو
سمندر کی مثال سے سمجھنا آسان ہے۔
سمندر میں بظاہر خالی جگہ نظر نہیں آتی۔ پانی میں ہاتھ ڈالیے ، ہاتھ پانی
میں موجود اسپیس میں چلا جاتا ہے، پانی میں
داخل نہیں ہوتا۔ داخل ہونے کا مطلب ہے کہ پانی اور ہاتھ ایک ہو گئے۔
ہاتھ کا سمندر کے پانی میں جانا بتاتا ہے کہ پانی میں جگہ ہے۔ جس پانی کو
ہم بغیر اسپیس کے سمجھ رہے تھے وہ اسپیس ہے۔ اسپیس خالی جگہ نہیں بلکہ ایسا وجود
ہے جس میں جذب کرنے اور جذب ہونے کی صلاحیت ہے۔
ایک طرف پانی میں قربت اور دوسری طرف دوری ہے۔ جب ہاتھ پانی میں جاتا ہے تو
پانی راستہ بناتا ہے۔ یعنی سمندر خلا کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور کائنات میں خلا نہیں ہے۔ اللہ کا نور کائنات پر محیط ہے۔
ذرّہ میں نور ہے اور ذرّہ کی بنیاد بھی نور ہے۔
سمندر میں بظاہر پانی ایک دوسرے
میں پیوست ہے لیکن ہم سمندر کے جس حصہ میں داخل ہوں، راستہ بن جاتا ہے ۔ پھر پانی
کہاں ہے۔۔؟
قسم قسم کی مخلوقات کا سمندر میں موجود ہونا بتاتا ہے کہ پانی اسپیس ہے۔
سمندر کی تہوں میں بلند و بالا پہاڑ اور پہاڑوں میں بڑے بڑے غار ہیں، باغات ہیں،
معدنیات کا ذخیرہ ہے، آتش فشاں ہیں۔ جیسی دنیا خشکی پر نظر آتی ہے سمندر میں بھی
ویسی ہی دنیا ہے۔
پہاڑوں
میں پانی کے چشمے ہیں۔ پانی بہہ کر دریا میں داخل ہوتا ہے اور دریا کو سمندر قبول
کر لیتا ہے۔ چشمہ کا پانی پہاڑ میں نکلتا ہے۔ پہاڑ کی بنیاد میں پانی، زمین کے
اندر سے ہوتا ہوا سمندر کے پانی سے ملتا ہے۔ چشمہ کی بنیاد سمندر اور سمندر کی
بنیاد پانی کا چشمہ ہے۔ دوسر ے الفاظ میں پانی دائرہ میں بہہ رہا ہے۔ نہیں معلوم
کہ شروع کہاں سے ہوتا ہے اور ختم ہو بھی
رہا ہے یا نہیں۔
پانی بخارات کی شکل میں صعود کرتا ہے ، بادل بنتے ہیں اور بخارات پانی بن
کر واپس زمین پر برستے ہیں۔ پانی میں کہیں بھی دوری نہیں ہے۔ پانی کے سانچے تبدیل
ہو رہے ہیں۔ ہم سانچوں کی تبدیلی کو دیکھتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھ رہے کہ پانی ایک
ہے۔
چشمے ، نہریں ، دریا سمندر
اور بادل وغیرہ سب سانچے ہیں۔ قانون یہ
بنا کہ دریا اور سمندر دوری ہے۔ ان میں پانی قربت ہے۔ اس نے سوچا چشمہ ، دریا اور
سمندر پر الگ الگ غور کرنے کے بجائے اس شے پر غور کیا جائے جو سب میں مشترک ہے،
دریا سمندر خود بخود زیر بحث آجائیں گے اور پانی سے واقف ہونے والا پانی کے ہر
مقام کا تعارف حاصل کر لے گا۔
وہ طلوع و غروب پر غور کر رہا تھا۔ ہر شے کے گھنٹے بڑھنے میں طلوع و غروب
کا قانون نظر آیا۔
خلا ( اسپیس )
اور قربت بھی طلوع و غروب ہے۔ طلوع اور غروب میں ٹائم اور اسپیس زیر ِ بحث آتے
ہیں۔ ہر شے میں زمان و مکان کار فرما ہے۔
خلا۔۔۔ طلوع ہونا اور قربت ۔۔۔ غروب ہے۔ غروب کا مطلب زوال نہیں ہے جو ہم
سمجھتے ہیں۔ غروب بقا ہے۔ یعنی فاصلوں کا کم ہونا قربت ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد
ہے:
” بے شک رات کو اٹھنے میں دل اور زبان
کا خوب میل ہوتا ہے،
بات خوب ٹھیک نکلتی ہے۔“ (المزمل : ۶)
یہاں زمان و
مکان کی نفی اور رفتار کا قانون بیان ہوا ہے۔ رات کے اس خاص وقت سے واقف ہونے کے
لئے ضروری ہے کہ خود کو اس ہستی کے سپرد کیا جائے جو زمان و مکان کے قانون سے واقف
ہے اور جس کے لئے کائنات مسخر ہو گئی ہے۔ ارشاد باری ہے،
” اے ایمان والو ! اللہ
کے لئے تقویٰ اختیار کرو اور اس تک
پہنچنے کے لئے وسیلہ تلاش
کرو۔“ ( المائدۃ : ۳۵ )
وسیلہ
مرشد ہے۔۔ مرشد استاد ہے۔ علم کے لئے استاد شاگرد کے رشتہ میں استاد کا علم وسیلہ
بنتا ہے۔ اس بات پر غور کیجئے ، انشاء اللہ فہم کے پٹ کھلیں گے۔
عجیب بات ہے جب کہ عجیب نہیں ہے کہ ذہن میں قوانین سے واقفیت کا خیال آنے
پر دل بے چین ہو جاتا ہے۔ دل کہتا ہے کہ علم کی خواہش نہیں ہے، وہ صرف فرماں بردار
بننا چاہتا ہے، اس نے بیعت ( شاگردی) کی ہے۔۔ بیعت وفا ہو جائے۔
اندر کی آواز سننے کی اتنی عادت ہوگئی ہے کہ خود کو آواز کے تابع کر دیا
ہے، پہلے اپنی مرضی کرتا تھا اس لئے ذہن منتشر تھا۔ آواز پر عمل کرنے سے سارے کام
ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات بغاوت ابھرتی ہے، غصہ آتا ہے لیکن ایک روز مرشد نے فرمایا،
” غلطی فوراً تسلیم کیا کرو۔“
لہٰذا خود سے کہنا شروع کیا ہے
کہ یہ نہیں سوچنا کہ کوئی بات کیوں کہی جا رہی ہے اور وہ حکم کی تعمیل کیسے کرے گا۔ بس کام کرنا ہے۔ کیسے ہوگا، یہ
سوچنا اس کا کام نہیں ہے۔
ذہن آواز کی طرف متوجہ
نہ ہونے سے شیطانیت غالب آجاتی ہے۔
خیال نے کہا ، تم شیطان کو برا بھلا کہتے ہو لیکن شیطان کون ہے، اس پر غور
نہیں کرتے ۔ شیطان کسی کے سر پر بندوق نہیں رکھتا۔ جھوٹ بولنے والا جھوٹا، چغل
خوری کرنے والا چغل خور اور حسد کرنے والا حاسد ہے اسی طرح شیطانی کام کرنے والا
شیطان ہے۔ یہ سن کر اس نے سوچا کہ خیال کی ایک بات بہت اچھی ہے کہ خیال صرف وہی
شخص سنتا ہے جس کو خیال آتا ہے۔
خیال بے رنگ ہوتا ہے۔ بندہ بے رنگ خیال میں رنگ بھرتا ہے۔ ایک رنگ اللہ کا
ہے اور دوسرا رنگ اللہ سے بغاوت کا ہے۔
” ہم نے رنگ لیا اللہ کا اور کس کا رنگ
بہتر ہے اللہ کے رنگ
سے اور ہم اسی کی
عبادت کرنے والے ہیں۔“ (
البقرۃ : ۱۳۸ )
وہ طلوع و غروب پر غور کر رہا تھا تو لاشعور نے راہ نمائی کی کہ طلوع اور
اطلاع کے الفاظ ملتے جلتے ہیں۔ اطلاع طلوع۔۔ طلوع ہونا اطلاع ہے۔ اطلاع کا تعلق
لاشعور سے ہے یعنی لاشعور اپنے حال کی شعور کو خبر دیتا ہے۔
اطلاع ملنا، راز کا کھلنا ہے۔ معنی پہنانے سے اطلاع رد ہو جاتی ہے۔راز اس
وقت کھلتا ہے جب بندہ معنی کے بجائے من و عن اطلاع قبول کرے۔ تقویٰ اس کا قانون
ہے۔
” اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تم پر
غیب منکشف کر دے۔ وہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے لہذا
اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو۔ اگر ایمان اور تقویٰ کی روش پر چلو
تو تم کو بڑا اجر ملے گا۔“ ( ال عمٰران : ۱۷۹ )
لکھتے وقت ذہن پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ ایسے میں وضاحت کے لئے الفاظ نہیں ملتے
اور لکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہر بات لکھ نہیں سکتا اور جو کہنا چاہتا ہے وہ لکھنا
نہیں آتا۔ اس کیفیت نے اسے باور کرایا کہ وہ بے اختیار (Dependent) ہے۔
آنکھیں بند کیں اور اندر جھانکا ۔ سوچا دیکھتا ہوں ، نظر کیا آتا ہے۔ گھپ
اندھیرا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اندھیرے میں لکیریں نظر آنے لگیں اور خدوخال بنے۔ کچھ
دیر یہ منظر رہا۔ سونے کی تیاری کی اور لائٹ بند کر کے لیٹ گیا۔ ہر شے اندھیرے میں
ڈوب گئی۔ اندھیرے سے مانوس ہوا اور
اندھیرے کی تاریکی چھٹنے لگی۔۔ کمرے میں اشیا ءنظر آئیں یہاں تک کہ منظر واضح ہو
گیا۔
اس نے یہ سب غور سے دیکھا۔ اندر میں اسپارک ہوا۔
خود سے
پوچھا ، آنکھیں بند کرنے اور لائٹ بند کرنے میں کیا فرق ہے؟
خیال نے کہا ،
کوئی فرق نہیں۔ آنکھیں بند کریں تو اندھیرا اندھیرا نظر آتا ہے لیکن ہم مانوس ہونے
کی کوشش نہیں کرتے۔ اندھیرے میں موجود روشنی تلاش نہیں کرتے اس لئے اندر اندھیرا
رہتا ہے۔ مراقبہ کا ثمر یہ ہے کہ نظر مرکوز ہو جائے تو اندھیرا روشنی میں تبدیل ہو
جاتا ہے۔
یہ بات مرشد کریم سے بیان کی تو انہوں نے فرمایا،” شب و روز ، ماہ و سال سب
یقین کے اوپر قائم ہیں۔ شعور کے دن رات روشنی اور ندھیرا ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ
اندھیرا بھی روشنی ہے بظاہر شعور کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہم اندھیرے میں بھی
دیکھتے ہیں۔“